اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانے
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- (416) 937 5547

Email:-balandiqbalmd@yahoo.ca
 

مصنف کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 
 
 میو ٹیشن(Mutation)
 

تحریر--------- ڈاکٹر بلند اقبال

کوئی کچھ بھی کہے مگر سچ تو یہی تھا کہ اس میں علی بخش کا کچھ بھی قصور نہیں تھا وہ تو اور مردوں کی طرح اپنے باپ کے Y کر وموسوم اور ماں کے X کروموسوم سے ملکر ہی بناتھا ۔ خلیوں کی تقسیم بھی درست تھی اور نیوکلیس کے ملاپ بھی۔ جینز

(Genes)

 کی تر تیب بھی سہی تھی اور الیلز

(Alleles)

کی ساخت بھی ۔ بس کوئی آوارہ کوانزائیم

(Co-Enzyme )

تھا جو عین وقت پرمیٹا بولزم

(Metabolism)

میں حصہ نہ لے سکا اور بنا آواز کے اپنے ارتقاءسے ہی خارج

(Delete)

ہوگیا اور علی بخش کے سیکس ہارمونز کے رسپٹرز

( Receptors )

کی شکل بدل گیا ۔ اس قیامت کا نہ تو علی بخش کو ہی پتہ چلا اور نہ ہی اُس کے باپ مولوی کریم بخش کو۔
پھرمحلے میںعلی بخش کی پیدائش پر خوب ہی لڈو بٹے ، کان میں آذان ہوئی اور پھر رسم مِسلمانی۔مولوی کریم بخش نے دونوں ہاتھ جوڈکر خداوند ِکریم سے رحمتوں کی گڑگڑاکر بھیک مانگی اور پوری عاجزی سے اپنے پیارے بیٹے کو دین کی بھلائی اور خلق ِخدائی کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی ٹھانی ۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلے ۔ مولوی کریم بخش نے بیٹے کی تربیت میں کوئی بھی کسر نہ چھوڑی ۔ پاکیزہ مذہبی ماحول اوراعلیٰ مشرقی تربیت کے اثرا ت علی بخش کے جملہ کردار میں جھلکتے تھے ۔کردار کے اثرات چہرے مہرے پر بھی جیسے چاند سورج بن کر چمکتے تھے ۔ابھی وہ گیارہ سال ہی کے تھے کہ قرآن پاک حفظ کر لیا اور پھر تبلیغ الہیٰ کہ اصرارو رموز سے واقفیت کی غرض سے کبھی باپ کے ساتھ اور کبھی اُن کے ر فقاءکار کے دامن کو تھام کر دور دراز کے شہروں اور گاﺅوں کے چکر لگانے لگے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے
ارد گرد کے ماحول اور تر بیت نے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ تحریر و تقریر میں بلا غت آتی چلی گئی۔ ا لفاظ بے تکان لبوں سے نکلتے اور اثرات اس قدرجذباتی شدت اورمذہبی حدت سے بھرے ہوتے کہ سُننے والوں پر ر قت سا طاری ہوجاتا ، دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے دل تصور ِ و حدانیت سے ملول ہوجاتے، آنکھیں عشق ِرسول سے نم ہوجاتیں اور سر رکوع میں خم ہوجاتے۔جب جب رفقاءکرام نجی محفلوں میںکم عمر بیٹے کی امامت و بلاغت کا تزکرہ مولوی کریم بخش سے کرتے تو اُن کی پیشانی خداوندِ پاک کی باردگاہ میں شکرانے کے لیے سجدہ ریز ہوجاتی اور گڑ گڑا کر اُس کی رحمتوں پر شکر گزار ہو جا تی۔۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے علی بخش کا بچپن جوانی کی دہلیز کو چھونے لگا اور پھرایک رات اُن کے قدو کاٹھ نے جوانی کی جو بھرپور انگڑائی لی تو جیسے ادھ موئی کلیوں میں ٹوٹ کر بہار سی آگئی۔۔ا گلی صبح علی بخش حیران نگاہوں سے اپنے بدلتے بدن کے زاویوں کو مسوس دل سے تک رہے تھے۔۔فجر کی آذان میں اُن کی آواز میں وہ کرب تھا کہ کچھ لمحوں کے لیے تو نمازی خداوند کریم سے خود اپنی آوازوںکے لیے بھی کچھ ایسے ہی لطف و کرم کی فریاد کرنے لگے۔
ظہر اور عصر کی نماز یں علی بخش نے گھر پر ہی ادا کیں۔مولوی کریم بخش نے حیران نگاہوں سے بیٹے کو دیکھا تو باپ سے نظریں بچا کر اپنی زندگی کا پہلا جھوٹ کہا اور طبعیت کی ناسازی کا بہانہ کیا۔ آہستہ آہستہ محفلوں اور مذاکروں میں شرکت کم ہونے لگی اگر
مجبورا µ آنا بھی پڑتا تو آخری قطار میں بیٹھ جاتے اور پھر جلد ہی نظریں بچا کر نکل جاتے۔ ۔خود کو محض اپنے کمرے تک محدود کرنے لگے ۔ اپنا زیادہ وقت قران شریف کی تلاوت میں گزارتے اور نہیں تو ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتے اور چپ چاپ آسمان کو تکتے رہتے۔
پھر کچھ ہی دنوں میں سخت نہ چاہتے ہوئے بھی علی بخش کی چال نسوانی ہوتی چلی گئی اور جسم بے ادبی کی حد تک لباس سے نمایاں ہونے لگا۔ مولوی کریم بخش نے بیٹے کے جسم کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے تو آنکھیںحیرانگی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور شرم سے زمین میں گڑتی چلی گئیں۔بہت دنوں تک گفتگو میں دوری برداشت نہ ہوئی اور با لاخر ایک روز بیٹے کے کمرے میں آئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔آ خر بہت صبر و تحمل کے بعد ایک جملہ ادا کیا ۔۔” وہ بڑا رب الجلیل ہے اُس کے ہر کام میں مصلحت چھپی ہوتی ہے، مگر کیا تم نے حکیم و طبیب سے بھی کچھ دریافت کیا ؟علی بخش باپ کے سوال پر شرم کے مارے زمین میں گڑ گئے اور پھر اُن سے نظریں ملا ئے بغیر ہی زمین کو تکتے ہوئے کہنے لگے ۔۔” جی ڈاکٹر ز کہتے ہیں پیدائش سے قبل ہی خلیوں کی تقسیم میں کچھ بگاڑ پیدا ہوگیا تھا ، کوئی چیز شائد میو ٹیشن

(Mutation)

ہوتی ہے ، اُسی کی وجہ سے۔۔اور اب علاج ممکن نہیں “۔یہ کہہ کر باپ کے پیروں سے لپٹ کر پھو ٹ پھوٹ کر رونے لگے اور سسک سسک کر کہنے لگے ۔۔” ابا جی ! اب میں کیا کروں ؟ اب کیسے لوگوں سے نظریں ملاﺅ ں ؟ کیسے عبادت کے کیے گھر سے نکلوں ؟ مجھ سے سہہ نہیں جاتا ، خود کشی حرام نہ ہوتی تو کب کہ جان دے چکا ہوتا۔“ باپ نے روتی سرخ خشمگیں آنکھوں سے بیٹے کو دیکھا اورآہستہ سے کہا ۔۔۔ ” بیٹے اب شائد تمہارے لیے تبلیغ الٰہی اور امامت ِ مسلمہ کے تمام در بند ہوگئے ہیں ، عوام الناس تمھاری بلاغت کو سنجیدگی سے نہیںلےنگے۔ ۔مگر ہاں۔۔ ایک دروازہ شائد ابھی بھی کھلا ہوا ہے ۔۔مراقبہ۔۔کہتے ہیں کہ یہ سکون کا زریعہ ہے ۔“یہ کہہ کر مولوی کریم بخش نے روتے ہوئے بیٹے کے کمرے کا دروازہ بند کیا اور آنسو پو چھتے ہوئے مسجد چلے گئے۔
لفظ ”میوٹیشن “کسی چمگاڈر کی طرح علی بخش کے دماغ سے چپک گیا تھا۔ وہ جب جب آنکھیں بند کرتے اور مر ا قبے میں
جانے کی ٹھانتے تو بہت سی چمگا ڈریں اُن کے خیالوں میں اُتر آتی اور پھر چاروں جانب سے اُنہیں گھیر لیتی ۔۔کبھی کبھی تو یہ یلغار اس قدر شدید ہوجاتی کہ وہ گھبرا کر آنکھیں کھول دیتے اور پھر گہرے گہرے سانس لیتے۔۔ اُنہیں لگتا جیسے سچ مچ کی چمگاڑدریں اُن کے بدن پر چپک گئی ہیں اور اُن کی بوٹیاں نوچ رہی ہیں۔
با لا خر آہستہ آہستہ مراقبے میں وقفہ بڑھنے لگا ۔ چمگاڑریں تو اب بھی نظر آتی تھیں مگر اب اُن کی شکلیں بدلنے لگی تھیں ۔ اب کبھی کبھی وہ جو مراقبے کی نیت سے آنکھیں بند کرتے تو کینسر اور پولیو کے آدھ مرے مر یض اور بچے نظر آنے لگتے جو کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگتے ہوتے اور اُن کے جسموں پر کہیں کہیں چمگاڑریں چمپٹی ہوئی اُنہیں چاٹ رہی ہوتیں۔ کبھی کبھار جو آنکھیں بند ہوتیں تو اُنہیں سرسبز و شاداب میدانوں میں بنجر زمینیں نظر آنے لگتیں جن سے لپٹی ہوئی چمگاڑدریں زمین کا رس چوس رہی ہوتیں۔اور کبھی جو آنکھیں بند کرتے تو خیالوں میں طوفانوں کے جھکڑ اور زلزلوں سے ہلتی ہوئی زمین نظر آنے لگتی، جیسے بہت سی چمگاڑریں زمین میں دانت گاڑ کر اُسے ہلارہی ہوتیں۔۔اورجب با لکل ہی خالی الزہن ہوجاتے تو اچانک بہت سارے ہجڑے اُنہیں ایک ساتھ روتے اور بین کرتے د کھائی دیتے اور اُنہیں ایسا لگتا جیسے چمگاڑدریں اُن کے بدن پر چپکی ہوئی اُن کا خون چوس رہی ہو۔۔۔شائد ہی کوئی ایسا مراقبہ ہوتا جو اُن کو سکون
بخشتا ۔۔ ہر بار ہی اُن کی روح زخمی ہوتی ، ہر بار ہی اُنہیں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا۔
آخر کار ایک رات تھک ہار کر مراقبے کا خیال چھوڑنے کا ارادہ کرلیا اور ایک آخری مراقبے کی نیت سے جائے ِنماز پر وضوکے بعد بیٹھے۔ پہلے قران شریف کی تلاوت کی اور پھر آنکھیں بند کر کے پوری یکسویت سے اپنے رب الجلیل کو یاد کرنے لگے۔ اچانک آنکھوں سے آنسو رواں ہونے لگے اور روتے روتے سسکیاں بھرنے لگے۔ اور پھر خود کے جسمانی کرب کے بجائے ساری دنیا کے روحانی کرب کو یاد کرنے لگے ۔ اچانک انہیں لگا کہ جیسے اُن کے جسم اور روح کا رشتہ کچھ لمحوں کے لیے ٹوٹ سا گیاہو ۔ اور پھر اُن کی روح جیسے کائنات کے چاروں اوٹ پھیلے ہوئے آسمانی رنگوں میں تحلیل ہونے لگی ۔ کچھ ہی دیر میں اُن کی نظروں نے ایک عجیب ہی منظر دیکھا جیسے بہت سارے ستارے اور سیارے اُن کے گرد ناچ رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے قریب آتے ، آپس میں ملتے اور دور ہوجاتے۔ نئے ستاروں کی تقسیم ہوتی چلی جاتی اور کہکشاں نت نئے خوشنما رنگوں سے سجتی چلی جاتی۔ پھر سیارے تقسیم ہونے لگتے اور اُن کے نیوکلس آپس میں جڑ تے چلے جاتے اور پھر نئی ترتیب بنتی اور پھر روشنی کے جھماکے ہوتے اور نئی نئی ساخت کے سیارے بنتے چلے جاتے ۔ اچانک علی بخش کو لگا جیسے کوئی آوارہ عنصر

( Element )

اپنی تبدیلیوںمیں حصہ نہ لے سکا اور بنا آواز کے اپنے ارتقائی عمل سے خارج

( Delete )

ہوگیا۔ علی بخش کو یوں لگا جیسے وہ سیارہ روشن ہوتے ہوتے اچا نک تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا اور پھر اُس تاریک سیارے سے سیاہی روشن کرنوں کی طرح پھوٹنے لگی اور اس شدت سے چاروں طرف پھیلی کہ لمحے بھر کے لیے علی بخش کو سوائے تاریکی کہ کچھ نہ نظر آیا اور پھر ۔۔کچھ چمگاڑروں کے پرو ں کے پھڑ پھڑا نے کی آوازیں گونجنے لگی۔ پسینے سے شرابور علی بخش نے ڈوبتے ہوئے دل کے ساتھ گھبرا کر آنکھیں کھول دی۔ ۔۔ دور چھت کے اک کونے میں ایک چمگاڑر اُلٹی لٹکی ہوئی اپنے پروں کو پھڑ پھڑا کر چپکنے کی کوشش کر رہی تھی ۔
علی بخش نے اپنی بے چین دھڑکنوں پر قابو پایا اور آہستہ سے اُ ٹھنے کی کو شش کی مگر لڑ کھڑا کر دوبارہ جائے نماز پر بیٹھ گئے
اور پھر سجدے میں گر گئے اور روتے ہوئے بڑ بڑانے لگے ۔۔ تو کیا ۔۔تو کیا رب الکر یم یہ زمین بھی ؟ کا ئنات میں میو ٹیشن کا نتیجہ ہی ہے ؟

Mutation: The way in which genes change and produce permanent differences. Gene:A part of the DNA in a cell which contains information in a special pattern
received by each animal or plant from its parents, and which controls its
physical development, behaviour, etc
Allele: One member of a pair or series of genes that occupy a specific position
on a specific chromosome.
DNA(Deoxyribonucleic acid):The chemical of cell holds the genetic code of life.
 

 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved