|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
Telephone:- |
Email:-nazim.rao@gmail.com
|
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
تاریخ اشاعت:۔08-08-2011 |
مکیاولی
کی ضرورت ہے پاکستان کو |
کالم----------ایم ناظم راو |
ملکی حالات
داخلی سکیورٹی ،ثقافتی ،خارجی
سیکورٹی،حکمرانوں اور بیوروکریسی ہر لحاظ سے
کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ثقافت ہے تو
بھارت کے قبضے میں،معیشت ہے تو ڈالر کے قبضے
میں،حکمران ہیں تو غیر ملکی آقاﺅں کے منظور
نظر،مذہبی جماعتیں سستی روی اور رجعت پسندی کے
قائل ہیں۔یہ وقت ارض خدا پاکستان کےلئے گوں نا
گوں مسائل اپنے دل میں رکھتا ہے لیکن کوئی
قائداعظم،علامہ اقبال،ماﺅزے تنگ ، مکیاولی اور
انقلابیت منظر عام پر نہیں آرہا ،نجانے خدا کو
کیا منظور ہے۔کوئی قوم اگر مستقبل کا تعین
ماضی کو مدنظر رکھ کر نہیں کرتی تو اسے تاریخی
بیووقوفی کہتے ہیں۔اگر ہم دنیا کی تاریخ اٹھا
کر دیکھیں تو بے شمار ایسے مصلح،انقلابی اور
فکری شخصیت نظر آتی ہیں،برصغیر کی تاریخ میں
بھی بے شمار شخصیت ہیں جن کی خدمات بہت زیادہ
ہیں لیکن اٹلی کا مکیاولی کی فلاسفی ہمارے وقت
کی ضرورت ہے،جو اس موجودہ حالات میں ہمارے لئے
مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ اس وقت کے
حالات مکیاولی کے اٹلی کے حالات سے مشابہت
رکھتے ہیں۔
وہ ایک ایسا آدمی جسے کسی شعبہ ہائے زندگی میں
مخصوص کرنا مشکل ہے۔سفارت کار،مورخ ،ڈرامہ
نگار،فلسفی اپنے عہد کا نہایت اعلیٰ آئیڈیل
رکھنے والا پرجوش محب وطن ،ایسا آدمی جو اپنے
شروع کئے ہوئے ہر کام میں ناکام رہا،لیکن اپنے
عہد کی کسی بھی دوسری شخصیت کی نسبت تاریخ پر
زیادہ گہرے نقش ثبت کر گیا۔نکولو مکیاولی ایک
فلورنسی وکیل کا بیٹا تھا جس نے عام سی ادبی
تعلیم حاصل کی ۔اس کی دلچسپی کا ایک مرکز
سیاست تھی۔مکیاولی ایک مصنف ،فلاسفر اور ریاست
کار تھا۔1516ءکے اٹلی کے حالات بہت حد تک خراب
ہو چکے تھے اور مکیاولی نے ہر شعبے کےلئے
انقلابی فکر کا اہتمام کیا اور ہر انداز میں
استادوں کا مقابلہ کیا ۔پاکستان کی موجودہ
صورت حال ،تہذیبی ،معاشی،معاشرتی،سماجی اور ہر
قسم کا ارتقاءرک گیا ہے۔قوم کی حالت پتلی سے
پتلی ہوتی جا رہی ہے۔جب مکیاولی نے آنکھ کھولی
تو اُس وقت کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی لیکن
مکیاولی نے موجودہ رواجوں سے بغاوت کی اور
نظریاتی اور عملی سطح پر قوم و ملت کو سہارا
دیا ۔مکیاولی نے ہر شعبہ ہائے زندگی کی شخص کو
متاثر کیا اور ہر ایک کےلئے راہ عمل تجویز
کی۔اپنے ملک کے جرنیلوں کو جو کہ پیسے کی دوڑ
دھوپ میں مصروف تھے سے مخاطب ہو کر کہا
کہ”سونا اچھے فوجی نہیں لائے گا،لیکن اچھے
فوجی ہمیشہ سونا لائیں گے ،طاقتور قوم میں
سونا بہتا چلا آتا ہے لیکن امیر قوم سے
استحکام رخصت ہوجاتا ہے کیونکہ دولت تن آسانی
اور زوال لاتی ہے لہذا فوج کو مصروف رکھنا
چاہےے۔مکیاولی ہی ایسی شخصیت تھا کہ جس کے
اعلیٰ نظریات پر عمل کر کے آج یورپ ترقی کی
انتہائی بلند منازل کو چھو رہا ہے۔آج مکیاولی
کے سیاسی فلسفے کو پوری دنیا کی طاقت ور اقوام
نے قبول کیا ہے۔مکیاولی کہتا ہے کہ ”مردانگی و
شجاعت امن پیدا کرتی ہے،امن کاہلی،کاہلی
بدنظمی اور بدنظمی تباہی لاتی ہے۔بدنظمی میں
سے نظم پھوٹتا ہے نظم میں سے شجاعت اور شجاعت
میں سے رفعت اور خوشی قسمتی ۔چنانچہ تاریخ کا
خاصہ ہے کہ عظیم جنگجو فلسفیوں سے پہلے پیدا
ہوتے ہیں۔اُس وقت غیر متحد حالت کی دو صدیوں
کے باعث اٹلی ایسی طبعی کمزوری اور سماجی
انحطاط کا شکار ہو چکا تھا۔حکومتیں اور عوام
دونوں یکساں بگڑے ہوئے تھے۔جنسی کمزوری نے آگے
بڑھ کر عسکری جوش اور مہارت کی جگہ لے لی
تھی۔دفاع کرائے کے سپاہیوں کے ہاتھ میں تھا
پھر اٹلی کو متحد کون کرتا؟؟مگر مکیاولی جیسی
انقلابی شخص نے نظریاتی و عملی راہ دکھائی اور
اٹلی کو سنبھالا دیا ۔
مکیاولی کا نظریہ ہے کہ جب کوئی معاہد ہ نقصان
دے تو تمام اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر اس
معاہدے کو توڑ دیا جائے کیونکہ معاہدہ برابری
کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اگر ایک طرف کا فریق
کمزور ہے تو اسے معاہدہ نہیں سمجھوتہ کہیں
گے۔مغربی اقوام کا بھی یہی رویہ ہے کہ جب کسی
معاہدے میں فائدہ نظر آئے تو شدت سے اقوام
متحدہ اور دیگر اداروں کے ذریعے پابندی کرتی
اور کرواتی ہے اور جیسے ہی سودا گھاٹے کا ہو
تو پاکستان جیسے ملکوں کو پھنسا دیا جاتا
ہے۔دہشت گردی کی جنگ والا معاہدہ دیکھ لیں جب
امریکہ کو محسوس ہوا کہ افغان جنگ میں ہار
ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے افغان جنگ کو
اسامہ مار کر ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور
سوویت یونین کے انخلاءکی طرح اس دفعہ بھی
پاکستان کو کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا
پڑے گا ۔ انہوں نے تو مکیاولی کے نظریہ سے
فائدہ حاصل کیا اگر ہم بھی مکیاولی کی بات پر
عمل کریں تو کیا خیال ہے؟؟آج ارض پاکستان کو
مکیاولی کی ضرورت ہے مگر کہیں بھی کوئی دکھائی
نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔؟ |
|
|
|
|
|
|
 |
 |
|
 |
|
 |
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|