|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
Telephone:- |
Email:-nazim.rao@gmail.com
|
کالم نگار کے مرکزی صفحہ پر
جانے کے لیے کلک
کریں |
تاریخ اشاعت:۔14-08-2011 |
سرائیکستان بنانے کا وقت نہیں ہے |
کالم----------ایم ناظم راو |
گزشتہ کچھ روز
سے حکومتی چیخ و پکار سنائے دے رہی ہے کہ
پنجاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے ،نئے
صوبوں کے قیام کا شوشہ چھوڑا گیا ہے۔سرائیکی
بھائیوں کی ایک جماعت سرائیکستان کا نعرہ عرصہ
دراز سے لگا رہی ہے جس کی کوئی معقول وجہ نظر
نہیں آتی ،کچھ لوگوں کو لاہور والوں سے شکایت
اور صوبائی دارالحکومت سے دوری کاحل نئے صوبے
کو بتاتے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات حقیقت میں
نہیں ہے اگر بات دوری کی ہے تو بہت سے دوسرے
شہر بھی اپنے صوبائی دارالحکومت سے دوری کے
سبب کل کو نئے صوبے کا دعویٰ کریں
گے۔پیپلزپارٹی کو سوچنا چاہےے کہ لسانی
بنیادوں پر کبھی کسی زمینی حصے کو تقسیم نہ
کرنا چاہےے اگر ایسا کیا گیا تو اسکے نتائج
یقینا بہت بھیانک ہوں گے،اس ممکنہ اقدام سے
صوبائی تعصبات میں اضافہ ہو گا ،انتظامی
کاروائیوں میں تعطل پیدا ہو سکتا ہے اور سب سے
بڑھ کر اخراجات میں اضافہ ہو گا۔پاکستان ایک
ایسا ملک ہے کہ جہاں نسلی،لسانی،گروہی اور
فرقہ وارانہ تفریق 63برسوں سے ہے ایسے ملک میں
نئے صوبوں کے قیام کے اثرات کا جائزہ لیا جانا
انتہائی ضروری ہے۔پاکستان کو اس وقت تقسیم
کرنے کی ضرورت قطعی نہیں ہے۔کچھ حلقے اس کی
حمایت کر رہے ہیں مگر اس کے پیچھے اُن کے ذاتی
مفادات مضمر ہیں اور کبھی کسی ایک فرد یا گروہ
کے مفاد میں اجتماعی مفادات کو قربان کرنا ،کہاں
کی دانشمندی ہے؟؟۔ملک میں موجودہ مسائل
توانائی،دہشت گردی،غیر ملکی قرضے،امریکی غلامی
سے آزادی،معاشی چیلنجز ،ملک میں امریکی
دندناتے پھر رہے ہیںکوئٹہ اور کراچی کے حالات
میں غیر ملکی عناصر شامل ہیںاوردیگر دوسرے
ایشوز کو حل کرنے کی ضرورت ہے جبکہ حکمرانوں
کو صوبوں کو غلط ملط کرنے کے خواب ستا رہے ہیں۔
ہمارے سرائیکی بھائی پہلے سے ہی لاہور کے
متعلق بدگمانی کا شکار ہیںاور اگر صوبے کی
علیحدگی ہوئی تو ضرور صوبائی تعصبات جنم لیں
گے ۔سینیٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی
22ممبران ہوتے ہیں اور اگر پنجاب کو تقسیم کیا
جاتا ہے تو پھر سینیٹ میں موجود صوبائی
نمائندگی کی تعداد 22ممبران کی تعداد کو بڑھا
نا پڑے گا اور قانون میں ردو بدل کرنا پڑے گا
جو کہ اس وقت مناسب نہیں ہے۔
سرائیکی صوبے کا نعرہ لگانے والے وہاں کے
مقامی سیاسی لیڈر وں کےلئے دلکش بھی ہے کیونکہ
اس طرح ان کو وزارتیں اور عہدے ملیں گے اور یہ
بات طے شدہ ہے کہ سرائیکی عام فرد کو اس تقسیم
سے کوئی فائدہ نہ ملے گا کیونکہ صوبہ علیحدگی
کی پرزور حمایت انتظامی وجوہات کی بنا پر نہیں
بلکہ شخصی مفادات کی وجہ سے کر رہے ہیں۔اس وقت
کراچی اور کوئٹہ کے امن و امان کے حالات جس
طرح جا رہے ہیں اگر اُن کا اندازہ لگایا جائے
تو پھر ہمیں چودھری محمد علی کی طرح ون یونٹ
بنا کر ملک کے امن و امان کے حالات کو سہارا
دینا چاہےے ،دہشت گردی کے اسباب کو جائزہ لے
کر اُن کاسدباب کیا جائے تاکہ امن و امان کی
صورتحال ٹھیک ہو۔اگر وجہ مرکز سے دوری ہے تو
پھر پشاور سے چترال اور ڈی آئی خان کی دوری کو
دیکھا جائے اور ان کو الگ صوبہ بنایا جائے
لیکن یہ وقت صوبوں کے اعلان کا نہیں اچھا کام
بھی اگر غلط وقت پر کیا جائے تو نہایت خطرناک
نتائج برآمد ہوتے ہیں اگر اس کڑے وقت میں یہ
پنجاب کو تقسیم کرنے کا کام کیا گیا تو حالات
اور خراب ہوں گے اور اگر برابری کی بنیاد پر
عقلمندی سے بھی تقسیم نہ کی گئی تو دونوں صوبے
مزید محرومیوں کی طرف جائیں گے اور حالات بد
سے بدتر ہوتے جائیں گے ۔نجانے پیپلزپارٹی کی
قسمت میں تقسیم ہی کیوں آتی ہے؟؟بنگلہ دیش بھی
بھٹو صاحب کے دور میں الگ ہوا اور آج تک بھٹو
فیملی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ بنگلہ دیش
ذوالفقار علی بھٹو کی وجہ سے بنا ہے اور اگر
اسی طرح تقسیم جاری رہی اور پیپلز پارٹی کی
حکومت 10سال قائم رہی تو اس ننھے سے پاکستان
میں سے ایک اور ملک برآمد ہو گا ۔زبان و زد
عام میں تو لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ ملک کو
تقسیم کر دے گا لیکن پھر بھی ہمارے حکمران
لسانی اور گروہی بنیادوں پر صوبے بنانے پر وقت
ضائع کر رہے ہیں ،حکمران طبقے کو چاہےے کہ اس
وقت اس بحث کو بنا کر کے دوسرے اہم چیلنجز سے
نمٹا جائے۔ |
|
|
|
|
|
|
 |
 |
|
 |
|
 |
|
|
© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved |
Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved
|