اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-iqbal.janjua1@gmail.com
 

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔08-07-2010

یہ ہوٹلز نہیں زبح خانے ہیں۔
 
کالم۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اقبال جنجوعہ

ارشد پنڈی میں مزدری کر کے اپنے گھروالوں کا مشکل سے پیٹ پالتا ہے ،ایک رات اسے اچانگ گھر سے فون آیا کہ تم جتنا جلدی ہو سکے گھر پہنچو اس کے پاس تیار ہونے کے لئے تو کچھ تھا نہیں کہ وہ دیر لگاتا وہ اسی حالت میں اٹھا اور باغ کی گاڑی کی تلاش شروع کر دی مگر رات کے دس بج چکے تھے اس وقت اس کو کوئی گاڑی ملنا مشکل تھی لیکن ابھی امید کی ایک کرن باقی تھی کہ پنڈی سے رات گیارہ بجے ایک بس نے باغ کے لئے نکلنا تھا وہ بس روزانہ جاتی ہے ۔اس نے جلدی سے اپنے روم میٹ سے کچھ پیسے ادھار لئے اور اڈے پر چلا گیا اس نے جلدی سے ٹکٹ لیا اور گھر بتا دیا کہ میں رات ساڑھے گیارہ بجے والی گاڑی سے آرہا ہوں ،بس نے باراستہ کوہالہ جانا تھا ،کیوںکہ باغ کا جو دوسرا راستہ ہے ٹائیں ڈھل کوٹ والا اس پر شام کے بعد کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چل سکتی وہ راستہ ڈاکوں کی سر زمین ہیں وہاں سے آتے جاتے دن دہاڑے لوگوں کا لوٹا جاتا ہے رات کو تو اللہ ہی حافظ ہے کہ جنگل کے درندے کم اور ڈاکوں کا راج زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس راستے سے رات کو کوئی سفر نہیں کرتا۔ ،بس اپنے ٹائم سے نکلی ارشد بھی اپنی سوچوں میں گم تھا اسے گھر کی پریشانی کے ساتھ ساتھ معالی پریشانی بھی تھی کہ وہ ابھی تو آیا تھا اور اس کے پاس با مشکل اپنا آنے جانے کا کرایہ تھا کشمیر کے روٹ پر جتنی بھی بس سروس چلتی ہے اس کا کوئی ٹائم نہیں ہوتا اور یہ اکثر اوور لوڈ ہو کر جاتیں ہیں ،رات کو بس نے پھگواڑی کے مقام پر ایک ہوٹل میں کچھ دیر کے لئے سٹاپ کیا تاکہ سواریاں اتر کر اپنے آپ کو تازہ کر لیں اور ہوٹل سے کچھ کھانا وغیرہ بھی کھا لیں ،ارشد سمیت تمام بس کی سواریوں نے ہوٹل سے کھانا کھایا اور جب پیسے دینے کی باری آئی تو ان کے ہاتھ پاوں ٹھنڈے ہوگئے ،پانی میں ابالی ہوئی دال کی ایک ایک پلیٹ کی قیمت 90,90روپے اور روٹیوں کے پیسے الگ سے لئے گے ارشد نے جب اپنی جیب میں ہاتھ مارہ تو اس کی جیب میں صرف سو روپے تھے اب وہ اس سوچ میں تھا کی میں خود کیا رکھوں اور ہوٹل والے کو کیا دوں ،یہی حالت ایک ارشد کی نہیں تھی بلکہ تمام مسافروں کا یہی حال تھا کہ اس قدر ہوٹل میں اندھیر نگری ہے کہ منہ مانگے دام وصول کئے جا رہے ہیں ،کچھ مسافر ایسے تھے جنہوں نے اس بات پر عتراض کیا مگر ہوٹل انتظامیہ تھی یا پھر پولیس چوکی کہ ان کو دھمکیاں دی گئیں کہ ہم ڈرائیور حضرات کو کمیشن دیتے ہیں اور ڈرائیور کے ساتھ جتنے مہمان ہوتے ہیں وہ سب اپنی اپنی مرضی کا کھانا ہم سے مفت کھاتے ہیں ہم نے ان کی قیمت بھی تو مسافروں سے پوری کرتے ہےں ،اگر کوئی لڑائی کرتا ہے تو کرے ہم نے جو آپ سے وصول کرنا ہے وہ یہی ہے کہ آپ ایک دال کی سادہ پلیٹ کے 90روپے دو گے ،جب کچھ لوگوں نے ڈرائیور سے شکایت کی تو اس کا جواب بھی تھانیدار جیسا تھا کہ آپ نے کھانا ہی کیوں کھایا جب آپ پیسے نہیں دے سکتے تو ،ارشد بیٹھا سوچتا رہا ہے کون کہتا ہے کہ دورسرے راستے میں ڈاکوں لوٹتے ہیں ،یہاں تو اس سے بھی بڑے ڈاکو ہیں جو مل کر اور ایک پلانگ سے لوٹتے ہیں پھگواڑی کا وہ ہوٹل کم اور زبح خانہ زیادہ تھا اس میں موجود عملہ جو کسی قصائی سے کم نہیں تھا مگر مسافر بے بسی سے اپنا منہ دیکھتے راہ گئے۔،ڈرائیور اور ٹرانسپورٹر جن کا رزق ان مسافروں سے ہے ،وہ ڈرائیور جن کے گھر کے چولہے ان مسافروں کے پیسوں سے جلتے ہیں ،وہی ڈرائیور ان مسافروں کو اپنے ہاتھوں سے ڈاکوں کے حوالے کرتے ہیں وہی مسافرکو ساتھ مل کے لوٹتے ہیں اپنا پنا کمیشن رکھتے ہیں ۔وہ ارشد کیا کرے گا جس کی جیب میں ہو ہی سو روپے ،ان بسوں پر سفر کرنے والے تمام مسافر مزدور ہوتے ہیں ،ان بسو ں پر سفر کرنے والے تمام مسافر غریب ہوتے ہیں اور ان ہی کو لوٹا جاتا ہے ۔یہ ڈاکوں کسی ایک جگہ پر نہیں ہوتے تمام ہوٹل جن کے ساتھ ٹرانسپورٹروں کا معاہدہ ہوتا ہے وہ دو دو ہاتھوں سے لوٹتے ہیں مگر ان کے خلاف نہ کوئی ایکشن ہوتا ہے اور نہ ان کو چیک کیا جاتا ہے ،یہ بے لگام ہاتھی ،خون خوار بھیڑیوں کی طرح غریبوں کا لہو چوستے ہیں ۔یہ کسی ایک دن کی بھی بات نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر ایسا کیا جاتا ہے مگر مسافر مجبور ہیں وہ چیخنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے جب راہبر ہی راہ زن بن جائے تو پھر مدد کس سے مانگی جائے ۔
ٹرانسپورٹر تو اس میں کچھ کرنے کو یا اس کا نوٹس لینے کو کبھی تیار نہیں ہونگے کیونکہ ان کو مفت کا کھانا ملتا ہے ان کو مفت کی دوھ د ملائی ملتی ہے اب چھری کسی دوسرے کے گلے میں چلتی ہے تو ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہاں اس کا نوتس وزیر ٹرانسپورٹ کو لینا چاہئے بے شک وہ اپنی پیجارو میں گھومتے ہیں ان کو غریبوں کی اس مشکل کا اندازہ نہیں ،ان کو مسافروں کی اس بے بسی کا اندازہ نہیں مگر یہ ان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام ان ہوٹلز کو چک کریں ان کے ریٹس دیکھیں وہاں کھانے کی لوالٹی دیکھیں ،مسافروں سے پوچھیں کہ ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے ،یہ تو نہیں کہ ایک ڈرائیور کو روسٹ کر کے دے دیا اور باقی چالیس مسافروں کو جانوروں والا کھانے دے کر ان سے فائیوف سٹار کے پیسے وصول کئے جائیں ،اگر وزیر موصوف کو یہ کام مشکل لگتا ہے تو بتادیں کہ غریب کا کام زبح ہونا ہوتا ہے وہ اپنی گردن ہر جگہ پیش کرتا رہے ،اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کچھ زمہ داریاں ہیں اور یہ جو بے لگام اور خون خوار بھیڑیے راستوں میں ہوٹل کی شکل میں بیٹھے ہیں ان کو بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے تو انہیں چاہئے کہ ان کو لگام دیں اور مسافروں کی مشکلات اور بے بسی میں کمی لائیں ،یہ کئی کا بھی انصاف نہیں کہ اندھیر نگری مچاتے ہوئے ڈرائیور کی عیاشیوں کی قیمت بھی غریب سے لی جائے ،یہ بھی انصاف نہیں کہ منہ مانگے داموں کو اپنا حق کہا جائے ،یہ راستوں میں بننے والے ہوٹلز عوام کی سہولت کے لئے ہوتے ہیں ان پر ڈاکے ڈالنے کہ لئے نہیں ہوتے ،یہ عوامی ہوٹلز مسافروں کو سستا کھانے دینے کے لیے ہوتے ہیں ان کی کمائی ہتھیانے کے لئے نہیں ،یہ مانا کہ وزیر ٹرانسپورٹ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان فضول کاموں میں اپنی وزارت کو استعمال کرے مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہی وہ غریب مسافر ہیں جو اپنی محنت مزدری چھوڑ کر ان کو ووٹ دینے آتے ہیں اور ان کو یہ عہدہ دلاتے ہیں ان کی اس کرسی کے پیچھے ان ہی مسافر غریبوں کا لہو شامل ہوتا ہے ،اب یہ خود انصاف کریں کہ ان کی وزارت کا کام کمیشن لینا ہے یا ان غریبوں کی فریاد سننا ،جب تک اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا جائے گا جب تک ہوٹل میں ریٹس لیسٹ نہیں ہونگی ،جب تک معیاری کھانا نہیں دیا جائے گا اس وقت تک یہ ڈاکوں عوام کو لوٹتے رہے گئے اس وقت تک یہ خون خوار عوام کا اور مسافروں کا خون چوستے رہے گے۔امید ہے کہ اس پر ایکشن کیا جائے گا اور عوام کو بہت بڑے لوٹہروں سے بچایا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved