اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

 اگر آپ پڑھنے میں دشواری  محسوس کر رہے ہیں تو فونٹ ڈاون لوڈ کیجے۔۔۔

www.urdupower.com/power of the truth E-mail:jawwab@gmail.com     Tel:1-514-250-3200 / 0300-585-2143       Fax:1-240-736-4309
 
خميازہ کرشن چندر  کے مکمل افسانے بگھت رام
کچرا بابا ماہا لکشمي
پياسا
ايراني پلائو
 
 
 
     
کچرا بابا

 


اور وہ اس منزل سے گز چکا تھا جس وہ کسي کو قصور وار نہيں ٹہراسکتا تھا، اتني چوٹيں پے در پے اس پڑي تھيں کہ وہ بالکل بولا گيا، بالکل سناٹے ميں آگيا وہ باطل دم بخور تھا، اب اس کي مصيبت اور تکاليف ميں کسي طرح کا کوئي جذبہ يا آنسو نہيں رہ گيا تھا، بار بار ھتہوڑے کي زربيں کھا کھا کراس کا دل دھات کے ايک پترے کي طرح بے حس ہوگيا، اس لئے آج جب اسے ہسپتال سے نکال گيا تو اس نے ڈاکڑر سے کسي ذہني تکليف کي دور کرنے کي شکايات نہيں کي تھي، اس نے اس سے يہ نہيں کہا تھا کہ اب وہ اس ہسپتال سے نکل کر کہاں جائے گا؟اب اس کا کوئي گھر نہيں تھا،کوئي بيوي نہيں تھي،کوئي بچہ نہيں،کوئي نوکري نہيں، اس کا دل خالي تھا، اس کي جيب خالي تھي، اور اس کے سامنے ايک خالي اور سپاٹ مستقبل تھا۔
مگر اس نے يہ سب کچھ نہيں کہا تھا،اس نے صرف يہ کہا تھا؟ ڈاکڑ صاحب مجھ سے چلا نہيں جارہا ہے، بس يہي ايک حقيقت تھي جو اسے اس وقت ياد تھي، باقي ہر بات اس کے دل سے محو ہوسکتي ہے، اس وقت چلتے چلتے وہ صرف يہ محسوس کر سکتا تھا کہ اس کا جسم گيلي روئي کا بنا ہوا ہے ،اس کي ريڑھ کي ھڈي کسي پراني شکستہ چارپائي کي طرح چٹخ رہي ہے، دھوپ بہت تيز ہے، روشني نشتر کي طرح چبھتي ہے، آسمان پر ايک ميلے اور پيلے رنگ کا وارنش پھرا ہوا اور فضا ميں تاريک تر کرتے اور چستياں سي غليظ مکھيوں کي طرح بھنبھار رہي ہيں اور لوگوں کي نگاھيں بھي گندے لہو اور پيپ کي طرح اس کے جسم سے چسپا کر رہ جاتيں، اسے بھاگ جانا چاھئيے، کہيں ان لمبے الجھے بجلي کے تاروں والے کھمبوں اور ان کے درميان گڈ مڈ ہونے والے راستوں سے کہيں دور تھا، اپنا بھائي بھي ياد آيا جو افريقہ ميں تھا، سن سن سن ايک ٹرام اس کے قريب سے اندر گھستي چلي جار رہي تھي اور پوري ٹرام کو اپنے جسم کے اندر چلتا ہوا محسوس کرسکتا تھا، اسے ايسا محسوس ہوا جسيے وہ کوئي انسان نہيں ہے ايک گھسا پٹہ راستہ ہے۔
دير تک وہ چلتا رہا، ہانپتا رہا اور چلتا رہا، اندازے سے ايک موہوم سمت کي طرف چلتا رہا، جدھر کبھي اس کا گھر تھا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اب اسکا کوئي گھر نہيں ہے، مگر وہ جانتے ہوئے بھي ادھر ہي چلتا رہا، گھر جانے کي عادت سے مجبور ہو کر مگر دھوپ بہت تيز تھي، اس کے سارے جسم ميں جيونٹياں سي رينگ رہي تھيں، اور وہ کسي مسافر سے راستہ ہي پوچھ کے،معلوم کر لے يہ شہر کا کونسا حصہ ہے، ہولے ہولے اس کے کانوں ميں ٹراموں اور بسوں کا شور بڑھنے لگا، نگاہوں ميں ديواريں ٹيڑھي ہونے لگيں، عمارتيں گرنے لگيں، بجلي کے کھمبے گڈ مڈ کرنے لگے، پھر اس کي آنکھوں تلے اندھيرا اور قدموں تلے بھونچال سا آيااور وہ يکا يک زمين پر گر پڑا۔
جب ہوش ميں آيا تو رات ہو چکي تھي، ايک نيم خنک سا اندھيرا چاروں طرف چھايا ہوا تھا، اس نے آنکھيں کھول کرديکھا کہ جس جگہ پر گرا تھا اب تک وہيں پڑا ہے، يہ فٹ پاتھ ايک ايسا تھا جس کے عقب ميں دو طرفہ دو ديواريں تھي دوسري شمال سے مغرب کو، اور وہ دونوں ديوروں کے اتصال پر ليٹاہوا تھا، يہ دونوں ديورايں کوئي چار فٹ کے قريب بلند تھيں، يہاں پر امرود اور جامن کے کے پيڑ تھے اور ان پيڑوں کے پيچھے کيا تھا وہ اسے اس وقت تک نہيں نظر نہيں آيا تھا،دوسري طرف مغربي ديوار کے سامنے پچيس تيس فٹ کا فاصلہ چھوڑ کر ايک پراني عمارت کا عقب تھا، سہ منزلہ عمارت تھي اور منزل ميں پيچھے کي طرف صرف ايک کھڑکي تھي جو چھ بڑے عقبي پائپ تھے، عقبئي پائپ اور مغربي ديوار کے بيچ ميں پچيس تيس فٹ چوڑي ايک اندھي گلي بن گئي تھي، جس کے تين طرف ديوار تھي اور چوتھي طرف سڑک تھي، کہنيوں پر زور دے کر ذرا سا اوپر اٹھا کر اور ادھر ادھر ديکھنے لگا، سڑک بالکل خالي تھي، سامنے کي دکانيں بند تھيں اور فٹ پاتھ کے اندھے سالوں ميں کہيں کہيں بجلي کے کمزور بلب جلھملا رہے تھي، چند لمحوں کے لئے اسے يہ ٹھنڈي تاريکي بہت بھلي معلوم ہوئي

چند لمحوں کے لئے اس نے اپني آنکھيں بند کرکے سوچا شايد وہ کسي مہربان سمندر کے پانيوں میں ڈوب رہا ہے۔
مگر اس احساس سے وہ اپنے آپ کو صرف چند لمحوں تک دھو دے کيونکہ اب اس نے محسوس کرليا کہ اس پر شديد بھوک طاري ہوچکي ہے، چند لمحوں کي خوشگوار خنکي کے بعد اس نے محسوس کرليا کہ وہ شديد طور پر بھوکا ہے، جس سے کي آنتوں کے فعل کو بيدار کرکے اس کے ساتھ کسي طرح کي بھلائي نہيں کي، اس کے معدے کے اندر عجيب اينٹھن سي ھو رہي تھي اور آنتيں اندر ہي اندر تڑپ تڑپ کر روٹي کا سوال کر رہي تھيں اور اس وقت اس کے نتھنے کسي شہري انسان کے نتھنوں کي طرح نہيں کسي جنگلي جانور کے نتھنوں کي طرح کام کر رہے تھے، عجيب عجيب سي بوئيں اس کي ناک ميں آرہي تھيں، بوئوں کي ايک سمفني تھي جو اس کے احساس پر پھيلي ہوئي تھي اور حيرت کي بات يہ تھي کہ وہ اس سمفني کے ايک ايک دسر کا الگ الگ وجود پہچان سکتا تھا، يہ جامن کي خوشبو ہے، يہ امرود کي ، يہ رات کي راني کے پھولوں کي، يہ تيل ميں تلي ھوئي پوريوں کي، يہ پياز اور لہسن ميں بگھارے ھوئے آلوؤں کي، يہ مولي کي ، يہ ٹماٹر کي، يہ کسي سڑے گلے پھل کي، يہ پيشاب کي، يہ پاني ميں بھيگي ھوئي مٹي کي جو غالبا بانسوں ميں کے جھنڈ سے آرہي ہے۔
وہ ہر بو کي نوعيت، شدت، سمت اور فاصلے تک کا اندازہ کرسکتا ہے، يکايک اسے يہ احساس بھي ہوا اور وہ اس بات پر چونکا بھي کہ کس طرح سے بھوک نے اس منحفي قوتوں کو بيدار کرديا۔ مگر اس امر پر زيادہ غور کئے بغير اس نے اس طرف گھسٹنا شروع کر ديا، جدھر سے اسے تيل ميں تلي ہوئي پوريوں اور لہسن سے بگھارے ہوئے آلوؤں کي بو آئي تھي، وہ دھيرے دھيرے اندھي گلي کے اندر گھسٹنے لگا، کيونکہ وہ اپنے جسم ميں چلنے کي سکت بالکل نہيں پاتا تھا، پھر اسے ايسا محسوس ہوتا جيسے کوئي دھوبي اس کي آنتوں کو پکڑ کر مروڑ رہا ہے، پھر اس کے نتھنے ميں پوريون اور آلو کي آشتہا بو آئي اور وہ بے قرار ہو کر ادھ مندھي آنکھوں سے اپنے تقريبابے جان سے جسم کو ادھر گھسيٹنے کي کوشش کرتا،جدھر سے آلو ، پوري کي بو آرہي تھي، کچھ عرصے کے بعدجب وہ اس جگہ پر پہنچا تو اس نے ديکھا کہ مغربي ديوار اور اس کے سامنے کي پچھواڑے کے پائيوں کے درميان پچيس تيس فٹ کے فاصلے ميں مستطيل نما کچرے کا ايک بہت بڑا کھلا آہني ٹب رکھا ہے۔
يہ ٹب کوئي پندرہ فٹ چوڑا ہوگا اور تيس فٹ لمبا اور اس ميں طرح طرح کا کوڑا کرکٹ بھرا ہے گلے سٹرے پھلوں کے چھلکوں اور ڈبل روٹيوں کے غليظ ٹکڑے اور چائے کي پتياں اور ايک پراني جيکٹ اور بچوں کے گندے پوتڑے اور انڈے کے چھلکے اور اخبار کے ٹکڑ اور رسالوں کے پھٹے اوراق اور روٹي کے ٹکڑے اور لوہے کي لونياں اور پلاسٹ کے ٹوٹے ہوئے کھلونے اور مٹر کے چھلکے اور پودينے کے پتے اور کيلے کي تپل پر چند ادھ کھائي پورياں۔۔۔۔۔۔۔اور الو کي بھاجي، پوريوں اور آلو کي بھاجي کو ديکھ کرگويا اس کي آنتيں ابل پڑيں، اس نےچند لمحوں کے لئے اپنے بے قرار ہاتھ روک لئے، مگر دوسري بدبوؤں کے مقابلے ميں اس کے نتھنوں ميں اگلے چند ثانيوں تک پوري اور بھاجي کو ديکھ کي اشتہار آميز خوشبو اسي طرح تيز تر ھوگئي جيسے کسي سمفني ميں يکايک کوئي خاص سر ايک دم اونچے ہوجاتے ھيں اور يکا يک تہذيب کي آخري ديواریں ڈھے گئيں اور اس کے کانپتے ھوئے بے قرار ہاتھوں نے کيلے کے اس پتل کو دبوچ ليا اور وہ اک وحشيانہ گرسنگي سے متاثر ہو کر ان پورياں پر ٹوٹ پڑا۔
پوري بھاجي کھاکے اس نے کيلے کے پتے کو بار بار چاٹا اور اسے شفاف کر کے چھوڑ ديا، جيسے قدرت نے اسے بنايا تھا، پتل چاٹنے کے بعد اس نے اپني انگلياں چاٹيں اور لمبے لمبے ناخنوں ميں بھري ہوئي آلو کي بھاجي زبان کي نوک سے نکال کے دکھائي اور جب اس سے بھي اس کي تسلي نہ ہوئي تو اس نے ہاتھ بڑھا کر کوڑے کے ڈھير کو گھنگھولتے ھوئے اس ميں سے پودينے کے پتے نکال کر کھائے اور مولي کے دو ٹکڑے اور ايک آدھا ٹماٹر اپنے منہ ميں ڈال کر مزے سے اس کا رس پيا اور وہ سب کچھ کھا چکا تو اس تو اس کے سارے جسم ميں نيم گرم غنودگي کي اک لہر اٹھي اور وہ ہيں ٹب کے کنارے گر کر سوگيا۔

آٹھ دس روز اسي نيم غنودگي اور نيم بے ہوہوشي کے عالم ميں گزرے، وہ گھسٹ گھسٹ کر ٹب کے قريب جاتا اور جو کھانے کو ملتا کھاليتا اور جب اشتہا آميز بوؤں کي تسکين ہوجاتي اور وہ دوسري گندي بوئيں ابھرنے لگتيں تو وہ گھسٹ گھسٹ کر ٹب سے فٹ پاتھ کے ٹکڑ پر چلا جاتا، اور عقبي ديوار سے ٹيک لگا کر بيٹھ جاتا يا سو جاتا۔
پندرہ بيس روز کے بعد ہولے ہولے اس کے جسم ميں طاقت ابھرنے لگي، ہولے ہولے وہ اپنے ماحول سے مانوس ہونے لگا، يہ جگہ کتني اچھي ہے، يہاں دھوپ نہيں تھي، يہاں درختوں کا سايہ تھا ، اندھي گلي سنان اور ويران تھي يہاں کوئي نہيں آتا تھا، کبھي کبھي عقبي عمارت سے کوئي کھڑکي کھلتي تھي اور کوئي ہاتھ پھيلا کر نيچے کے ٹب میں روز مرہ کا کوڑا پھينک ديتا تھا، يہ کوڑا جو اس کا روزي رساں تھا، اس کے شب و روز کا رازق تھا، اس کي زندگي کا محافظ تھا، دن مين سڑک چلتي تھي، دکانيں کھلتي تھيں، لوگ باگ گھومتے تھے، بچے ابابيلوں کيئ طرح چہکتے ھوئے سڑک سے گزر جاتے تھيں، عورتيں رنگين پتنگوں کي طرح ڈولتي ھوئي گزر جاتي تھيں، ليکن يہ ايک دوسري دنيا تھي، اس دنيا ميں اس کو کوئي علاقہ نہ تھا، اس دنيا میں اب اس کا کوئي نہ تھا، اور وہ اس کے لئے موہوم سائے بن گئے اور اس سے باہر ميدان اور کھيت اور کھلا آسمان ايک بے معني تصور، گھر، کام کاج،زندگي سماج،جدوجہد بے معني الفاظ جو گل سٹ کر اس کوڑے کچرے کے ڈھير ميں مل کر غتر بود ہوگئے، اس دنيا سے اس نے منہ موڑ ليا تھا اور اب يہي اس کي دنيا تھي،پندرہ فٹ لمبي اور تيس فت چوڑي۔

ماہ و سال گزرتے گئے اور اس نکٹر پر بيٹھا بيٹھا ايک پرانے ٹھنٹھہ کي طرح اور کسي پراني ياد گار کي طرح سب کي نظروں ميں مانوس ھوتا چلاگيا وھ کسي سے بات نہيں کرتا تھا کسي کو فيض نہيں پہنچاتا تھا، کسي سے بھيک نہيں مانگتا تھا، ليکن اگر وہ کسي دن وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا تو اس علاقے کے ہر فرد کو اس مر پر حيرت ہوتي اور شايد کسي قدر تکليف
بھي ھوتي۔

سب لوگ اسے کچرا بابا کہتے تھے، کيونکہ يہ سب کو معلوم تھا کہ وہ صرف کچرے کے ٹب ميں سے اپني خوراک نکال کر کھاتا ہے اور جس دن اسے وہاں سے کچھ نہ ملتا وہ بھوکا ہي سو جاتا، برسوں سے راہ گير اور ايراني رسٹوران والے اس کي عادت کو پہچان گئے تھے، اور اکثر عمارت کي عقبي کھڑکيون سے اب کوڑے کے علاوہ خوردہ نوش کي دوسري چيزيں بھي پھينکي جاتيں، صيح و سالم پوريان اور بہت سي بھاجي اور گوشت کے ٹکڑے اور ادھ چوسے آم اور چٹني اور کباب کے ٹکڑے اور کھير ميں لتھڑے ھوئے پتل، ناؤنوش کي ہر نعمت کچرا بابا کو اس ٹب ميں سے مل جاتي ھيں، کبھي کبھي کوئي پھٹا ھوا پاجامہ، کوئي ادھڑي ھوئي نيکر، کوئي تار تار شکتہ قيمض پلاسٹک کا گلاس، يہ کچرے کا ٹب کيا تھا، اس کے لئے ايک کھلا بازار تھا، جہاں وہ دن دہاڑے سب کي آنکھوں کے سامنے مڑ گشت کيا کرتا تھا، جس دکان سے جو سودا چاھتا مفت ليتا تھا، وہ اس بازار کا اس نعمت غير مترقبہ کا واحد مالک تھا، شروع شروع ميں چند گرسنہ بليوں اور خارش زدہ کتوں نے شديد مزاحمت کي تھي، مگر اس نے مار مار کر سب کو باہر نکال ديا، اور اب اس کچرے کے ٹب کا واحد مالک تھا اور اور اس کے حق کو سب نے تسليم کرليا تھا، مہينے ميں ايک بار ميونسپلٹي والے آتے ہيں، اور اس ٹب کو خالي کرکے چلے جاتے تھے اور کچرا بابا ان سے کسي طرح کي مزاحمر نہيں کرتا تھا،
 اگلا صفحہ      پچھلا صفحہ
 
 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Disclaimer Terms Our Team