اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

 اگر آپ پڑھنے میں دشواری  محسوس کر رہے ہیں تو فونٹ ڈاون لوڈ کیجے۔۔۔

www.urdupower.com/power of the truth E-mail:jawwab@gmail.com     Tel:1-514-250-3200 / 0300-585-2143       Fax:1-240-736-4309
 
خميازہ کرشن چندر  کے مکمل افسانے بگھت رام
کچرا بابا ماہا لکشمي
پياسا
ايراني پلائو
 
 
 
     
کچرا بابا

کيونکہ اسے معلوم تھا کہ دوسرے دن ٹب پھر اسي طرح بھرنا شروع ہوجائے گا اور اس کو اعتقاد تھا کہ اس دنيا سے نيکي ختم ہوسکتي ہے ليکن غلاظت ختم نہيں ہوسکتي رفاقت ختم ھوسکتي ہے، ليکن غلاظت اور گندگي کبھي ختم نہيں ہوسکتي، ساري دنيا سے منہ توڑ کر اس نے جينے کا آخري
طريقہ سيکھ ليا تھا۔

مگر يہ بات نہيں ہے کہ اسے باہر کي دنيا کي خبر نہ تھي، جب شہر ميں چيني مہنگي ہوجاتي تو مہينوں کچرے کے ٹب ميں مٹھائي کے ٹکڑے کي صورت نظر نہيں آتي، جب گندم مہنگي ھو جاتي تو ڈبل روٹي کا ايک ٹکڑا تک نہ ملتا، جب سگريٹ مہنگے ہو تو تو سگريٹ کے جلے ھوئے ٹکڑے اتنے چھوٹے ملتے کہ انہيں سلگا کر پيا بھي نہيں جاسکتا۔

جب بھينگوں نے ھٹرتال کي تھي تو مہينے تک اس کے ٹب کي کسي نے صفائي نہيں کي تھي،اور کسي روز اس کو ٹب ميں اتنا گوشت نہيں ملتا تھا، جتنا بقر عيد کے روز اور ديوالي کے دن توٹب کے مختلف کونوں سے مٹھائي کے بہت سے ٹکڑے مل جاتے تھے۔باہر کي دنيا کا کوئي حادثہ يا واقہ ايسا نہ تھا۔

جس کا سراغ وہ کچرے کے ٹب سے دريافت نہ کرسکتا تھا، دوسري جنگ عظيم سے لے کر عورتوں کے خفيہ امراض تک، مگر باہر کي دنيا سے اب اسے کسي طرح کي کوئي دلچسپي نہ رہي تھي، پچيس سال تک وہ اس کچرے کے ٹب کے کنارے بيٹھا بيٹھا اپني عمر گزار رہا تھا، شب و روز، ماہ و سال، اس کے سر سے ہوا کي لہروں کي طرح گزرتے گئے، اور اس کے سر کے بال سوکھ سوکھ کر ربٹر کي شاخوں کي طرح لٹکنے لگے، اس کي کالي داڑھي کھچڑي ہوگئي، اس کے جسم کا رنگ ملگجامٹ ميلاد اور سبزي مائل ہوتا گيا، وہ اپنے مضبوط بالوں، پھٹے چيتھڑوں اور بدبو دار جسم سے راہ چلتے لوگوں کو خود بھي کچرے کا ايک ڈھير دکھائي ديتا تھا جو کبھي کبھي حرکت کرتا تھا اور بولتا تھا، کسي دوسرے سے نہيں صرف اپنے آپ سے زيادہ سے زيادہ کچرے کے ٹب سے۔
کچرا بابا ان لوگوں سے کچھ کہتا نہيں تھا، مگر انکي حيرت کو ديکھ کر دل ميں ضرور سوچتا ہوگا کہ اس دنيا ميں کون ہے جو کسي دوسرے سے گفتگو کرتا ہے اس دنيا ميں جتني گفتگو ہوتي ہے انسانوں کے درميان نہيں ہوتي بلکہ صرف اپني ذاتي اور اس کي کسي غرض کے درميان ہوتي ہے، دوسروں کے درميان جو بھي گفتگو ہوتي ہے وہ دراصل ايک طرح کي خود کلامي ہوتي ہے، يہ دنيا ايک بہت بڑا کچرے کا ڈھير ہے جس ميں سے ہر شخص اپني غرض کا کوئي ٹکڑا، فائدے کا کوئي ٹکڑا، فائدے کا کوئي چھلکا يا منافع کا کوئي چيتھرا دبوچنے کيلئے ہر وقت تيار رہتا ہے اورکہتا ہوگا يہ لوگ جو مجھے حقير، فقير يا ذليل سمجہتے ہيں، ذرا اپني روہ کے پچھواڑے ميں تو جھانک کر ديکھيں، وہاں اتني غلاظت بھري ہے کہ جسے چرف موت کا فرشتہ ہي اٹھا کر لے جائے گا۔
اسي طرح دن پر دن گزرتے گئے ملک آزاد ہوئے، ملک غلام ہوئے حکومتيں آئيں، حکومتيں چلي گئيں، مگر يہ کچرے کا ڈب وہيں رہا اور اس کے کنارے بيٹھنے والا کچرا بابا اسي طرح نيم غنودگي ميں بے ہوشي کے عالم ميں دنيا سے منہ موڑے ہوئے زير لب کچھ بد بداتا رہا کچرے کے ٹب کو گھنگھولتا رہا۔

تب ايک رات اندھي گلي ميں جب وہ ٹب سے چند فت کے فاصلے پر ديوار سے پيٹھ لگائے اپنے پھٹے چيتھڑوں ميں دبکا سورہاتھا، اس نے رات کے سناٹے ميں ايک خوف ناک چيخ سني اور وہ ہڑبڑا کر نيد سے جاگا، پھر اس نے ايک زور کي تيز چيخ سني اور گھبراکر کچرے کے ٹب کي طرف بھاگا، جدھر سے يہ چيخيں سنائي دے رہي تھيں۔
کچرے کے ٹب کے پاس جاکر اس نے ٹٹولا ، تو اس کا ہاتھ کسي نرم نرم لوتھڑے سے جا ٹکرايا اور پھر ايک زور کي چيخ بلند ہوئي، کچرا بابا نے ديکھا کہ ٹب کے اندر ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، چچوڑي ھوئي ھڈيوں، پرانے جوتوں، کانچ کے ٹکڑوں، آم کے چھلکوں، باسي دينيوں اور ٹھرے کي ٹوٹي ھوئي بوتلوں کے درميان ايک نوزائيدہ بچہ ننگا پڑا ہے اور اپنے ہاتھ پاؤں ہلاہلا کر زور زور سے چيخ رہا ہے۔

چند لمحوں تک کچرا بابا حيرت ميں ڈوبا ہوا جامد و ساکت اس نھنے انسان کو ديکھتا رہا جو اپنے چھوٹے سے سينے کي پوري قوت سے اپني آمد کا اعلان کر رہاتھا، چند لمحوں تک وہ چپ چاپ ، پريشان، پھٹي پھٹی آنکھوں سےاس منظر کو ديکھتا رہا پھر اس نے تيزي سے آگے جھک کر کچرے کے ٹب سے اس بچے کو اٹھا کر اپنے سينے سے لگا ليا۔

مگر بچہ اس کي گود ميں جاکر بھي کسي طرح چپ نہ رہا، وہ اس زندگي ميں نيا نيا آيا تھا اور بلک بلک کر اپني بھوک کا اعلان کر رہا تھا، ابھي اسے معلوم نہ تھا کہ غريبي کيا ہوتي ہے، مامتا کس طرح بزدل ہوجاتي ہے، زندگي کسيے حرام بن جاتي ہے، وہ کس طرح مليے پيکٹ اور غليظ بنا کچرے کے ٹب ميں ڈال دي جاتي ہے، ابھي اسے يہ سب کچھ معلوم نہ تھا ابھي وہ صرف بھوکا تھا اور رو رو کر اپنے پيٹ پر ہاتھ مار رہا تھا۔
کچرا باب کي سمجھ ميں کچھ نہ آيا کہ وہ کيسے اس بچے کو چپ کرائے اس کے پاس کچھ نہ تھا، نہ دودھ نہ چسني، اسے تو کوئي لوري بھي ياد نہيں تھي، وہ بے قرار ہو کر بچے کو گود ميں لے کر ديکھنے لگا اور تھپتھپانے لگا اور گہري نيند سے رات کے اندھيرے ميں چارون طرف ديکھنے لگا ، کہ اس وقت بچے کے لئے دودھ کہاں سے مل سکتا ہے، ليکن جب اسکي سمجھ ميں کچھ نہيں آيا تو اس نے جلدي سے کچرے کے ٹب سے آم کي ايک گھٹلي نکالي اور اس کا دوسرا سرا بطے کے منہ ميں دے ديا۔

ادھ کھائے ہوئے آم کا ميٹھا میٹھا رس جب بچے کے منہ ميں جانے لگا تو وہ روتا روتا چپ ہوگيا اور چپ ہوتے ہوتے کچرا بابا کي بانہوں ميں سو گيا، آم کي گھٹلي کھسک کر زمين پر جا گري اور اب بچہ اس کي بانہوں ميں بے خبر سو رھا تھا، آم کا پيلا پيلا رس ابھي تک اس کے نازک لبون پر تھا اور اس کے نھنے سے ہاتھ نے کچرا بابا کا انگوٹھا بڑے زور سے پکڑ رکھا تھا۔

ايک لمحے کيلئے کچرا بابا کے دل ميں خيال آيا کہ وہ بچے کو يہيں پھينک کر کہيں بھاگ جائے، دھيرے سے کچرا باب نے اس بچے کے ہاتھ سے اپنے انگھوٹے کو چھڑانے کي کوشش کي،مگر بچے کي گرفت بڑي مضبوط تھي اور کچرا بابا کا ايسے محسوس ہوا جسيے زندگي نے اسے پھر سے پکڑ ليا ہے، اور دھيرے دھيرے جھٹکوں سے اسے اپنے پاس بلارھي ہے، يکايک اسے دلاري کي ياد آجاتي ہے، اور وہ بچہ جو اس کي کوکھ ميں کہيں ضائع ہو گيا تھا اور يکا يک کچرا بابا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، آج سمندر کے پانيوں ميں اتنے قطرے نہ تھے جتنے آنسو اس کي آنکھوں ميں تھے، گزشتہ پچيس برسوں ميں جتني ميل اور غلاظت اس کي روح پر جم چکي ہے وہ اس طوفان کے ايک ہي ريلے ميں صاف ہوگئي۔

رات بھر کچرا بابا اس نوزائيدہ بچے کو اپني گود ميں لئے بے چين اور بے قرار ہو کرفت پاتھ پر ٹہلتا رہا اور جب صبح ھوئي اور سورج نکلا تو لوگوں نے ديکھا کہ کچرا بابا آج کچے کے ٹب کے پاس نہيں ہے، بلکہ سڑک پار نئي تعمير ہونے والي عمات کے نيچے کھڑا ہو کر اينٹيں ڈھو رہا ہے اور اس عمارت کے قريب گل مہر کے ايک پيٹ کي چھاؤں ميں ايک پھولدارکپڑے ميں لپتا اک نھنا بچہ منہ ميں دودھ کي چسني لئے مسکرا رہا ہے۔
 اگلا صفحہ      پچھلا صفحہ
 
 

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Disclaimer Terms Our Team