|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
Telephone:- |
Email:-ajkrawalakot@gmail.com
|
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
تاریخ اشاعت:۔03-11-2010 |
باراک
اوباماکا دورہ بھارت |
کالم ۔۔۔۔۔۔۔
ارشادمحمود |
ارشادمحمود
امریکا کے صدر بارک اوباما نومبر کے آغاز میں
بھارت کا تین روزہ دورہ کررہے ہیں،جو خطے کی
سیاست ،معیشت اور تزویراتی توازن پر گہرے
اثرات کا حامل ہوگا۔اسی پس منظر میں پاکستان
میں بڑی بے چینی کے ساتھ اس دورے کے اثرات
ومضمرات کا جائزہ لیا جارہاہے کیونکہ پاکستان
پر اس دورے کے نمایاں اثرات مرتب ہونے
ہیں۔واشنگٹن اور دہلی میں اس دورے کو کامیاب
اور تاریخی بنانے کی خاطر بھرپور تیاریاں جاری
ہیں۔بھارت باراک اوباما کے دورے سے کئی ایک
مقاصد حاصل کرناچاہتاہے۔بذات خود یہ دورہ اس
امر کی عکاسی کرتاہے کہ بھارت کو عالمی سیاسی
نظام میں ایک ممتاز مقام حاصل ہوچکاہے۔بھارت
کی طویل عرصے سے یہ کوشش رہی ہے کہ اسے اقوام
متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت ملے
تاکہ اسے مسلمہ عالمی طاقت کے طور پر تسلیم
کیا جاسکے۔امریکا کی مدد کے بغیر وہ یہ مقصد
حاصل نہیں کرسکتاہے۔
بھارت واشنگٹن پر دباﺅ ڈال رہا ہے کہ امریکا
ایسی قانون سازی کرے جو امریکی تجارتی کمپنیوں
کو بھارت کو ایسی ٹکنالوجی فروخت کرنے پر عائد
پابندی سے اٹھالے جو پرامن مقاصد کے استعمال
کے علاوہ ا یٹمی ہتھیار بنانے کے بھی کام بھی
آسکتی ہو۔ابھی تک امریکا کی جانب سے سلامتی
کونسل کی رکنیت اور تجارتی کمپنیوں کو ایٹمی
ٹکنالوجی فروخت کے معاملے پر کوئی ٹھوس وعدے
نہیں کیاہے تاہم انکار بھی نہیں کیا گیا
ہے۔بھارت اگلے پانچ برس میں اپنے دفاعی نظام
کو مکمل طور پر بدلنے والا ہے کیونکہ نظام
سوویٹ یونین کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں
اور ٹکنالوجی پر استوار کردہ اس کا دفاعی نظام
فرسودہ ہوچکاہے۔اس ضمن میں 30بلین ڈالر کی
خطیر رقم بھی مختص کی جاچکی ہے۔واشنگٹن بھارت
کو جدید ساز وسامان فراہم کرنے کے لیے آمادہ
ہے لیکن دنیا کے کئی ایک ممالک جن میں برطانیہ،
فرانس ،روس اور اسرائیل بھی شامل ہیں بھارت کے
ساتھ دفاعی ہتھیاروں کی خرید وفروخت کے سودے
کرنے کے لیے بے چین ہیںیوں امریکا کے لیے
میدان کھلا نہیں ہے بلکہ اسے کئی تجارتی
حریفوں کی مسابقت کا سامنا ہے۔
گزشتہ دو عشروں میں بھارت نے ا نفارمیشن
ٹکنالوجی میں بے مثال پیشہ وارنہ مہارت حاصل
کی جس کی بدولت امریکی کمپنیوں نے لاکھوں
بھارتی باشندوں کو ملازمتیں فراہم کیں جو
بھارت میں رہ کر امریکی اداروں کے لیے خدمات
سرانجام دیتے تھے۔ایک اندازے کے مطابق اس صنعت
سے بیس لاکھ افراد وابستہ ہیں جو سا لانہ ساٹھ
بلین ڈالر کماتے ہیں۔کساد بازاری کے سبب چونکہ
اب امریکیوں کو خود بے روزگاری کا سامنا ہے
لہٰذا اوباما انتظامیہ غیر ملکیوں کو ملازمتیں
فراہم کرنے یا دوسرے ممالک سے خدمات حاصل کرنے
کے رجحان کی حوصلہ شکنی کررہی ہے تاکہ امریکی
شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع وسیع کیے
جاسکیں۔بھارت کی خواہش ہے کہ امریکا اپنے
قوانین میں نرمی کرے تاکہ بھارتی شہری اس سے
متاثر نہ ہوںلیکن داخلی سیاسی تقاصے اوباماکو
اس کی اجازت نہیں دیتے۔
ماہرین کا تجزیہ ہے کہ اوباما کے دورے میں
مشکل ترین مرحلہ وہ ہوگا جب دونوں ممالک کی
قیادت کے مابین امریکا پاکستان
تعلقات،افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا
اورکشمیر جیسے موضوعات زیربحث آئیں گے۔نو برس
تک جاری جنگ کے بعد اب امریکا اور افغان صدر
حامد کرائی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل
شروع کرچکے ہیں۔مذاکراتی عمل کی کامیابی میں
پاکستان کابنیادی کردار تسلیم کیا گیا ہے ۔بھارت
چونکہ طالبان اور پاکستان دونوں کے حوالے سے
ایک سخت گیر حکمت عملی پر عمل پیرا رہاہے۔اس
لیے اب جب مفاہمت کا عمل شروع ہوا تو اسے یہ
خوف لاحق ہے کہ کئی افغانستان کے سیاسی منظر
نامے پر طالبان کا ازسرنو ظہورنہ ہوجائے۔ایسی
صورت میں افغانستان میں اس کی ایک بلین سے
زائدسرمایاکاری اور برسوں کی محنت اکارت
جاسکتی ہے۔ بھارت امریکا سے یہ ضمانت چاہتاہے
کہ کابل میں پاکستان کے اثرورسوخ کو ایک حد سے
زیادہ آگے بڑنے نہیں دیا جائے گااور اس کے
مفادات کو کوئی زک نہیں پہنچے گی۔
بھارت کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اسے
اندازہ ہی نہیں ہورہاہے کہ افغانستان کس طرف
جارہاہے اور امریکا پاکستان کے ساتھ کیا سلوک
کرے گا۔ پاکستان کے حوالے سے امریکی انتظامیہ
کے تذبذب نے بھی دہلی کے اضطراب میں اضافہ
کیاہے۔گزشتہ دنوں واشنگٹن میں ہونے والے پاک
امریکا اسڑٹیجک مذاکرات میںجس طرح پاکستانی
وفد کی پزیرائی ہوئی اور پاکستان کے لیے
دوبلین ڈالرمزید فوجی امداد کا اعلان کیا
گیا۔اس نے بھارت کو ایک واضح پیغا م دیا ہے کہ
امریکا بھارت تعلقات پاکستان کی قیمت پر مضبوط
نہیں بنائے جارہے ہیں بلکہ پاکستان کے مفادات
کو بھی مدنظر رکھاجارہاہے۔پاکستان کے خدشات کو
پیش نظر رکھتے ہوئے امریکی صدر باراک اوبامانے
صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ٹیلی فون پر
تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔یہ یقین دہانی بھی
کرائی گئی کہ صدراوبامااگلے برس پاکستان کاد
ورہ کریں گے۔اسی دوران امریکا کی جانب سے پاک
چین نیوکلیئر معاہدے پر خاموشی اختیار کرلی
گئی جو ایک اہم پیش رفت ہے۔یہ طرزعمل اس امر
کی غماضی کرتاہے کہ دونوںممالک میں تعلقات کی
سطح بلند ہوئی ہے اور امریکیوں نے پاکستان کے
قومی مفادات اور سلامتی کے تناظر میں خصوصی
اہمیت رکھنے والے امور پر معقول رویہ اختیار
کرنا شروع کردیاہے۔
پاکستانی قیادت چاہتی ہے کہ امریکا بھارت کے
ساتھ وہ ایشوز اٹھائے جو خطے میں امن اور
معاشی استحکام کے قیام کے ضامن بن سکتے
ہیں۔اسی پس منظر میں وزیرخارجہ شاہ محمود
قریشی نے امریکی صدر کو یہ باور کرانے کی کوشش
کی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے بھی
بھارتی قیادت پر دباﺅ ڈالیں۔اوباما کے کئی
مشیر بھی انہیں یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ
افغانستان میںامن واستحکام قائم کے لیے مسئلہ
کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کریں۔غالب امکان
ہے کہ اوباما بھارتی قیادت کو یہ مسئلہ حل
کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔کشمیر میں
جاری تحریک کی قیادت بھی یہی مطالبہ کررہی
ہے۔دلچسپ بات یہ ہے سویرا نامی ایک غیر سرکاری
تنظیم کے زیر اہتمام چارہزار بچوں نے بھی صدر
اوباما ایک خطہ لکھاہے کہ وہ کشمیر کے تنازعہ
کے حل کے لیے کردار ادا کریں۔ |
|
|
|
|
|
|
 |
 |
|
 |
|
 |
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|