اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 0345-8535500

Email:-sikanderdgk@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔29-09-2010

انقلاب کا انتظار۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔
 
کالم ---------------- محمد سکندر حیدر
!

ابواُٹھیے۔۔۔! ہمیں کھا نا نہیں آپ کا پیا ر چاہیے، ہم بھوکے رہ سکتے ہیںلیکن آپ کے بغیر جی نہیں سکتے۔ ابو۔۔۔ آپ بولتے کیوں نہیں؟ ابو۔۔۔ آپ اُٹھتے کیوں نہیں ہیںابو۔۔۔ آپ ہماری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں آپ سے کچھ نہیں چاہیے ہم بھو کے سو جائیں گے۔ آپ ہم کو چھوڑ کر نہ جائیں۔ گذشتہ دنوں وزیر اعظم ہاﺅس ملتان کے سامنے تنگی غربت اور تباہی سیلاب کی بنا پر خود سوزی کرنے والے محمد اکرم کے کمسن بچوں اقرا، سدرہ، مہوش، اکرام اور احسام الحق کے اِن بینوںنے طاہر کوٹ تحصیل جام پور ضلع راجن پور میں ہر ذی روح کو اُس وقت رُولا کر رکھ دیا جب محمد اکرم کی لاش ایمبو لینس میں اُس کے گھر پہنچی تو غربت زدہ بچے اُس کی لاش سے لپٹ کر زاروقطاربین کرتے ہوئے رونے لگے۔ بستی کا ہر فرد جو بھی گوشت پوست کے جسم میں دل ِانساینت رکھتا تھااُس کی آنکھیں اشک بار اور محو حیرت تھیں کہ اکر م تو ملتان وزیر اعظم ہاﺅس اُمیدوں کی ایک آس لے کر گیا تھا یہ بچوں کے حصہ میں سدا کے کے مایوسیوں کی گھٹا کہاں سے آگئی ہے۔ 30سالہ ، حافظ قران اکرم میٹرک پاس اور بے روزگار ، پانچ کمسن بچوں کا با پ ، سیلاب سے تباہ حا ل اورپیپلز پارٹی کا جوشیلاجیالاتھا۔ بے روزگاری اور تنگ دستی کی بنا پر معاشی طور پر وہ مفلوج تو پہلے ہی تھا کہ سیلا ب نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ جام پور سمیت اُس کے مضافات میں سیلابی آفت آئی تو وہ تباہ و برباد ہوکر بمعہ فیملی سٹرک پر زندگی گزارنے لگا۔سیلاب کے ابتدائی ایام اور اختتا م رمضان کے بعد سے گزرتے دنوں کے ساتھ جیسے جیسے سیلابی امداد کی مقامی بااختیار افراد میں بند ر بانٹ شروع ہوئی تو بے سہارا لوگوں کے فاقوں میں اضافہ شروع ہوگیا۔ اِنہی حالات سے دلبرشتہ ہوکر وہ گھرمیں بچی کچھی ہوئی چند کلو گندم بیچ کر ملتان کا کرایہ بنا کر وزیر اعظم ہاﺅس کے گھر اِس آس پر جا پہنچا کہ شاید پیپلز پارٹی سے نظریاتی وابستگی اور جیالا پن کی بناپر اپنی داستان صاحب ِاختیاران کو سُنا کر اپنے بھوکے بچوں کے لیے کچھ امداد یا پھر کسی درجہ چہارم کی کوئی نوکری پا لے گا۔ وہ چوبیس گھنٹوں تک وزیر اعظم ہاﺅس کے سامنے سٹرک پر اجتجاجاً بیٹھا رہا لیکن صدا فسوس وزیر اعظم ہاﺅس کے کسی فرد نے اُس کی بات تک سننا گوارا نہ کی۔آخر دلبرشتہ ہوکرزندگی کی آس کو چھوڑ تے ہوئے اُس نے تیل چھڑک کر خود کو آگ لگادی۔ یوں اُس نے معاشرتی بے حسی کے نقوش اور اپنے پارٹی کے حکمرانوں کی فرعونیت کو ننگا کرتے ہوئے انسانیت کے منہ پر طمانچہ دے مارا۔
گذشتہ چند دنوں سے ملک بھر میں انقلاب اور تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیںاور صاحبانِ ِعقل و دانش اسباب ِتبدیلی اور ناکامی حکومت پر بحث و مباحثوں میں مصروف ہیں۔ آئینی اور غیر آئینی طریقہ تبدیلی کے ممکنہ نکات کو زیر بحث لایا جارہاہے۔ حکومتی تبدیلی کے خواہش منداور اپنی باری کے منتظر سیاستدان موجودہ حکومت کا خاتمہ اور دن رات اپنے اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایک دفعہ پھر ملک میں یہ بحث چھیڑ کر حکومت کی غلام گردشوں میں محلاتی سازشوں کے سُکوت کو صدا دی گئی ہے۔ ممکن ہے موجودہ حکومت تبدیل ہوجائے۔ نیا سیٹ اپ بھی کسی طرح بن جائے۔ عوام کو ایک دفعہ پھر خوش کُن نعروں کی گونج میں سبز باغ بھی دکھائے جائیں ۔ لیکن کیا نئے آنے والے حکمران اِن فرعون طبع حکمرانوں سے جداگانہ خاصیت کے حامل ہوں گے۔؟یہ وہ سوال ہے کہ جہاں سوچ کی حدیں رُک دی جاتی ہیں۔ داستان ِماضی کے آئینہ میں تو فقط اِس بار بھی چہروں کی تبدیلی ہی نظر آتی ہے۔ وہ بھی نجانے ممکن ہے یا نہیں۔بالفر ض اگر حکومت تبدیلی ہو جاتی ہے تو کیا نئے آنے والے حکمران عوام کو مہنگائی اور لاقانونیت کے عذاب سے نجات دلا سکیں گے؟،کم آمدنی اور زیادہ اخراجات میں توازن پیدا کرسکیں گے؟،معاشرتی نفانفسی کے عالم کو ختم کرسکیں گے؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر روز لوگ اپنے پیاروں کی میتیں اُٹھا اُٹھا کر تھگ گئے ہیںکہ وہ اُس معاشرہ کو کوئی خوشخبری دے سکیں گے؟کیا آئندہ دور حکومت میں حکمران اپنی لوٹ کھسوٹ سے معاشی بحران پیدا نہیں کریںگے؟۔کیا اکرم جیسے ہزاروں کارکنوں کو اُن کی قیادت سے دو وقت کی روٹی مل جائے گی ؟کیا سیلا ب کی بنا پر در بدر ٹھوکریں کھانے والوں کو روٹی کپڑا اور مکان مل جائے گا؟ لاکھ حکومتیں اور چہرے تبدیل ہوں لیکن میری ذاتی سوچ کے مطابق ایسا ابھی کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ ابھی ایسا انقلاب پاکستان میں ممکن نہیں جو اِس کی تقدیر بدل دے۔انقلا ب میڈیا بحثوں اور سازشی عناصر کی کوششوں سے نہیں بلکہ عوام کے دماغوں میں پکتی سوچوں کے دھارے سے آتے ہیں ۔ پاکستانی عوام ابھی اُس منزل ِسوچ پر نہیں پہنچی جہاں انقلاب کا سویرا طلوع ہوتا ہے۔ ابھی بے حس اور انفرادی تن آسانی کے گرداب میں پھنسی عوام نے مذید ظلم سہنے ہیں کیونکہ یہ ظلم سہنا چاہتے ہیں ۔ ابھی مذید اکرم جیسے غریبوں نے ہماری قومی بے حسی پر تھوکنا ہے ۔ ابھی بہت سے بچوں نے بین کرنا ہے کہ ابواُٹھیے۔۔۔! ہمیں کھا نا نہیں آپ کا پیا ر چاہیے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved