اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

اے حمید کے افسانے

دور حاضر کے نامور ناول نگار اے حمید نئی نسل کے پسندیدہ قلمکار ہیں۔ ان کی کہانیاں اور ناول بڑی شہرت کے حامل ہوتے ہیں۔ اے حمید انیس سو اٹھائیس کو امر تسر بھارت میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچوں کے سینکڑوں ناول لکھے اور قلم کو بذریعہ معاش کے طور پر اپنایا۔افسانہ نگاری کے صنف میں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے اردو شعر کی داستاں ، اردو نثر کی داستاں ، مرزا غالب لاہور مین، داستاں امیر حمزہ اور سنگ دوست شخصیات جیسی معرکتہ الارا کتابیں لکھیں۔ٹی وی کیلئے بھی کئی مقبول پلے لکھے ۔ جس میں عینک والا جن، غبر ناگ ماریہ بہت پسند کئے گئے۔ موت کا تعاقب ، تین سو ناولوں پر مشتمل اردو میں بچوں کے لئے طویل ترین کہانی بھی انکے کریڈٹ پر ہے۔ان کے معاشرتی ناولوں میں بھارت کے فرعون، کمانڈو کی بیٹی اور جبرو کو بھی لوگوں نے بے حد پسند کیا۔ اردو ادب میں انہیں معتبر مقام حاصل ہے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-jawwab@gmail.com
 

مصنف کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

واردات
شکوہ و شکایت

تحریر---------  پریم چند

 
زندگی کا بڑا حصہ تو اسی گھر میں گزر گیا۔ مگر کبھی آرام نصیب نہ ہوا، میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک اور خوش اخلاق اور بیدار مغز ہونگے، لیکن جس پر گزرتی ہے، وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزا آتا ہے، جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کیے جاتے ہوں، جو گھر والوں کیلیے مرتا ہے، اسکی تعریف دنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو انکی نگاہ میں خود غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کیلیے مرتے ہیں، انکی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب انہی کو دیکھو، صبح سے شام تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں۔ باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو ایسی دکان سے لائیں گے، جہاں سے کوئی گاہک بھول کر بھی نہ لاتا ہو۔ ایسی دکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے، نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے، نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دکان ہی کیوں ہوتی۔ انہیں ایسی ہی دکانوں سے سودا سلف خریدنے کا مرض ہے۔ بارہا کہا کہ کسی چلتی ہوئی دکان سے چیزیں لایا کرو۔ وہاں مال زیادہ کھپتا ہے۔ اسلیے تازہ مال آتا رہتا ہے۔ مگر نہیں، ٹپٹونجیوں سے انکی ہمدردی ہے۔ وہ انہیں الٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔ گیہوں لائیں گے، تو سارے بازار سے خراب، گھنا ہوا چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے، منوں لکڑی جلا ڈالو، کیا مجال کہ گلے، گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل اور نرخ اصلی گھی کے ایک چھٹانک کم، تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا، بالوں میں ڈالو تو چکٹ جائیں۔ مگر دام دے آئیں گے اعلٰی درجے کے چمبیلی کے تیل کے۔ چلتی ہوئی دکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے۔ شاید اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔

ایک دن کی بات ہو تو برداشت کرلی جائے۔ روز روز کی یہ مصیبت نہیں برداشت ہوتی۔ میں کہتی ہوں آخر ٹپٹونجیوں کی دکان پر جاتے ہی کیوں ہیں۔ کیا انکی پرورش کا ٹھیکہ تمھیں نے لے لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہیں۔ خوب، ذرا انہیں بلا لیا اور خوشامد کے دو چار الفاظ سنا دیئے۔ بس آپ کا مزاج آسمان جا پہنچا۔ پھر انہیں سدھ نہیں رہتی کہ وہ کوڑا کرکٹ باندھ رہا ہے۔ یا کیا پوچھتی ہوں، تم اس راستے سے جاتے ہی کیوں ہو۔ کیوں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاتے؟ ایسے اٹھائی گیروں کو منہ ہی کیوں لگاتے ہو؟ اسکا کوئی جواب نہیں۔ ایک خموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔

ایک باریک زیور بنوانا تھا، میں تو حضرت کو جانتی تھی، ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ ایک پہچان کے سنار کو بلا رہی تھی، اتفاق سے آپ بھی موجود تھے۔ بولے یہ فرقہ بالکل اعتبار کے قابل نہیں، دھوکا کھاؤ گی۔ میں ایک سنار کو جانتا ہوں، میرے ساتھ کا پڑھا ہوا ہے۔ برسوں ساتھ ساتھ کھیلے ہیں، میرے ساتھ چال بازی نہیں کرسکتا۔ میں نے سمجھا جب انکا دوست ہے اور وہ بھی بچپن کا، تو کہاں تک دوستی کا حق نہ نبھائے گا۔ سونے کا ایک زیور اور پچاس روپے انکے حوالے کیے اور اس بھلے آدمی نے وہ چیز اور روپے نہ جانے کس بے ایمان کو دے دیئے کہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب چیز بن کر آئی تو روپے میں آٹھ آنے تانبا، اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھن آتی تھی۔ برسوں کا ارمان خاک میں مل گیا۔ روپٹ کر بیٹھ رہی۔ ایسے ایسے دغا دار تو انکے دوست ہیں، جنہیں دوست کی گردن پر چھری پھیرنے میں بھی عار نہیں، انکی دوستی تھی۔ اور انہیں لوگوں سے ہے جو زمانہ بھر کے فاقہ مست، قلانچ، بے سروسامان ہیں، جنکا پیشہ ہی ان جیسے آنکھ کے اندھوں سے دوستی کرنا ہے۔ روز ایک نہ ایک صاحب مانگنے کیلیے سر پر سوار رہتے ہیں اور بلا لئے گلا نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے روپے ادا کیے ہوں۔ آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے، یہ بھلے مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جب کہتی ہوں روپے تو دے آئے، اب مانگ کیوں نہیں لاتے، کیا مر گئے تمھارے وہ دوست تو بغلیں جھانک کر رہ جاتے ہیں۔ آپ سے دوستوں کو سوکھا جواب نہیں دیا جاتا۔ خیر سوکھا جواب نہ دو، میں یہ بھی نہیں کہتی کہ دوستوں سے بے مروتی کرو، مگر ٹال تو سکتے ہو۔ کیا بہانے نہیں بنا سکتے ہو۔ مگر آپ انکار نہیں کر سکتے۔ کسی دوست نے کچھ طلب کیا اور آپ کے سر پر بوجھ پڑا، بیچارے کیسے انکار کریں، آخر لوگ جان جائیں گے کہ حضرت بھی فاقہ مست ہیں۔ دنیا انہیں امیر سمجھتی رہے۔۔۔۔۔چاہے میرے زیور ہی کیوں نہ گروی رکھنے پڑیں۔ سچ کہتی ہوں۔ بعض اوقات ایک ایک پیسے کی تنگی ہوجاتی ہے اور اس بھلے آدمی کو روپے جیسے گھر میں کاٹتے ہیں، جب تک روپیوں کے وارے نیارے نہ کرے اسے کسی پہلو قرار نہیں۔

ان کے کرتوت کہاں تک کہوں۔ میرا تو ناک میں دم آگیا۔ ایک نہ ایک مہمان روز بلائے بے درماں کی طرح سر پر سوار۔ نہ جانے کہاں کے بے فکرے ان کے دوست ہیں۔ کوئی کہیں سے آکر مرتا ہے، کوئی کہیں سے۔ گھر کیا ہے اپاہجوں کو اڈہ ہے۔ ذرا سا گھر، مشکل سے دو تو چارپائیاں۔ اوڑھنا بچھونا بھی بافراط نہیں مگر آپ ہیں کہ دوستوں کو دعوت دینے کے لیے تیار۔ آپ تو مہمان کے ساتھ لیٹیں گے۔ اس لیے انہیں چارپائی بھی چاہیے۔ اوڑھنا بچھونا بھی چاہیے ورنہ گھر کا پردہ کھل جائے، جاتی ہے تو میرے اور بچوں کے سر۔ زمین پر پڑے سکڑ کر رات کاٹتے ہیں، گرمیوں میں تو خیر مضائقہ نہیں لیکن جاڑوں میں تو بس قیامت ہی آجاتی ہے۔ گرمیوں میں بھی کھلی چھت پر تو مہمان کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اب میں بچوں کو لیے قفس میں پڑی تڑپا کروں۔ اتنی سمجھ بھی نہیں کہ جب گھر کی یہ حالت ہے تو کیوں ایسوں کو مہمان بنائیں جن کے پاس کپڑے تک نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کے سبھی دوست ایسے ہی ہیں۔ ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں، جو ضرورت کے وقت ان کی دھیلے سے بھی مدد کر سکے۔ دو ایک بار حضرت کو اس کا تجربہ اور بے حد تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ مگر اس مردِ خدا نے تو آنکھیں نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہے۔ ایسے ہی ناداروں سے ان کی پٹتی ہے، ایسے ایسے لوگوں سے آپ کی دوستی ہے کہ کہتے شرم آتی ہے۔ جسے کوئی اپنے دروازے پر کھڑا بھی نہ ہونے دے، وہ آپ کا دوست ہے۔ شہر میں اتنے امیر کبیر ہیں، آپ کا کسی سے ربط ضبط نہیں، کسی کے پاس نہیں جاتے۔ امرا مغرور ہیں، بدمغز ہیں، خوشامد پسند ہیں، ان کے پاس کیسے جائیں، دوستی گانٹھیں گے ایسوں سے جن کے گھر میں کھانے کو بھی نہیں۔

ایک بار ہمارا خدمت گار چلا گیا اور کئی دن دوسرا خدمت گار نہ ملا۔ میں کسی ہوشیار اور سلیقہ مند نوکر کی تلاش میں تھی مگر بابو صاحب کو جلد سے جلد کوئی آدمی رکھ لینے کی فکر سوار ہوئی۔ گھر کے سارے کام بدستور چل رہے تھے مگر آپ کو معلوم ہو رہا تھا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بانگڑو کو پکڑ لاۓ۔ اس کی صورت کہے دیتی تھی کہ کوئی جانگلو ہے مگر آپ نے اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ کیا کہوں، بڑا فرماں بردار ہے، پرلے سرے کا ایمان دار، بلا کا محنتی، غضب کا سلیقہ شعار اور انتہا درجے کا با تمیز ہے۔ خیر میں نے رکھ لیا۔ میں بار بار کیوں کر ان کی باتوں میں آ جاتی ہوں، مجھے خود تعجب ہے۔ یہ آدمی صرف شکل سے آدمی تھا، آدمیت کی کوئی علامت اس میں نہ تھی۔ کسی کام کی تمیز نہیں تھی۔ بے ایمان نہ تھا مگر احمق اوّل نمبر کا۔ بے ایمان ہوتا تو کم سے کم اتنی تسکین تو ہوتی کہ خود کھاتا ہے۔ کم بخت دُکان داروں کی فطرتوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اسے دس تک گنتی بھی نہ آتی تھی۔ ایک روپیہ دے کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب نہ سمجھا سکے۔ غصہ پی پی کر رہ جاتی تھی۔ خون جوش کھانے لگتا تھا کہ سور کے کان اکھاڑ لوں۔ مگر ان حضرت کو کبھی اسے کچھ کہتے نہیں دیکھا۔ آپ نہا کر دھوتی چھانٹ رہے ہیں اور و ہ دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ میرا خون کھولنے لگتا، لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ جب میرے ڈانٹنے پر دھوتی چھانٹنے جاتا بھی تو آپ اسے قریب نہ آنے دیتے۔ اس کے عیبوں کو ہنر بنا کر دکھایا کرتے تھے اور اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے تو ان عیوب پر پردہ ڈال دیتے تھے۔ کم بخت کو جھاڑو دینے کی بھی تمیز نہ تھی۔ مردانہ کمرہ ہی تو سارے گھر میں ڈھنگ کا ایک کمرہ ہے، اس میں جھاڑو دیتا تو ادھر کی چیز اُدھر، اوپر کی نیچے گویا سارے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو۔ اور گرد کا یہ عالم کہ سانس لینی مشکل مگر آپ کمرے میں اطمینان سے بیٹھے رہتے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ ایک دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہہ دیا، اگر کل سے تو نے سلیقے سے جھاڑو نہ دی تو کھڑے کھڑے نکال دوں گی۔ سویرے سو کر اٹھتی تو دیکھتی ہوں کمرے میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ ہر ایک چیز قرینے سے رکھی ہے۔ گرد و غبار کا کہیں نام نہیں۔ آپ نے فوراً ہنس کر کہا، ”دیکھتی کیا ہو، آج گھورے نے بڑے سویرے جھاڑو دی ہے۔ میں نے سمجھا دیا، تم طریقہ تو بتلاتی نہیں ہو، الٹی ڈانٹنے لگتی ہو۔“ لیجیے صاحب یہ بھی میری ہی خطا تھی۔ خیر، میں نے سمجھا اس نالائق نے کم سے کم ایک کام تو سلیقے کے ساتھ کیا۔ اب روز کمرہ صاف ستھرا ملتا اور میری نگاہوں میں گھورے کی کچھ وقعت ہونے لگی۔ اتفاق کی بات ایک دن میں ذرا معمول سے سویرے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گھورے دروازے پر کھڑا ہے اور خود مابدولت بڑی تن دہی سے جھاڑو دے رہے ہیں۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لی اور گھورے کے سر پر پٹک دی۔ حرام خور کو اسی وقت دھتکار بتائی۔ آپ فرمانے لگے، اس کی تنخواہ تو بیباق کر دو۔ خوب ایک تو کام نہ کرے، دوسرے آنکھیں دکھاۓ، اس پر تنخواہ بھی دے دوں۔ میں نے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ ایک کرتا دیا تھا وہ بھی چھین لیا۔ اس پر حضرت کئی دن مجھ سے روٹھے رہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگے جا رہے تھے، بڑی مشکلوں سے رکے۔

ایک دن مہتر نے اتارے کپڑوں کا سوال کیا۔ اس بے کاری کے زمانے میں فالتو کپڑے کس کے گھر میں ہیں۔ شاید رئیسوں کے گھر میں ہوں۔ میرے یہاں تو ضروری کپڑے بھی نہیں۔ حضرت ہی کا توشہ خانہ ایک بقچی میں آجاۓ گا جو ڈاک کے پارسل سے کہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر اس سال سردی کے موسم میں نئے کپڑے بنوانے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ میں نے مہتر کو صاف جواب دے دیا۔ سردی کی شدت تھی اس کا مجھے خود احساس تھا۔ غریبوں پر کیا گزرتی ہے، اس کا بھی علم تھا لیکن میرے یا آپ کے پاس افسوس کے سوا اور کیا علاج ہے۔ جب رؤسا اور امرا کے پاس ایک ایک مال گاڑی کپڑوں سے بھری ہوئی ہے تو پھر غربا کیوں نہ برہنگی کا عذاب جھیلیں۔ خیر میں نے تو اسے جواب دے دیا۔ آپ نے کیا کیا، اپنا کوٹ اُتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ حضرت کے پاس یہی ایک کوٹ تھا۔ یہ خیال نہ ہوا کہ پہنیں گے کیا۔ مہتر نے سلام کیا، دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ آخر کئی دن سردی کھاتے رہے، صبح کو گھومنے جایا کرتے تھے، وہ سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ مگر دل بھی قدرت نے انہیں ایک عجیب قسم کا دیا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے آپ کو شرم نہیں آتی۔ میں تو کٹ جاتی ہوں، آپ کو مطلق احساس نہیں۔ کوئی ہنستا ہے تو ہنسے۔ آپ کی بلا سے۔ آخر مجھ سے دیکھا نہ گیا تو ایک کوٹ بنوا دیا۔ جی تو جلتا تھا کہ خوب سردی کھانے دوں مگر ڈری کہ کہیں بیمار پڑ جائیں تو اور بھی آفت آ جاۓ۔ آخر کام تو انہیں کو کرنا ہے۔

یہ اپنے دل میں سمجھتے ہوں گے کہ میں کتنا نیک نفس اور منکسر المزاج ہوں۔ شاید انہیں ان اوصاف پر ناز ہو۔ میں انہیں نیک نفس نہیں سمجھتی ہوں۔ یہ سادہ لوحی ہے۔سیدھی سادی حماقت۔ جس مہتر کو آپ نے اپنا کوٹ دیا اسی کو میں نے کئی بار رات کو شراب کے نشے میں بد مست جھومتے دیکھا ہے اور آپ کو دکھا بھی دیا ہے، تو پھر دوسروں کی کجروی کا تاوان ہم کیوں دیں؟ اگر آپ نیک نفس اور فیاض ہوتے تو گھر والوں سے بھی تو فیاضانہ برتاؤ کرتے یا ساری فیاضی باہر والوں کے لۓ ہی مخصوص ہے۔ گھر والوں کو اس کا عشرِ عشیر بھی نہ ملنا چاہۓ؟ اتنی عمر گزر گئی مگر اس شخص نے کبھی اپنے دل سے میرے لیے ایک سوغات بھی نہ خریدی۔ بے شک جو چیز طلب کروں اسے بازار سے لانے میں انہیں کلام نہیں، مطلق عذر نہیں مگر روپیہ بھی دے دوں یہ شرط ہے۔ انہیں خود کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ میں مانتی ہوں کہ بچارے اپنے لیے بھی کچھ نہیں لاتے۔ میں جو کچھ منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ مگر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں چاہتا ہے اور مردوں کو دیکھتی ہوں، گھر میں عورت کے لیے طرح طرح کے زیور، کپڑے، شوق سنگھار کے لوازمات لاتے رہتے ہیں۔ یہاں یہ رسم ممنوع ہے۔ بچوں کے لیے مٹھائی، کھلونے، باجے، بگل شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہ لاۓ ہوں، قسم سی کھا لی ہے۔ اس لیے میں تو انہیں بخیل کہوں گی، بد ذوق کہوں گی، مردہ دل کہوں گی۔ فیاض نہیں کہہ سکتی۔ دوسروں کے ساتھ ان کا جو فیاضانہ سلوک ہے اسے بھی حرص و نمود اور سادہ لوحی پر محمول کرتی ہوں۔ آپ کی منکسر المزاجی کا یہ حال ہے کہ جس دفتر میں آپ ملازم ہیں اس کے کسی عہدیدار سے آپ کا میل جول نہیں۔ افسروں کو سلام کرنا تو آپ کے آئین کے خلاف ہے۔ نذر یا ڈالی تو دور کی بات ہے اول تو کبھی کسی افسر کے گھر جاتے ہی نہیںں۔ اس کا خمیازہ آپ نہ اُٹھائیں تو کون اُٹھاۓ اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہیں، آپ کی تنخواہ کٹتی ہے اوروں کی ترقیاں ہوتی ہیں آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ حاضری میں پانچ منٹ بھی دیر ہوجاۓ تو جواب طلب ہو جاتا ہے۔ بچارے جی توڑ کر کام کرتے ہیں۔ کوئی پیچیدہ، مشکل کام آجاۓ تو انہیں کے سر منڈھا جاتا ہے۔ انہیں مطلق عذر نہیں، دفتر میں انہیں گھسو اور پسو وغیرہ خطابات ملے ہوۓ ہیں۔ مگر منزل کتنی ہی دشوار طے کریں ان کی تقدیر میں وہی سوکھی گھاس لکھی ہوئی ہے۔ یہ انکسار نہیں ہے۔ میں تو اسے زمانہ شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو۔ دُنیا میں مروت اور رواداری سے کام چلتا ہے، اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ کھنچا رہے، پھر جب دل میں کبیدگی ہوتی ہے تو وہ دفتری تعلقات میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ جو ماتحت افسر کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی ذات سے افسر کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے، جس پر اعتبار ہوتا ہے، اس کا لحاظ وہ لازمی طور پر کرتا ہے۔ ایسے بے غرضوں سے کیوں کسی کو ہمدردی ہونے لگی۔ افسر بھی انسان ہیں۔ ان کے دل میں جو اعزاز و امتیار کی ہوس ہوتی ہے وہ کہاں پوری ہو۔ جب اس کے ماتحت ہی فرنٹ رہیں۔ آپ نے جہاں ملازمت کی وہاں سے نکالے گئے۔ کبھی کسی دفتر میں سال دو سال سے زیادہ نہ چلے۔ یا تو افسروں سے لڑ گئے یا کام کی کثرت کی شکایت کر بیٹھے۔

آپ کو کنبہ پروری کا دعویٰ ہے۔ آپ کے کئی بھائی بھتیجے ہیں۔ وہ کبھی آپ کی بات بھی نہیں پوچھتے۔ مگر آپ برابر ان کا منہ تاکتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی صاحب آج کل تحصیلدار ہیں۔ گھر کی جائیداد انہی کی نگرانی میں ہے۔ وہ شان سے رہتے ہیں، موٹر خرید لی ہے۔ کئی نوکر ہیں، مگر یہاں بھولے سے بھی خط نہیں لکھتے۔ ایک بار ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہوئی، میں نے کہا اپنے برادر مکرم سے کیوں نہیں مانگتے؟ کہنے لگے کیوں انہیں پریشان کروں۔ آخر انہیں بھی تو اپنا خرچ کرنا ہے۔ کون سی ایسی بچت ہو جاتی ہو گی۔ میں نے بہت مجبور کیا، تو آ پ نے خط لکھا۔ معلوم نہیں خط میں کیا لکھا، لیکن روپے نہ آنے تھے نہ آئے۔ کئی دنوں کے بعد میں نے پوچھا، ”کچھ جواب آیا حضور کے بھائی صاحب کے دربار سے؟“ آپ نے ترش ہو ہو کر کہا، ”ابھی ایک ہفتہ تو خط پہنچے ہوا ہے۔ ابھی کیا جواب آ سکتا ہے؟ ایک ہفتہ اور گزرا۔ اب آپ کا یہ حال ہے کہ مجھے کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرماتے۔ اتنے بشاش نظر آتے ہیں کہ کیا کہوں۔ باہر سے آتے ہیں تو خوش خوش۔ کوئی نہ کوئی شگوفہ لیے ہوئے۔ میری خوشامد بھی خوب ہو رہی ہے۔ میرے میکے والوں کی بھی تعریف ہو رہی ہے۔ میں حضرت کی چال سمجھ رہی تھی۔ یہ ساری دلجوئیاں محض اس لیے تھیں کہ آپ کے برادرم مکرم کے متعلق کچھ پوچھ نہ بیٹھوں۔ سارے، ملکی، مالی، اخلاقی تمدنی مسائل میرے سامنے بیان کیے جاتے ہیں، اتنی تفصیل اور شرح کے ساتھ کہ پروفیسر بھی دنگ رہ جائے۔ محض اس لیے کہ مجھے اس امر کی بابت کچھ پوچھنے کا موقع نہ ملے لیکن میں کب چُوکنے والی تھی، جب پورے دو ہفتے گزر گئے اور بیمہ کمپنی کے روپے روانہ کرنے کی تاریخ موت کی طرح سر پر آ پہنچی تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تمہارے بھائی صاحب نے دہن مبارک سے کچھ فرمایا یا ابھی تک خط ہی نہیں پہنچا۔ آخر ہمارا حصہ بھی گھر کی جائیداد میں کچھ ہے یا نہیں یا ہم کسی لونڈی باندی کی اولاد ہیں؟ پانچ سو روپے سال کا نفع نو دس سال قبل تھا، اب ایک ہزار سے کم نہ ہوگا۔ کبھی ایک جھنجی کوڑی بھی ہمیں نہ ملی۔ موٹے حساب سے ہمیں دو ہزار ملنا چاہیے۔ دو ہزار نہ ہو، ایک ہزار ہو، پانچ سو ہو، ڈھائی سو ہو، کچھ نہ ہو تو بیمہ کمپنی کے پریمیم بھرنے کو تو ہو۔ تحصیل دار کی آمدنی ہماری آمدنی کی چوگنی ہے رشوتیں بھی لیتے ہیں۔ تو پھر ہمارے روپے کیوں نہیں دیتے۔ آپ میں میں، ہاں ہاں کرنے لگے۔ بچارے گھر کی مرمت کراتے ہیں۔ عزیز و اقارب کی مہمان داری کا بار بھی تو انہیں پر ہے۔ خوب! گویا جائیداد کا منشا محض یہ ہے کہ اس کی کمائی اسی میں صرف ہو جاۓ۔ اس بھلے آدمی کو بہانے بھی گھڑنے نہیں آتے۔ مجھ سے پوچھتے، میں ایک نہیں تو ہزار بتا دیتی۔ کہہ دیتے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا اثاثہ جل کر خاک ہوگیا۔ یا چوری ہو گئی۔ چور نے گھر میں تنکا تک نہ چھوڑا۔ یا دس ہزار کا غلّہ خریدا تھا۔ اس میں خسارہ ہو گیا۔ گھاٹے سے بیچنا پڑا۔ یا کسی سے مقدمہ بازی ہوگئی اس میں دیوالیہ پٹ گیا۔ آپ کو سوجھی بھی تو لچر سی بات۔ اس جولانیٔ طبع پر آپ مصنف اور شاعر بھی بنتے ہیں۔ تقدیر ٹھونک کر بیٹھی رہی۔ پڑوس کی بی بی سے قرض لیے تب جا کر کہیں کام چلا۔ پھر بھی آپ بھائی بھتیجوں کی تعریف کے پل باندھتے ہیں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے برادرانِ یوسف سے خدا بچائے۔

خدا کے فضل سے آپ کے دو بچے ہیں، اور دو بچیاں بھی ہیں۔ خدا کا فضل کہوں یا خدا کا قہر کہوں، سب کے سب اتنے شریر ہو گۓ کہ معاذ اللہ۔ مگر کیا مجال کہ یہ بھلے مانس کسی بچے کو تیز نگاہ سے بھی دیکھیں۔ رات کے آٹھ بج گئے ہیں، بڑے صاحبزادے ابھی گھوم کر نہیں آئے۔ میں گھبرا رہی ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ جھلائی ہوئی آتی ہوں اور اخبار چھین کر کہتی ہوں، ”جا کر ذرا دیکھتے کیوں نہیں، لونڈا کہاں رہ گیا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کچھ قلق ہے بھی یا نہیں۔ تمہیں تو خدا نے اولاد ہی ناحق دی۔ آج آئے تو خوب ڈانٹنا“۔ تب آپ بھی گرم ہو جاتے ہیں۔ ”ابھی تک نہیں آیا۔ بڑا شیطان ہے۔ آج بچوُ آتے ہیں تو کان اکھاڑ لیتا ہوں، مارے تھپڑوں کے کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔ یوں بگڑ کر طیش کے عالم میں آپ اس کو تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ اتفاق سے آپ ادھر جاتے ہیں، ادھر لڑکا آجاتا ہے۔ میں کہتی ہوں تو کدھر سے آ گیا۔ وہ بچارے تجھے ڈھونڈنے گئے ہوئے ہیں۔ دیکھنا آج کیسی مرمت ہوتی ہے۔ یہ عادت ہی چھوٹ جاۓ گی۔ دانت پیس رہے تھے آتے ہی ہوں گے۔ چھڑی بھی ہاتھ مں ہے۔ تم اتنے شریر ہو گئے ہو کہ بات نہیں سنتے۔ آج قدر و عافیت معلوم ہوگی۔ لڑکا سہم جاتا ہے اور لیمپ جلا کر پڑھنے لگتا ہے۔ آپ ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوٹتے ہیں۔ حیران و پریشان اور بدحواس، گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھتے ہیں، ”آیا کہ نہیں؟“

میں ان کا غصہ بھڑکانے کے ارادے سے کہتی ہوں، ”آ کر بیٹھا تو ہے جا کر پوچھتے کیوں نہیں، پوچھ کر ہار گئی کہاں گیا تھا۔ کچھ بولتا ہی نہیں۔

“آپ گرج پڑتے ہیں، ”منو! یہاں آؤ“

لڑکا تھر تھر کانپتا ہوا آ کر آنگن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں بچیاں گھر میں چھپ جاتی ہیں کہ خدا جانے کیا آفت نازل ہونے والی ہے۔ چھوٹا بچہ کھڑکی سے چوہے کی طرح جھانک رہا ہے۔ آپ جامے سے باہر ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میں بھی وہ غضب ناک چہرہ دیکھ کر پچھتانے لگتی ہوں کہ کیوں ان سے شکایت کی۔ آپ لڑکے کے پاس جاتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ چھڑی سے اس کی مرمت کریں۔ آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بناوٹی غصے سے کہتے ہیں۔ ”تم کہاں گۓ تھے جی! منع کیا جاتا ہے۔ مانتے نہیں ہو۔ خبردار جو اب اتنی دیر کی۔ آدمی شام کو گھر چلا آتا ہے یا ادھر ادھر گھومتا ہے؟“

میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے۔ قصیدہ اب شروع ہوگا، گریز تو بری نہیں لیکن یہاں تمہید ہی پر خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بس آپ کا غصہ فرو ہو گیا۔ لڑکا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اور غالباً خوشی سے اچھلنے لگتا ہے۔

میں احتجاج کی صدا بلند کرتی ہوں۔ ”تم تو جیسے ڈر گئے، بھلا دو چار طمانچے تو لگائے ہوتے۔ اس طرح تو لڑکے شیر ہو جاتے ہیں۔ آج آٹھ بجے آیا ہے۔ کل نو بجے کی خبر لائے گا۔ اس نے بھی دل میں کیا سمجھا ہوگا۔“

آپ فرماتے ہیں، ”تم نے سنا نہیں میں نے کتنی زور سے ڈانٹا۔ بچے کی روح ہی فنا ہو گئی ہوگی۔ دیکھ لینا جو پھر کبھی دیر میں آۓ“۔ تم نے ڈانٹا تو نہیں ہاں آنسو پونچھ دیئے۔

آپ نے ایک نئی اپج نکالی ہے کہ لڑکے تادیب سے خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں لڑکوں کو آزاد رہنا چاہیے۔ ان پر کسی قسم کی بندش یا دباؤ نہ ہونا چاہیے۔ بندش سے آپ کے خیال میں لڑکے کی دماغی نشو و نمامیں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ لڑکے شتر بے مہار بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایک منٹ بھی کتاب کھول کر نہیں بیٹھتا۔ کبھی گلی ڈنڈا ہے، کبھی گولیاں، کبھی کنکوے۔ حضرت بھی انہیں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ چالیس سال سے تو متجاوز آپ کی عمر ہے مگر لڑکپن دل سے نہیں گیا۔ میرے باپ کے سامنے مجال کیا تھی کہ کوئی لڑکا کنکوا اڑا لے یا گلی ڈنڈا کھیل سکے۔ خون پی جاتے۔ صبح سے لڑکوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے۔ اسکول سے جوں ہی لڑکے واپس آتے پھر لے بیٹھتے۔ بس شام کو آدھ گھنٹے کی چھٹی دیتے۔ رات کو پھر کام میں جوت دیتے۔ یہ نہیں کہ آپ تو اخبار پڑھیں اور لڑکے گلی گلی کی خاک چھانتے پھریں۔ کبھی آپ بھی سینگ کٹا کر بچھڑے بن جاتے ہیں، لڑکوں کے ساتھ تاش کھیلنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے باپ کا لڑکوں پر کیا رعب ہو سکتا ہے۔ اباجان کے سامنے میرے بھائی سیدھے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی قیامت آ جاتی تھی۔ انہوں نے گھر میں قدم رکھا اور خموشی طاری ہوئی۔ ان کے رو برو جاتے ہوۓ لڑکوں کی جان نکلتی تھی اور اسی تعلیم کی یہ برکت ہے کہ سبھی اچھے عہدوں پر پہنچ گئے۔ صحت البتہ کسی کی بہت اچھی نہیں ہے۔ تو ابا جان کی صحت ہی کون سی بہت اچھی تھی۔ بچارے ہمیشہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے۔ پھر لڑکوں کی صحت کہاں سے اچھی ہو جاتی لیکن کچھ بھی ہو تعلیم و تادیب میں انہوں نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی۔

ایک روز میں نے حضرت کو بڑے صاحبزادے کو کنکوے کی تعلیم دیتے دیکھا۔ یوں گھماؤ، یوں غوطہ دو، یوں کھینچو، یوں ڈھیل دو۔ ایسا دل و جان سے سیکھا رہے تھے، گویا گرو منتر دے رہے ہوں۔ اس دن میں نے بھی ان کی ایسی خبر لی کہ یاد کرتے ہوں گے۔ میں نے صاف کہہ دیا تم کون ہوتے ہو میرے بچوں کو بگاڑنے والے۔ تمہیں گھر سے کوئی مطلب نہیں ہے، نہ ہو، لیکن میرے بچوں کو خراب مت کیجیے، برے برے شوق نہ پیدا کیجیے۔ اگر آپ انہیں سدھار نہیں سکتے تو کم سے کم بگاڑییے تو مت۔ لگے باتیں بنانے، ابا جان کسی لڑکے کو میلے تماشے نہ لے جاتے تھے۔ لڑکا سر پٹک پٹک کر مر جاۓ مگر ذرا بھی نہ پسیجتے تھے اور ان بھلے آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک ایک سے پوچھ کر میلے لے جاتے ہیں۔ چلو چلو، وہاں بڑی بہار ہے، خوب آتش بازیاں چھوٹیں گی، غبارے اڑیں گے۔ ولایتی چرخیاں بھی ہیں، ان میں مزے سے بیٹھنا اور تو اور آپ لڑکوں کو ہاکی کھیلنے سے بھی نہیں روکتے۔ یہ انگریزی کھیل بھی کتنے خوف ناک ہوتے ہیں۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی ایک سے ایک مہلک۔ گیند لگ جاۓ تو جان ہی لے کر چھوڑے۔ مگر آپ کو ان کھیلوں سے بڑی رغبت ہے۔ کوئی لڑکا میچ جیت کر آتا ہے تو کتنے خوش ہوتے ہیں، جیسے کوئی قلعہ فتح کر آیا ہو۔ حضرت کو ذرا بھی اندیشہ نہیں کہ کسی لڑکے کے چوٹ لگ گئی تو کیا ہوگا۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا تو بچاروں کی زندگی کیسے پار لگے گی۔

پچھلے سال لڑکی کی شادی تھی۔ آپ کو یہ ضد تھی کہ جہیز کے نام کانی کوڑی بھی نہ دیں گے۔ چاہے لڑکی ساری عمر کنواری بیٹھی رہے۔ آپ اہل دُنیا کی خبیث النفسی آۓ دن دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر بھی چشم بصیرت نہیں کھلتی۔ جب تک سماج کا یہ نظام قائم ہے اور لڑکی کا بلوغ کے بعد کنواری رہنا انگشت نمائی کا باعث ہے اس وقت تک یہ رسم فنا نہیں ہو سکتی۔ دو چار افراد بھلے ہی ایسے بیدار مغز نکل آئیں جو جہیز لینے سے انکار کریں لیکن اس کا اثر عام حالات پر کم ہوتا ہے اور برائی بدستور قائم رہتی ہے۔ جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لیے بھی بیس پچیس برس کی عمر تک کنواری رہنا بدنامی کا باعث نہ سمجھا جاۓ گا۔ اس وقت آپ ہی آپ یہ رسم رخصت ہو جاۓ گی۔ میں نے جہاں جہاں پیغام دیئے، جہیز کا مسئلہ پیدا ہوا اور آپ نے ہر موقع پر ٹانگ اڑا دی۔ جب اس طرح ایک سال پورا گزر گیا اور لڑکی کا سترھواں سال شروع ہو گیا تو میں نے ایک جگہ بات پکی کر لی۔ حضرت بھی راضی ہو گئے کیوں کہ ان لوگوں نے قرارداد نہیں کی۔ حالانکہ دل میں انہیں پورا یقین تھا کہ ایک اچھی رقم ملے گی اور میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ اپنے مقدور بھر کوئی بات اُٹھا نہ رکھوں گی۔ شادی کے بخیر و عافیت انجام پانے میں کوئی شبہ نہ تھا، لیکن ان مہاشے کے آگے میری ایک نہ چلتی تھی۔ یہ رسم بے ہودہ ہے۔ یہ رسم بے معنی ہے۔ یہاں روپے کی کیا ضرورت؟۔ یہاں گیتوں کی کیا ضرورت؟ ناک میں دم تھا۔ یہ کیوں وہ کیوں؟ یہ تو صاف جہیز ہے۔ تم نے میرے منہ میں کالک لگا دی۔ میری آبرو مٹا دی۔ ذرا خیال کیجیے، بارات دروازے پر پڑی ہوئی ہے اور یہاں بات بات پر رد و قدح ہو رہی ہے۔ شادی کی ساعت رات کے بارہ بجے تھی۔ اس دن لڑکی کے ماں باپ برت رکھتے ہیں۔ میں نے بھی برت رکھا لیکن آپ کو ضد تھی۔ کہ برت کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب لڑکے کے والدین برت نہیں رکھتے تو لڑکی کے والدین کیوں رکھیں۔ میں اور سارا خاندان ہر چند منع کرتا رہا لیکن آپ نے حسب معمول ناشتہ کیا، کھانا کھایا۔ خیر رات کو شادی کے وقت کنیا دان کی رسم آئی۔ آپ کو کنیا دان کی رسم پر ہیشہ سے اعتراض ہے۔ اسے آپ مہمل سمجھتے ہیں۔ لڑکی دان کی چیز نہیں۔ دان روپے پیسے کا ہوتا ہے جانور بھی دان دیئے جاسکتے ہیں لیکن لڑکی کا دان ایک لچر سی بات ہے۔ کتنا سمجھاتی ہوں۔ ”صاحب پرانا رواج ہے، شاستروں میں صاف اس کا حکم ہے۔ عزیز و اقارب سمجھا رہے ہیں مگر آپ ہیں کہ کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کہتی ہوں دُنیا کیا کہے گی؟ یہ لوگ کیا بالکل لا مذہب ہو گئے مگر آپ کان ہی نہیں دھرتے۔ پیروں پڑی، یہاں تک کہا کہ بابا تم کچھ نہ کرنا جو کچھ کرنا ہوگا میں کرلوں گی۔ تم صرف چل کر منڈپ میں لڑکی کے پاس بیٹھ جاؤ اور اسے دُعا دو۔ مگر اس مرد خدا نے مطلق سماعت نہ کی۔ آخر مجھے رونا آگیا۔ باپ کے ہوتے میری لڑکی کا کنیا دان چچا یا ماموں کرے، یہ مجھے منظور نہ تھا۔ میں نے تنہا کنیا دان کی رسم ادا کی۔ آپ گھر جھانکے تک نہیں اور لطف یہ ہے کہ آپ ہی مجھ سے روٹھ بھی گئے۔ بارات کی رخصتی کے بعد مجھ سے مہینوں بولے نہیں۔ جھک مار کر مجھی کو منانا پڑا۔

مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لیے بھی جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں۔ مجھے خود نہیں معلوم۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور جو مجھے ان کا غلام بناۓ ہوۓ ہے۔ وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں بے صبر ہو جاتی ہوں۔ ان کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے۔ آج اگر تقدیر ان کے عوض مجھے کوئی علم اور عقل کا پتلا، حسن اور دولت کا دیوتا بھی دے تو میں اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھوں۔ یہ فرض کی بیڑی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ رواجی وفاداری بھی نہیں ہے بلکہ ہم دونوں کی فطرتوں میں کچھ ایسی رواداریاں کچھ ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں گویا کسی مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر فٹ ہو گئے ہوں۔ ا ور ایک پرزے کی جگہ دوسرا پرزہ کام نہ دے سکے چاہے وہ پہلے سے کتنا ہی سڈول، نیا اور خوشنما کیوں نہ ہو۔ جانے ہوئے رستے ہم بے خوف، آنکھیں بند کیے چلے جاتے ہیں، اس کے نشیب و فراز، موڑ اور گھماؤ اب ہماری آنکھوں میں سمائے ہوۓ ہیں۔ اس کے برعکس کسی انجان رستے پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ہو سکتا ہے۔ قدم قدم پر گمراہ ہوجانے کے اندیشے، ہر لمحہ چور اور رہزن کا خوف، بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوں کو خوبیوں سے تبدیل کرنے پر بھی تیار نہی

اگلا صفحہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلا صفحہ

 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved