اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين
 

Email:-m.wajiussama@gmail.com
 

Telephone:-         

 

 

 

تاریخ اشاعت06-01-2009

 عوامی مسائل کی جڑ

کالممحمد وجیہہ السماء




اگر تا ریخ کے اوراق کو گھنگالا جا ئے تو یہ معلوم ہو تا ہے کہ 1830ءمیںدنیا کی آ بادی ایک ملین تھی ۔ 1930ءمیں یہ دو ملین ہو گئی۔ اسی طر ح آ بادی میں اضافہ ہو تا گیا اور 960 ءا ٓ گیا جس میں یہ تین ملین کی ا ٓ با دی ہو گئی ۔1975ءمیں یہ چا رملین ہو گئی ۔ 1993ءمیں یہ تقر بیا 5.57بلین تھی اور اب اس صدی کے آ خر میں یہ ا ٓبادی آ ٹھ ملین تھی اور اس آ بادی کو بڑ ھا نے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 9 ہے اور اس کا گرو تھ ریٹ 2.61%ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔ اور اگر دنیا کی یہی کامیا بی برقرار رہی تو 2020 ءمیں یہ ا ٓبادی 10ملین تک ہو جا ئے گی ۔
آ بادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا دن بدن بہت سے مسائل کا شکار ہو ر ہی ہے ہر ملک میں بیروز گاری میں خطر ناک حد تک ا ضا فہ ہو ر ہا ہے کو ئی ملک ایسا نہیں جو اپنے ملک میں بیروزگاری میں مبتلا نا ہو ۔ ہر ملک ہر شہر اس وبا کی زد میں ہے اس کی وجہ صرف بیروز گاری میں ا ضا فہ نہیں ہو رہا بلکہ اور بہت سے مسائل سر ا ٹھا ر ہے ہیں جو کہ دنیا کے لئے اور مصیبت اور لمحہ فکریہ بنے ہو ئے ہیں
صرف بیروزگاری میں ا ضا فہ نہی ہو رہا بلکہ صحت ، تعلیم ، کی سہولتوں میں بھی دب بدن کمی ہو رہی ہے
بڑے کہتے ہیں کہ اپنی چا در دیکھ کے پا ﺅ ں پھیلاﺅ کیونکہ اس سے ایک تو خود آ سانی رہے گی تو دوسری طرف دوسرے بھی سکو ن میں رہیں گے ۔مہذب معاشرے کی نشا نی بھی یہی ہے کہ جو ملے اس پر صبر کر لو اور جو مسائل درپیش ہیں وہ اپنی آمدن اور ریسورسیزز سے ختم کر یں
ہمارے ملک میںمسائل کا ”عظیم الشان“ قا فلہ نظر ا ٓتا ہے جس میںکوئی بجلی کو رو ر ہا ہے تو کوئی آمدن کو رورہا ہے تو کوئی رشوت ستا نی کی داستان سنا رہا ہے۔ ایک طرف تو بجلی نا ہو نے کی وجہ سے لوگ خود کشی کر رہے ہیں تو دوسری طرف عورتیں بھی گیس نہ ہو نے کی وجہ سے سراپا اجتجاع بنی ہو ئی ہیں اور کہہ ر ہی ہیں کہ خدارا!گیس تو دو تا کہ کو ئی غریب گھر میں روٹی تو کھا سکے ۔ہمارے اپنے ملک کو اس حالت تک لا نے میں ہم سب کا بہت بڑا ہاتھ ہے
آ ج ملک کی طرف نظر اٹھا ئی جا ئے تو پورا ملک” پتھر کے زمانے “کا سماں پیش کر رہا ہے کیو نکہ یہاں صرف ”مسائل“ دستیاب ہیں، اور ہر چیز کی کمی جو(جو کمی کر دی گئی ہے) نظر ا ٓ تی ہے ۔ بجلی نام کی چیز سے لوگ اب نا آشنا ہو تے جا ر ہے ہیں اور گیس پٹرول کی قیمتوں سے لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں
مثلا چینی کے سودگروں سے حکو مت وقت آ رام سے بلیک میل ہو گئی اور عوام کو خوشخبری سنا ئی کہ ”ہم کچھ نہیں کر سکتے “وہ ڈبل قیمت مانگتے ہیں تو عوام دیں ہم کیا کر یں ہم تو آ نکھو ں میں دھول جھونکنے کے لئے ہفتے میں ایک آ دھ جمعہ بازار /ہفتہ با زار لگا دیں گے جس میںلو گوں کی ”عزت نفس“ مجروح کر کے چیز یں دے دیں گے اور وہ عام ما رکیٹ سے کم کو الٹی کی ہونگی
اس کے ساتھ ساتھ حکومت ”عوامی خدمت “ کے پیش نظر پٹرول ،ڈیزل،اور اب گیس کی قیمت برابر کر ر ہی ہے اور وقتا فوقتا اس میں اضافہ فرما تی رہتی ہے کیو نکہ حکومت جا نتی ہے کہ ہمارے ملک کے 18کڑوڑ عوام” امن اور حکمرانی “ کی زند گی گزار رہے ہیں ان کے پا س نو کر یا ں ہیںہر طرف دودھ کی نہر یں بہبہ رہی ہیں ۔ جا ئیدادیں ہیں ۔تو پھر حکومت کیوں نا ان چیز وں کی قیمت بڑ ھا ئے تا کہ حکومت کو بھی انکم ملے یہ تو اوپر دو چیزیں بیان کی گئی ہیں جن پر عوام کو فرق پتہ لگ جا تا ہے مگر باقی ہزاروں اشیاءہیں وہ کم پتہ لگتا ہے ان میں تو% 100سے بھی زیا دہ کا ا ضافہ ہو چکا ہے ۔ وہ عوام کو پتا کم لگتا ہے ۔
مثلا چا ئے کی پتی کی پاﺅ کی قیمت کہا ں جا چکی ہے اس کے ساتھ سا تھ کو ک، پیپسی کی قیمت اب/1-1/2 65/70 پر بوتل ہو چکی ہے جو پہلے1-1/2 45/روپے تھی..چینی تو زیادہ اوپر نہیں گئی کیونکہ یہ پہلے 30روپے ملک میں ذلیل ہو تی تھی اب 65/70روپے مل رہی ہے وہ بھی لوگوں کو ذلیل کر کے۔ اور یہ محسوس ہو ر ہا ہے کہ ہماری حکومت ملٹی نیشنل کمپنیزز کو نوازنے کے چکر میں ہے
مگربڑھتی قیمتوں کا حکومتی ایو انوں سے دور دور کاکو ئی بھی واسطہ نہیں کیونکہ حکومتی ایوانوں میں جو بھی حکومتی فیصلے کیئے جا تے ہیں وہ خالص ”عوامی خدمت اور عوامی مفاد“ کے نظر یئے سے کئے جا تے ہیں ۔
اس حالت تک آ نے میں عوام کا بھی ہاتھ ہے کیونکہ آ ج تک اس ملک کو کو ئی اچھا حکمران نصیب نہیںہوا ( قائداعظم ان کے ساتھیوں اور ذوالفقار علی بھٹو کے علا وہ) جس نے بھی اس ”تخت اقتدار“ پر قدم رکھا اس نے عوام کو اتنی اذیت دی کہ لو گ خود کشیوں کو مسائل کا حل سمجھنے لگے تو دوسر ی ہماری عوام نے ان با توں پر غور نہیں کیا کہ ہمارے ملک میں وسائل میسر نہیں ۔ یا جو میسر ہیں ان کو استعمال نہیں کیا جا تا اور ضرورت کی اشیاءبھی ذلیل ہو کے مل رہی ہیں تو آبا دی میں ا ضا فہ نہیں ہو نا چا ہیئے بلکہ اس با ت کو ذہن میں رکھا ہو اہے کہ ہر نیاءآ نے والا اپنا بچہ اپنا رزق خود لیکر ا ٓتا ہے اور اس کے مقدر میں اس کا سب کچھ لکھ دیا جا تا ہے تو کیوں نا اپنے” بازﺅوں “ کو زیادہ کیا جا ئے
اب ملک میں انتشار سی کی حالت بنی ہو ئی ہے ہر کو ئی دوسرے کا حق چھینے کی کوشش میں ہے اس کے ساتھ ساتھ عوام روتے ہو ئے اور کو ستے ہو ئے کہتے ہیں کہ” ہم ہر چیز پر حکومت کو ٹیکس ادا کر تے ہیں تو حکومت ہمارے لئے کچھ کیوں نہیں کر تی“حکومتی محکموں میں بھرتیاں کیو ں نہیں کی جا تیں۔ ہزاروں لو گ مر رہے ہیں مگر ہزاروں ڈاکٹر ۔ سڑکوں پر ذلیل ہو رہے ہیں ۔ہزاروں انجینئرز آواری گردی میں مشغول ہیں۔ان کو نوکری کیوں نہیں دی جا تی
اس کے ساتھ ساتھ عوام یہ کہتی ہے کہ ٹیکس ہم اپنی فلاح و بہبود کے لئے ادا کر تے ہیں کسی کی عیاشیوں کے لئے نہیں دیتے ۔اور یہ ٹیکس صرف ہم غریب عوام اور تنخواہ دار بندے پر ہی لگا ئے جا تے ہیںاور یہ طبقہ اشرفیہ ان ٹیکسوں سے مشتنی ہو تا ہے ہمارا قصور یہ ہے کہ ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیںاور پھر بھی ہمارے لئے سہولتیں نہیں مگر ”طبقہ اشرفیہ“ کے لئے ہر سہولت ، ہر چیز ہر وقت دستیاب ہے
حکومت کہتی ہے کہ ہمارے پا س اتنے وسائل نہیں کہ عوام کی بڑھتی ہو ئی فوج کے لئے ہر چیز کے مواقع پیدا کر سکیں یہ عوام کی” بڑ ھو تری ہی ہر مسئلے کی جڑ ہے“
اب بھی ان مسائل سے چھٹکارا پا یا جا سکتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام اور حکومت کندے سے کندھا ملا کے کھڑے ہو جا ئیں تو نا صرف یہ ملک امریکی غلامی سے نجات پا ئی جا سکتی ہے بلکہ ملک خوشحال بھی ہو سکتا ہے عوام کو اپنی نسل کا مستقبل سوچ کر اپنے بازﺅوں میں اضافہ کر نا چا ہیئے اور حکو مت کو اس ملک کے وسائل اچھے اور منظم طریقے سے استعمال کر نے ہو نگے ہمارے ملک میں و سائل مو جود ہیں سو نا ہے ، نمک ہے ، جنگلات ہیں قیمتی پتھر ہیں ان کو اچھے اور منظم طریقے سے حکو مت استعمال کر ے تو کو ئی مشکل نہیں کہ ہمارا ملک کسی بھی آ فت کو ختم نا کر سکے




 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team