اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔04-08-2010

رب ہے معطی یہ ہیں قاسم
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال


عن معاویہ رضی اللّٰہ عنہ قال سمعت النبی ﷺ یقول من یرد اللّٰہ بہ خیرایفقھہ فی الدین وانما انا قاسم و اللّٰہ یعطی ولن تزال ھذہ الا مة قائمة علی امر اللّٰہ لایضر ھم من خالفھم حتیٰ یا ¿تی امر اللّٰہ۔ (بخاری شریف جلد اول ،مسلم جلد اول)
حل لغات:یرد:ارادہ فرمائے ۔ یفقھہ:سمجھ عطا فرمائے۔قاسم : بانٹنے والا۔ یعطی:دیتا ہے ۔لایضرھم : نقصان نہ دے گا ۔یا ¿تی :آجائے ۔
ترجمہ :”سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺکو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعا لیٰ جس کے ساتھ بھلا ئی کا ارادہ کرے، اس کو دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے اور میں صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ عطا فرماتا ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی ۔ ان کی مخالفت کر نے والا ان کو ضرر نہ دے گا حتیٰ کہ قیامت آجائے ۔ “
تشریح :۔ اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ ہر قسم کی بھلائی اور عظیم خیر کا ارادہ فرماتا ہے ،اس کو اللہ تعالیٰ دین کی سمجھ اور بصیرت عطا فرماتا ہے ،کیو نکہ اسمیں لفظ”خیراً“کی تنکیر عموم کیلئے یعنی ہر قسم کی بھلائی اور تعظیم کیلئے ہے ، یعنی عظیم خبر۔معلوم ہوا جس کو دین میں فقاہت نصیب ہو جائے ، اس کو عظیم خیرکثیرحاصل ہو جاتی ہے ، اس کی دنیا و دین سنورجاتے ہےں اور اس کو دنیوی،اُخروی سعادتیں مل جا تی ہیں اور آپ نے فرمایا :”میں تو صرف تقسیم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے ۔“
اس جگہ ایک سوال پیدا ہو تا ہے آپ نے ارشاد فرما یاہے : ”انما انا قاسم“”اور کلمہ” انما“حصرکیلئے ہوتا ہے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے آپ صرف قاسم ہی ہیں ،حالانکہ آپ رسول ،بشیر ، نذیر،اس کے علاوہ اور بھی صفات ہیں ۔تو صرف صفت قاسم میں حصر کس طرح درست ہو گا ؟اس کا جواب یہ ہو گا کہ یہ حصر اضافی ہے اس سامع کے اعتبار سے جو آپ کو معطی اور قاسم سمجھتاھے ےا معطی اور قاسم اعتقاد نہیں کرتا تو اس کو بطریقہ ¿ قصرقلب یاقصر افراد کے سمجھایا جا رہا ہے کہ میں صرف قاسم ہو ں ۔ معطی تو اللہ تعالیٰ ہے ، اس میں آپ کی دیگر صفات کی نفی نہیں ہو تی ۔ اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا : میری امت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پا بند رہے گی،حتیٰ کہ قیامت آجا ئے ۔ معلوم ہوا اجماع اس امت کا حجت ہے اور فرمایا جو ان کی مخالفت کرے گا ، وہ ان کا کچھ نہیں بگا ڑ سکے گا ۔
(حتیٰ یا ¿تی امر اللّٰہ )سے مراد بعض حضرات نے قےامت لیا ہے ۔ اس پر سوا ل پیدا ہو تاہے کہ دوسری احادیث میں آتا ہے کہ قیامت اشرارالناس پر قائم ہوگی اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل حق قیامت تک رہیں گے،ان میں تطبیق کیسے ہو گی ؟اس کا جواب شارح مسلم علامہ نووی علیہ الرحمہ نے اس طرح دیا ہے ”ایا ¿تی امر اللّٰہ “سے مراد قرب قیامت ہے ، یعنی جس وقت قیامت کے قریب ایک نرم ہوا چلے گی اور اس ہوا چلنے پر ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کی روح قبض ہوجائے گا ۔ اس کے بعد اشراررہ جائیں گے ، تو قیامت ان پر قائم ہو گی ، لہٰذااس حدیث میں قرب قیامت مرادہے اوردوسری حد یث میں حقیقةًقیامت مراد ہے ، (عینی شرح بخاری شرےف جلد2 )
تفقہ فی الدےن : لفظ تفقہ کا مادہ فقہ ہے ، جس کا لغوی معنی فہم (سمجھ ، بصےرت)ہے اور اصطلاحی معنی احکام شرعیہ فرعیہ کا علم تفصیلیدلائل سے ہے، لیکن اس جگہ لغوی معنیٰ ہی مناسب ہے تا ہم علوم دینیہ کے ہر علم کے فہم شامل ہو جا ئے ۔
علامہ ابن حجرعسقلانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :حدیث کا اشارہ اس طر ف ہے کہ بے شک جس نے دین میں فقاہت حاصل نہ کی یعنی قوانین اسلامیہ اور جو اس کے ساتھ فروعی مسائل متصل ہیں نہ حاصل کئےے وہ خیر سے محروم ہو گیا ۔ (فتح الباری جلد1صفحہ 151 )
کیا عظمت ہے فقیہ کی کہ اس کو انواع خیر سے کثیر حصہ حاصل ہو تا ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا”فقیہ وہ ہے جو دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت کی جانب راغب ہو ، امور دینیہ میں بصیر (سمجھ دار ) او ر اپنے رب کی عبادت پر ہمیشگی کرنے والا ہو ۔“
ایک روایت میں ہے کہ” فقیہ وہ شخص ہے جس کے دل کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اپنے رب کو دیکھنے لگے ۔“ (تفہیم البخاری )
پس حدیث کا معنی واضح ہو گےا کہ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بہتری کا ارادہ فرماتا ہے اسے شریعت، طریقت اور حقیقت کا علم عطا کر دیتا ہے اور اس کے قلب کی آنکھےں کھول دیتا ہے اور وہ دل کی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھتا ہے © ©”امام الفقہا ¿سراج الآئمہ حضرت امام اعظم رحمة اللہ علیہ نے دل کی آنکھوںسے 99 با ر اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا “فقیہ کے قلب کی ہر نظر اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے ۔ (تفہیم البخاری)
آپ کی عبادت پر مداومت کا یہ حال ہے آپ نے کئی سال عشاءکے وضو سے فجر کی نماز ادا کی۔ ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے اور سارادن دین کے مسائل کے استنباط واستخراج اور فقہ کی تعلیم میں گزارتے ۔ فقیہ کی شان میں سرکار دوعالم ، شفیع اعظمﷺنے ارشاد فرمایا :”ایک فقیہ عالم ہزار عابد سے شیطان پرزیادہ سخت ہے ۔“(مشکوٰة ،کشف الغمہ)
ایک حدیث میں ہے،آپ ﷺ نے فرمایا کہ عالم کا درس دینا ایک ساعت یعنی ایک گھڑی ساری رات کو زندہ کرنے سے بہتر ہے۔(مشکوٰة )
معلوم ہو اکہ عالم عابد سے بہتر ہے ۔سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مرسلاً روایت ہے کہ رسول خدا ، سرور انبیاءﷺسے بنی اسرائیل کے دوشخصوں کے بارے میں پوچھا گےا ۔ایک ان میں سے عالم تھا ،جو فرض نماز پڑھتا تھا پھر بیٹھ جاتا تھا اور لوگوں کو بھلا ئی کی باتےں سکھاتا تھا اور دوسرا شخص سارا دن روزے رکھتا اور ساری رات عبادت میں کھڑا رہتا ۔ان میں سے کون افضل ہے ؟حضور سرورعالمﷺ نے فرمایا کہ اس عالم کی فضیلت جو فرض پڑھ کر بیٹھ جاتا ہے اور لوگو ں کو نیکی کی باتےں سکھاتا ہے اس عابد پر جو سارا دن روزہ رکھتا ہے اور ساری رات عبادت کرتا ہے ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ آدمی پر۔ (مشکوٰة صفحہ 36)
سبحان اللہ !کیا عظمت وشان ہے اور کیا فضیلت ہے عالم اور فقیہ کی کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں جیسی فضیلت مجھ کو تمہارے ادنیٰ پر ہے ایسی فضیلت عالم او ر فقیہ کی صائم النہار اور قائم اللیل شب زندہ دار عابد پر ہے یعنی عالم بہت فضیلت اور شان والاہے اور کیوں نہ ہو کہ عالم غلط کاموںاور محرمات سے خود بھی بچتا ہے اور دوسروں کو بھی بچاتا ہے اورحضور ﷺ کے دین کی اشاعت و تبلیغ فرماتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جس کیلئے انبیاءاور رسل مبعوث ہوئے ہیں،اسی لئے ارشاد فرمایا گیا ۔”اَل ±عُلَمَآئُ وَرَثَةُال ±اَن ±بِیَآئ“ ”علماءانبیاءکے علوم کے وارث ہیں“ عابد صرف اپنے آپ کو بچاتا ہے اور ہر وقت شیطان کے حملوں کے خطرات میں رہتا ہے کسی وقت بھی شیطان اس کو گمراہ کر سکتا ہے لیکن عالم کو وہ نور بصیرت حاصل ہوتا ہے جس سے وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے اور علم اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس کی حفاظت کرتا ہے جیسا کہ سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا وجہہ الکریم کا ارشاد مبارک ہے:”ہم خدا وند قدوس جبارکی تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمیں علم عطا فرمایا اور جاہلوں کو مال۔ “
اور فرماتے ہیں علم کو مال پر چند وجوہ سے فضیلت ہے ۔ علم انبیاءاور اولیا ءکی وراثت اور مال فرعون ،ہامان اور شداد کی وراثت۔مال خرچ کرنے سے کم ہوجا تا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے ۔مال دار کو مال کی حفاظت کرنی پڑتی ہے ،مگر علم خود صاحب علم کی حفاظت کرتا ہے ۔تمام لوگ مالداروں کی طرف محتاج نہیں ہوتے ،مگر کوئی ایسا آدمی نہیں ،جو صاحب علم کی طرف محتاج نہ ہو۔
انما اناقاسم :اس حدیث میں آپ نے فرمایا :”اللہ دیتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں ۔بعض شارحین نے حدیث کے سیا ق کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میں علم وحی کی تقسیم سب کو(برابر)کرتا ہوں ۔اس کا فہم وفقاہت اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور جس کو فقاہت اور سمجھ زیادہ عطا فرماتا ہے ،وہ مسائل کا زیادہ استخراج کر لیتا ہے اور جس کو سمجھ کم ملے وہ قلیل مسائل کا استنباط کرتا ہے ۔ آپ کی تبلیغ برابر ہے اور بعض نے حدیث کے اعتبار سے مال و دولت مراد لیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں ،میںمال ودولت تقسیم کرنے والا ہوں اورکمی بیشی، اللہ تعالیٰ کی عطا کے اعتبار سے اور اس کے حکم کے مطابق جس کو زیادہ دینے کا حکم ہوتا ہے ،اس کو زیادہ اور جس کو کم دینے کا حکم ہوتا ہے اس کو کم دیتا ہوں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں بھی ہے ”جس کو چاہے رزق زیادہ عطا فرمائے اور جس کو چاہے کم عطافرمائے “
لیکن حدیث کے الفاظ مطلق ہیں اور اہل معانی کا قاعد ہ ہے کہ جس فعل متعدی کا مفعول ذکر نہ کیا جائے ،اس سے عموم مراد ہو تا ہے ،حدیث شریف کے یہ الفاظ ہیں :”انما انا قاسم واللّٰہ یعطی ۔“نہ تو قاسم مفعول بہ مذکور ہے اور نہ ہی یعطی کا مفعول کہیں مذکور ہے ، تو اس قاعدہ کے مطابق معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر شئے عطا فرماتا ہے اور اسے رسول اللہ ﷺاللہ کے حکم سے تقسیم فرماتے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے :”اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کی زبان پر جو چاہتا ہے ،فیصلہ فرماتا ہے ۔“
اس کی تا ئید ربیعہ بن اسلمیٰ رضی اللہ عنہ والی حدیث بھی کرتی ہے جس میں انہوں نے آپ سے جنت میں مرافقت کا سوال کیا اور آپ ﷺ نے قبول فرما کر جنت عطا فرمائی اور اس کی شرح میں بعض محدثین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام خزانے اور جنت حضور سید دوعالم ﷺ کے دست اقتدارمیں دے دیئے ہےں ، جسے چاہیں ،جو چاہیں ، اللہ تعالیٰ کے حکم سے عطا فرمائیں ۔ بخاری شریف میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا ۔”مجھے زمین کے خزانوں کی چابیا ں عطا کی گئی ہیں۔ “(تفہیم البخاری )
ان روایات سے معلوم ہو اآپ ہر چیز علم و فقاہت ، فہم وفراست ، مال ودولت اور تمام نعمتیں دیتے ہیں اور آپ وسیلہ عظمیٰ ہیں۔ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ۔
رب ہے معطی یہ ہےں قاسم دیتا وہ ہے دلاتے یہ ہیں
شارح مسلم مولاناعلامہ غلام رسول سعیدی صاحب فرماتے ہیں : اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس حدیث کا یہ مفہوم ہو ،عزت و شوکت ، مال و دولت ، علم و حکمت ، غرضیکہ ہر نعمت دیتا اللہ تعالیٰ ہے،اور تقسیم رسول اللہ ﷺ کرتے ہیں کیونکہ آپ ہر نعمت کے حصول میں نعمتِ عظمیٰ ہیں ،ملا ںعلی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
”آپ ﷺ علم اور مال غنیمت اور اس جیسی چیزیں تقسیم فرماتے ہیں اور کہاگیا ہے کہ نیک لوگوں کو بشارت اور بدوں (گنہگاروں )کو وعید تقسیم کر تے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلندیوں اور پستیوں کی سپردہو اور ان تمام معانی کے ارادہ کر لینے سے بھی کوئی مانع نہیں ہے جیسا کہ اس بات پر مفعول کامحذوف ہونا دلالت کر تاکہ ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق کہہ سکے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز دیتا ہے اور حضور ﷺ اس کو تقسیم کرتے ہیں۔(شرح مسلم جلد دوم صفحہ 964)
کون دیتا ہے دینے کو منہ چاہیے دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ
ھذہ الامة : اس حدیث میں جو فرمایا گیا :یہ امت ہمیشہ قائم رہے گی ۔شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :”اس سے مراد اہل علم ہیں ۔“ اور امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد اگر اہل حدیث یعنی علم حدیث کے جا ننے والے مرادنہ ہوںتو کون سے لوگ مراد ہوںگے اور قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :اس سے امام احمدرحمة اللہ علیہ کی مراد اہل سنت وجماعت ہیں اور شارح مسلم علامہ نووی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ احتمال ہے یہ طائفہ مومنین کی اقسام پر تفرےق ہو ،ان میں فقہاء،ان میں مجاہد اور ان میں محدثین اور ان میں صوفیا ءبھی ہیں (عینی)
ان شارحین کے اقوال سے معلوم ہوا کہ قیامت تک اہل علم اور اولیاءکے گروہ قائم رہیں گے اور ان کی برکا ت وفیوض سے آپ کی امت مستفید ومستفیض ہوتی رہے گی اور ان کے وسیلہ سے فیضان نبوت حاصل ہوتا رہے گا اور علماءواولیا ءکے دونوں گروہ آپس میں شیرو شکر ہیں ، اسی لئے اولیاءعلماء کے شاگرد اور علماءاولیاءکے مرید ہوتے ہیں ۔بعض جاہل علماءکی مخالفت کرتے ہیں اور بزعم خویش صوفی بنتے ہیں اور پیری مریدی کرتے پھرتے ہیں،وہ فراڈاور دھوکہ ہے اور شیطان کے جال میں پھنسے ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ علماءواولیا ءکا عقیدت مند رکھے اور جہالت کی وبا سے محفوظ ومامون فرمائے(آمین
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved