اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- (416) 937 5547

Email:-balandiqbalmd@yahoo.ca
 

مصنف کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 
 
چاند پر موت
 

تحریر--------- ڈاکٹر بلند اقبال

”بس تھوڑی ہی دیر کے لیے زمین کا دل کانپا تھا اور پھر اُس کا سینہ چھلنی ہوتا چلا گیا۔
فضاءبے بسی سے زمین کو کٹتے دیکھنے لگی ۔ آگ اور د ھویں کا ایک طوفان تھا جو اُس کے چٹان جیسے سینے سے نکل کر ارد گرد کی فضاءکا دم گھونٹ رہا تھا۔آگ کی لپٹیں زمین کو تہہ د ر تہہ جلا رہی تھیں۔ اُس کی کوکھ جو کھربوں اربوں سالوں سے سکون و آشتی کاسمندر چھپائے بیٹھی تھی لمحے بھر میں ایک اَن دیکھے عذاب کا نشانہ بن گئی اور اب ایک ایسی بانجھ کوکھ کی شکل میں ڈھل گئی تھی جسے جنم جنم سکون کی خواہش میں جلنا تھا ۔”زندگی موت کی بھی تو ہوتی ہے“ روتی ہوئی فضاءنے زمین کو بلکتے دیکھ کر دلاسہ دیا اور پھر ہوا کی شکل میںبکھرنے لگی ۔ز مین نے پہلی بار وقت کا مزا چکھا اور لا متناہی سے متناہی ہونے لگی ،پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے دامن میں صدیاں سمٹنے لگی۔“
یہ کہہ کر دادا نے ایک گہری سانس لی اور بادلوں کو تکنے لگا پھر کچھ ہی لمحوں بعد اپنی ڈبڈبا ئی آنکھوں سے آسمان پر چاند کو ڈھونڈنے لگا مگر بادل کچھ اس طرح تہہ در تہہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے تھے جیسے وہ چاند رات نہیں بلکہ اماوس کی رات ہو ۔چاند کو نہ پاکر دادا نے مایوسی سے ا پنی آنکھیں بند کرلیں اور ایک بار پھر کھوئے ہوئے منظر سے خود کو جوڑنے کی کوشش کرنے لگا ۔چارپائی کے بان بوڑھے داداکے بوجھ سے پل بھر کے لیے چرچرا ئے اور اپنی کھوئی ہوئی نیند ڈھونڈنے لگے مگرچارپائی کے بانوں کی آواز سن کر دادا کا پوتا کسمسا ساگیا اور پھر دادا کا دامن کھینچ کر پوچھنے لگا ۔۔”دادا پھر زمین کا کیا بنا ؟ “
”۔۔۔ فضاءہوا میں ڈھلی ، پہلے پہل تو بہت ہی بھڑکی اور اپنی آگ میں خوب ہی جلی مگر پھر زمین کے کرب میں اشکبار ہوتی چلی گئی اور بالاخر پانی پانی ہو نے لگی ۔ آگ جو ٹھنڈی ہوئی ،زمین کی کوکھ پھر سے ہری ہونے لگی ۔ہر طرف سبزہ اُگنے لگا پھر اُس میں مور بھی ناچنے لگے۔ چپکے چپکے زمین کاسینہ دودھ سے بھرنے لگا ۔ممتا کی ماری اپنا کرب بھول کر سانپوں کو دودھ پلانے لگی۔ © ©’ ’بانجھ کوکھ سے ،کرب پیدا ہوتا ہے ، امن و سکون نہیں “ فضا ءنے زمین کی تنبیہ کی مگر جیسے شکاری کے جال میں کسی بے بس پرندے کی طرح، وہ تخلیق اور ممتا کے درمیان محض پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔دوسری طرف زمین آستینوں کے سانپ پیدا کرنے لگی جو انسا نوں کی شکل میں تھے اور اپنے پوٹوں میں زہر چھپائے بیٹھے تھے۔ “
یہ سُن کر پوتے نے اپنی دونوں آستنیوں سے ہاتھ نکال لیے اور دادا کے دامن کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ لیا ۔دادا نے پیار سے پوتے کو سہلایا اور دھیمے سے دلاسا دیا ۔۔ © © © ©” جیسے تم مجھ سے جڑے ہو میرے پوتے ، گزرے اور آنے والے وقتوں کی طرح دامن بھی آستیوں سے سلے ہوتے ہیں ، ۔۔ ‘ ‘ ایک لمحے کے لیے امید کی کوئی انجانی کرن پوتے کی خوابیدہ آنکھوں میں چمکی مگر پھر اماوس کے گہرے اندھیرے میں ڈوبتی چلی گئی کیونکہ دادا کی پلکوں کا آنسو جو چاند کی طرح چمک رہا تھا وہ اصل میں چاند نہیں تھا ۔چاند تو واقعی تہہ در تہہ
بادلوں تلے چھپا ہوا تھا ۔پوتے نے غمناک آواز میں دادا سے پوچھا ۔۔”اچھا پھر زمین کا کیا بنا ؟“
”۔۔۔فضا ءزہریلی ہواﺅں سے بھرنے لگی ۔زمین کے آستین کے سانپ اُسے ڈسنے لگے اور اُس کی کوکھ کو سانپوں سے بھرنے لگے۔اُن کے زہر سے فضاءایسی آلودہ ہوئی کہ خود اُس کے لیے بھی سانس لینا مشکل ہوتا چلا گیا۔اِن آستین کے سانپوں نے زمین کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور پھر وہ ایک دوسرے کے بچوں کو کھانے کے لیے اپنے قد سے بڑے ناگ اور اژدھے بنانے لگے جو اپنے منہ سے ہر رنگ کی آگ پھینکتے تھے اور لمحے بھر میں کھربوں اربوں ز ند گیوں کو موت سے بدل دیتے تھے۔زمین کے سینے کو آگ سے بھر دیتے تھے اور اُس کی کوکھ سے وہ نفرت پیدا کرتے کہ زمین بانجھ کو کھ کی خواہش میں رونے لگتی تھی ۔“
بوڑھا دادا یہ کہ کر بلک بلک کر رونے لگا اورپھر آسمان کی طرف دیکھ کر سسکیاں بھرنے لگا۔اچانک پوتے کو لگا جسے دادا کے آنسووں میں چاند چمک رہاہو ۔پوتے نے بےتابی سے دادا کا دامن کھینچا اور کہا۔۔”دادا چاندنکل آیا۔“ بوڈھے دادا نے سر اُٹھا کر چاند کو دیکھا تو اُس کا چہرہ خوف سے فق ہوگیا۔۔زمین کا ایک ناگ چاند کے سینے کو چیر رہا تھا ۔
لمحے بھر کے لیے چاند کا دل کانپا اور پھر اُس کا سینہ بھی چھلنی ہوتا چلا گیا ۔
چاند پر کے بادل ایک کے پیچھے ایک چھپ رہے تھے ۔آگ اور دھویں کا ایک طوفان تھا جو اُس کے چٹان جیسے سینے سے نکل کر آس پاس کے بادلوں کا دم گھونٹ رہا تھا۔آگ کی لپٹیں اُس کو تہہ در تہہ کو جلا رہی تھی ۔۔۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved