|
تاریخ اشاعت:۔28-12-2010 |
محترمہ بے نظیر بھٹو 1953سے 2007تک |
کالم۔۔۔ عبدالحمیدآفریدی |
محترمہ بے نظیر
بھٹو 21جون 1953ءمیں سند ھ کے مشہور سیاسی
بھٹو خاندان میںپیدا ہو ئی انہوں نے ابتدائی
تعلیم کراچی میں حاصل کی ،15سال کی عمر میں او
لیول کا امتحان پاس کیا اس کے بعد اپریل
1969ءمحترمہ نے ہارورڈ یونیورسٹی کے Radcliffe
Collegeمیں داخلا لیا ،اسی یونیورسٹی سے
1973ءمیں پو لیٹیکل سائنس میں گریجوایشن کیا
اور اس کے بعد انہوں نے آکسفورڈ یو نیورسٹی
میں داخلا لیا ،جہاں سے انہوں نے
فلسفہ،معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔اس
دوران محترمہ بے نظیر بھٹو آکسفورڈ یو نیورسٹی
یونین کی صدر بھی رہی۔
انہوں نے بر طانیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر نے
کے بعد جون 1977ءمیں اس ادارے سے واپس آئیں کہ
ملک کے خارجہ امو ر میں خدمات سرانجام دیں گی
لیکن ملک کے حالات کچھ اور تھے محترمہ پاکستان
پہنچی اس کے دو ہفتے بعد جنرل ضیاالحق نے
ذوالفقا رعلی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ
کر اقتدار پر قبضہ کرلیا جنر ل ضیاالحق نے
ذوالفقارعلی بھٹوکو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ
ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیا اور ساتھ ہی بے
نظیر بھٹو کو بھی گھر کے اندر نظر بند کر دیا
گیا ،لیکن اٹھارہ ماہ قید اور نظر بندی کے
ساتھ آمرانہ اقدام کے خلاف جدوجہد جاری رکھی
۔اپریل1979ءمیںسپریم کورٹ آف پاکستان نے
ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازعہ کیس
میں پھانسی کی سزا سنادی ۔1981ءمیں مارشل
لاءکے خاتمے کے بعد اور جمہوریت کی بحالی کےلے
ایم آرڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا ،جس سے
آمریت کے خلاف 14اگست 1983ءسے بھر پور جدوجہد
شروع کی ۔تحریک کی قیادت کر نے والے غلام
مصطفٰی نے دسمبر 1983ءمیں تحریک ختم کر نے کا
اعلان کیا لیکن عوام نے جدوجہد جاری رکھی
۔1983ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کو جیل سے
رہائی ملی جس کے بعد دوسال برطانیہ میں جلا
وطنی کی زندگی گزاری،اس دوران پیپلز پارٹی کے
رہنماﺅں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنادیا ،جب
ملک میں مارشل لاءاٹھوائے جانے کے بعد اپریل
1986ءمیں بے نظیر واپس آئی تو لاہور ائیر پورٹ
پر عوام نے ان کا فیقد المثال استقبال کیاگیا
۔محتر مہ بے نظیر بھٹو 1987ءمیں نواب شاہ کی
اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی
زرداری سے رشتہ ازواج میں منسلک ہو گئیں،شادی
کے بعد بھی سیاسی جدوجہد کا دامن ہاتھ سے نہیں
چھوڑا ۔17اگست1988ءمیں ضیا الحق طیارے کے
حادثے میں جابحق ہو گئے تو ملک کے اندر سیاسی
تبدیلی کا دروازہ کھلا ،سینٹ کے چیئر مین غلام
اسحاق کو قائم مقام صدر بنادگیا جس نے نوے دن
کے اندر انتخاب کروانے کا اعلان کردیا
،16نومبر1988ءمیں عام انتخابات منعقد ہو ئے جس
میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز
پارٹی نے حاصل کی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے دو
دسمبر 1988ءمیں 30سال کی عمر میں ملک اور
اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر
حلف اٹھایا ۔6اگست 1990ءمیں بیس ماہ کے بعد
صدر اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت پر بد
عنوانی کے الزامات لگا کر برطرف کردیا
۔2اکتوبر1990ءکو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس
میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر حکومت کی مخالف
جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے
الائنس بنایا ۔ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم
لیگ ن کے صدر نواز شریف وزیراعظم بن گئے اور
محتر مہ بے نظیر قائد حزب اختلاف بن گئی
۔1993ءمیں اس وقت کے صد نے غلام اسحاق خان نے
نواز شریف کی حکومت کو بھی بد عنونی کے الزام
میں برطرف کردیا جس کے بعد اکتوبر 1993ءمیں
عام انتخابات ہوئے جس میں پیپلز پارٹی اور اس
کے حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب
ہوئیں اورمحترمہ بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر
وزیراعظم بن گئی ۔20ستمبر1994ءکو وزیراعظم کے
سگے بھائی میر مرتضیٰ بھٹوکو سند ھ پولیس نے
پولیس مقابلے میں قتل کر دیا۔اس قتل کا الزام
وزیراعظم اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر
لگا یا گیا ۔صدر فاروق لغاری نے بد عنوانی ،نااہلی
اور مر تضیٰ بھٹو کے قتل کے الزامات کے تحت بے
نظیر بھٹو کی حکومت کو ختم کر دیا اور 5نومبر
1996ءکو معراج خالد کوپاکستان کا نگران
وزیراعظم مقر رکیا ۔جن کی زیر نگرانی 3فروری
1997ءکو الیکشن ہو ئے ۔3فروری1997ءکے انتخابات
میں اکثریتی ووٹ حاصل کر کے جناب نواز شریف
ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم منتخب ہو ئیں ۔وزیراعظم
اور فوج کے درمیان بد اعتمادی کی فضاءپیدا ہو
ئی جس کے نتیجہ میں فوج کو 12اکتوبر 1999ءکو
نو از شریف کوبر طرف کرکے ملکی انتظام سنبھا
لنا پڑا ۔آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے چیف
ایگزیکٹو کے نام پر ملک کا انتظام خود سنبھال
لیا ۔صدر رفیق تارڑ کو بطور صدر کام کرنے دیا
گیا ۔پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو
اور ن لیگ کے سربراہ میاں محمد نوازشریف دونوں
کو جلا وطن کر دیا ۔10اکتوبر 2002ءمیں نئے
الیکشن منعقد ہو ئے اور اقتدار میں شراکت کے
لئے جناب میر ظفراللہ جمالی کو وزارت عظمیٰ کے
عہدے پر فائز کیا گیا ۔
بےنظیر اپنے بھائی مر تضیٰ بھٹو کے قتل اور
اپنی حکومت ختم ہو نے کے بعد کچھ عرصہ بعد ہی
جلا وطنی اختیا ر کرتے ہوئے متحدہ عرب امارت
اور دبئی میں قیام کیا اس دوران بے نظیر ،نواز
شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل
کر لند ن میں اے آڑ دی کی بنیاد ڈالی ۔اور ملک
میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھر پور
مذاحمت کا اعلان کیا ۔ان کی جلاوطنی کے دوارن
ایک اہم پیش رفت اس وقت ہو ئی جب 14مئی
2004ءکو لندن میں نواز شریف اوربے نظیر کے
درمیان میثاق جمہوریت پر دستحط کر کے جمہوریت
کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال
نہ ہونے کا فیصلہ کیا دوسری پیش قدمی اس وقت
ہو ئی جب 28جولائی 2007ءکو ابو ظہبی میں جنرل
مشرف اور بے نظیر کے درمیان اہم ملاقات ہوئی
جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن تقر یبا
ساڑھے آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کرکے 18اکتوبر
کو وطن واپس آئیں تو ان کاکراچی ائیر پورٹ پر
فقیدالمثال استقبال کیا گیا ۔بے نظیر کا
کاررواں شاہراہ فیصل پر مزار قائد کی جانب بڑھ
رہا تھا کہ اچانک زودار دھماکے ہوئے جس کے
نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہو ئیں اور بیشتر زخمی
ہو ئے ۔قیامت صغرٰ ی کے اس مناظر میں بے نظیر
بھٹوکو بحفاظت بلاﺅل ہاوس پہنچایا گیا ۔پیپلز
پارٹی کی چیئر پرسن جب اپنے بچوں بلاول ،بختیار
اور آصفہ سے ملنے دوبارہ دبئی گئی تو اس ملک
کے اندر جنرل پرویز مشرف نے 3نومبر جو ایمر
جنسی نافذ کر دی ،یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی
سے واپس وطن لوٹ آئیں ،ایمر جنسی کے خاتمے،ٹی
وی چینلز سے پابندی ہٹانے او ر سپریم کورٹ کے
ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہو ئے حکومت کے
خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا اس وقت تک ملک
میں نگران حکومت قائم ہو چکی تھی اور مختلف
پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے کے معاملے میں
بٹی ہو ئی نظر آرہی تھی اس صورت میں پیپلز
پارٹی نے میدان خالی نہ چھوڑنے کی حکمت عملی
کے تحت تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے اور
کاغذات نامزدگی کرائے ۔
27دسمبر 2007کو جب بے نظیر بھٹو لیاقت باغ میں
عوامی جلسے سے خطاب کرنے کے بعد اپنی گاڑی میں
بیٹھ کر اسلام آباد آرہی تھی کہ لیاقت باغ کے
مرکزی دروازے پرپیپلز یو تھ آرگنائز یشن کے
کارکن بے نظیر کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے
اس دوران وہ پارٹی کارکنوں کے ساتھ
اظہاریکجہتی کے لئے گاڑی کی چھت سے باہر نکل
رہی تھیں کہ نامعلوم شخص نے ان پر فائر نگ
کردی اس کے بعد بے نظیر کی گاڑی سے کچھ فاصلہ
پر ایک زوردار دھماکہ ہو ا اس میں ایک خود کش
حملہ آور جس نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ہو ئی
بیلٹ پہن رکھی تھی خود کو دھماکہ سے ا ±ڑھا
دیا ۔اس دھماکے میں بے نظیر بھٹو جس گاڑی میں
سوار تھی اس کو شدید نقصان پہنچالیکن گاڑی کا
ڈرائیور اس حالت میں گاڑی کو بھگا کر راولپنڈی
جنرل ہسپتال لے گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ
لاتے ہو ئے خالق حقیقی سے جاملی ۔یہ تھی محتر
مہ بے نظیر بھٹو شہید کی مختصر سی داستان
تاریخ1953سے 2007تک ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدصر ف پیپلز پارٹی کی
قائدنہیں تھی بلکہ وہ ایک مقبول اور متحر ک
راہنماتھی وہ دنیا میں پاکستان کی پہچان تھی
اور اسلامک ورلڈ کی پہلی خاتون وزیراعظم تھی
وہ ایک بہادر خاتون تھی خودکش بم دھماکہ ہو نے
کے بعد بھی محترمہ کا حوصلہ ختم نہیں کیا
جاسکا ،بلکہ وہ تما م خطرات کو بالائے طاق رکھ
کر عوام میں گھل مل جاتی ۔یہ بہادر خاتون پوری
دنیا میں اپنی پہچان رکھتی تھی دنیا کے بااثر
خواتین میں دوسرے نمبر پر تھی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کو صف نازک تصورکیا
جاتا ہے عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ
چھپکلی کودیکھ کربھی ڈر جا تی ہے لیکن محترمہ
نے ان تما م خدشات اور باتوں کو غلط ثابت کر
دیا جو عورت کی ذات سے متعلق ہے انھوں دنیا کو
یہ باور کرایا کہ اگر عورت چاہے توہ سب کچھ
کرسکتی ہے۔جلا وطنی کے بعد جب وہ پہلی بار
پاکستان آئی اس کے قافلے پر کارسازکے مقام پر
بم دھماکے کرا گئے۔جس میںکئی ہلاکتیں ہوئی
لیکن بے نظیر بھٹو خوش قسمتی سے بچ گئی ،انتے
بڑے سانحہ کے بعد بھی محتر مہ کا حوصلہ پست
نہیںہو ا بلکہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کو
جاری رکھا ۔منصوبہ ساز قاتل جنھوں نے یہ تہیہ
کر لیا تھا کہ بے نظیر کی جان لیں کر ہی
رہینگے انھوں نے محتر مہ کا پیچا نہیں چھوڑا
اور بالاآخر وہ اپنے اس غلیظ اوربزدلانہ حرکت
میں کامیاب ہو گے قوم کویہ دکھ بھری خبر سننے
کو ملی کہ پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن محترمہ بے
نظیر بھٹو کو لیاقت باغ کہ ایک جلسے میں شہید
کر دیا گیا۔
دسمبر کے اپنے زندگی کے آخری جلسے میں لال اور
سفید پھولوں سے سجا ہار پہنی ہو ئی غضب کی
خوبصورت لگ رہی تھی بلند حوصلہ ،اعلیٰ ظرفی ،
ہمت شجاعت ،قائدانہ صلاحیتیںاورسیاسی شعور سے
ہم آہنگ تھی،بلاخوف و خطر لاکھوں کے مجمے میں
شریک تھی۔ ساڑھے آٹھ سالا جلا وطنی کے بعدوطن
کی محبت نے پاک سر زمین پر آنے کے لئے مجبو ر
کیا ، انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز پرجوش
طریقے سے کیا ۔ان کی تقریر کا نمایا پہلو
امریت کے خلاف اور جمہوریت کے لئے اقدامات
تھے،انھوں نے کہا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں سے
زوالفقار علی بھٹو شہیدنے ایوب کے خلاف جدوجہد
کا آغا زکیا یہ وہ شہر ہے جو امریت کو شکست
دیتا ہے راولپنڈی میرا دوسرا گھر ہے جب بھٹو
صاحب وزیر تھے میں اس شہر میں اسکول جا تی تھی
اس شہر میں جہاں میں بہت خوشیا ں دیکھی
وہاںمیں نے بہت دکھ بھی دیکھیں ۔
پاکستان کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ یہاںسیاسی
ومذہبی رہنما ہو یا علماءکرام سب دہشت گردی کا
شکا رہو ئے ہیں لیکن ابھی تک کسی ایک کے قاتل
کا سراغ بھی نہیں لگایا جاسکا، پاکستان کاسب
سے پہلا سیاسی قتل لیا قت علی خان کا ہوا تھا
جس کا آج تک پتہ نہیں چلا اسی طرح ضیاءالحق کو
جہاز کے حادثے میں ہلاک کردیا ،ذوالفقار علی
بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا،
حکیم سعید کو دن دہاڑے فائرنگ کرکے ہلاک
کردیا۔دیگر کئی ممتاز علماءکرام اور سیاسی
رہنما ﺅںکا قتل ہو چکا ہے ہر سانحہ کے بعد یہی
کہا جاتا کہ تحقیقات ہو رہی ہے لیکن حل کچھ
نہیں
نکلتا،بے نظیر بھٹو کو شہیدکر نے کے بعد بھی
بڑی باتیں ہو ئی تحقیقاتی کمیشن بنائے گئے ،باہر
سے اسکاٹ یارڑ کی تفتیشی ٹیمیں آئی ،معائنہ
کرائے گئے ۔حاصل کچھ نہیں ہو ا ،اب جبکہ پیپلز
پارٹی کی اپنی حکومت ہے اس کے باوجود بھی ان
کی حکومت اس مسئلہ کو حل کر نے میں سنجید ہ
نظر نہیں آتی ،دوسال بیت گئے لیکن اب تک اصل
محرکات سامنے نہیں آئے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید جیسی قائد مدتوں بعد
بھی پیدا نہیں ہو سکتی ان کہ یہ خلا ءپر نہیں
کیا جا سکتا وہ ایک عظیم قائد تھی ،تاریخ میں
ان کا نام ہمشہ زندہ رہے گا ۔27دسمبر پاکستانی
قوم کے لئے غم اور دکھ کا دن ہے یہ دن ہمشہ بے
نظیر بھٹو کی شہادت کی یاد دلائے گا ۔
|
 |
 |
 |
 |
 |
 |
|