اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 

ارشادمحمود

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-ajkrawalakot@gmail.com

کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔30-08-2011

فوج آئے گی تو
کالم    ۔۔۔۔۔۔۔  ارشادمحمود
جب پانی سر سے گزرجاتاہے تو حکومت، ذرائع ابلاغ اور سیاستدان فوج بلاﺅ فوج بلاﺅ کا راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ سول انتظامیہ، منتخب نمائندے اور سول سوسائٹی اس وقت تک کیوں چین کی بانسری بجاتی رہتی ہے جب تک مسائل بے قابو نہیں ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی مافیا ایک رات میں تو نمودار نہیں ہوتا ہے۔جرائم پیشہ افراد ہوں یا قبضہ مافیا وہ عشروں تک اپنی قوت مجتمع کرتے ہیں۔گولہ بارود جمع کرتے ہیں اور ایک دن ریاست سے ٹکرانے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔جس دوران یہ سب کچھ ہورہاہوتاہے اس وقت پولیس ، خفیہ ادارے اور معاشرہ غیر متحرک کیوں رہتاہے؟اگر جرائم پیشہ افراد کی سفارش نہ سنی جائے ۔ انہیں بروقت قرارواقعی سزادی جائے تو کوئی بھی مافیا ریاست کو چیلنج کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتاہے۔
پاکستانی معاشرے اور ریاست کو سفارش اور سیاسی سرپرستی کے کلچر نے دھیمک کی طرح چاٹ لیاہے۔مافیاپر جب بھی ہاتھ ڈالا جاتاہے۔ سیاسی مشینری متحرک ہوجاتی ہے۔سیاسی اثرورسوخ کے باعث جرائم پیشہ افراد ااترتے پھرتے ہیںجبکہ شرفا ءکو عزت بچانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ایک ایسے ماحول میں سمجھ سے بالاتر ہے کہ فوج کیا چمتکار دکھائے گئی؟فوج کو مداخلت کی دعوت دینے سے قبل یہ بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ فوج پہلے ہی فاٹا،سوات اور دیگر علاقوں میں پھنسی ہوئی ہے۔اسے ایک اور بحران میں دھکیلنا کہاں کی دانشمندی ہے۔
کراچی 2008سے جل رہاہے اور پے درپے بحرانوں سے دوچاررہاہے۔یہ سند ھ ہی ہے جو پیپلزپارٹی کو اقتدار دلانے میں کلیدی کردار ادا کرتاہے۔جو ملکی صنعت کا پہیہ رواں رکھتاہے لیکن حکومت سندھ بالخصوص کراچی کے مسائل کا کوئی دیر پا حل تلاش نہیں کرپائی ہے۔جب تک امن وامان کے مسائل کو سیاست سے علیحدہ نہیں کیا جاتاہے اس وقت تک افلاطون بھی کراچی کے مسائل کا حل تلاش نہیں کرسکتاہے۔لندن میں پولیس نے حیرت انگیز طور پر فسادیوں پر نہ صرف چند دنوں میں قابو پایا بلکہ انہیں عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائیں گئی۔ کوئی رکن پارلیمنٹ ایسا نہیں پایاگیا جس نے کسی فسادی کی سفارش کی ہو۔مجال ہے کہ کسی جج کے پاس کوئی معززشخصیت مجرموں کے ساتھ نرمی برتنے کی درخواست لے کر گئی ہو۔حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں اورعدالتوں نے مشترکہ طور پر دن رات ایک کرکے برطانیہ کو دوبارہ ایسا ملک بنادیا ہے جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
ہماری پولیس اور انتظامیہ مجموعی طور پر نااہل نہیں ہے ۔اگر موٹروے پر یہ پولیس غیر معمولی طور پر دیانت داراور فعال ہوسکتی ہے تو باقی ملک میں کیوں نہیں۔سوات اور وزیرستان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔وہاں کی انتظامیہ نے جرائم پیشہ افراد کو پہلے مرحلے میں روکا نہیں بلکہ بعض سرکاری اہلکاران کی سرپرستی بھی کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے عوام میں یہ مشہور کردیا ہے کہ انہیں ریاستی اداروں کی خفیہ طور پر پشت پناہی حاصل ہے۔اس پروپیگنڈے نے سینکڑوں نوجوانوں کو شدت پسندوں کی جانب راغب کیا۔یوں وہ ایک طاقت ور گرو ہ کی شکل اختیار کرگئے حتیٰ کہ وہ ملاکنڈمیں اپنی خلافت قائم کرنے کے چکر میں پڑگئے۔جب حکومت نے ان علاقوں میں فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔فوج نے بھاری جانی اور مالی قیمت چکا کر ان علاقوں میں سرکارکی عملداری بحال کی ہے۔
چند ہفتے قبل مینگورہ میں چند دن گزارنے کا موقع ملا ۔عوام کے ساتھ گفتگو سے یہ تاثر ملا کہ فوج نے سوات میں امن تو بحال کردیا ہے لیکن اب سول انتظامیہ کو وہ چارج کیسے دے؟ یہ سوال اٹھ رہاہے کہ سول انتظامیہ کو اختیارات کی منتقلی کے بعد کیا وہ سوات میں امن وامان قائم رکھ پائے گی؟دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج جب انتظامی معاملات سنبھالتی ہے تو اپنا پورا نظام کار متعارف کراتی ہے۔اسے فیصلے کرنے کے لیے کسی کی مشاورت درکار نہیں ہوتی ہے۔اس کی اپنی عدالتیں ہوتیں ہیں ۔بسا اوقات وہ طاقت کا بے محابا استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ہے۔ جو شدت پسندی کو کنٹرول کرنے کے بجائے نئے مسائل پیدا کرنے کا موجب بن جاتاہے۔
آزادی کے بعد کے چھ عشرے گواہ ہیں کہ جب بھی فوج کو بلایا گیا تو وقتی طور پر اس نے مسائل حل کردیئے ۔امن وامان بحال کردیا لیکن جب بھی فوج پس منظر میںجاتی ہے تو حالات ازسرنو بگڑ جاتے ہیں۔پاکستان میں بڑی مشکل اور طویل سیاسی جدوجہد کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آمریت سے نجات ملی تھی۔جمہوریت کی بحالی کے بعدملک میں کئی ایک قومی امور پر اتفاق رائے پیدا ہوا۔کئی ایک مسائل بھی حل ہوئے اور کچھ نئے مسائل بھی پیدا ہوگئے لیکن بحیثیت مجموعی مفاہمت کی سیاست کی بدولت حکومت پانچ برس پورے کرنے کو ہے۔
اب فضا بدل رہی ہے۔کراچی میں جاری قتل وغارت گیر ی نے لوگوں کو اس قدر دکھی کردیاہے کہ وہ پرویز مشرف کو یاد کرنے لگے ہیں۔ٹی وی چینلز پر لوگ فوج سے مداخلت کی اپیلیں کررہے ہیں۔ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین تو کئی برسوں سے فوجی مداخلت کی اپیلیں کرتے رہے ہیں۔اگر فوج کراچی میں آتی ہے اور امن وامان بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر فطری طور پر یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ اگر سارے کام فوج ہی نے کرنے ہیں تو پھر یہ بھاری بھرکم انتظامیہ کس مرض کی دوا ہے؟بہتر یہی ہے کہ کراچی میں پیپلزپارٹی، ایم کیوایم اور عوامی نیشنل پارٹی مشترکہ طور پر شہر میں امن بحال کرنے کی کوشش کریں ۔غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔اگر ایک بار فوج آگئی تو اسے واپس بیرکوں میں بھیجنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔
 

Email to:-

 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved