(پاکستان کے موجودہ حالات پر ایک نظم)
محفوظ نہیں گھر بندوں کے، اللہ کے گھر محفوظ نہیں
اس آگ اور خون کی ہو لی میں ، اب کو ئی بشر محفوظ نہیں
شعلوں کی تپش بڑھتے بڑھتے ہر آنگن تک آ پہنچی ہے
اب پھول جھلستے جا تے ہیں ، پیڑوں پہ شجر محفو ظ نہیں
کل تک تھا سکوں جن شہروں میں، وہ موت کی دستک سنتے ہیں
ہر روز دھما کے ہو تے ہیں ، اب کوئی نگر محفو ظ نہیں
دن رات بھڑکتی دوزخ میں جسموں کا ایندھن پڑتا ہے
کیا زکر ہو عام انسانوں کا ، خود فتنہ گر محفو ظ نہیں
آ باد مکاں اک لمحے میں ویران کھنڈر بن جاتے ہیں
دیوار و در محفوظ نہیں، اور زید و بکر محفوظ نہیں
۲
شمشان بنے کوچے گلیاں، ہر سمت مچی ہے آہ و فغاں
فریاد ہے ماﺅں بہنوں کی، اب لخت جگر محفو ظ نہیں
انسان کو ڈر انسانوں سے، انسان نما حیوانوں سے
محفو ظ نہیں سر پر شملے، شملوں میں سر محفوظ نہیں
پہرے ہیں کلا شنکو فوں کے، ہر ایک گلی کے نکڑ پر
آنگن میں شجر محفوظ نہیں، شانوں پر سر محفو ظ نہیں
مہنگا ہو اگر آ ٹا عر شی اور خو د کش جیکٹ سستی ہو
پھر موت کا بھنگڑ ا ہوتا ہے، پھر کوئی بشر محفو ظ نہیں
اک استغفا ر کا نسخہ ہے اس کو بھی برت لو نادانو
مت ناز کرو تدبیروں پر ، یہ راہ گذر محفو ظ نہیں
اے کاش کہ قوم یو نسؑ کی تقلید کی ہو تو فیق ہمیں
وہ آہ سحر محفو ظ نہیں ، وہ دیدئہ تر محفو ظ نہیں
جب با نجھ ہوں آنکھیں ا شکوں سے دل قبر کی صورت ویراں ہوں
جب پست ہو مقصد جینے کا ، تب حسن بشر محفو ظ نہیں |