|
Telephone:- 0333-5176429 |
Email:-atharwani@gmail.com |
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
 |
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
Telephone:- 0333-5176429 |
Email:-atharwani@gmail.com |
تاریخ اشاعت:۔06-12-2010 |
”وکی
لیکس“ کے انکشافات، دور جدید کا اہم تقاضہ |
کالم ۔۔۔------------ اطہر
مسعود وانی |
اطہر مسعود
وانی
چند سال قبل امریکہ نے شہریوں کے حق اطلاعات
میں اعلان کیا کہ 25سال پرانی خفیہ سرکاری راز
سے متعلق دستاویزات عام کر دی جائیں گی۔یوں
امریکی حکومت کی طرف سے پچیس سال پرانی اہم
اطلاعات ”ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنیٹس“ کے نام سے
عام کرنی شروع کیں۔امریکہ کی ان ”ڈی
کلاسیفائیڈ ڈاکومنیٹس“ کی تفصیلات سے متعلق
کئی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔اب عراق اور
افغانستان میں جنگ اور مختلف ملکوں سے متعلق
”وکی لیکس“ کے انکشافات نے دنیا کے کئی ملکوں
کو شرمندگی اور پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔
اہم حکومتی اور سرکاری راز افشاں کرتے ہوئے
دنیا بھر میں تہلکہ مچانے والی ویب سائٹ ”وکی
لیکس“ کے بانی جولین اسانش ہیںجو آسٹریلیا میں
پیدا ہوئے اور ان کے پاس آسٹریلوی پاسپورٹ ہے۔
اپریل2009ءمیں جولین اسانش نے واشنگٹن کے
نیشنل پریس کلب میں ایک ویڈیو دکھائی تھی جس
میں 2007 میں بغداد میں ایک امریکی فوجی ہیلی
کاپٹر سے بارہ عراقیوں کو ہلاک کرتے ہوئے
دکھایا گیا تھا جن میں رائٹرز کے دو صحافی بھی
شامل تھے۔۔جولائی 2009ءمیں وکی لیکس نے
افغانستان کی جنگ پر 77 ہزار امریکی فوجی
دستاویز شائع کیے۔اور اس کے بعد اکتوبر میں
عراق جنگ پر چار لاکھ خفیہ دستاویز جاری کیے
گئے۔افغانستان کے بارے میں دستاویز جاری کرنے
کے بعد اسانش سویڈن چلے گئے جہاں انہوں نے
رہائش اور کام کرنے کے ویزہ کے لیے درخواست دی
تھی۔امریکہ میں حکومت کے وکلاءجاسوسی کے الزام
میں اسانش پر مقدمہ چلانے کے بارے میں غور کر
رہے ہیں۔جاسوسی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمہ چلانے
میں امریکی آئین کی پہلی ترمیم ایک بڑی رکاوٹ
بن سکتی ہے جو آزادی اظہار اور پریس کی آزادی
کی ضمانت دیتی ہے۔تاہم امریکی ماہرین کے مطابق
اسانش پر سرکاری املاک چرانے کا مقدمہ بھی
چلایا جا سکتا ہے۔بعض اطلاعات کے مطابق ”وکی
لیکس“ کو کئی دستاویزات کے ھصول کے لئے پیسہ
بھی دینا پڑا ہے۔ یورپی یونین اسانش کو سویڈن
میں جنسی زیادتی کے ایک الزام میں پوچھ گچھ
کرنے کے لیے تلاش کر رہی ہے اور اب انٹرپول نے
جولین اسانش کے خلاف ریڈ نوٹس جاری کرتے ہوئے
افغانستان سے لیکر زمبابوے تک 188 ملکوں کو
مطلع کیا ہے کہ اسانش سویڈن کی پولیس کو مطلوب
ہیں۔آخری اطلاعات کے مطابق وہ ان دنوں برطانیہ
میں خفیہ طور پر مقیم ہیں اور ان کے پاس
برطانیہ کا چھ ماہ کا ویزہ ہے۔
” ولی لیکس“ کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے
والی دستاویزات نے امریکہ،برطانیہ کے علاوہ
پاکستان،افغانستان اور سعودی عرب سمیت کی
ملکوں کی حکومتوں کو پریشان کر دیا ہے ۔ ” ولی
لیکس“ کے ان انکشافات نے دنیا بھر میں ایک نئی
بحث کا آغاز کیا ہے کہ کیا اس طرح کی خفیہ
معلومات کو بے نقاب کرنا منا سب ہے یا
نہیں۔سرسید احمد خان اپنے بچپن کے حالات کے
بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک حویلی میں اپنے
کئی رشتہ دار گھرانوں کے ساتھ رہتے تھے۔اس
خاندان کے بچوں کو بزرگوں کی طرف سے ہدایت تھی
کہ وہ ہر ایسا کھیل کھیل سکتے ہیں جو وہ سب کے
سامنے کھیلا جا سکے تاہم جو کھیل سب کے سامنے
نہ کھیلا جا سکے ،اس کی اجازت نہیں تھی۔
کسی بھی ملک کے شہریوں کا حق ہے کہ وہ ملکی
اور عالمی امور کے بارے میں شفاف معلومات حاصل
کر سکیں ۔ملکوں کے آپس میں ہونے والے معاملات
سے شہریو ں کو آگاہ ہونا چاہئے تا کو کوئی بھی
ملک خفیہ طور پر غیر اخلاقی ،بے اصولی اور
دھونس پر مبنی روئیہ نہ اپنا سکے۔یہ بادشاہت
کے انداز کی آمرانہ حکومتوں کا دور نہیں ،انسانی
عظمت کو مقدم بنانے کا وقت ہے۔حکومتیں اپنے
سفارتکاروں کو ایسا انداز اپنانے کا
پابنداورایسی سرگرمیوں سے اجتناب کی ہدایت
کریں جو منظر عام آنے پر انہیں شرمندگی،ہزیمت
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”وکی لیکس“ کا شکریہ ،ورنہ
بیس ،تیس سال بعد حقائق منظر عام پر لانے کا
کیا فائدہ کہ جب کوئی اصلاح ممکن ہی نہ رہے۔”
وکی لیکس“ کے انکشافات کا یہ انداز جدید دور
کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔”وکی لیکس “کے
انداز میں معلومات،حکومتوں کے کرتوتوں کو منظر
عام پر لانے کے اس سلسلے کو مزید وسعت دی جانی
چاہئے ۔آزادی اظہار کے نئی و بے باک۔دنیا بھر
میں خفیہ ایجنسیوں کی حاکمیت کے تناظر
میںریاستوں ،حکومتوں کے نام پر شہریوں،انسانیت
کی تذلیل کے بھیانک دور کو اب چلتا کر دینا
ضروری ہے،اگر ہمیں انسانیت کی تعظیم کو یقینی
بنانا ہے اور دنیا کو انسانی فلاح و بہبود کے
طور پر ترقی دینی ہے۔#
|
|