اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔07-09-2010

خانہ کعبہ کی عظمت
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال

اِنَّ اَوَّلَ بَیتٍ وُّضِعَ لِلنَّا سِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبٰرَکًا وَّ ھُدًی لِّلعٰلَمِینَ 0فِیہِ اٰیٰت µ بَیِّنٰت µ مَّقَامُ اِبرَاہِیمَ وَمَن دَخَلَہ ¾ کَانَ اٰمِنَا ۔ ترجمہ:”بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے ۔برکت والا سارے جہان کا راہنما ۔ اس میں نشانیاں ہیں کھلی ہوئی مقام ابراہیم اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہو گیا ۔“(القرآن :پارہ 4 )
پورا قرآن شریف سورہ ¿ فاتحہ بلکہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی ”ب“ سے لیکر قل اعوذ برب الناس کی ”س“تک سرکارِ اقدس ﷺ کی نعت پاک کا گنجینہ ہے یعنی سب اوراس پر بس ہے کہ قرآن پاک آپ کی تعریف کا ایک حسین گلدستہ ہے ۔
شانِ نزول:اس کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہود نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ بیت المقدس میں ہمارا قبیلہ ہے ۔کعبہ سے افضل اور اس سے پہلا ہے ۔انبیاءکرام کا مقامِ ہجرت و قبلہ عبادت ہے ۔مسلمانوں نے کہا کعبہ افضل ہے ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔(خزائن العرفان صفحہ37)
تفسیر جلالین میں ہے :وَنَزَلَ لَمَّا قَالُو اقِبلَتُنَا قَبلَ قِبلَتِکُم ۔اِنَّ اَوَّلَ۔الخ۔
اور اس میں بتایا گیا کہ سب سے پہلا مکان جس کو خدا نے اطاعت و عبادت کےلئے مقرر کیا ۔نماز کا قبلہ و حج طواف کا موضع بتایا ۔ جس میں نیکیوں کے ثواب زیادہ ہوتے ہیں وہ کعبہ معظمہ ہے جو شہر مکہ معظمہ میں واقع ہے ۔
کعبہ چالیس(40) برس پہلے بنا:حدیث پاک میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کعبہ معظمہ بیت المقدس سے چالیس برس قبل بنایا گیا۔حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل کعبة اللہ کی بنا ہوئی ۔حضور پر نور ﷺ سے اول بیت سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :اَلمَسجِدُ الحَرَامُ ثُمَّ بَیتُ المَقدَسِ۔یعنی ” پہلے مسجد حرام (کعبة اللہ شریف) پھر بیت المقدس۔پھر ان دونوں کے درمیان مدت کا فرق دریافت کیا گیا تو فرمایا !اَربَعُونَ سَنَة۔یعنی ”چالیس برس“(روح البیان جلد1صفحہ348)
مقام ابراہیم:اس آیت کے تحت تفسیر جلالین شریف میں ہے :”(اس میں روشن نشانیاں)مقام ابراہیم ہے ۔یعنی وہ پتھر جس پر بنائے کعبہ کے وقت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے اور ان کے قدموں کے نشان اس پر ثبت ہو گئے تھے ۔جو طول زمانہ اور ہاتھوں کے بکثرت لمس (چھونے) کے باوجود آج تک باقی چلے آرہے ہیں اور منجملہ نشانیوں کے وہاں نیکیوں کا کئی گناہو جانا اور پرندوں کے اس پر سے اُڑ کر نہ گزرنا ۔“
پرندوں کا علاج:منجملہ نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اُوپرنہیں بیٹھتے ۔اس کے اُوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے کتراجاتے ہیں ۔یعنی اِدھر اُدھر ہٹ جاتے ہیں ۔اور جو پرندے بیمار پڑ جاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جاتے ہیں ۔ اس سے انہیں شفا ملتی ہے اور ایک دوسرے کو حرم میں ایذا نہیں دیتے ۔حتیٰ کے کتے اس سر زمین پر ہرن پر نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے ۔
اور لوگوں کے دل کعبہ کی طرف کھینچتے ہیں اور اسکی طرف نظر کرتے ہیں تو آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور ہر شب جمعہ کو اسکے گرد اوراح اولیاءحاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اسکی بے حرمتی کا قصد کرتا ہے برباد ہو جاتا ہے ۔(خزائن العرفان صفحہ37)
بانی کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام :جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام پاک آیا ہے تو یہ بتاتا چلوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارخ کا تاریخی تذکرہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے تین ہزار تین سو بتیس برس اور طوفان نوح کے ایک ہزار دو سو پنتالیس برس کے بعد زمین عراق و عجم کے مشہور و معروف شہر بابل میں نمرود بن کنعان کی حکومت چل رہی تھی ۔شہر بابل ملک عراق دریائے دجلہ کے اور فرات کے درمیان دوآبہ میں واقع ہے ۔یا کنارہ فرات پر اور اسکے قریب لب دجلہ پر شہر ”نینوا“ تھا جہاں حضرت یونس علیہ السلام کی ولادت ہوئی ۔
ولادت: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ایک تہہ خانہ میں ہوئی ۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ نمرو دنے آپکی ولادت سے قبل ایک خواب دیکھا کہ ایک ستارہ طلوع ہوا ہے جس کی بنا کے آگے چاند و سورج ماند پڑھ گئے ہیں ۔اس نے دربار کے نجومیوں سے اس خواب کا تذکرہ کیا انہوں نے بتایا کہ بادشاہ ! تیری حکومت کے دور میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوگا جو تیری سلطنت و حکومت کو برباد کر ڈالے گا۔اسکی تعبیر سننے کے بعد اس نے اپنی پوری سلطنت و حکومت میں اپنا حکم جاری کر دیا نو مود بچے قتل کر دئےے جائیں اور لوگ اپنی اپنی عورتوں سے دور رہیں اور انکی دیکھ بھال کےلئے باقاعدہ ایک محکمہ قائم کر دیا ۔
نمرو د اپنی دانست میں یہ سمجھ چکا ہے کہ میں اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا ۔اتنے میں بہت سے نجومی ،کاہن اسکے دربار میں آئے اور نہایت حواس باختہ ہو کر اس سے کہتے ہیں کہ بادشاہ! خبردار ہو جا کہ فلاں تاریخ فلاں شب میں وہ مبارک بچہ اپنے باپ کے صلب سے اپنی ماں کے صلب یعنی شکم میں آئے گا ۔ اتنا سنتے ہی نمرود کی چولیںہل گئیں اور اسی وقت اپنے وزراءکو حکم دیا کہ فلاں رات نہایت سختی سے پہروں کا انتظام کیا جائے اور تمام مردوں کو شہر سے نکال کر جنگل میں نظر بند کر دیا جائے ۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا عورتوں کو حکم کر دیا گیا کوئی عورت اپنے گھر سے باہر نہ نکلے ورنہ قتل کر دی جائے گی ۔یکا یک پچھلی رات ہوئی کہ نمرود کو کوئی ضروری کام یاد آیا اور وہ اپنے وزراءکو لے کر اندروں شہر اپنی محل سرا میں پہنچا اور وہ کام کر کے تھکا ماندہ اپنی مسہری پر پڑ کر سو گیا جس کے آگے ایک وزیر بیٹھ کر پنکھا جھولنے لگا ۔ادھر قدرت خدا وندی نے اپنا کام کیا کہ (حضرت ابراہیم )یعنی وہ بچہ اپنی ماں کے حمل میں آگیا ۔
مواہب لدنیہ وغیرہ میں ہے کہ ولادت ابراہمی کا زمانہ قریب آیا تو آپ کی والدہ ماجدہ ¿ باہمی مشورہ سے اپنے مکان سے نکل کر سیدھی پہاڑوں میں پہنچیں اور وہاں ایک پوشیدہ غار میں حضرت ابراہیم علیہ السلام تولد ہوئے اس تہ خانہ میں روزانہ آپ کی والدہ آکر دودھ پلا جاتی تھیں اور تہ خانے کو پتھر سے بند کر جاتی تھیں ۔
عادتاً بچے سال بھر میں جتنا بڑھتے ہیں آپ ایک ماہ میں بڑھتے تھے ۔بروایت مختلفہ آپ 7سال ،13سا ل یا 17سال تہہ خانہ میں جلوہ فرما رہے ۔ جب تہہ خانہ سے باہر آئے تو دیکھا کہ آپ کا چچا آذر بت تراش اورپوری قوم بت پرستی و ستارہ پرستی میں مبتلا ہے ۔دوسری طرف نمرود خدائی کا دعویدار ہے ۔آپ نے قوم سے سوال فرمایا یہ مورتیاں کیسی ہیں؟افسوس تم نے ان کو خدا مان رکھا ہے اور انکے آگے سرجھکا تے ہو ۔یہ صریح گمراہی و بے دینی ہے اس سے باز آﺅ ۔
جب آپ نے نعرہ ¿ حق بلند فرمایا تو ساری کی ساری قوم جھنجلا کر بولی ،ہم کچھ نہیں جانتے ۔ہم نے اپنے آباﺅ اجداد کو ان کو پوجتے دیکھا ہے ۔لہٰذا ہم بھی وہی کر رہے ہیں ۔
ایک دن ساری قوم بابل کے ایک میلہ کےلئے بتوں کو سجا بنا کر میلہ میں چلی گئی ۔تو واپسی پر دیکھا کہ بت خانہ میں سارے کے سارے بت چکنا چور پڑے ہیں اور بڑے بت کے کاندھے پر کلہاڑا رکھا ہے ۔اور آپ سے پوچھا کہ ہمارے خداﺅں کیساتھ یہ کس نے ظلم کیا ہے ؟ آپ نے جوابا فرمایا قَالَ بَل فَعَلَہ ¾ کَبِیرُھُم ۔کہ یہ حرکت ان کے بڑے کی ہے اگر بول سکے تو اس سے پوچھ لو ۔
قوم کی زبان بند ہو گئی دل ہی دل میں کہنے لگے بات وہی سچی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کہتے ہیں ۔لیکن بر سا برس کی گھٹی میں پلائی ہوئی بت پرستی نہ جاسکی ۔بولے آپ تو جانتے ہیں کہ یہ بولتے نہیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فوراً جواب دیا پھر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان نادانوں کو پوجتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچا سکیں نہ نقصان ،تم پر تف ہے ۔
آپکی حق پرستی نیکی و تقو یٰ کو دیکھ کر جب قوم ہر طرح عاجز ہو گئی تو غالباً اسی وقت یا آگ میں سپرد کرنے کے بعد زبانی مقابلہ ہوا جس میں اللہ کے خلیل نے اس حقیقت کا اظہار بھی ضمناً کر دکھایا اس زبانی شکست کے بعد دشمن نے اپنی پوری قوت کا مظاہرہ کیا ۔
آتش کدہ نمرود:
فیض جلیل خلیل سے پوچھو آگ میں باغ کھلاتے یہ ہیں
یہ سن کر دشمن آگ بگولہ ہو گئے اور فوراً نمرود کو موقع پر بلایا جس نے سب کیفیت سنی اور غیظ و غضب میں آکر فوراً اس نے حکم دیا : قَالُو حَرِّقُوہُ وَانصُرُوا اٰلِھَتَکُم۔(القرآن) یعنی نمرود اور اس کے ساتھی جھنجھلا اُٹھے کہ اگر تمہیں کچھ کرنا اور اس کا بدلہ لینا ہے تو ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۔
چنانچہ اس ظالم و جابر نمرود نے ایک ہیبت ناک دہکتی ہوئے آگ کا آتش کدہ تیار کرایا جوتیس گز لمبا ،بیس گز چوڑا سنگین دیواروں کا آتش کدہ تھا ۔ اس میں لکڑیوں کو بھر کر آگ لگا دی گئی تقریباً ایک ماہ تک وہ آگ بھڑکائی گئی جس کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے اور اسکی تپش سے ہوا میں پرواز کرنیوالے پرندے جل جاتے تھے اور ایک منجنیق کھڑی کی اور آپکو باندھ کر اس آگ میں پھینک دیا ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے سدرہ سے دیکھا کہ حضرت خلیل کے پائے استقامت میں لغزش اور دل میں ہر اس کیا منہ زبان حق ترجمان پر حرفِ التجا بھی نہیں آیا ۔حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا ۔ھَل لَّکَ حَاجَة’‘ ؟۔”کہ کیا آپ کو کوئی ضرورت ہے ؟“ارشاد فرمایا :عِلمُہ ¾ بِحَالِی کَفَانِی عَن سُوَالِی۔”وہ حال جانتا ہے دعا کی کوئی ضرورت نہیں ۔“ اس قادر و قیوم نے حکم فرمایا :قُلنَا یَا نَارُکُونِی بَردًا وَّ سَلٰمًا عَلٰی اِبرَاہِیمَ۔قدر ت خدا وندی نے آپ پر آگ کو گلزار بنا دیا ۔
جلیل سے ہے خلیل راضی خلیل سے ہے جلیل راضی
یہ آتش عشق وہ لگی ہے کبھی بجھے گی نہ یہ بجھی ہے
یہ آگ وہ ہے جس کے آگے حجیم ساری بجھی پڑی ہے
آخر نمرود یہ منظر دیکھ کر کہ آگ گلزار ہو گئی ہے ۔ہر لپٹ نور واحوت بن گئی ہے ،پکار اُٹھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا بڑی قدرت والا ہے وہی قابل پرستش و عبادت ہے ۔بروایت مختلفہ اسی روز نمرود نے خدا کےلئے ایک ہزار گائیں قربان کیں اور آئندہ ایذارسانی سے توبہ کی مگر مسلمان نہ ہو سکا ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اصلاً عراق کے ایک شہر ادرکے باشند ے تھے یہ شہر دریائے فرات کے مغربی ساحل پر کوفے کے قریب واقع تھا ۔ یہاں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام حزان تشریف لے گئے تھے ۔پھر وہاں فلسطین جا کر اسی ملک کو اپنی دینی کوششوں کامرکز بنایا تھا ۔
اہل بابل پر حجت الہٰیہ تمام ہو چکی آخر وقت آگیا کہ صفحہ ارضی سے نمرود یت کو مٹادیا جائے ۔لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کا حکم ہوا ،چنانچہ آپ چچازاد بھائی لود بن ہاران کو لیکر شام تشریف لے گئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں اور لوط موتفکہ میں آباد ہوئے ۔
نمرود اور اسکی قوم کی بربادی :خدا تعالیٰ نے نمرود اور اہل نمرود پر اپنا عذاب نازل فرمایا ۔مچھروں کی ایک فوج آئی ،پوری قوم کے گوشت میں چپٹ گئی ۔ایک مچھر نمرود کے دماغ میں گھس گیا اسکے مغز کو چاٹ کر ہلاک کر دیا اور پیغمبر خدا کو آگ کے سپرد کرنیوالی قوم صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو گئی ۔
کعبہ کی خصوصیات:ہاں عرض کر رہا تھا کہ کعبہ شریف بڑی عظمت والا ہے ۔کعبہ شریف اور بھی چند وجوہات سے بیت المقدس سے افضل ہے : 1۔ کعبہ شریف کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔
2۔ یہ کہ کعبہ بیت اللہ ہے ۔مسلمان عباد اللہ ، نماز عبادت اللہ انکے پیغمبر حبیب اللہ اور انکی کتاب قرآن شریف کتاب اللہ گویا کہ جب اللہ کے بندے رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے اللہ کی عبادت میں کلام اللہ پڑھیں تو بیت اللہ کو منہ کر لیں ،تاکہ اتنی نسبتوں سے ان کا قلب اللہ کی طرف رہے ۔
3 ۔ یہ کہ مشرق مطلع انوار ہے کہ ادھر سے سورج طلوع ہوتا ہے اور کعبہ شریف مطلع سید الانوار ﷺ ہے ۔یعنی حضورِ اقدس ﷺ کی پیدائش کی جگہ ہے ۔
4۔ یہ کہ کعبہ معظمہ وسط زمین میں ہے تو چاہئے کہ نماز میں ادھر ہی منہ کیا جائے تاکہ معلوم ہو کہ مسلمان” اُمت وسط“ یعنی درمیانی اُمت ہیں ۔
5۔یہ کہ حضور انور ﷺ اسکے محبوب اور کعبہ معظمہ حضور ﷺ کا محبوب ،لہٰذا کعبہ رب کا محبوب ،تو چاہئے نماز اسکی طرف ہو، تا کہ ہمیں بھی محبوبیت ملے۔
فترضیٰ:اللہ تعالیٰ نے دنیا میں حضور ﷺ کو راضی کیا کہ فرمایا : قِبلَةً تَرضٰھَا۔یہ نہ کہا اَرضَھَااور آخرت کے متعلق فرمایا کہ : وَلَسَوفَ یُعطِیکَ رَبُّکَ فَتَرضیٰ۔”کہ رب تعالیٰ آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے ۔“
فترضیٰ نے ڈالی ہیں باھیں گلے میں کہ ہو جائے راضی طبیعت کسی کی
اس میں ارشاد فرمایا گیا کہ ساراجہاں تو میری رضاچاہتا ہے اور میں آپ کی رضا چاہتا ہوں ۔جیسا کہ شفا شریف میں ہے : کُلُّھُم یَطلُبُونَ رِضَائِی وَاَنَا اَطلُب رِضَاکَ یَا مُحَمَّد ۔ یعنی”اے محبوب (ﷺ)!سارا عالم میری رضا چاہتا ہے اور میں تیری رضا چاہتا ہوں۔“
خانہ کعبہ پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے بنا ہے:1۔طور سینا ۔ 2۔طورزینا۔ 3۔جودی۔ 4۔لبنان۔ 5۔حرا۔گویا جواِدھر نماز پڑھے گا یا کعبہ کا حج کرے وہ اگر گناہوں کے پہاڑ بھی لیکر آئے گا سب مٹادئےے جائیں گے ۔
7۔ یہ کعبہ معظمہ کی زمین ساری زمین کی اصل ہے کہ اسی جگہ زمین کا جھاگ پیدا ہوا اور اسی سے زمین پھیلی ،نیز انسان کی بھی اصل ہے کہ اسی جگہ جسمِ حضرت آدم علیہ السلام خشک کیا گیا ۔چاہےے کہ نماز میں اپنے اصل مبداءکی طرف رخ ہو۔
8۔ بیت المقدس کا کبھی حج نہ ہوا ۔ہمیشہ سے کعبہ کا ہوا تو بہتر تھا کہ مسلمانوں کا حج اور نماز ایک ہی طرف ہو ۔
9۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل زمین کے فرشتے یعنی مد برات امر جوزمین کے انتظام کےلئے یہاں مقیم تھے زیارت اور حج کے لئے اس جگہ انہوں نے بحکم الہٰی عمارت بنائی مقابل بیت المعمور کے ۔(روح البیان صفحہ348)
پھر آدم علیہ السلام کے طواف اور عبادت کے لئے جنت سے ایک مکان آیا جو طوفان نوح میں اُٹھا لیا گیا سوائے سنگ کے ۔ (بخاری شریف)پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر یہاں عمارت بنائی اور یہ کعبہ انہیں کا کہلایا ۔نیز یہ جگہ بالکل وسط زمین میں ہے اس لئے کعبہ کو ناف زمین بھی کہتے ہیں ۔
10۔ بیت المقدس آرام گاہ انبیاءعلیہم السلام ہے ۔مکہ مکرمہ ولادت گاہ سید الانبیاءعلیہ السلام ہے ۔پایہ تخت وہی ہوتا ہے جہاں بادشاہ رہتا ہے ۔
11۔ مکہ کے معنی ہیں ہجوم یا گردن کچلنا ۔
اول: مکہ مکرمہ کو اس لئے مکہ کہتے ہیں کہ یہاں حاجیوں کا ہجوم ہوتا ہے ۔دوسرے اس پر جو حملہ کرے گا وہ تباہ و برباد ہو جائیگا ۔جیسے اصحاب فیل ،مگر حجاج اور یزید اس لئے ہلاک نہ ہوئے کہ انہوں نے کعبہ پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر و اہل مکہ پر کیا ۔روح البیان میں ہے ۔وَلَیسَ ذٰالِکَ اِضرَارُ البَیتِ۔(روح البیان صفحہ348)
12۔ کعبہ شریف اس لئے بھی افضل ہے کہ کھیتی نہ ہونے کے باوجود ہر چیز وہاں پر ملتی ہے ۔دوسرا وہاں ایک نیکی کا ایک لاکھ ثواب ملتا ہے ۔گویا کہ دنیا وی و دینی برکتوں کا مرکز ہے ۔
13۔ یہاں امن ہے ہر مرض سے شفاءہے ۔ہر دکھ سے نجات ہے ۔پریشانی سے نجات ہے ۔
14۔ یہاں پر زم زم شریف ہے ۔ہر شخص حج کر کے زم زم لے کر آتا ہے اور پانی بند رہ کر خراب ہو جاتا ہے مگر زم زم شریف خراب نہیں ہوتا ہے ۔
میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے متعلق عرض کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ایک فرزند ارجمند عطا فرمایا جس کا اسم گرامی حضرت اسماعیل علیہ السلام تھا ۔ان کو لیکر آپ نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں بیت اللہ شریف کے قریب ٹھہرا دیا ۔اس وقت بیت اللہ نہ تھا صرف ٹیلے کی طرح اُبھری ہوئی جگہ تھی ۔
سیلاب آتا تو آپکے دائیں بائیں سے کترا کر نکل جاتا تھا۔ وہیں پر مسجد حرام کے بالائی حصے میں زم زم شریف کے پاس بہت بڑا درخت تھا ۔ آپ نے اس درخت کے پاس حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑا تھا ۔اس وقت مکہ شریف میں نہ پانی تھا نہ آدم نہ آدم زاد ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزے میں پانی رکھ دیا اور فلسطین چلے گئے ۔لیکن چند ہی دن میں کھجور اور پانی ختم ہو گیا اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا پانی کی تلاش میں نکل پڑیں ۔
صفا و مروہ:اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اِنَّ الصَّفَا وَالمَروَةِ مِن شَعَائِرِ اللَّہِ ۔صفا و مروہ کسی نبی وولی کا نام نہیں ہے ۔کسی صحابی و غوث کا نام نہیں ہے۔ صفا و مروہ تو ایک پتھر ہے ۔پھر اس پتھر نے نہ عبادت کی نہ روزہ رکھا ،نہ تبلیغ کی ،نہ کلمہ اور نہ قرآن پاک کی تلاوت کی ۔ اسکے باوجود صفا و مروہ کی تعظیم و تکریم کےلئے حکم دیا گیا ہے ۔جیسا کہ آیت کریمہ ۔وَمَن یُّعَظِّم شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِن تَقوٰی القُلُوبِ۔سے ظاہر ہے ۔
نسبت:ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پتھر کی تعظیم و تکریم کیوں کرائی جاتی ہے ؟تو اس کا جواب خود پتھر سے سنئے ۔زبان حال سے کہتا ہے کہ میری تعظیم کی وجہ ایک پیغمبر کی بی بی، ایک پیغمبر کی ماں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے قدم ناز مجھ پر پڑے ہیں ۔انکے قدم پاک میں نے اپنے سینہ ¿ بے کینہ پر لےے ہیں۔ یہ سب اسکی برکت ہے۔ مجھے قدم ناز حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا سے نسبت ہو گئی ہے ۔
غرض کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہو گئے ”جرھم“سے عربی سیکھ لی ۔انکی نگاہوں میں آگئے تو ان لوگوں نے اپنے خاندان میں ایک خاتون سے شادی کر دی ۔اسی دوران حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا ۔ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام مکہ شریف تشریف لائے مگر آپ سے ملاقات نہ ہوئی ۔بہو سے ملاقات ہونے پر حالات کا پتہ چلا اس نے تنگ دستی کی شکایت کی آپ نے وصیت فرمائی کہ اسماعیل علیہ السلام آئیں تو ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔اس وصیت کا مطلب صاف یہ تھا کہ دوسری شادی کر لیں اور اسکو طلاق دے دیں ۔چنانچہ آپ نے دوسری شادی جرہم کے سردار مضاض بن عمرو کی صاحبزادی سے کر لی ۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بار پھر مکہ تشریف لائے تو اس دفعہ بھی حضرت اسماعیل سے ملاقات نہ ہوئی بہو سے احوال دریافت کر کے چلے آئے تو اس نے خدا کی حمد و ثناءکی آپ نے وصیت فرمائی کہ اسماعیل علیہ السلام اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں اور فلسطین واپس چلے گئے ۔اسکے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام زم زم کے قریب تیر تیار کر رہے تھے ۔دیکھتے ہی لپک پڑے ۔ایک عرصہ کے بعد اتنی لمبی جدائی پر والد صاحب سے ملاقات ہوئی ۔اسی دفعہ دونوں نے ملکر خانہ ¿ کعبہ کو تیار کیا ۔بنیاد کھودوائی ،دیواریں اُٹھائیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ساری دنیا کے لوگوں کو حج کی آوازدی ۔
مکہ کی آبادی:مکہ کی آبادی کا آغاز حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ہوا آپ نے 137سال کی عمر پائی اور تاحیات مکہ کے سربراہ بیت اللہ کے متولی رہے ۔(قلب حہرہ العرب صفحہ23)

 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved