اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔20-09-2010

ڈاکیہ آیا ۔۔۔ڈاک لایا
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر
ٹھک ٹھک ، کون ہے؟اماں جی!میں ہوں کریم بخش ڈاکیا۔ اچھا پُتر،ذرا صبر کر، آتی ہوںدروازہ کھولنے۔ پھر جیسے ہی دروازہ کھولتا ہے ۔کریم بخش اماں کو سلام کرتے ہوئے بڑے باادب طریقے سے کہتا ہے، اماںدُبئی سے آپ کے بیٹے کی چھٹی آئی ہے۔ شالاخیر ہوئے سدا پُتر۔ذرا اِسے کھول کر پڑھ تو دے۔ اچھا اماں جی! اِس کے بعد وہ ساری چھٹی اماں کو سُناتا ہے۔ پردیسی بیٹے کے وچھوڑے کی ماری غریب بوڑھی ماں جب اپنے بیٹے کی خیریت کی خبر سنتی ہے تو اُس کی آنکھوںمیں خوشی کے موتے بھر آتے ہیں۔ کچھ دیر خیالات کی نگری میں بھٹکنے کے بعد جب وہ اپنے غریب گھر کے آنگن میں حواس کی دہلیز پر واپس آتی ہے تو ڈاکیا کا خط لانے اور پڑھنے کے احسان کا بدلہ ممنون نگاہوں سے چکاتی ہے۔ موجودہ زمانے کی برقیاتی انقلاب سے قبل خاکی وردی اور لال سائیکل والا ڈاکیا معاشرے میں پیغام رسانی کے حوالے سے ایک اہم فرد تھا۔ دیہاتوں میں لوگ ڈاکیوں پر اتنا اعتماد کرتے تھے کہ اُن کے سائیکل پر لگی گھنٹی کی آواز سُن کر وہ دروازہ کھول دیا کرتے تھے ۔اُن سے اپنے ذاتی معلومات پرمبنی خطوط لکھواتے اور پڑھواتے تھے۔ اُن کی آواز پہچان کر عصمت دار باپردہ خواتین بھی اُن کے سامنے آجاتی تھیں۔ڈاکیا کو کم وبیش ہر گھر میں اہل خانہ کے افراد کی مانند تصور کیا جاتا تھا۔ خاندان کی تقاریب میں اُسے لازمی طور پر مدعو کیا جاتاتھا۔ 70ءکے عشرے میں جب لوگوں نے عرب ممالک میں روزگار کے لیے وہاں بسیرا کیا تو یہاں پاکستان کے دیہاتوں میں لوگوںمیں آپسی میل ملاپ کا واحد ذریعہ اُن دنوں خطوط تھے۔ خطوط اور منی آرڈر کی ترسیل کی تمام تر ذمہ داری ڈاکیا کے سر پر تھی۔ بیرون ممالک سے ارسال کردہ رقم ڈاکیا کی معرفت لوگوں کے گھروں تک پہنچتی تھی۔ اِسی لیے شاید لوگ ڈاکیا کے آنے کی دعائیں بھی شدت سے مانگا کرتے تھے۔ ڈاکیا کی حیثیت گھر کے بھیدی کی مانند ہوتی تھی۔ شریف النفس قسم کے ڈاکیا اُس دور میں بہت سے لوگوں کے خاندانی جھگڑوں میں ثالث کا کردار ادا کرتے تھے۔ شادیاں کرواتے تھے ، کرائے کے مکان کی تلاش میں معاونت اور جائیداد کی خریدو فروخت میں مدد کرتے تھے۔ اُن کے دل لوگوں کے رازوں سے بھر ے ہوئے ہوتے تھے لیکن اپنی اعلیٰ ظرفی اور فرائض کی ایمانداری کی بنا پر کبھی بھی اُن کی طبیعت میں ہولا پن نہ آتا تھا۔جیسے جیسے مادہ پرستی میں ترقی کی منازل طے کی جار ہی ہیں لوگوں کی اخلاقیات میں بھی اُسی قدر پستی آتی جارہی ہے۔ اِس لیے اب نہ وہ پہلے والے ڈاکیا رہے ہیں اور نہ ہی وہ پہلے والے سادہ طبع سچے اور کھرے لوگ رہ رہے ہیں۔ مفادات اور لالچی اغراض و مقاصد کے دائرے میں بسر کی جانے والی زیست کے مالکان دو جمع دو چار کے چکر میں نہ صرف خود کو دنیا کے اِس بھرے میلے میںکھو چکے ہیں بلکہ رشتوں کی مٹھاس اور تقدس کو بھی سراب بنا چکے ہیں۔ اگرچہ موجودہ دور میں فیکس ، ای میل، ٹیلی فون، سیل فون کے ایس ایم ایس، ایم ایم ایس، اور رقم کی ترسیل کے لیے اعلیٰ بنکاری نظام کی بدولت انسان کو جدید قسم کی سہولیات باہم پہنچ چکی ہیں تاہم آج بھی محکمہ پوسٹ کا پرانا کام ترمیم شدہ حالات و نئے انداز میں جار ی ہے۔ موجودہ دور میں محکمہ ڈاک کس طرح کام کر رہاہے یہ جاننے کے لیے جب جی پی او ڈیرہ غازی خان کے پوسٹ مینوں سے احوال کی آگاہی چاہی تو ایک پوسٹ مین نے بتایا کہ وہ گذشتہ دس برس سے پوسٹ آفس میں ملازمت کررہاہے اور اُسکی تنخواہ ساڑھے آٹھ ہزار روپے ہے۔ وہ آٹھ بجے صبح دفتر حاضری پر پہنچ جاتا ہے جہاں اُن کی اسسٹنٹ پوسٹ ماسٹر حاضری لیتا ہے۔ بعد از حاضری وہ دفتر کے ہال میں رکھی ایک مخصوص قسم کی تقریباً چودہ فٹ لمبی میز جس پر ہر پوسٹ مین کی سیٹ کے آگے لکٹری کا ایک چو کھٹا سا بنا ہوا ہوتا ہے۔ اُس پر بیٹھ کر تمام پوسٹ مین ڈسٹرکٹ میل آفس ڈیرہ غازی خان کے ارسال کردہ ڈاک کے بڑے بڑے سیل شدہ پلاسٹ کے بیگوں کو انچارج کی موجودگی میں کھول کر سارٹ کرتے ہیں ہربیگ ڈاک کی نوعیت کے ساتھ خود بھی سارٹ شدہ ہوتاہے یعنی رجسٹرڈ ڈاک ایک بیگ میں اور عام خطوط دوسرے تھیلے میں بند ہوتی ہے۔اِسی طرح پارسل ڈاک، یو ایم ایس ڈاک اور دیگر قسم کی ڈاک الگ الگ بیگوں میںبند ہوتی ہے۔رجسٹری خطوط کی ذمہ داری پر تعینات رجسٹری کلرک تمام رجسٹرڈ خطوط کو پوسٹ مینوں کی بیٹ وائز سارٹنگ کرکے متعلقہ پوسٹ مینوں کو دے دیتا ہے۔ اسی طرح پارسل کلرک اور منی آرڈر کلرک بھی پارسل اور منی آرڈر کو متعلقہ پوسٹ مینوں کو صبح سویرے وصول کرا دیتے ہیں۔تمام خطوط کی سارٹنگ زیادہ تر پوسٹ مین خود کرتے ہیں۔پھر ہرپوسٹ مین اپنی تمام ڈاک، عام خطوط، رجسٹرڈ خط، سرکاری خط، اخبارات، رسائل ، بُک پوسٹ، پارسل، منی آرڈراور بے رنگ خطوط کو اپنی بیٹ (پوسٹ کا مخصوص علاقہ ڈیوٹی) کے حساب سے اپنی گزرگاہ کے حساب سے سارٹ کرتاہے۔بے رنگ خطوط سے مراد وہ خطوط ہیں جن پر خط بھیجنے والا ڈاک کی ٹکٹ لگانے کی زحمت نہیں کرتا اُس کو بِنا ٹکٹ لگائے پوسٹ کردیتاہے۔ ایسے بے رنگ خطوط کو پوسٹ مین اِس پر تحریر کردہ ایڈریس پر مطلوبہ شخص کو پہنچا دیتے ہیں تاہم اِس سروس کے عوض وہ آٹھ روپے تا دس روپے فی خط وصول کنندہ سے جرمانہ وصول کرتے ہیں۔ پوسٹ مین کی بیٹ کا تعین کرتے وقت اُس علاقے کا رقبہ اور وہاں کی ڈاک کا حجم مد نظر رکھا جاتاہے۔ بڑی بڑی کالونیوں میں اگرچہ ڈاک کا حجم کم ہوتا ہے لیکن اُن کا رقبہ زیادہ ہوتاہے جبکہ دوسری جانب گنجان آباد علاقوں میں ڈاک کی تقسیم کا رقبہ کم اور ڈاک کا حجم زیادہ ہوتا ہے ۔عمومی طور پرجی پی او ڈیرہ غازی خان میںہر پوسٹ مین کے حصے میں 150تا 180 عام خطو ط فی کس ر وزانہ ، 90تا100 رجسٹرڈ خطوط فی کس روزانہ ترسیل کے لیے آتے ہیں۔ ڈاک خانے سے ڈاک وصول کرنے کے بعد پوسٹ مین روزانہ سردی ہو یا گرمی، برسات ہو تیز دھوپ، آندھی چلے یا طوفان آئے ، شہرمیں دنگا فساد ہو یاپھر ہڑتال ، وہ اپنی پرانی خاکی وردی کی جگہ نئی گرے رنگ کی شلوار قمیض اور نیلے رنگ کی پی کیپ جس پر پاکستا ن پوسٹ لکھا ہوتا ہے، زیب ِتن کئے اپنی ٹوٹی پھوٹی سائیکل پر اپنی بیٹ میں گلی گلی ، محلہ بہ محلہ اور منز ل بہ منزل ڈاک پہنچا تے ہیں۔ بعد از دوپہر تقریباً ساڑھے تین بجے تک واپس دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ جو رجسٹرڈ خطوط، پارسل اور منی آرڈرتقسیم ہونے سے بچ جاتے ہیں وہ انہیں متعلقہ ہیڈ پوسٹ مین ،رجسٹری کلرک، پارسل کلرک اور منی آزڈر کلرک کو واپس کر دیتے ہیں اور پھر دوسرے روز انہیں دوبارہ وصول کرکے دیگر نئی ڈاک کے ساتھ دوبارہ اِسی طرح اپنی بیٹ میں معمول کی ڈیوٹی پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ لوکل ڈاک کے علاوہ بیرون ملک اور اندورن ملک کی ڈاک جی پی او میں قائم ڈی ایم او سے روزانہ چوبیس گھنٹوں میں دوبارہ پوسٹ میل کی گاڑی پر روانہ ہوتی ہے۔ ڈی ایم او میں لوکل ڈاک تو بآسانی سارٹ کرکے تھیلوں میں بند کرکے فورًا ہی جی پی اومیں ہیڈپوسٹ مین کے حوالے کر دی جاتی ہے لیکن بیرون ملک اور اندرون ملک کے دیگر شہریوں کی ڈاک کو الگ الگ تھیلیوں میںبند کرکے ملتان جی پی او روانہ کر دی جاتی ہے ۔ ڈی ایم او میں ڈیرہ غازیخان اور دیگر چھوٹے مضافاتی ڈاک خانوں سے آئی ہوئی ڈاک کو دو شفٹوں میں سارٹ کیا جاتاہے۔ ڈی ایم او میں رجسٹرڈڈاک، پارسل ڈاک اور عام خطوط کی سب سے پہلے فیسنگ کی جاتی ہے پھر تما م ڈاک پر مہریں لگائی جاتی ہیں۔ پھر تمام ڈاک کو مخصوص قسم کی میز جس پر حسب ضرورت 50تا 100خانے بنے ہوتے ہیں اُن میں بلحاظ ڈسٹرکٹ تقسیم کر دیا جاتاہے۔ پھر اُن کے چھوٹے چھوٹے بنڈل بنا کر اُن کے ساتھ ایک فہرست بنا کر انہیںبڑے بڑے تھیلوں میں سیل بند کرکے ملتان ہیڈ آفس روانہ کردیا جاتاہے۔ ڈی ایم او کا یہ کام کئی عشروںقبل پاکستان ریلوے کے تعاون سے ریل گاڑیوں کے اندر مخصوص ڈاک ڈبے میں سرانجام پاتا تھا لیکن اب موجودہ دور میں تیزی اور ترقی کی بنا پر محکمہ ڈاک کے یہ ڈی ایم او جدید انداز میں با ئی روڈزیادہ تر کام کر رہے ہیں۔ 18سال سے پوسٹ مینی کی ملازمت کرنے والے غلام اکبر سے جب اُس کی نوکری کے حوالے گفتگو ہوئی تو اُس نے بتا یا کہ اُس کی تنخواہ تقریبا آٹھ ہزار روپے ہے محکمہ کی طرف سے اُسے سائیکل ملی ہوئی ہے دیگر ساتھیوں کی طرح وہ بھی روزانہ مقررہ شیڈول کے مطابق دفتر جاتا ہے ۔ خدا نے اُسے جو کچھ دیا ہے وہ اُس کی اوقات سے زیادہ ہے ۔ وہ خوش ہے کہ اُسے اِس مہنگائی کے دور میں سکھ کی نہ سہی لیکن پیٹ بھرنے کو دال سبزی مل تو جاتی ہے۔ راقم کے پوچھنے پر کیا وہ اپنے بیٹے کو پوسٹ مین بنانا پسند کرئے گا تو نہایت ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہنے لگا !صاحب ہم غریب چھوٹے سے ملازم ہیںاِس قدر قلیل تنخواہ میں بچوں کے لیے بڑے بڑے خواب دیکھنے سے ڈر لگتا ہے۔ اِسی لیے اِس پُر آشوب دنیاکے حالات میں اِن کے مستقبل کی آس خد ا پر چھوڑ رکھی ہے۔ میرے لیے تو بس یہی کافی ہے کہ یہ نوکری عزت سے چلتی رہے۔جی پی او ڈیرہ غازی خان کے ایک پوسٹ مین نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہماری زندگی اِس محکمہ میں کولہو کے بیل کی مانند ہے۔ہم اِس ملک کے حکمرانوں کی نااہل پالیسوں کی بنا پر زندگی کوسسکتے لمحوں میں بسرکررہے ہیں۔اِس محکمہ میںپوسٹ مین اگر 25سال کی ملازمت بھی پوری کرے تو بھی اُس کی تنخواہ زیادہ سے زیادہ بمشکل بارہ تا تیر ہ ہزار جا کر بنتی ہے۔ ساری زندگی موسموں کی بے رحمی میں قلیل تنخواہ نشتر بن کر چبھتی رہتی ہے۔محکمہ کی طرف سے کہنے کو سال میں دو دفعہ یونیفارم ملتی ہے لیکن کیاکسی نے کبھی یہ جانے کی سعی کی کہ گرمی والی یونیفارم سردیوں کے نزدیک کیوںمل رہی ہے؟ اور سردی والی گرم یونیفارم گرمیوں کی آمد کے نزدیک کیوںمل رہی ہے؟ پھرجو سلاہوا سوٹ ملتا ہے وہ پیمائش میں کبھی بھی فٹ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح یونیفارم کے ساتھ ملنے والے جوتے بھی کپڑے کی مانند نہ صرف ناقص مٹیریل پر مشتمل ہوتے ہیں بلکہ سائز میں چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔ محکمہ کی طرف سے تنخواہ کے ساتھ ماہانہ سائیکل مرمت الاﺅنس 130روپے ملتاہے ۔مہنگائی کے دور میں 130روپے توفقط ایک دو دفعہ کی سائیکل مرمت پر رقم صرف ہوجاتی ہے۔ چند من پسند پوسٹ مینوں کو محکمہ نے موٹر سائیکل دیے ہیں لیکن ابھی بہت سے پوسٹ مین ایسے ا بھی باقی ہیں جو سائیکل پر ڈیوتی کرتے ہیں۔لاہور کراچی کی مانند اگر ڈیر ہ غازی خان میں بھی بینکوں سے محکمانہ ضمانت پر قرضے پر موٹر سائیکل دلائی جائیں اور پھر بنک قرضہ کی رقم ہرماہ تنخواہ سے منہا کرلی جائے اور ساتھ ہی موٹر سائیکل /پٹرول الاﺅنس 1500تا 2000روپے ماہانہ تک دیا جائے تو اِس سے نہ صرف پوسٹ مینوں کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا بلکہ لوگوں کا ڈاک خانہ پر دوبارہ اعتماد بھی بحال ہوگا۔ جی پی او میں یوٹیلیٹی بل جمع کرانے کی غرض سے آنے والے ایک شخص سے محکمہ ڈاک کی خدمات کے بارے میں استفسار کیا توموصوف نے جل کر غصہ والا منہ بناتے ہوئے کہا۔ میں قریبی دفتر سے شارٹ لیو پر اپنے یوٹیلیٹیز بل جمع کرانے آیا ہوںلیکن دیکھ لیں بل وصول کرنے والا کلر ک ایسی سست روی سے کام کر رہاہے جسے وہ کسی ولیمہ میں مدعو ہے۔لوگوں کی شکایت پر کان دھرنے کی بجائے انہیں ساتھ ساتھ باتیں بھی سناتا ہے۔ اکثر و بیشتر رشتہ داروں کے ارسال کردہ خطوط اول تو ملتے ہی نہیں اگر مل جائیں تو کئی کئی دن لیٹ ہوتے ہیں حتیٰ کہ سرکاری لیٹر کی خبر آج ہمیں روانہ ہونے سے قبل ٹیلی فون یا پھرموبائل پر تو مل جاتی ہے لیکن اُس کی ہارڈ کاپی محکمہ ڈاک کی کمال مہربانی سے اکثر گم ہو جاتی ہے یا پھر دیر سے ملتی ہے۔ مختلف اداروں کی ارسال کردہ اکثر وبیشتر رسائل و بُک پوسٹ ڈاکیا حضرات نجانے کہاں کرتے ہیں کہ وہ لوگوںتک پہنچ نہیں پاتے۔یہ عوامی شکایات بے شک اپنی جگہ پر درست ہیںکہ محکمہ ڈاک کی سست روی، عملے کی لاپروائی اور بعض اوقات مجرمانہ غفلت کی بناپر لوگوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور شاید اِسی وجہ سے لوگوں کا ڈاک کی ترسیل کے حوالے سے نجی اداروں کی طرف رحجان بڑھتا جار ہا ہے لیکن یہ امربھی حقیقت ہے کہ جتنا قابل اعتماد ترسیلی نظام محکمہ ڈاک کا ہے اُتنا کسی نجی ادارے کا نہیں۔ یہاں سرکاری ملازمین کو بہرحال اپنی نوکری کی سلامتی نجی اداروں کی نسبت زیادہ عزیز ہوتی ہے۔نیز محکمہ ڈاک بھی نجی اداروں کی مانند بڑے بڑے شہروںمیں کمپیوٹرائزڈ سسٹم متعارف کرا رہا ہے۔مستقبل قریب میں محکمہ ڈاک بھی انشااللہ جدید رنگ میں نظر آئے گا۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved