مرے عہدِ زبوں کے شاعرو ! نغمہ گرو ! جاگو
اُٹھو ! جس دور میں جیتے ہو اس کا حال بھی لکھو
ذرا آنکھیں تو کھولو، صورتِ احوال بھی لکھو
نئے لہجے میں بولو اور نئی امثال بھی لکھو
....................................
سنا ہے شاعری ،پیغمبری کا جزو ہوتی ہے
ِ یہ اک پختہ گواہی ہے ضمیرِآدمیت کی
جبھی تو کشف اور الہام کے پایہ کا موتی ہے
....................................
نہیں تم دیکھتے سب کو دکھائی دے رہا ہے جو؟
نہیں تم نے سنا سب کو سنائی دے رہا ہے جو؟
کوئی آسیب ہے پیہم دہائی دے رہا ہے جو
................................
یہ دروازے شکستہ ہیں،نہ سہہ پائیں گے جھٹکا بھی
دہل دل جاتے ہیں دل ماﺅں کے سن کر ایک کھٹکا بھی
صلیبِ دہشت و ذلت پہ ہے مصلوب کُل خلقت
عجب نا مردمی ہے خود سے ہے محجوب کُل خلقت
شکنجے میں ستم رانوں کے ہے مغلوب کُل خلقت
........................................
دھکیلے جا چکے ہیں لوگ اب دیوار کی حد تک
وہ تنگ بجنگ آمدہیں اب بےزار کی حد تک
نہیںہیں تلخیاں محدود اب گفتار کی حد تک
بہت سے آچکے ہیں اب فرازِ دار کی حد تک
یہ طوفاں جب اٹھا،سب کچھ بہا لے جائے گا اب کے
جو اندازے ہیں یہ ان سے سوا ،لے جائے گا اب کے
کوئی امید اب زندہ ،نہ کوئی آس باقی ہے
مسلسل ذلتوں کا ہر گھڑی احساس با قی ہے
شکم میں بھوک باقی ہے ،لبوں پر پیاس باقی ہے
........................................
بہت جب بھوک بڑھ جائے تو پھر بس میں نہیں رہتی
سلگ اُٹھتی ہے جب تیلی تو ماچس میں نہیں رہتی
وضع داری کے رسمی بندھنوں کو کاٹ دیتی ہے
یہ انسانی لہو کا ذائقہ تک چاٹ لیتی ہے
............................................
مرے نغمہ گرو !جاگو ! حقائق کا بیاں لکھّو
خدارا مصلحت کا، اب ترازو ہاتھ سے رکھ دو
قلم کا پاس رکھو جو عیاں ہے یا نہاں لکھّو
اجاڑے جو بھی گلشن کو اسے مت باغباں لکھّو
لٹیروں ،راہزنوں کو اب نہ میرِ کارواں لکھّو
لکھو کانٹوں کو تم کانٹے ، نہ پھولوں کی دُکاں لکھّو
سُرابوں کو نہ اب بھولے سے بھی آبِ رواں لکھّو
جگالی چھوڑ دو برتے ہوئے الفاظ کی پیارو
تم ان بے ذائقہ لفظوں کو اب کتنا چباﺅ گے؟
کتابی علم کے دلدل میں کب تک کلبلاﺅ گے؟
............................................
|