اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 اگر آپ پڑھنے میں دشواری  محسوس کر رہے ہیں تو فونٹ ڈاون لوڈ کیجے۔۔۔

ارشاد عرشی ملک اسلام آباد پاکستان

شاعرہ عرشی ملک کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

   

arshimalik50@hotmail.com
 

     
 شاعرو ! نغمہ گرو ! جاگو۔۔۔

ہم چُپ رہے

پینسل اور انسان

باپ بیٹا اور چڑیا

شا نوں پر سر محفوظ نہیں

داتا دربار پر حملہ

باپ بیٹا اور چڑیا


ایک دن ایک باپ اور بیٹا
باغ میں اپنے گھر کے بیٹھے تھے
باپ بوڑھا سا ناتواں سا تھا
اور بیٹا حسیں جواں سا تھا
ہاتھ میں تھی کتاب بیٹے کے
باپ بوڑھا فضا میں تکتا تھا
کم تھی بینائی اس کی آنکھوں کی
یونہی بیٹھا خلا میں تکتا تھا
................................
دفعتاً آس پاس پھولوں کے
ایک چڑیا کہیں سے آ بیٹھی
باپ بے اختیار بول اٹھا
دیکھو دیکھو ذرا وہ شے کیا ہے؟
میرے بیٹے وہ سامنے کیا ہے؟
بے نیازی سے نوجواں بولا
ایک چڑیا ہے وہ مرے ابا
............................
چند لمحوں کے بعد وہ چڑیا
اُڑ کے اک جھاڑ کی طرف آئی
باغ کی باڑ کی طرف آئی
منہ سے پھر باپ کے یہی نکلا
دیکھو دیکھو ذرا وہ شے کیا ہے؟
میرے بیٹے وہ سامنے کیا ہے؟
چڑ کے بولا وہ نوجواں لڑکا
باپ میرے وہ ایک چڑیا ہے
کہہ چکا ہوں وہ ایک چڑیا ہے
................................
چند لمحے اسی طرح بیتے
اڑ کے چڑیا وہ گھاس پر آئی
اور لینے لگی وہ انگڑائی
باپ نے اس کو غور سے دیکھا
اپنے چشمے کی اور سے دیکھا
چُھو کے بیٹے کی بانہہ کو بولا
دیکھو دیکھو ذرا وہ شے کیا ہے؟
میرے بیٹے وہ سامنے کیا ہے؟
اب کے بیٹا بھڑک گیا یکدم
چیخ کر اس طرح ہوا گویا
کیوں مرا صبر آزماتے ہیں
بے وجہ کیوں مجھے چڑاتے ہیں
کہہ چکا ہوں وہ ایک چڑیا ہے
ایک چڑیا ہے ایک چڑیا ہے
................................
ہائے افسوس پھر وہی چڑیا
اُڑ کے قدموں میں باپ کے آئی
اس نے کھانے کی کوئی شے پائی
باپ بے اختیار بول اٹھا
دیکھو دیکھو ذرا یہ شے کیا ہے؟
میرے پاﺅں کے پاس یہ کیا ہے؟
یہ سوال اب نہ سہہ سکا بیٹا
اپنی حد میں نہ رہ سکا بیٹا
اب کے آپے سے ہو گیا باہر
ایک لمحے میں بن گیا قاہر
طیش میں یک بیک بہت آیا
پھاڑ کر پھر گلے کو چِلایا
کیسے بتلاﺅں میں وہ چڑیا ہے
کیسے سمجھاﺅں میں وہ چڑیا ہے
”چ“سے چڑیا ہے،”چ“ سے چڑیا ہے
وہ ہے چڑیا وہ ایک چڑیا ہے
آخری بار کہہ رہا ہوں میں
اک مصیبت کو سہہ رہا ہوں میں
کس جہنم میں رہ رہا ہوں میں
جانے کیا چیز یہ بڑھاپا ہے
یہ بڑھاپا نرا سیاپا ہے
................................
سُن کے یہ دھاڑ باپ کانپ گیا
اُکھڑے قدموں سے گھر کی سمت چلا
چند لمحوں کے بعد لوٹ آیا
ہاتھ میں اک کتاب سی لایا
دے کے بیٹے کے ہاتھ میں اس کو
اس سے کہنے لگا پڑھو اس کو
اتنا اونچا پڑھو کہ میں سُن لوں
............................
اس گھڑی نوجوان نے دیکھی
ایک تحریر اپنے والد کی
جو تھی پچیس سال پہلے کی
باپ کی ڈائری تھی وہ عرشی
زیرِ عنواں لکھا تھا ”چڑیا“ کے
آج لخت ِ جگر میراچھوٹا
خیر سے تین سال کا ہے ہوا
جب سے سیکھا ہے بولنا اس نے
رس کو کانوں میں گھولنا اس نے
ہر گھڑی بولتا ہی جاتا ہے
بے پنہ پیار اس پہ آتا ہے
................................
آج سہ پہر کو میرا بیٹا
ساتھ میرے تھا باغ میں بیٹھا
دفعتاً آ گئی وہاں چڑیا
مجھ سے کہنے لگا مرا بیٹا
دیکھو دیکھو ذرا وہ شے کیا ہے؟
میرے بابا وہ سامنے کیا ہے؟
چوم کر اس کا چاند سا ماتھا
میں بتاتا رہا وہ چڑیا ہے
گو تھا اس کا سوال سادہ سا
اس نے پر تیس بار پوچھا تھا
اور ہر بار چوم کر اس کو
اپنی بانہوں میں بھینچ کر اس کو
میں بتاتا رہا وہ چڑیا ہے
............................
پھر میں کرتا تھا ہنس کے چُوں ،چُوں، چُوں
نقل کرتا تھا وہ بھی جوں کی توں
ہر دفعہ جب اسے بتاتا تھا
اک نیا لطف مجھ کو آتا تھا
اس نے پوچھا تھا صرف تیس دفعہ
گر وہ سو بار پوچھتا مجھ سے
میں نہ تھکتا کبھی بتانے سے
................................
جب یہ اوراق پڑھ چکا بیٹا
شرم سے سر جھکا لیا اس نے
لفظ ہونٹوں سے اک نہیں نکلا
صرف آنکھوں میں آ گئے آنسو
باپ سے یہ بھی نہ گیا دیکھا
اس کے ماتھے پہ دے دیا بوسہ

....................................