اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔26-07-2010

احکام عشرو زکوٰة
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال

ارکان اسلام میں نماز کے بعد اہم ترین فریضہ زکوٰة ہے ۔ اس اہم ترین فریضے کا اللہ تعالیٰ نے نماز کے ساتھ قرآن کریم میں یکجا کئی مقامات پر حکم دیا اور نماز کے بعد زکوٰة کا حکم ارشاد فرمایا۔ جب آدمی کا دل اہل و عیال اور عزیز و اقارب کی محبت کا عادی ہو اتو اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کا رشتہ توڑنے اور اپنے ساتھ جوڑنے کےلئے مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنیکا حکم دیا اور جب انسا ن کے دل میں کھانے پینے کی رغبت پیدا ہوئی تو اس سے بے رغبت کرنے کے لئے روزہ فرض فرمایا تاکہ میرا بندہ کھانے پینے کی محبت و رغبت سے دور رہ کر روزہ رکھے اور میرا قرب حاصل کرے اور جب اس کے دل میں وطن کی محبت جاگزیں ہوئی اور اپنے صحرا، دریا ،پہاڑوں ،شہروں اور اپنے گھر سے محبت کرنے لگا تو وطن سے مسافر کر کے حج بیت اللہ کا حکم دیا تاکہ میرا بندہ وطن سے جدا ہوا ور میری محبت کو پائے اور جب انسان کے دل میں مال و دولت کی محبت مستحکم ہو گئی اور مال کی حرص اس قدر ہوئی کہ آخرت کو بھول گیا تو اللہ تعالیٰ نے زکوٰة کی ادائیگی کا حکم دیا تاکہ میرا بندہ مال کی محبت سے بے نیاز ہو کر پاک و صاف ہو جائے اور میری محبت کے لائق ہو جائے اور مال دنیا کی محبت دل میں جا گزیں نہ ہونے پائے ۔چنانچہ قرآن کریم میںخالق کائنات نے ارشاد فرمایا”اور نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دو اور جو تم اپنے واسطے آخرت میں بھیجو گے اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس بہتر اور زیادہ ثواب کی شکل میں پاﺅ گے۔(سورة المزمل)احکام زکوٰة کی اصل یہی آیت ہے جس سے بعد میں مسائل زکوٰة کے برگ و بار ظاہر ہوئے ۔ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا”اور جو تم خرچ کرتے ہوتو وہ اس کی جگہ اور دے دیتا ہے اور وہ بہترین رزق دینے وا لا ہے ۔(سورة السبائ)
اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا جائے اور اپنے مال سے زکوٰة ادا کی جائے اس سے رزق کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا و آخرت میں بڑھتا ہے ۔اس لئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔”خرچ کرو تم پر خرچ کیا جائے گا۔“ یعنی صدقہ کرو اللہ تمہیں اور مال عطا کردے گا۔اس طرح حضرت ابو ہریرہ ابو سعید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ خطبہ پڑھا اور یہ فرمایا”کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اس کو تین بار فرمایا پھر سر جھکا لیا تو ہم سب نے (بھی )سر جھکا لئے اور رونے لگے۔یہ نہیں معلوم کہ کس چیز پر قسم کھائی پھر حضور ﷺ نے سر مبارک اٹھالیا اور چہرہ اقدس میں خوشی نمایا ں تھی تو ہمیں یہ بات سرخ اونٹوں سے زیادہ پیاری تھی اور فرمایا “جو بندہ پانچوں نماز یں پڑھتا ہے اور رمضان کا روزہ رکھتا ہے اور زکوٰة دیتا ہے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے و اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو۔(نسائی و ابن ماجہ )اور آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ زکوٰة دے کر اپنے مالوں کو مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو اور بلا نازل ہونے پر دعاءو تضرع سے استعانت کرو۔(طبرانی)
زکوٰة نہ دینے والوں کے لئے سخت وعید:صحیح بخاری شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس کی زکوٰة ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا پھر اس کی باچھیں پکڑلے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔(الخ)ضروری نوٹ:اجکل عوام تو عوام بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ نفلی نمازیں ،نفلی روزے، نفلی حج اور نفلی صدقات و خیرات کا بڑا اہتمام کرتے ہیں اور بہت سے امور میں جو زیادہ سے زیادہ صرف بہتر اور مستحب ہیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ان پر پانی کی طرح دولت بہاتے ہیں اور اسے ثواب اور نجات آخرت اور قرب الہٰی کا ذریعہ سمجھتے ہیں لیکن اللہ کے فرض(زکوٰة) اور اس بادشاہ قہار کا یہ بھاری قرض اپنی گردن سے اتارنے کی طرف قطعاً توجہ نہیں کرتے ۔یہ شیطان کا بڑادھوکا ہے اور آدمی کو نیکی کے پردہ میں ہلاک کرتا ہے اور بندہ نہیں جانتا کہ نفل بغیر فرض کے دھوکے کی چیز ہے ۔اللہ سمجھ عطا فرمائے اور اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ”اللہ اس شخص کی نماز کو قبول نہیں فرماتا جو زکوٰة ادا نہ کرے۔(کنزالعمال)
مسائل زکوٰة:ہر عاقل ،بالغ مرد و عورت جو صاحب نصاب ہو اس پر زکوٰة فرض ہے جبکہ جس مال کا وہ مالک ہے اس پر مکمل سال گذرچکا ہو اور نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو اور قرض ہونے کی صورت میں ادائیگی قرض کے بعد بھی وہ صاحب نصاب رہتا ہو۔مال نصاب اور ادا ئیگی زکوٰة :مال نصاب سے مراد شریعت کی متعین کردہ مال کی مقدار کا پاس ہونا ضروری ہے اسے جاننے کے لئے درج ذیل چارٹ ملاحظہ ہو۔
مال کی نوعیت نصاب زکوٰة
چاندی ساڑھے باون تولے چالیسواں حصہ
سونا ساڑھے سات تولے چالیسواں حصہ
مال تجارت چاندی کے نصاب کے برابر مال ہوکے مطابق قیمت نکال لیں چاندی کے چالیسویں حصہ

مال نقد چاندی کے نصاب کے برابر مال ہو اڑھائی فیصد
اونٹ پانچ عدد ایک بکری
بکری چالیس عدد ایک بکری
گائے تیس عدد ایک بچھڑا سال بھر کا
نوٹ: جانوروں کی مزید تعداد اور متعلقہ مسائل کے لئے کتب فقہ یا علماءسے رجوع کریں۔
مال نصاب پر سال گذرنا:صاحب مال کو چاہیے کہ مال پر نگاہ رکھے اور جب سال گذر جائے اسلامی کیلنڈر کے لحاظ سے فوراً زکوٰة ادا کردے خواہ کوئی بھی مہینہ بنتاہو۔حاجت اصلیہ:وہ مال جس کی زندگی بسر کرنے میں آدمی کو ضرورت ہو اس مال پر زکوٰة واجب نہیں جیسے رہنے کےلئے مکان یا وہ مکان و دکان جو کرایہ پر دیئے ہوں ۔کام کاج کے اوزار یا وہ مشینری جس سے مال تیار کیا جارہا ہو خواہ اس کی مالیت کروڑو ں روپے میں ہو مگر برائے فروخت نہ ہو ۔پہننے، اوڑھنے بچھانے کے کپڑے خواہ بہت قیمتی ہوں ،خانہ داری کے برتن ،سواری کے لئے استعمال ہونے والے جانور ،سائیکل ،موٹر سائیکل ، موٹر کار وغیرہ اہل علم کی حاجت کی کتابیں خواہ بہت قیمتی ہوں،کھانے کا غلہ ، دودھ حاصل کرنے کےلئے گھر میں رکھے گئے جانور ،اسلحہ ،زرعی آلات ،ایکسرے مشین،ہیرے جواہرات وغیرہ میں زکوٰة نہیں اگر ان میں تجارت کی نیت نہ ہو۔
جن چیزوں پر زکوٰة ہے:وہ میشنری و آلات جو تجارت کےلئے ہوں ،کارخانہ میں موجود خام مال، زمین و مکان سے حاصل ہونیوالی رقم یا ہیرے جواہرات بغرض تجارت موجود ہوں ۔اسی طرح کرایہ کے مکانات و آلات کی آمدنی ،ٹرک ،موٹر گاڑیوں کی آمدنی وغیرہ پر غرضیکہ ہر وہ چیز جو تجارت کے لئے ہو اس پر زکوٰة فرض ہے جبکہ آمدنی نصاب کو پہنچتی ہو اور اس پر ایک سال بھی گذر جائے۔زمین کی پیدا وار عشر:اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے ۔ترجمہ ”اور اس کا حق دو جس دن وہ کٹے۔(القرآن)
برادران اسلام! زمین کی پیداوار سے زکوٰة ادا کر کے فصل کو پاک کرنا لازمی ہے اس کا شریعت میں عشر نام رکھا گیا ہے۔
عشر کی دو قسمیں ہیں:(1)ایسی زمین جو بارش یا چشمے وغیرہ کے پانی سے سیراب ہوتی ہو یعنی اس زمین کو پانی خرید کر سیراب نہ کیا جاتا ہو تو ایسی زمین کی کل پیداوار کا دسواں حصہ(زکوٰة) ادا کرنا واجب ہے۔(2) اگر کنویں سے پانی نکال کر ،ٹیوب ویل یا جانوروں کے ذریعے لا دکر یا بیلوں کے ذریعے رہٹ سے پانی نکل کر سیراب کیا جائے یعنی مشقت سے یا پھر خرید کر تو ایسی زمین سے زکوٰة کا بیسواں حصہ(نصف عشر)یعنی عشردیا جائے گا۔مسئلہ:(1)عشر واجب ہونے کے لئے عاقل ،بالغ کی شرط نہیں بلکہ پاگل و مجنون و نابالغ کی زمین سے جو کچھ پیدا ہو اس سے بھی عشر دیا جائے گا۔(2)عشر کے لئے سال گذرنے کی شرط نہیں بلکہ سال میں چند بار ایک کھیت میں زراعت ہو گی تو ہر بار عشر واجب ہے ۔ (3)عشرمیں صاحب نصاب ہونا شرط نہیں اور نہ ہی اس کے نصاب کی کوئی مقدار ہے بلکہ جتنا غلہ پیدا ہو اس سے عشردیا جائے گا مثلا کسی کے پاس ایک سیر غلہ ہو تو اس سے بھی عشر واجب ہے۔(4)جس چیز میں عشر واجب ہے اس کی کل پیداوار کا عشر (دسواں حصہ ) یا نصف عشر(بیسواں حصہ )ادا کرنا واجب ہے یہ نہیں کہ زمیں کے ہل ،بیل ، مزدوری حکومت کے ٹیکس ،مال گزاری بیج وغیرہ نکال کر عشر دے بلکہ ان سب کے نکالنے سے پہلے عشر ادا کرنا واجب ہے۔(5)ہر قسم کے غلے ،مثلاً گندم ،جو، جوار، مکئی ،چنا وغیرہ ہر قسم کے پھل تربوز ،خربوز ،ککڑی ،گنا، بادام ،اخروٹ وغیرہ اور ہر قسم کی سبزی وغیرہ ان تمام چیزوں سے عشر دینا واجب ہے خواہ یہ تھوڑی ہوں یا زیادہ ۔
خمس :کان سے لوہا، سیسہ ،تانبا، پیتل اور سونا چاندی نکلے اس میں خمس (پانچواں حصہ لیا جائے گا اور باقی پانے والے کا ہے اور اسی طرح وہ زمین جس سے یہ چیزیں نکلیں تو یہ اس صورت میں حکومت کوخمس دیا جائے گا جبکہ زمین کسی کی مملوک نہ ہو جیسے جنگل ہو یا پہاڑ۔ اگر زمین کسی کی ملک ہو تو کل مالک کا ہے ۔اس سے حکومت کو خمس نہیں دیا جائے گا۔خمس مسکینوں کا حق ہے یعنی بادشاہ اسلام وصول کر کے مسکینوں میں تقسیم کر یگا اگر مالک خود بھی تقسیم کردے تو جائز ہے ۔
مال زکوٰة کن لوگوں کو دیا جائے:زکوٰة کا مال اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کے لئے جائز قرار دیا ہے ۔انکا ذکر قرآن مقدس میں یوں ہے ۔ترجمہ ” صدقات فقراءو مساکین کےلئے ہیں اور ان کے لئے جو کام پر مقرر ہیں اور وہ جنکے قلوب کی تالیف مقصود ہے اورگر دن چھڑانے میں مقروضوں کےلئے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے یہ سب فرض ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا دانا ہے ۔(سورہ توبہ) اس آیہ کریمہ میں زکوٰة کے آٹھ مصارف بیان ہوئے ہیں۔(1)فقیر وہ ہے جسکے پاس کچھ ہو مگر نہ اتنا کہ نصاب کو پہنچ جائے۔(2)مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔(3)عامل وہ جو امام وقت کی طرف سے زکوٰة و صدقات وصول کرنے کےلئے مقرر ہوں،ان کی تنخواہ زکوٰة سے دی جا سکتی ہے۔ (4)مولفة القلوب ابتدائے اسلام میں نو مسلموں کی خاطر داری کے لئے امداد واعانت کی جاتی تھی اب جمہور کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہے ۔(5)رقاب سے مراد غلام مکاتب مراد ہے اسے مال زکوٰة اتنا دینا کہ جس سے بدل کتابت ادا کر کے آزاد ہو سکے۔(6)غارم سے مراد مقروض ہے جس پر اتنا قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد صاحب نصاب نہ رہے ۔(7)فی سبیل اللہ یعنی راہ خدا میں خرچ کرناا سکی چند صورتیں ہیں مثلاً کوئی شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے مگر سواری اور زادراہ اس کے پاس نہیں تو اسے مال زکوٰة دے سکتے ہیں یا طالب علم کہ علم دین پڑھتا یا پڑھنا چاہتا ہے اس کودے سکتے ہیں بلکہ طالب علم سوال کر کے بھی مال زکوٰة لے سکتا ہے جبکہ اس نے اپنے آپ کو اس کام کےلئے فارغ کر رکھا ہو۔(درمختار) (8)ابن سبیل سے مراد مسافر ہے جس کے پاس مال نہ رہا وہ زکوٰة لے سکتا ہے اگر چہ اس کے گھر میں مال موجود ہو ۔مگر اسی قدر لے جس سے حاجت پوری ہو جائے۔
نوٹ:جن لوگوں کی نسبت بیان کیا گیا انہیں زکوٰة دے سکتے ہیں ان سب کا فقیر ہونا شرط ہے سوائے عامل کے اس کا فقیر ہونا شرط نہیں اور ابن السبیل۔(یعنی مسافر) اگر چہ غنی ہو مگر اس وقت حکم فقیر میں ہے باقی کسی کو جو فقیر نہ ہو زکوٰة نہیں دے سکتے ۔(درمختار)
مسئلہ :زکوٰة دینے والے کو اختیار ہے کہ ان ساتوں قسموں کو دے یا ان میں سے کسی ایک کو دے دے خواہ ایک قسم کے چند اشخاص کو یا ایک کو اور مال زکوٰة اگر بقد ر نصاب نہ ہو تو ایک کو دینا افضل ہے ۔جن لوگوں پر زکوٰة نہیں لگتی:جن لوگوں کو زکوٰة و عشر کا مال دینا جائز نہیں انکی تفصیل درج ذیل ہے ۔
(1)مالدار صاحب نصاب جس پر زکوٰة فرض ہے ۔(2)ماں ،باپ، دادا ،دادی، نانا، نانی، وغیرہ ہم جن کی اولاد میں یہ ہے اور اپنی اولاد بیٹا ،بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی وغیرہ ہم کو زکوٰة نہیں دے سکتا۔(3)سید اور بنی ہاشم کو زکوٰة نہیں دے سکتے نہ غیر انہیں دے سکے نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو۔بنی ہاشم حضرت علی ،حضرت جعفر، حضرت عقیل ،حضرت عباس وحارث بن عبد المطلب کی اولاد میں ہیں (ایسا ان کے اعزاز کےلئے ہے) ان کے علاوہ جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی اعانت نہ کی مثلاً ابو لہب کہ اگر چہ یہ کافر بھی حضرت عبد المطلب کا بیٹا مگر اس کی اولا دیں بنی ہاشم میں شمار نہ ہوں گی۔(عالمگیری وغیرہ)نفلی صدقہ وخیرات اور اوقاف کی آمدنی بنی ہاشم کو دے سکتے ہیں۔(درمختار)
(4) شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰة نہیں دے سکتے۔ نوٹ:زکوٰة وصدقات وغیرہ میں افضل یہ ہے کہ اولاً اپنے بھائیوں ،بہنوں کو دے پھر ان کی اولاد کو ،پھر چچا اور پھوپھیوں کو ،پھر ان کی اولاد کو،پھر ماموں اور خالہ کو ،پھر ان کی اولاد کو ،پھر دیگر رشتہ داروں کو ،پھر ماموں اور خالہ کو ،پھر ان کی اولاد کو، پھر دیگر رشتہ داروں کو ،پھر پڑوسیوں کو ،پھر اپنے گاﺅں یا شہر کے رہنے والوں کو ۔اس کے بعد دینی مدرسہ کے طلباءکو دینا زیادہ افضل ہے۔ایک غلطی کا ازالہ:کچھ لوگ ماہ رجب میں زکوٰة دینے کے عادی ہیں یہ اس صورت میں درست ہے جبکہ رجب میں سال پورا ہوتا ہو اور کچھ لوگوں کی عادت ہے کہ رمضان المبارک میں زکوٰة ادا کرتے ہیں یہ بھی اس صورت میں ٹھیک ہے جبکہ مالک نصاب ہونے کے بعد رمضان شریف میں سال پورا ہوتا ہو اور اگر سال رجب یا رمضان المبارک سے پہلے پورا ہوجاتا ہے تو پھر اسلامی مہینوں کے حساب سے جس دن سال پورا ہو اسی روز فی الفور زکوٰة ادا کرنا فرض ہوتا ہے ازروئے شریعت سال پورا ہونے کے بعد تاخیر کرنا گناہ ہے ۔
اس سلسلے میں اصل مسئلہ صرف اس قدر ہے کہ اگر سال پورا ہونے سے پہلے ہی زکوٰة دینا چاہے تو اس کےلئے بہتر ماہ رمضان المبارک ہے جس میں نفل کا ثواب فرض ہے کے برابر اور فرض کا ستر فرضوں کے برابر ہے ۔خصوصی توجہ فرمائیں:زکوٰة و عشر کی ادائیگی کے وقت مصارف کا ضرور خیال رکھیں غیر مستحق اور پیشہ ور لوگوں کو عشر و زکوٰة کی ادائیگی نہ کریں ۔عشر و زکوٰة کے بہترین مصارف دینی ادارے ہیں ۔مدارس دین اسلام کے قلعے ہیں ان کو مضبوط بنانے کے لئے ضرور معاونت کرنی چاہئے ۔لیکن کسی گستاخ و بد مذہب کے ادارے سے عشر و زکوٰة کے ذریعے تعاون انتہائی خطر ناک اور مسلک کو نقصان کا باعث ہے ۔
احتیاط و ذمہ داری کا احساس فرمائیں۔
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved