اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

 اگر آپ پڑھنے میں دشواری  محسوس کر رہے ہیں تو فونٹ ڈاون لوڈ کیجے۔۔۔

www.urdupower.com/power of the truth E-mail:jawwab@gmail.com     Tel:1-514-250-3200 / 0300-585-2143       Fax:1-240-736-4309
 
خميازہ کرشن چندر  کے مکمل افسانے بگھت رام
کچرا بابا ماہا لکشمي
پياسا
ايراني پلائو
 
 
 
     
کچرا بابا

 

جب وہ ھسپتال سے باہر نکلا تو اس کي ٹانگيں کانپ رہي تھيں اور اس کا سارا جسم بھيگي ھوئي روئي کا بنا معلوم ھوتا تھا اور اس کا جي چلنے کو نہيں چاھتا تھا وہيں فٹ پاتھ پر بيٹھ جانے کو چاہتا تھا۔قاعدے سے اسے ابھي تک ايک ماہ اور ہسپتال ميں رہنا چاہئيے تھا مگر ہسپتال والوں نے اس کي چھٹي کر دي تھي، ساڑھے چار ماہ تک وہ ہسپتال کے پرائيوٹ وارڈ ميں رہا تھا اور ڈيڑھ ماہ تک جنرل وارڈ ميں اس اثناء ميں اس کا گردہ نکال ديا گيا تھا اور اس کي آنتوں کا ايک حصہ کاٹ کے آنتوں کے فعل کو درست کياگيا تھا، ابھي تک اس کے کليجے کا فعل راست نہيں ھوا تھا اسے ہسپتال سے نکل جانا پڑا، کيونکہ دوسرے لوگ انتظار کر رہے تھے، جن کي حالت اس بھي بتر تھي۔
ڈاکٹر نے اس سے کے ہاتھ ميں ايک لمبا سے نسخا دے ديا اور کہا يہ ٹانک پيو اور مقوي غذا کھاؤ، بالکل تندرست ہو جائوگے، اب ھسپتال ميں رہنے کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔
مگر مجھ سے چلا نہيں جاتا، ڈاکٹر صاحب؟ اس نے کمزور آواز ميں احتجاج کيا، گھر جاؤ چند دن بيوي خدمت کرے گي بالکل ٹھيک ھو جائو گے، بہت ھي دھيرے دھيرے لڑکھڑاتے ھوئے قدموں سے فٹ پاتھ پر چلتے اس نے سوچا گھر؟ ميرا گھر کہاں ہے؟ چند ماہ پہلے ايک گھر ضرور تھا ، ايک بيوي بھي تھي،جس کے ايک بچہ ھونے والا تھا، وہ دونوں اس آنے والے بچے کے تصور سے کس قدر خوش تھے، ہو گي دنيا ميں زيادہ آبادي ، مگر وہ تو ان دونوں کا پہلا بچہ تھا۔
دلاري نے اپنے بچے کيلئے بڑے خوبصورت کپڑے سئيے تھے اور ہسپتال ميں لاکر اسے دکھائے تھے اور ان کپڑوں کي نرم سطح پر ہاتھ پھيرتے ھوئے اس ايسا محسوس ہوا جيسے وہ اپنے بچے کو بانہوں ميں لے کر اسے پيار کر رہا ہوں، مگر پھر اگلے چند مہينوں ميں بہت کچھ لٹ گيا، جب اس کے گرد کا پہلا اپريشن ہوا تو دلاري نے اپنے زيور بيچ دئيے کہ ايسے ہي موقعوں کے لئے ھوتے ہيں، لوگ يہ سمجھتے ہيں کہ زيور عورت کے حسن کي افزائش کے لئے ہوتے ہيں، وہ تو کسي دوسرے درد کا مدادا ھوتے ہيں، شوہر کا آپريشن، بچے کي تعليم، لڑکي کي شادي، يہ بينک ايسے ہي موقعوں کے لئے کھلتا ہے اور خالي کرديا جاتا ہے، عورت تو اس زيور کي تحويل دار ہوتي ہے اور زندگي ميں مشکل سے پانچ چھ بار اسے اس زيور کو پہننے کي توفيق حاصل ہوتي ہے۔گردے کے دوسرے آپريشن سے پہلے دلاري کا بچہ ضائع ہوگيا، وہ تو ہوتو ہي دلاري کو دن رات جو کڑي مشقت کرنا پڑ رہي تھي، اس ميں يہ خطرہ سب سے پہلے موجود تھا، ايسے لگتا جيسے دلاري کا يہ چھريرا سنہرا بدن اس قدر کڑي مشقت کے لئے نہيں بنايا گيا، اس لئے وہ دانا فرزانہ بچہ ہي ميں سے کہيں لٹک گيا تھا، ناسازگار موحول ديکھ کر اور ماں باپ کي پتلي حالت بھانپ کر اس نے خود ہي پيدا ہونے سے انکار کر ديا، بعض بچے ايسے ہي عقلمند ہوتے ہيں، دلاري کئي دنوں تک ہسپتال نہيں آسکي، اور جب اس نے آکے خبر دي تو وہ کس قدر رويا تھا، اگر اسے معلوم ہوتا کھ آگے چل کر اسے اس سے کہيں زيادہ رونا پڑے گا، تو وہ اس حادثے پر رونے کے بجائے خوشي کا اظہار کرتا۔
گردے کے دوسرے آپريشن کے بعد اس کي نوکري جاتي رہي، طويل علالت ميں ہہي ہوتا ہے، کوئي کہاں تک انتظار کرسکتا ہے، بيماري انسان کا اپنا ذاتي معاملہ ہے،اس لئے اگر وہ چاہتا کہ اس کي نوکري قائم رہے تو اسے زيادہ دير تک بيمار نہ پڑنا چاھئيے، انسان مشين کي طرح ہے، اگر ايک مشين طويل عرصے کے لئے بگڑي رہتي ہے تو اسے اٹھا کے ايک طرف رکھ ديا جاتا ہے اور اس کي جگہ نئي مشين آجاتي ہے کيونکہ کام رک نہيں سکتا، بزنس بند نہيں ہوسکتا اور وقت تھم نہيں سکتا، اس لئے جس سےمعلوم ہو کہ اس کي نوکري بھي جاتي رہي ہے تو اسے شديد دھچکا سا لگا، جسيے اس کا دوسرا گردہ بھي نکال ليا گيا، اس دھچکے سے اس کے آنسو بھي خشک ہوگئے، اصلي اور بڑي مصيبت ميں آنسو نہيں آتے، اس نے محسوس کيا صرف دل کے اند ايک خلا محسوس ھوتا ہے، زمين قدموں کے نيچے سے کھسکتي معلوم ہوتي اور رگوں ميں خون کے بجائے خوف دوڑتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
کئي دنوں تک وہ آنے والي زنگي کے خوف اور دہشت سے سو نہيں سکا تھا، طويل علالت کے خرچے بھي طويل ہوتے ھيں، اور زير بار کرنے والے ہولے ہولے گھر کي سب قيمتي چيزيں چلي گئيں، مگر دلاري نے ہمت نہيں ہاري، اس نےساڑھے چار ماہ تک ايک ايک چيز بيچ دي اور آخر ميں نوکري بھي کرلي، وہ ايک فرم ميں ملازم ہوگئي تھي، اور روز اپني فرم کے مالک کو لے کر ھسپتال بھي آئي تھي، وہ ايک دبلا پتلا، کوتاہ قد، ادہيڑ عمر کا شرميلا آدمي دکھائي ديتا تھا، کم گو اور ميٹھي مسکڑاہٹ والا، صورت شکل سے وہ کسي بڑي فرم کا مالک ہونے کے بجائے کتابوں کي کسي دکان کا مالک معلوم ہوتا تھا،دلاري اس کي فرم ميں سو روپے مہينے پر نوکر ہوگئي تھي، چونکہ وہ زيادہ پڑھي لکھي نہيں تھي، اس لئے اس کا کام لفافوں پر ٹيکٹس لگانا تھا۔
يہ تو بہت آسان کام ہے؟ دلاري کے شوہر نے کہا۔
فرم کا باس بولا کام تو آسان ہے، مگر جب دن ميں پانچ چچ سو خطوں پر ٹيکٹس لگان پڑیں تو اسي طرح کا کام بہت آسان کام کے بجائے بہت مشکل کام ہوجات ہے۔

ا


 

 

 اگلا صفحہ      پچھلا صفحہ
 
 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Disclaimer Terms Our Team