اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:- 

Email:-najeemshah@yahoo.com

کالم نگارنجیم شاہ کے مرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔11-04-2011

دائروں کا سفر مبارک ہو
تحریر: نجیم شاہ

ناخواندہ قوم کا مستقبل غلامی ہوتا ہے جو شاید پاکستان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ اس وقت ملک میں آدھی بالغ آبادی ناخواندہ ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں تعلیم جیسے اہم قومی فریضے کو ہمیشہ سے نظرانداز کیا گیا۔ پاکستان کی چونسٹھ سالہ تاریخ میں تعلیم کا شعبہ بیشتر عرصے عدم توجہ کا شکار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جو شرح تھی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس معیار کو بلند کیا جاتا مگر غلط ترجیحات اور پالیسیوں کی بدولت ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ پاکستان شرح خواندگی کے لحا ظ سے دنیا میں 186ویں نمبر پر ہے اور دنیا کے ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیم کے شعبے پر ملکی بجٹ کا دو سے تین فیصد خرچ کیا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ تعلیم کا فروغ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں غربت کے خاتمے اور انسانی و اقتصادی ترقی کے حصول کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف ہو لیکن اُن کے دورِ حکومت میں تعلیم جیسے شعبے میں ایک انقلاب برپا ہوا۔1999ءمیں ملک کے اندر کل 48کے قریب جامعات تھیں جبکہ اعلیٰ تعلیم تک رسائی صرف ڈھائی فیصد افراد کو حاصل تھی۔ حکومت نے 2002ءمیں ہایئر ایجوکیشن کمیشن قائم کرکے جہاں تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کی وہاں اعلیٰ تعلیم کو بھی فری ہینڈ دیئے رکھا۔ مشرف حکومت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اس ادارے میں موجود افراد کی مشاورت سے پاکستان کے تعلیمی بجٹ میں کئی گناہ اضافہ کیا گیا۔ اس اضافے کے نتیجے میں ملک بھر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ پاکستان میں شائد رواج ہے کہ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے تمام برے بھلے اقدامات پر پانی پھیرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن بلاشبہ مشرف حکومت کے چند اچھے اقدامات میں سے ایک تھا لیکن چونکہ اس پر مشرف کا ”ٹھپہ“ لگا ہے اس لئے آنے والی حکومتیں کیونکر برداشت کریں۔
ہایئر ایجوکیشن کمیشن اس وقت ملک میں اعلیٰ تعلیم کنٹرول کرنے والا مرکزی ادارہ ہے۔ اس کی خود مختاری کا اٹھارہویں ترمیم میں بھی تحفظ حاصل ہے لیکن اب یہ محکمہ بھی سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ حکومت نے اس کے حصے بخرے کرکے کچھ اختیارات صوبوں جبکہ کچھ وفاقی وزارتوں کو دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ ادارہ اپنے قیام کے وقت سے ہی ملک میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے کلچر کے فروغ کیلئے کوشاں ہے۔ اس کے تحت سکالرشپس، ڈگریوں کی تصدیق، یونیورسٹیوں کی ریٹنگ وغیرہ کے معاملات چلتے ہیں۔ ایچ ای سی نے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو دنیا میں منوانے کیلئے کلیدی اور نمایاں کردار ادا کیا۔ اس ادارہ کے قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہونیوالے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے طالبعلموں کی تعداد نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک بھی زیادہ ہے۔
اس ادارے کے قیام کے بعد گزشتہ دس سالوں میں تین ہزار سے زائد پی ایچ ڈیز کرائی گئی ہیں جبکہ اب ہماری یونیورسٹیاں بین الاقوامی رینکنگ میں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ اس ادارے کے قیام سے لیکر مشرف حکومت کے خاتمے تک ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتی نہیں ہوئی، ہونے لگی تو حکومت نے دوسرے ذرائع سے پوری کروائی ۔ سابق دورِ حکومت میں ممبران پارلیمنٹ کیلئے گریجویشن کی شرط عائد کی گئی۔ اس طرح 2002ءاور 2008ءکے الیکشن اس قانون کے تحت ہوئے۔ بعد میں چونکہ یہ قانون ختم کر دیا گیا لیکن اس قانون کی موجودگی میں جس اُمیدوار نے بھی جعلی ڈگری پیش کی وہ بددیانتی، بے ایمانی اور دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا۔ بوگس ڈگریاں اسمبلی کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن گئی تھیں ۔ ہمارے ہاں چیک اینڈ بیلنس کا چونکہ کوئی نظام موجود نہیں اس لئے سپریم کورٹ نے ہایئر ایجوکیشن کمیشن کو ذمہ داری سونپی کہ وہ اراکین اسمبلی کی ڈگریوں کے اصلی یا نقلی ہونے کی تصدیق کرے۔ قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کی ڈگریوں کی تصدیق ایک بڑا ٹاسک تھا ۔ ایچ ای سی سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرتی رہی لیکن سیاست دانوں کی طرف سے مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے اراکین پارلیمنٹ کی ڈگریوں کی تصدیق کے دوران مختلف سیاسی پارٹیوں کے بہت سے چہرے بے نقاب ہو ئے۔ سیاسی اثررسوخ کی بناءپر اس ادارے کو پہلے دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اور اب حکومت اسے ختم کرنے پر تُل گئی ہے۔اس ادارے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی موجودگی میں طلباءکو سکالرشپ وغیرہ کیلئے ایک ہی پلیٹ فارم مہیا ہے جبکہ اس کی تحلیل کے بعد اُمیدوار جگہ جگہ دھکے کھاتے پھریں گے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور تعلیمی معیار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں ہایئر ایجوکیشن کمیشن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ قطعہ نظر اس بات کے کہ یہ ادارہ کونسی حکومت نے بنایا اس ادارے کو ختم کرنے کا حکومتی اقدام تعلیم دشمنی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ ایچ ای سی اور وزارت تعلیم دو علیحدہ ادارے ہیں اور اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کے حوالے سے دونوں کو ایک ادارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ادارے کی تحلیل کے فیصلے کے بعد ایچ ای سی کے تمام ریسرچ کے کاموں کو ان کی موجودہ صورتحال میں ہی روک دیا جائیگا۔
دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی پالیسیوں کو قومی ترقیاتی منصوبوں سے ہم آہنگ رکھنے کیلئے مرکزی نظام وضع کیا جاتا ہے۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کو صوبوں کے حوالے کرنے سے جامعات میں سیاسی مداخلت بڑھ جائے گی اور اس کا نتیجہ مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کی صورت میں سامنے آئے گا۔ سابق وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اور ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے سابق بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاءالرحمن نے ایچ ای سی کی صوبوں کو منتقلی کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے قومی المیہ قرار دیا ہے۔ ملک بھر کی تمام جامعات کے وائس چانسلرز نے بھی اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہلے ہی ہم تعلیم میں بہت پیچھے ہیں ،ایچ ای سی کو ختم کرنے ہم شاید اس گرتی ہوئی دیوار کو ایک اور دھکا دے رہے ہیں۔ سیاست دان ایچ ای سی پر اس لئے بھی برہم ہیں کہ اس ادارے نے ان کی ڈگریاں جعلی قرار دیں اور اس ضمن میں ہر قسم کا دباﺅ قبول کرنے سے انکار کیا۔ ایچ ای سی چونکہ ووٹ بنا کر نہیں دیتا اور سیاست دانوں کو پی ایچ ڈی لوگ نہیں بلکہ ووٹ چاہئے ہوتے ہیں اس لئے اس ادارے کی اہمیت اُن کی نظر میں صفر ہے۔
حکومتی فیصلے کے بعد سکالرشپ پروگرام کے تحت بیرون ملک زیر تعلیم طلباءبھی اپنے مستقبل سے پریشان ہیں کیونکہ اس ادارے نے نہ صرف ہزاروں مستحق طلباءکو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم دلوائی بلکہ پاکستان میں بھی بہت سے محققین کیلئے علم و تحقیق کے واسطے فنڈز مہیا کئے۔ماہرین کے مطابق ادارے کی تحلیل کا فیصلہ انتہائی غلط اور غیر دانشمندانہ ہے اور مستقبل میں اسے موجودہ حکومت کے اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے تباہ کن اقدام سے تعبیر کیا جائے گا۔ جعلی ڈگری ہولڈرز کو کیا معلوم کہ اعلیٰ تعلیم کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک تو یہ محکمہ فضول ہی ہے تو بس بوریا بستر لپیٹ ڈالا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ایک غیر سیاسی ادارہ ہے لیکن ڈگریوں کی تصدیق کے دوران سیاست دانوں نے اس پر بھی اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ پڑھے لکھے آدمیوں کو سیاسی وابستگیوں کی نذر کر دیا جاتا ہے اور ہر حکومت اقتدار میں آ کر سابقہ حکومت کے اچھے اقدامات کو بھی ختم کرکے پھر سے پالیسیاں اپناتی ہے۔ اس وجہ سے ہم آگے جانے کی بجائے پیچھے چلے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کو دائروں کا سفر مبارک ہو۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved