اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 1-514-970-3200

Email:-jawwab@gmail.com

 
 

تاریخ اشاعت:۔09-12-2010

نظمیں
 
خواب نگر ۔۔۔۔۔۔۔ محمد اسد اللہ

انتساب

عائیشہ حنا توصیف احمد اور محمّد انس کے نام جو میرے جگر پارے اور اس خواب نگر کے باشندے بھی ہیں

حمد

حمد و ثنا اسی کی جس نے جہاں بنایا مٹّی میں جان ڈالی آرامِ جاں بنایا غنچے کھلائے اس نے پھولوں کو تازگی دی اظہارِ التجا کو حرف و بیاں بنایا پیروں تلے ہمارے ممتا بھری زمیں دی مشفق سا اپنے سر پر اک آسماں بنایا راہیں اسی کی صنعت سمتیں اسی کی قدرت بخشے ہیں ہم قدم بھی اور کارواں بنایا بربادیوں رکھ دی امن و اماں کی صورت عشرت کد وں کو اس نے عبرت نشاں بنایا لفظوں کی ساری دنیا اس کی ثنا سے قاصر اک لفظِ کن سے اس نے سارا جہاں بنایا

حمد گاتی ہے زمیں

مالکِ ارض و سما کو یاد کرتا ہے جہاں حمد گاتی ہے زمیں ،تسبیح پڑھتا آسماں ہاتھ باندھے پیڑسارے جنگلوں میں ہیں کھڑے سب مویشی اس کی عظمت میں رکوع کرتے ہوئے جانور سب رینگتے سجدے میں ہیں گویا پڑے ذرہ ذرہ اس زمیں کا رب کا ہے تسبیح خواں یاد کرتا ہے خدا کو ہر گھڑی سارا جہاں یہ زمیں اﷲکی حمد و ثنا میںہے مگن اس کی پاکی کو بیا ں کرتا ہوا نیلا گگن عظمتِ رب کے قصیدہ خواںہیں یہ کوہ و دمن اک اسی کے نام سے روشن ہوئے کون و مکاں یاد کرتا ہے خدا کو ہر گھڑی سارا جہاں اس کی عظمت کے شواہد چار جانب ہیں عیاں ہے ہر اک ذرّہ کے دل میں مالکِ مُلکِ جہاں کیوں مگر انسان اپنے ر ب سے غافل ہے یہاں مالکِ ارض و سما کو یاد کرتا ہے جہاں حمد گاتی ہے زمیں ،تسبیح پڑھتا آسماں

نعت

رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی آپ کی زندگی روشنی روشنی خوابِ غفلت سے اک دن جگایا ہمیں زندگی کا قرینہ سکھایا ہمیں آپ ہی نے خدا سے ملایا ہمیں ہم کو کافی ہے بس آپ کی رہبری رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی دے گئے ہم کو انسانیت کا چلن دشمنی دوستی میں بدلنے کا فن اپنے مالک سے ملنے کی سچّی لگن کیسی نایاب چیزیں عطا آپ کی رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی ظلم و ظلمت میں سب کا سہارا بنے علم و حکمت کے د ر وا کئے آپ نے عدل و انصاف زندہ ہوا آپ سے آپ دنیا میں حق کاپیام آخری رحمتوں کے نبی ہیں ہمارے نبی آپ کی زندگی روشنی روشی روشنی ،روشنی ،روشنی ،روشنی

اے دو جہاں کے مالک

اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت سبزہ دیا زمیں کو سورج کو روشنی دی ٹھنڈک ہوا میں بھر دی پھولوں کو روشنی دی اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت چڑیوں کے چہچہے ہیں ہونٹوں پہ قہقہے ہیں بہنے لگیں ہوائیں جھرنے امڈ پڑے ہیں اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت منزل کا تُو پتہ دے راہیں سجھائے تُو ہی تُو تشنگی بڑھائے چشمہ دکھائے تو ہی اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت دن تھک گیا تو تُو نے شب کا دیا بچھونا تارے سجادئے اور اک چاند بھی اگایا اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت رشتوں کو دی حلاوت ماں باپ کی محبتّ ہمجولیوں کی الفت رحم و وفا ، مروّت اے دو جہاں کے مالک ہر جا ہے تیری قدرت
 

راشٹر گیت (منظوم ترجمہ)

(رابندرا ناتھ ٹیگور کے تخلیق کردہ ترانے "جن گن من۔۔" کا منظوم ترجمہ)

ہر ذہن و دل پہ یا رب پر تیری ہی حکمرانی بھارت کا ہو مقدّر ہر گام کامرانی

پنجاب ہو کہ مہاراشٹر ،بنگال یا اڑیسہ گجرات و سندھ کی ہو یا ہو زمیں دکن کی

بامِ فلک کو چھوتے یہ وندھیہ یہ ہماچل گنگ و جمن کی موجیں ،بحرعرب کا پانی

ہر چیز پر ہے گویا تیرا نشان،عظمت ہر لہر میں ہے تیرا ذکرِ مدام جاری

تیرا ہی نامِ اقدس لے کر اٹھے زباں پر ہم خیر کے ہیں طالب مصروفِ حمدِباری

خوشیاں جہان بھر میں تقسیم کرنے والے بھارت کا ہو مقدّر تاحشر کامرانی

چھٹّی کا زمانہ

اسکول بند ہیں سب اب سیر کو ہے جانا لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا بستہ کتاب کاپی سب چھٹّیاں منائیں بارِگراں سے ان کے ہم بھی نجات پائیں بستے میں جو بندھا ہے اس کو جہاں میں دیکھیں کیا کیا کہاں چھپا ہے آ ؤ پتہ لگائیں سنتے ہیں کچھ عجب ہے دنیا کا کارخانہ لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا آؤ سنیں کہانی ، کوئی نئی پرانی نانی سنائیں یا پھر ، دادی کی ہو زبانی اک راکشس بھی آئے ،ہو خوب کھینچا تانی ایسی لڑائی ہو کہ آجائے یاد نانی پھر خاتمہ میں آکر دشمن کا ہار جانا لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا بس کھیلنے کی خاطر یہ چھٹّیاں ملی ہیں ہر سو کھلاڑیوں کی کچھ ٹولیاں بنی ہیں لہرا رہے ہیں بلّے ، گیندیں اچھل رہی ہیں فٹ بال کی بھی ٹیمیں میداں میں آ گئی ہیں تگڑا مقابلہ ہے کچھ کرکے ہے دکھانا لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا ہر سمت ہر ڈگر پر چھٹی کا راج قائم آنکھوں میں جھلملاتے ہیں سیر کے عزائم جی چاہتا ہے صدیوں زندہ رہیں یہاں ہم قائم رہے یہ چھٹّی ، دائم رہے یہ موسم بس سوچ ہی تو ہے یہ ،ممکن نہیں یہ مانا لکھنا ہے اب نہ پڑھنا بس چھٹیاں منانا

مرغا

ککڑوں کوں جی ککڑوں کوں

دیکھو میں اک مرغا ہوں

تم ہو انساں سوئے ہوئے اور میں دیکھو جاگا ہوں

رات کو جاتے دیکھ چکا صبح کی آہٹ سنتا ہوں

منظر صبح کا ہے ایسا تم کو کیوں آواز نہ دوں

سورج کا رتھ نکلا ہے بستر میں تم چھپے ہو کیوں

سن لی میری بانگ مگر پھر بھی نہ رینگی کان پہ جوں

سرکس

شہر میں سرکس آیا ہے کھیل تماشے لایا ہے ہاتھی اونٹ اور گھوڑے ہیں سب ہی یوں تو بھگوڑے ہیں سب کو پکڑ کر لایا ہے شہر میں سرکس آیا ہے اڑتی اچھلتی کار بھی ہے کھیلوں کی بھر مار بھی ہے سارے کھلاڑی اور جوکر تار پہ چلتے ہیں سرسر شہر امڈ کر آیا ہے شہر میں سرکس آیا ہے شیر بھی ہے اور بکری بھی کتّوں کی اک ٹولی بھی ایک بڑا سا بھا لو ہے کچھ اس کے ہمجولی بھی بھان متی کا کنبہ ہے جو سرکس نے جوڑا ہے ہاتھی پوجا پاٹھ کرے بندر بندر بانٹ کرے بھالو ناچ دکھاتا ہے طوطا توپ چلاتا ہے سبھی دکھاتے ہیں کرتب جوکر اب گرا یا تب سب کے من کو بھایا ہے شہر میں سرکس آیا ہے

چوہوں کا ہنگامہ

اک دن چوہے کچن میں آئے اچھلے ،کودے ،ناچے گائے خالی دیکھ کے پورا کمرہ ڈال دیا ان سب نے ڈیرہ سامنے ان کے جو کچھ آیا کچھ کچھ کھایا ،بہت گرایا دانتوں سے اک کیک بھی کترا ننھا سا بادام چرایا فرش پہ چینی بھی پھیلادی مکھّن کی شیشی لڑھکادی ڈھمّک ڈھمّک ڈھول بجاتے ٹین کے ڈبّوں پر جا بیٹھے رات ہوئی تو میاں پکوڑے لوٹ کے جب دفتر سے آئے کچن کا جاکر کھولا تالا وہاں پہ دیکھا حال نرالا کمرہ میں تھے کچھ تو چوہے باقی پیٹ میں دوڑ رہے تھے ٹھن ٹھن کرتی ہانڈیوں سے کچھ اپنا سر پھوڑ رہے تھے سارا اچھّا مال اڑا کر بیٹھے تھے سب راج جماکر غصّے میں تھے میاں پکوڑے ادھر ادھر وہ جم کر دوڑے چوہا کوئی ہاتھ نہ آیا گھنٹہ بھر تک انھیں تھکایا اتنے میں پھر ہوا دھماکہ کھڑکی سے بلّی نے جھانکا کہ کر میاوں جو ہانک لگائی جان پہ چوہوں کے بن آئی مرنے کی جب نوبت آئی پھر نہ کچھ بھی دیا سجھائی دُمیں دباکر سارے بھاگے بلّی پیچھے ، چوہے آگے

گیت مال

ا

ہرے بھرے جنگل میں، سندر سا اک پیڑ کھڑا تھا پیڑ پہ بیٹھے پنچھی، بنتے رہتے گیت کی مالا

ہوا نے میٹھے گیت کی مالا اپنے گلے میں ڈالی اُڑتی پھری پھر وہ دیوانی پربت پربت ڈالی ڈالی

دھرتی نے جب گیت سنے تو لینے لگی انگڑائی انگڑائی نے بادل کو اس گیت کی بات بتائی

بادل بھیس بدل بارش کا دوڑا دوڑا آیا ساری دھرتی جل تھل ہوگئی ٹوٹ کے پانی برسا

پنچھی اُڑ اُڑ کر آئے سب چہکے گیت سنایا بادل بارش کا موسم بن جنگل میں لہرایا

خواب نگر

آؤخواب نگر چلتے ہیں آؤخواب نگر چلتے ہیں ڈھونڈنے ایسی بستی جس میں خوشحالی بھی بستی ہو خون نہ ہو پانی جیسا نہ موت جہاں پر سستی ہو امن اور چین جہاں کے باسی رعنائی سر مستی ہو آؤٔخواب نگر چلتے ہیں خواب نگر میں سنتے ہیں کچھ پیڑ بھی اونچے اونچے ہیں جن کی شاخوں پر جھولا کرتے سپنوں کے خوشے ہیں سپنوں کی گٹھلی کے اندر رستے راج محل کے ہیں آؤخواب نگر چلتے ہیں خوابوں میں رس گلّے ،بالو شاہی ،حلوہ پوری ہو بریڈ پکوڑے ،شاہی ٹکڑے گپ چپ اور کچوری ہو بریانی کے ساتھ ہو قلیہ ،روٹی بھی تندوری ہو آؤخواب نگر چلتے ہیں سونے چاندی کی دیواریں ،اونچے اونچے بنگلے ہوں ہیروں کا آنگن ہو اور بلّوریں سارے جنگلے ہوں دم بھر میں دھنوان ہمارے شہر کے سارے کنگلے ہوں آؤخواب نگر چلتے ہیں اچّھے انساں بننے کا اک پیارا خواب سجائیں آؤ ہم اس دھرتی کے چاند ستارے بن جائیں سچ ہو جائیں خواب ہمارے ایسا کچھ کر جائیں آؤ خواب نگر چلتے ہیں آؤ خواب نگر چلتے ہیں

مچھر نامہ

بھن بھن کرتا آئے مچّھر کان ہمارے کھائے مچّھر شام ہوئی تو فوج بناکر گھر گھر میں گھس آئے مچّھر خون تمہارا ہم کو پیارا گیت یہی اک گائے مچّھر ہر کوئی بیزار ہے ان سے کب ہیں کسی کو بھائے مچّھر خون کے پیاسے ذرا ذرا سے کیسا خوف جگائے مچّھر ننّھے ننّھے ڈراکیولے ہیں خون کی کھوج میں آئے مچّھر ڈستے ہی سب چینخ اٹھے ہیں ہائے رے مچّھر ہائے مچّھر ڈستا تو ہے سانپ بھی لیکن خون بھی پی کر جائے مچّھر گندے پانی کے یہ ساتھی کیچڑکے ہمسائے مچّھر تحفہ لے کر بیماری کا بستی بستی جائے مچّھر میٹ ،کوائل اور مچّھر دانی ان سب سے گھبرائے مچّھر انساں ہی کے خون پہ پل کر اس جیسا اترائے مچّھر خون بہاتے انسانوں کو دیکھے اور شرمائے مچّھر

 

چچانرالے

چھتری تالے کولر والے چاچا ہیں اک بڑے نرالے کام سے ان کے ہے یہ ظاہر اپنے فن میں ہیں یہ ماہر ہر شے کی یہ کریں مرمّت لوگوں کو پہنچائیں راحت گرمی میں پنکھا بنوالو کولر روٹھ گیا ہو لاؤ چھتری سے گر ٹپکے پانی ہوئی ہو ٹیڑھی کوئی کمانی پھٹا ہوا ہو اس کا کپڑا ٹوٹ گیا ہو کوئی پرزہ ٹارچ میں ، اسٹو میں ،کولر میں کوئی خرابی ہو مکسر میں ہر گڑبڑ پر نظریں گہری غضب کے ہیں یہ کاریگر بھی چپکے سے برسات گئی تو چھتری اس کے ساتھ گئی لو جب جب دھندہ پڑا ہے مندہ چاچا نے تب بدلا دھندہ چابی گم ہو جائے جب بھی چاچاجی کو ڈھونڈیں سب ہی بن تالے کی چابی لاؤ ہر تالے کی چابی پاؤ ساری چیزیں ان سے بولیں اپنے دل کا دکھڑا رولیں ہرشے کا یہ کریں علاج اس پیشے میں ان کا راج چھتری تالے کولر والے چاچا ہیں اک بڑے نرالے

مسٹرٹوٹ بٹوٹ

آئیے ا ن سے ملواتے ہیں یہ ہیں مسٹر ٹوٹ بٹوٹ اپنی دسویں سالگرہ پر سلوایا ہے کیسا سوٹ

ٹھنڈی راتوں جیسی ان کی لمبی سی اک ٹائی جھل جھل کرتا ان کا چشمہ ،چم چم کرتا ان کا بوٹ

سالگرہ کی تیّاری کا کچھ ایسا ہنگامہ تھا ان کے ڈیڈی کے بٹوے کی مچی ہوئی ہو جیسے لوٹ

اتنے لوگوں کو دیکھا تو تن میں جوش سمایا کیک کو اتنے زور سے کاٹا ،گئی چھری ہی ٹوٹ

 

ماما

الٹا کرتہ پہنیں ، الٹا ہی پاجامہ ساری دنیا کہتی ہے ان کو ماما

جوتے کی جوڑی کا بچھڑ گیا اک جوتا دیکھو ان کے گھر میں برپا ہے ہنگامہ

نام ہی نام ہے ان کا کوئی کام نہیں ہے نام نہ لکھنا جانیں کہلائیں علّامہ

بہادری میں ان کا کوئی نہیں ہے ثانی گلی میں جیسے چوہا ، گھر کے اندر گاما

سورج ان کی چہرہ میں اپنا مکھڑا دیکھے صورت سے وہ لگتے ہیں خود بھی چندا ماما

خواب نگر کے اندر وہ دن اور رات بِتائیں جانے کب پہنائیں گے خواب کو عملی جامہ

ان سے ملئے

آئیے ان سے ملواتے ہیں یہ ہیں مسٹر انسٓ نام ہے ان کا ننّھا منّا عمر بھی ہے دو برس

کالے کالے بال نرالے جیسے شام اودھ کی نکھرا نکھرا گورا مکھڑا جیسے صبحِ بنارس

چوکڑیاں یوں بھرتے ہیں یہ جیسے ہرن جنگل میں دھیان میں ایسے مست کھڑے ہیں جیسے کوئی سارس

بڑے نڈر ہیں بڑے بڑوں سے نہیں یہ ڈرنے والے اپنے سے چھوٹوں پر لیکن کھا لیتے ہیں ترس

ہر شے کو چھوتے پھر نے کی ادا اچھوتی ان کی جیسے خود کو سمجھ رکھا ہو چلتا پھرتا پارس

جہاں یہ جائیں رنگ جمائیں ،ایسے ان کے ڈھنگ جس محفل میں یہ نہ ہو وہ محفل ہے بے رس

مسٹر چیونگم

ان سے ملئیے یہ ہیں مسٹر چیونگم منھ میں اپنے رکھ لو ان کو دانتوں سے پھر کچلو ان کو چکھ لو پر نہ نگلو ان کو چکھنے سے نہ ہوں گے کم یہ ہیں مسٹر چیونگم بچّے بڑے ان کے دیوانے چلے ہیں سارے ان کو کھانے جان کے بنتے یہ انجانے ان کو کوئی نہیں ہے غم یہ ہیں مسٹر چیونگم لال ہرے اور پیلے ہیں کپڑے بھی بھڑکیلے ہیں نٹ کھٹ چھیل چھبیلے ہیں مزہ ہے ان کا یا سرگم یہ ہیں مسٹر چیونگم

بِھنڈی بولی ٹِنڈے سے

بھنڈی بولی ٹنڈے سے ؛ ”اکڑرہے ہو ٹھنڈی سے! آئے کہاں سے ہو بابو ؟“

ٹِنڈا بولا ؛ ”میں آیا جی ، بھٹِندے سے “ بھنڈی نے پھر منھ کھولا ؛ ”کب سے ہو اس منڈی میں؟“

بولا؛ ”پچھلے سنڈے سے “ ’دوستی بھی ہے کسی سے کی؟ ”بس مرغی کے انڈے سے“ ”ڈرتے بھی ہو کسی سے تم‘ ”جی بائی جی! ڈنڈے سے “

جانوروں کا بازار

دیکھا بیوپاری بننے کا جانوروں نے سپنا لے کر اک بازار میں پہنچے خوانچہ اپنا اپنا

ہُد ہُد لال ٹماٹر لایا ،ہرنی گاجر مولی بندر لے کر آیا چقندر ، لکّڑ بگّا ککڑی

اونٹ نے پیٹھ پہ گنّے لادے، ہاتھی لایا آلو پالک لے کرآئی بلّی ،بیگن لے کر بھالو

لیموں لاد کے ٹٹّو لایا ، اروی عربی گھوڑا سر پر میتھی لائی بکری ، بکرا دھنیا تھوڑا

گیدڑ نے حلوائی بن کر جوں ہی تھال سجائے چیونٹا چیونٹی گاہک بن کر دوڑے دوڑے آئے

لومڑیاں بھی لائیں اپنے انگوروں کے خوانچے تاجر بن بیٹھے تھے چوہے بیچ رہے تھے کپڑے

ناؤ

پانی آیا ، پانی آیا ، آؤ ناؤ بنائیں کاغذلاؤ، موڑ کے اس کو چھوٹی سی اک ناؤبنائیں ناؤ میںرکھ کر خواب سلونے دور سفر پر جائیں ہوا ہ بہی ہے ناؤ چلی ہے ؛ دور دور تک پانی پانی ، تن اس کا پتلے کاغذ کا ڈگ مگ ڈگ مگ ڈول رہی ہے اے پانی کی چنچل لہرو! رحم کرو کچھ ، یہ تو دیکھو ، سندر سندرسپنے اس میں سپنوں ہی سے جیون ہے یہ دیکھو ڈوب نہ جائے ۔۔۔۔ کوئی نہیں جو دوڑ کے آئے اے رب! ہم ہیں ہاتھ اٹھا ئے ناؤ کو تو ہی پار لگائے !

عید

دلوں میں پیار جگانے کو عید آئی ہے ہنسو کہ ہنسنے ہنسانے کو عید آئی ہے

مسرّتوں کے خزانے دئے خدا نے ہمیں ترانے شکر کے گانے کو عید آئی ہے

مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے

خوشا کہ شیر و شکر ہو گئے گلے مل کر خلوصِ دل ہی دِکھا نے کو عید آئی ہے

اٹھا دو دوستو! اس دشمنی کو محفل سے شکا یتوں کے بھلا نے کو عید آئی ہے

کیا تھا عہد کہ خوشیاں جہاں میں بانٹیں گے اسی طلب کے نبھا نے کو عید آئی ہے

 

کچھوا دھیرے چلتاکیوں

بچّہ کچھوے بابا! کچھوے بابا! پیٹھ پہ پیالہ الٹا کیوں ؟ اک ٹوپی کے اندر ہی سر رہتا ہے دُبکا کیوں ؟ دھیرے دھیرے چلتے ہو ڈرے ڈرے سے رہتے ہو

کچھوا اوپر والے ہی نے مجھ کو جیسا بھی ہوں بنایا ہے خول حفاظت کی خاطر یہ آسمان سے آیا ہے میرا جرم ہے دھیرے چلنا کوئی اسکی سزا نہ دے راہ کا روڑا کہہ کر مجھ کو رستے ہی سے ہٹا نہ دے

اسی لئے میں ڈرتا ہوں خول میں دبکا رہتا ہوں

گرمی

گرمی کا موسم ہے آیا ساتھ میں لا یا کولر، پنکھے، اے ۔سی۔ شربت ، لسّی آئس کریم، چھٹّی اور آم تربوز اور خربوزے ٹھنڈے پانی کے مٹکے

گھبرائے چکرائے سارے لوگ ہیں گھر کے اندر اور اک گرم ہوا ہے، گھر سے باہر

دو پہر میں بھوکی پیاسی دھک دھک کرتی سڑکوں پر پھرتی دیوانی کون اسے سمجھائے؟ دشمن جیسا گرم ہے موسم تیز دھوپ کی چم چم کرتی

پھرتا ہے تلوار سنبھالے اس سے اگر تم بچنا چاہو کچھ ہتھیار سنبھالو خود بھی

نہتھے ہو کر گھر سے باہر اس طرح نہ قدم نکالو اپنے سر اور کانوں پر کچھ اوڑھو اور لپیٹو پانی پی لو دھوپ کا کالا چشمہ پہنو جان کا دشمن موسم ہے یہ پھر بھی نہ گھبراؤ!

گرمی کے ہیں مزے نرالے اس کی اپنی رنگینی اس کو گر تم سمجھ سکو تو لطف بھری ہے گرمی!

 

گیت نیا سا

نئی رتوں کی خاطر ہم سب آؤ کوئی گیت بنیں

بارش کا اک گیت لکھا تو پانی چھم چھم برسا گرمی کا جو راگ الاپا ٹھنڈی ٹھنڈی ہو اچلی سردی میںجو تان لگائی پائے اونی کپڑے ؛

پھر دھرتی پر کوئی نیا موسم ہے آیا ہر موسم کی شدّت سے بھی سخت ہے اس کی سفّاکی

آؤ دعا کا کوئی نغمہ ہم سب مل کر گائیں

امن، شانتی اور اخّوت ہمدردی ،ایثار ،محبّت، سب جذبوں کو انسانوں کے سینے میں جو بیج بنا کر بو دے پیڑ بنے پھر اس کا ایسا جس کی ٹھنڈی ،گھنی چھاؤں میں دہشت ،خون خرابہ اور نفرت کی اس دھوپ میں جھلسی زخمی دنیا پل دو پل تو سستائے ؛ صدیوں سے جاگی آنکھوں میں خواب سہانا سا لہرائے

آؤ !ایسا گیت بنیں جو پیاسی تپتی سرخ زمیں پر سوندھی مٹّی سے مہکا اک سرد ہوا کا جھونکا لائے

 

برسات آ گئی ہے

گرمی کے ظلم سے یہ دنیا دہک رہی تھی پیاسی زمین کب سے آکاش تک رہی تھی موسم کو کیا ہوا ہے پل میں بدل گیا ہے لُو بن کے چل رہی تھی یہ تو وہی ہوا ہے

دیکھو چلی ہوائیں چلّائیں سائیں سائیں بادل کو ساتھ اپنے ہر سمت لے کے جائیں تھم تھم چلے ہیں بادل ڈم ڈم بجے ہیں بادل کھولی ہے آسماں نے بادل کی اپنی چھاگل

پانی برس رہا ہے موسم یہ ہنس رہا ہے بارش میں بھیگتا ہے کیچڑ میں پھنس رہا بستے اٹھائے بچّے اسکول کو چلے ہیں کھیتوں کی سمت اپنے دہقاں نکل پڑے ہیں

ہر سمت پانی پانی ندیوں میں ہے روانی پنچھی چہک رہے ہیں خوشیوں کی ہے نشانی گرمی کو کھا گئی ہے ہر سمت چھا گئی ہے دل کو لبھا گئی ہے برسات آگئی ہے

برس رہا ہے پانی چھم چھم موسم نے کروٹ ہے بدلی آسمان پر چھائی بدلی سر سر سر سر ہوا چلی

بادل کے رتھ گھوڑے دوڑے بجلی نے ہتھ گولے چھوڑے برسے سب کے سر پہ ہتھوڑے

کڑکڑ کڑ کڑ بجلی چمکی منّی ڈر کر گھر میں دبکی اب تو سٹّی گم ہے سب کی

سوندھی سوندھی مہک اٹھی ہے پیڑ پہ چڑیا چہک اٹھی ہے ساری دھرتی لہک اٹھی ہے

پل بھر میں بدلاہے موسم گرمی کا اب ہوا قہر کم برس رہا ہے پانی چھم چھم

 

جاگو پیارے

چڑیا اپنی چونچ میں تھامے دال کا دانہ لائی ننّھی تتلی پر سے اپنے رنگ لپیٹے آئی سورج اپنے کاندھے پر کرنوں کا بھنڈار اٹھا کر لایا پھولوں کے دامن کو چھو کر ہوا معطّر ہو آئی پیڑ بھی اپنی شاخ شاخ پر لایا ہے پھل رنگ برنگے ذرّہ ذرّہ سر پر رکھ کر چیونٹا چیونٹی فوج بنا کر نکلے ، ہاکر ڈال گیا اخبار اس میں بھی یہ خبرچھپی ہے؛ بھری پری اس دنیا میں دن چڑھ آیا صبح ہوئی تو ساری دنیا اپنے کام پہ نکلی ! بس اک تم ہو بستر ہی میں سوئے پڑے ہو

سردی

تھر تھر کرتی آئی سردی اب کے برس تو حد ہی کردی اس کے اپنے الگ ہیں کپڑے اس کی اپنی وردی بوٹ کوٹ اور سویٹر مفلر سبھی پہن کر نکلے باہر تھر تھر تھر تھر کوئی کانپتا بیٹھ کے کوئی آگ تاپتا کٹ کٹ کٹ کٹ دانت بجاتے بچّے ہیں اسکول کو جاتے کانپے ڈر کر سردی سے ہم بھایا پھر بھی یہ موسم
ٹوپی
ٹوپی سے عزّت ہے ملتی کام سے لیکن باقی رہتی بھانت بھانت کی رنگ برنگی جیسے لوگ ہیں ویسی ٹوپی

سالِ نو مبارک

مبارک مبارک نیا سال سب کو نہ چاہا تھا ہم نے تو ہم سے جدا ہو مگر کس نے روکا ہے بہتی ہوا کو جو ہم چاہتے ہیں وہ کیسے بھلا ہو اے جاتے برس! تجھ کو سونپا خدا کو مبارک مبارک نیا سال سب کو مبارک گھڑی میں یہ ہم عہد کر لیں بصد شان ہم زندگی میں سنور لیں گلوں کی طرح گلستاں میں نکھر لیں بنیں ہم بھی سورج گگن میں ابھر لیں مبارک مبارک نیا سال سب کو اندھیروں نے لوٹی اجالوں کی دولت اڑا لے گیا وقت اک خوابِ راحت نہ لوٹے گی بیتی ہوئی کوئی ساعت جو اب بھی نہ جاگے تو ہوگی قیامت مبارک مبارک نیا سال سب کو امیدیں ہیں راہیں عزائم سواری خبر دے رہی ہے یہ بادِ بہاری مہکتی ہوئی منزلیں پیاری پیاری کہ صدیوں سے تکتی ہیں راہیں ہماری مبارک مبارک نیا سال سب کو مبارک مبارک نیا سال سب کو

تارے بن کر چمکے ہم

چمک چمک کر بولے رات ستارے ’ڈوبا ہے اندھیارے میں دنیا کا ہر اک گوشہ تم ہو کیوں چپ چاپ پڑے ہم جیسا تم چمکونا ! چمکونا ، چمکونا ، چمکونا !‘

نکلے تارہ بن کر ہم چمکے ہم ، چمکے ہم

باغ میں ننھا پھول کھلا بولا ہم سے :’ مہکو نا تیز سواری ہے یہ ہوا خوشبو اس پر لدوا دو گھر گھر خوشبو پہنچا دو تم بھی ہم سا مہکو نا ‘

ہاں بھائی ہاں! کہہ کے ہم پھولوں جیسے مہکے ہم

چوں چوں کرتی اک چڑیا دیکھ کے ہم کو یہ بولی : ’ٹوٹے دل کو نہ غم دو تم لوگوں کو مرہم دو بات ہمیشہ بھلی کہو تم بھی مجھ سا چہکو نا ‘

کب تک چپ چپ رہتے ہم چڑیا جیسے چہکے ہم

چڑیا جیسے چہک اٹھے پھول بنے اور مہک اٹھے بن کر تارا چمک اٹھے 

آگے بڑھتے جائیں گے

آکاش کھلا ہے آؤ چلو مٹّھی میں سورج بھرلو چاند ستاروں کو چھولو ہم یہ کر کے دکھائیں گے آگے بڑھتے جائیں گے مشکل سے گھبرائیں کیا خطروں سے ڈر جائیں کیا ہارے تو شرمائیں کیا آگے بڑھتے جائیں گے جیون ہے اک بار ملا جینے کو سنسار ملا ہر اک سے ہے پیار ملا ہم قرض بھی یہ لوٹائیں گے آگے بڑھتے جائیں گے جینا ہے بے مقصد کب کہتا ہے یہ ہم سے رب وہ راضی تو اپنا سب اس کو خوش کر جائیں گے آگے بڑھتے جائیں گے جیت کے اک دن آئیں گے

 

دروازے

گر نہ ہوتے مکاں میں دروازے ہم بھلا گھر میں کس طرح جاتے روشنی اور ہوا یہ لاتے ہیں دھوپ سردی سے یہ بچاتے ہیں گھر کے سامان کے ہیں رکھوالے ورنہ ہم ڈالتے کہاں تالے ان سے گھر میں ہمارے راحت ہے چور اچکّوں سے یہ حفاظت ہے آنے والوں کا راستہ دیکھیں جانے والوں کو الوداع کہہ دیں ان سے گزرے ہوا لئے خوشبو روشنی ، تازگی ،کھنک ہر ُسو گھر میں چین و سکوں محبّت ہے ان سے محفوظ گھر کی عزّت ہے رونقیں ان کے دم سے گھر بھر میں آنکھ روشن ہے جیسے اک در میں

استاد ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے ان ہی سے ہیں افراد ضیاءبار ہمارے جینے کا سلیقہ بھی ہمیں ان سے ملا ہے احساسِ عمل ،فکر بھی ان ہی کی عطا ہے ان ہی کی ہے تعلیم جو عرفانِ خدا ہے ان ہی سے معطّر ہوئے افکار ہمارے استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے تاریک ہوں راہیں تو یہی راہ سجھائیں اسرارِ دو عالم سے یہ پردوں کو اٹھائیں سوئی ہوئی قوموں میں یہ ہمّت کو جگائیں رہبر بھی یہ ،ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے اک نور کا مینار لبِ ساحلِ دریا اک مشعلِ بیدار سرِ وادیِ صحرا ہے ظلمتِ آفاق میں بس ایک ستارہ ہے دستِ نگر ان کے بھی شہکار ہمارے استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے ان ہی سے ہیں افراد ضیاءبار ہمارے

مرزاغالب اورآم

مرزا غالب، اردو کے شاعر آموں کے بھی رسیا تھے اک دن اک صاحب کے ساتھ جنھیں آموں سے اتنی ہی چڑ تھی بیٹھے گفتگو فرمارہے تھے غالب آموں کی خوبیاں اور وہ خامیاں گنوا رہے تھے تبھی سڑک سے گزرتے ہوئے چند گدھوں نے وہاں پڑے ہوئے آم کے چھلکوں کو سونگھا اور یہ دیکھ کر کہ آم ہیں (کچھ خاص نہیں) آگے نکل گئے وہ صاحب اچھل کر بولے
دیکھا غالب

پتہ نہیں تمہیں آم ہیں کیوں اتنے بھاتے ارے ! آم تو گدھے تک نہیں کھاتے مرزا غالب نے سر ہلا کر فرمایا ہاں حضور ! آپ سچ ہی ہیں فرماتے بے شک، گدھے آم نہیں کھاتے !

میری گڑیا

میری گڑیا سندر پیاری پہنے لال کلر کی ساری

ہونٹ نہ اپنے کبھی ہلائے پلکیں بھی نہ جھپکائے پاس نہ آئے ، دور نہ جائے

پھر بھی ایسا کیوں لگتا ہے جیسے چہرہ بول رہا ہے آنکھ بھی اسکی زندہ ہے

جب بھی اسکی یاد آئی ہے تب وہ میرے پاس کھڑی ہے کتنی اس کی عمر بڑی ہے؟

میری گڑیا سندر پیاری پہنے لال کلر کی ساری

پتنگ

دھرتی کا پیغام لئے چلی ہوا میں اڑی گگن میں دیکھنے والے رہ گئے دنگ!

اتنی سی تو جان ہے یہ اڑنے کا ارمان ہے یہ آسمان کو چھونے کا کرتی ہے سپنا پورا دھرتی سے لو دورہوئی پھر بھی نہیں توڑے اس نے مٹّی سے اپنے بندھن اک دھاگے کے بل پر یہ دھرتی سے ہے جڑی ہوئی

دھرتی کو آکاش سے میں ملواتا ہوں اس کے سنگ دیکھو دیکھو اڑی پتنگ!

ممّی پاپا

٭ گاڑی کے دو پہیوں جیسے میرے ممّی پاپا سائیکل جیسا چلتا پھرتا لگتا ہے یہ گھر ؛ برسوں ان کے ساتھ رہے ہم ان سے سیکھا مل جل کر سب کو اپنانا کام سبھی کے آنا آگے بڑھتے جانا ٭ چندا سورج جیسے دونوں روشن ان ہی سے ہے میرے گھر کا یہ آکاش سکھ دکھ میں یہ بڑا سہارا ، ایک بڑا آدھار بارش جیسا ہم پر برسے ان کا پیار دلار ٭ باغ کے جیسا گھر ہے اپنا ممّی پاپا مالی اس کے پیڑوں کی کرتے ہیں دھیان سے یہ رکھوالی ممّی پاپا سے ہے ہم نے پیار بہت سا پایا ان ہی کے سائے میں رہ کر ہم کو جینا آیا

پوچھو کیوں ؟

ڈال پہ بیٹھی اک چڑیا گاتی ہے چوں چوں چوں پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

باغ میں ہے اک پھول کھلا ہرسو سبزہ ہرابھرا جھرنے کا پانی بہتا بول رہا ہے کابک میں ایک کبوتر غٹرغوں پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

مہکی مہکی ہوا چلی اٹھلاتی ہے اک تتلی نیل گگن میں پتنگ اڑی پنکھ پسارے جنگل میں مور کرے پیہوں پیہوں پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

بوند آسماں سے ٹپکی سوندھی سوندھی مہک اٹھی بادل میں ہے دھنک تنی پچھواڑے گلیارے میں کتّا بھونکا بھوں بھوں بھوں پوچھو، پوچھو، پوچھو کیوں؟

مالک ڈنڈا برسایا کتّا کوئی نیا آیا چور کو کوئی دوڑایا آج اچانک صبح صبح بلّی بولی میاؤں میاؤں میاؤں پوچھو ، پوچھو ، پوچھو کیوں؟

مکّھن دودھ نظر آیا پیار سے کوئی سہلایا یا پھر بلّا غرّایا!

آؤ پیڑ لگائیں

آؤ بچائیں اس دھرتی کو کمہلانے سے برساتوں کو رک جانے سے ہرے بھرے ہر منظر کو دھوئیں کے اندر کھو جانے سے

آؤ پیڑ لگائیں ! اس دھرتی کو خوب سجائیں ہرے بھرے ان پیڑوں کی جھنڈی لے کر بادلوں کی رکی ہوئی ٹرین کے آگے لہرائیں آؤ ہم سب پیڑ لگائیں 

پیڑنہ کٹنے پائے

پھولوں سے ہر شاخ لدی ہے ٹھنڈک ہر سو پھیل رہی ہے دنیا ان سے ہری بھری ہے

پیڑ ہمارے ہمسائے دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

چین و سکوں ان ہی سے پایا اس دھرتی کا یہ سرمایہ دھوپ میں تپ کر دیں یہ سایہ

جینے کا انداز سکھائے دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

دور دور سے پنچھی آئیں پیڑ پہ بیٹھیں گیت سنائیں سرد پڑی ہیں گرم ہوائیں

پیڑ پھلوں کے تحفے لائے دیکھو پیڑ نہ کٹنے پائے

نغمۂ استقبالیہ

یہی ہے راہِ معرفت ، ہے منزلوں کا یہ نشاں ہے فکرو فن کا یہ جہاں ، یہ حکمتوں کا راز داں یہ علم کی ہے سر زمیں ، فضیلتوں کا آسماں مہک اٹھی فضائیں بھی ہر ایک سمت روشنی مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی خوش آمدید خوش آمدید قدم قدم ہے فرش گل ،نظر نظر ہے کہکشاں نگاہِ دلنواز میں بلندیاں ، تجلّیاں ہے اک خرا مِ ناز سے یہ قافلہ رواں دواں دیارِ علم و فضل میں ہے آمد اک بہار کی مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی خوش آمدید خوش آمدید یہ پتّیاں ، یہ کونپلیں ، یہ برگِ گل ،رویدگی یہ فرشِ خاک ، یہ زمیں ، نموپذیر زندگی بشارتِ جہانِ نو ، نوید ہے بہار کی نگاہ و دل ہے فرشِ گل ،ان آہٹوں پہ آپ کی مرحبا اس انجمن میں آمد آپ کی خوش آمدید خوش آمدید

یومِ آزادی

آزاد یہ زمیں ہے آزاد یہ گگن ہے آزاد ہیں ہوائیں آزاد یہ چمن ہے دامن میں بھر کے اپنے خوشیاں ہزار لایا تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آزاد ہم ہوئے تھے تفریقِ من و تو سے آزادیاں ملیں ،جب سینچی زمیں لہو سے اہلِ وطن کو جینا تب سازگار آیا تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باپو کی آس ہے یہ نہرو کا خواب ہے یہ آزاد کی تمنّا اک آفتاب ہے یہ بامِ افق ہے روشن اک زرنگار آیا تاریخ ِہند میں یہ دن یاد گار آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ راتیں وہ ڈھل چکیں ہیں راہیں کھلی ہوئی ہیں کچھ دور منزلیں ہیں آواز دے رہی ہیں اجڑے ہوئے چمن میں بن کر بہار آیا

تاریخِ ہند میں یہ دن یاد گار آیا

اے میرے پیارے وطن

اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں یہ جہاں اک شہر ہے ، تیری زمیں ہے گلستاں

گاندھی نہرو کی زمیں ،سردار و جوہر کا وطن دھرتی یہ آزاد کی ، آزاد ہے اس کا گگن امرت ہے یہ گنگ و جمن، باغِ عدن اس کے چمن

عکس تاروں کا تیرے ذرّوں میں اب بھی ہے نہاں اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

حال بھی تو ہی میرا ،تو ہی میرے خوابوں کا کل تو میرا ارمان ہے ، آموجۂ خوں میں مچل آمیری آواز بن ، آجا میرے نغموں میں ڈھل

میری آواز و قلم سب ہی ہیں تیرے نغمہ خواں اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

ایک ہے یہ گلستاں ،گو رنگ و بو ئے گل جدا ایک ہیں بندے سبھی ، اور ایک ہے ان کا خدا ایکتا کے درس سے مہکی ہوئی اس کی فضا

تیرے دامن میں نہاں ہے آرزوؤں کا جہاں اے میرے پیارے وطن ، جنّت نشاں ہندوستاں

میرا بھارت مہان

م محبّت ہمیں اپنے پیارے وطن سے ی یہاں کی زمیں سے یہاں کے گگن سے ر رہے اس کی قسمت کا اونچا ستارہ ا اسے رہبری کا ہو حاصل اجارہ

بھ بھٹکتی ہے تاریکیوں میں یہ دنیا ا اسے ہند سے ہو میسّر اجالا ر رہی یہ زمیں علم و عرفاں کا مسکن ت تمدّن کا تہذیب و الفت کا گلشن

م ملے اس کی ندیوں میں امرت کے دھارے ہ ہمالہ سے اونچے عزائم ہمارے ا الگ ہے زمانے سے انداز اپنا ن نرالے ہیں نغمے، جدا ساز اپنا

پایا پھر ملیں گے اگر خدا لایا

الوداع

(تضمین) )اسکول میں الوداعی تقریب میں پیش کی گئی ایک نظم( اشک آنکھوں میں جھلملائے ہوئے دل میں طوفان اک اٹھائے ہوئے لبِ اظہار تھر تھر ائے ہوئے کیسا لمحہ یہ وقت لے آیا پھر ملیں گے اگر خدا لایا لطف و مہر و وفا بھری باتیں علم و دانش ادب کی سوغاتیں جگمگائیں گی عمر بھر یادیں ساتھ لے جائیں گے یہ سرمایہ پھر ملیں گے اگر خدا لایا اے میری درس گاہِ عرفاں جو تجھ سے ہے علم کی ضیاءہر سو میرے کردار میں تری خوشبو تجھ سے رازِ حیات ہے
 

اگلا صفحہ      پچھلا صفحہ

 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved