اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔13-11-2010

 ادائے عبادت و قربانی اور فروغ محبت کا دن
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال

اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دین فطرت اور ماننے و الوں کےلئے پیغام محبت والفت بنایا ہے ۔اس کے اصول و ضوابط اور قوانین و اطوار ایسے پسندیدہ وہمہ جہت ہیں جو بیگانوں کو یگانہ اور نا آشنا ﺅں کو آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے کر دیتا ہے جیسے دوجسم یک جان ہوں ۔احکامات اسلام پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلام کا منشا یہی ہے کہ بنی آدم ایک ووسرے سے لاتعلق نہ رہیں۔ یہ اپنی ہی ذات میں گم نہ ہوں ۔بلکہ افراد مختلفہ ملت واحدہ بن کر کلمہ ¿ واحدہ پر جمع ہو جائیں تاکہ ایک خدا، ایک رسول ،ایک ہی قرآن ،ایک ہی کعبہ پر ایمان رکھنے والے ظاہر بین نگاہوں میں بھی ایک ہی سطح پر متحد و متفق اور ایک دوسرے کے بہی خواں نظر آئیں اور دنیا والے اس اتحاد معنوی میں کوئی اختلاف ظاہری محسوس نہ کر سکیں ۔اسلام میں اہل محلہ میں محبت و اتحاد پیدا کرنے اور اسے ان میں قائم دائم رکھنے کےلئے پنچگانہ نمازوں کے وقت، اہل محلہ کی مسجد میں جمع ہو کر نماز ادا کرنا واجب کیا گیا ہے ۔اہل شہر میں محبت و تعلقات بڑھانے کےلئے ہفتہ میں ایک بار ان کا جامع مسجد میں اکٹھا ہو کر نماز جمعہ ادا کرنا ضروری و لازمی ٹھہرایا گیا ہے تو ضروری تھا کہ شہری باشندوں بلکہ قرب و جوار کے رہنے والوں میں تعارف و تعلق اور محبت و شناسائی قائم کرنے اور مستحکم رکھنے کےلئے بھی کوئی اہتمام کیا جائے ۔جبکہ عالم اسلام میں رابطہ ¿ دین کو مستحکم و مضبوط کرنے کےلئے مختلف ملکوں کے اشخاص کو دین واحد کی وحدت میں شامل ہونے کےلئے عمر بھر میں ایک بار ان تمام مسلمانوں پر جو وہاں جانے کی استطاعت رکھتے ہیں حج کعبة اللہ فرض کیا گیا ہے ۔تو اہل شہر اور دیہات قرب و جوار میں اسی شناسائی اور مودت و محبت اور تعلق کو پیدا کرنے کےلئے سال میں دو بار عیدین کی نماز کو سنن ھدیٰ بلکہ لازم قرار دیا ہے ۔ہر دو موقعوں پر دیہات والے شہروں کی طرف آتے ہیں اور شہر والے شہر سے باہر نکل کر ان سے ملاقات کرتے اور سب مل جل کر عبادت الہٰی ادا کرتے ہیں۔
ابو داﺅد شریف میں روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے اس زمانہ میں اہل مدینہ سال میں دو دن (مہرگان۔نیروز) خوشی کرتے تھے ۔ آپﷺنے فرمایا یہ کیا دن ہیں ؟ لوگوں نے عرض کی ”جاہلیت میں ہم لوگ ان دنوں میں خوشیاں منایا کرتے تھے۔فرمایا:”اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے ان سے بہتر دو دن تمہیں دیئے ۔عید الفطر ،عید الضحٰی اسلام نے ان ایام میں تجمل و زیب و زینت اور رکھ رکھاﺅ کو تو باقی رکھا ۔البتہ زمانہ ¿ جاہلیت کی رسم و رواج ۔لہوو لعب اور کھیل کود میں وقت کے ضیاع کو ختم کر دیا اور جشن کے ان ایام کو خدائے بزرگ و برتر کی اجتماعی عبادت کے ایام بنا دیا تاکہ ان کا یہ تجمل و اجتماع یاد الہٰی سے غفلت میں بسر نہ ہو۔ایک طرف اسلام نے اپنے ماننے والوں کےلئے دنیاوی فرحت و انبساط کے اہتمام کی اجازت دی تو دوسری طرف ان کےلئے بندگی کے دورازے کھول دئےے تاکہ یاد الٰہی سے بھی غافل نہ رہیں اور اسلامی برادری سے شناسائی کے مواقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
غرض اسلامی تہواربھی لہو و لعب اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے نہیں بلکہ دوسری تمام اقوام سے اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ وہ فرحت و نشاط کا ذریعہ بھی ہیں اور وحدت و اجتماعات اور ایثار قربانی و اجتماعی عبادتوں کا وسیلہ بھی ۔عید کی نماز مدینہ منورہ میں آکر قائم ہوئی لیکن جس سال آپ تشریف لائے اس سال نہیں ۔
نماز عید سے قبل مسنون اعمال: (1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ تاجدار مدینہ ﷺ عید الفطر کے روز کچھ کھا کر نماز کےلئے تشریف لے جاتے تھے اور عید الضحٰے کے روز نہیں کھاتے تھے جب تک نماز سے فارغ نہ ہو جاتے ۔ (ترمذی ،ابن ماجہ)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عید کو (نمازعیدکےلئے) ایک راستہ سے تشریف لے جاتے اور دوسرے راستے سے واپس تشریف لاتے۔(ترمذی شریف)
مذکورہ بالا احادیث کے علاوہ فقہ کی کتابوں میں فقہائے کرام نے یوم عید یہ اعمال بھی سنت ذکر کئے ہیں:۔(1)حجامت بنوانا(2)ناخن ترشوانا(3)غسل کرنا(4)مسواک کرنا(5)اچھے کپڑے پہننا( 6) خوشبو لگانا (7)انگوٹھی پہننا (8) نماز فجر مسجد محلہ میں پڑھنا (9)نماز عید عید گاہ میں ادا کرنا(10)عید گاہ پیدل جانا (11)خوشی ظاہر کرنا(12)کثرت سے صدقہ کرنا(13)آپس میں مبارک باد دینا (14)بعد نماز عید مصافحہ کرنا اور معانقہ یعنی بغلگیرہوناوغیرہ۔
عید الاضحی یعنی بقر عید ،تمام احکام میں عید الفطر کی طرح ہے ۔فرق اتنا ہے کہ اس میں نماز سے پہلے کچھ نہ کھائے اگر چہ قربانی نہ کرے اور کھا لیا تو کراہت نہیں ۔دوسرے یہ کہ عید الفطر میں راستہ میں بلند آواز سے تکبیر نہ کہے اور عید الاضحی میں راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہتا جائے یعنی :اَللّٰہُ اَک ±بَرُ اللّٰہُ اَک ±بَر ± لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَک ±بَرُ اللّٰہُ اَک ±بَر ± وَلِلّٰہِ ال ±حَم ±دِ۔
کسی عذر کے سبب ،عید کی نماز نہ ہو سکی (مثلاً سخت بارش ہوئی ،یا ابر کے سبب چاند نہیں دیکھا گیا تھا اور گواہی ایسے وقت گزر ی کہ نماز نہیں ہو سکتی )تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عید الفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہو سکتی ،جبکہ عید الاضحی کی نماز ،عذر کی وجہ سے تیسرے دن یعنی بارہویں تک بلا کراہت مو ¿خر کر سکتے ہیں اس کے بعد نہیںہو سکتی او رکوئی عذر نہ ہو اور عید الفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی تو دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے ۔ اور عید الاضحی کی نماز بلا عذر دسویں کے بعد مکروہ ہے ۔(عالمگیری)
شبِ عید الاضحی کی فضیلت:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ”اللہ تعالیٰ چار راتوں میں خیر کثیر برساتا ہے ۔عید البقر کی رات ،عید الفطر کی رات ،شعبان کی پندرھویں رات اوررجب کی پہلی رات ۔“(مکاشفة القلوب)
حضرت خالد بن معدان رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔جو شخص سال میں پانچ راتوں میں عبادت پر محافظت کرتا ہے ان کے ثواب کی امید پر اور ان کے وعدہ کی تصدیق پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ رجب کی پہلی رات میں بیداری کرے اور اس کے دن کو روزہ رکھے ۔عید الفطر اور عید البقر کی راتوں کا قیام کرے اور ان کے دنوں کا روزہ نہ رکھے ،شعبان کی پندرھویں رات کا قیام کرے اور اس کے دن کا روزہ رکھے اور دس محرم کی رات کا قیام کرے اور اس کے دن کا روزہ رکھے ۔(غنیة الطالبین حصہ اول صفحہ 179)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔پانچ راتوں میں دعا رد نہیں کی جاتی ۔رجب کی پہلی رات میں ،شعبان کی پندرھویں رات میں ، جمعہ کی رات میں ،عید الفطر کی رات میں اور عید البقر کی رات میں (مراقی الفلاح صفحہ219)
ابن ماجہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔جو شخص ثواب کی نیت سے عیدین (عید الفطر اور عید البقر) کی دو راتوں میں قیام کرے ۔اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن دل مریں گے ۔(نزھة الناظرین صفحہ96، جامع صغیر جلد 1صفحہ161)
ابن عساکر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔”جو شخص چار راتوں میں قیام کرے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے ،ذوالحجہ کی آٹھویں رات میں ، اس کی نویں رات میں ،اس کی دسویں رات میں (عید البقر کی رات) میں اور عید الفطر کی رات میں (جامع صغیر جلد دوم صفحہ121و صححہ ¾)
شب عید البقر کے نوافل:حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:” جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے تو عبادت میں کوشش کرو ۔ کیونکہ ان دنوں کو اللہ نے فضیلت عطا فرمائی ہیں اور اس کی راتوں کی عزت اس کے دنوں کی حرمت جیسی رکھی ہے ۔فرمایا جو شخص اس عشرہ کی کسی رات کے آخری تہائی حصہ میں چار رکعت نوافل پڑھے اور دعا مانگے تو وہ حج بیت اللہ ،زیارت روضہ ¿ رسول ﷺ اور جہاد فی سبیل اللہ کا ثواب پائے گا اور جو مانگے گا اللہ تعالیٰ اسے عطا فرمائے گا ۔نوافل پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ چار رکعت نوافل رات کو آخری تہائی حصہ میں اس طرح پڑھیں کہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھ لینے کے بعد تین مرتبہ آیة الکرسی اور تین بار سورة الاخلاص پڑھیں ۔ پھر ایک دفعہ سورہ الناس کی تلاوت کریں ۔جب نماز پڑھ چکیں تو ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے یہ کلمات پڑھیں ۔سُب ±حَانَ ذِی ال ±عِزَّةِ وَال ±جَبَرُو ±ت ± ،سُب ±حَانَ ذِی ال ±قُد ±رَةِوَ ال ±مَلَکُو ±ت ± ،سُب ±حَانَ ال ±حَیِّ الَّذِی ± لَا یَمُو ±ت ± ،سُب ±حَانَ اللّٰہِ رَبِّ ال ±عِبَادِ وَ ال ±بِلَادِ وَال ±حَم ±دُ لِلّٰہِ کَثِی ±رً ا طَیِّباً مُبَارَکاً عَلَی کُلِّ حَال ± اَللّٰہُ اَک ±بَر ± کَبِی ±رَا جَلَّ جَلَالُہ ¾ وَ قُد ±رَتِہ بِکُلِّ مَکَان ±۔یہ پڑھنے کے بعد جو دعا مانگیں گے ان شآ ءاللہ قبول ہو گی اور اگر یہ نماز عشرہ کی ہر رات میں پڑھیں تو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے گااور اس کے گناہ بخش دے گا۔ (غنیة الطالبین حصہ دوم )
نماز عید کی ترکیب:نماز عید پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نیت کرے اور کہے کہ نیت کی میں نے دو رکعت واجب نماز عید الاضحی کی مع چھ تکبروںکے واسطے اللہ تعالیٰ کے ،منہ طرف کعبہ شریف کے ،پیچھے اس امام کے ،اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ اٹھائے ہتھیلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہو اور ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے ۔پھر ثنا ءیعنی سبحانک اللہم پڑھے ۔پھر امام کے ساتھ کانوں تک ہاتھ اُٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا چھوڑ دے ۔ پھر ہاتھ اُٹھائے اور اللہ اکبر کہتا ہوا چھوڑ دے ۔پھر ہاتھ اُٹھائے اور اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ زیر ناف باندھ لے ۔یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے اس کے بعد دوسری اور تیسری تکبیروں میں ہاتھ کھلے چھوڑے اور چوتھی تکبیر میں پھر ہاتھ باندھ لے ۔پھر امام تعوذ اور تسمیہ آہستہ آواز میں پڑھ کر اونچی آواز سے الحمد للہ اور سورة پڑھے گامقتدی خاموش رہیں گے ۔خواہ ان تک آواز آئے یا نہ آئے ۔ان کا کام دست بستہ خدمت گار بندہ کی مانند خاموش کھڑا رہنا ہے ۔امام قرا ¿ت سے فارغ ہو کر رکوع و سجود کرے گا مقتدی بھی اس کی اقتدا میں رکوع و سجود کریں گے اور پھر دوسری رکعت کے لئے امام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے ۔اب امام پہلے الحمد للہ اور سورة پڑھے گا مقتدی خاموش رہیں گے قرا ¿ت کے بعد امام تین تکبیریں کہے گا یعنی تین بار اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کھلے چھوڑ دے گا مقتدی بھی اس کا ساتھ دینگے اور چوتھی تکبیر بغیر ہاتھ اُٹھائے اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جائیں گے ۔عیدین کی نماز میں زائد چھ تکبیریں ہیں تین پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد اور قرا ¿ت سے پہلے جبکہ تین دوسری رکعت میں قرا ¿ت کے بعد اور رکوع سے پہلے اور ان چھ تکبیروں میں ہاتھ اُٹھائے جائیں گے ۔پھر رکوع و سجود کے بعد التحیات اور درود شریف بمع دعا پڑھ کر امام کے ساتھ سلام پھیریں گے اور اپنے جگہ اطمینان کے ساتھ بیٹھے رہیں گے ۔ابھی ایک اور حکم شرعی پر عمل باقی ہے یعنی نماز کے بعد امام دو خطبے پڑھے گا اور مقتدی غور سے سنیں گے ۔مصافحہ و معانقہ کے شوق کو حکم الہٰی پر غالب نہ آنے دیں کہ عیدین کا خطبہ سننا واجب ہے ۔خطبہ کے بعد اجتماعی طور پر دعا کریں اور عالم اسلام کی سر بلندی ،پاکستان کے استحکام و ترقی اور اپنے والدین اور جمیع مومنین کی مغفرت کے لئے خصوصی دعا کی جائے ۔
نماز عید کی ادائیگی کے بعد آپس میں عید مبارک کہنا اور مصافحہ و معانقہ کرنا مستحب ہے ۔
عید الاضحی کے دن کا سب سے بڑا عمل:عید الاضحی کے دن قربانی کا عمل نماز عید کی ادائیگی کے بعد انتہائی مقبول عمل ہے ۔یہ عمل یعنی قربانی کرنا نماز عید کی ادائیگی کے بعد سنت ہے ۔
حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:” دسویں ذوالحجہ کے دن انسان کا کوئی عمل قربانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پیارا نہیں اور قربانی کا جانور قیامت کے روز اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین سے گرنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک درجہ ¿ قبولیت حاصل کرتا ہے ۔سو تم قربانی خوش دلی سے کیا کرو۔ (مشکوٰة شریف)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ قربانیاں کیا ہےں؟ حضور ﷺ نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔پھر عرض کیا ان میں ہمارے لئے کیا ثواب ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے ۔(مشکوٰة شریف)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” تم اپنی قربانیوںکو اچھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے روز تمہارے سواری ہونگی۔(غنیة الطالبین )
حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جو روپیہ پیسہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا جائے اس سے زیادہ پیارا کوئی پیسہ نہیں ۔“ (بہار شریعت)
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جس نے خوش دلی سے طلب ثواب کے لئے قربانی کی وہ اس کے لئے دوزخ کی آگ سے حجاب ہو گی ۔(بہار شریعت)
قربانی کرنے کا مسنون طریقہ:قربانی کرنے سے پہلے جانور کو چارہ کھلا یا جائے اور پانی پلایا جائے ۔ چھری پہلے سے تیز کر لی جائے ۔قربانی کے جانور کو پہلو کے بل اس طرح لٹایا جائے کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو ۔ پھر داہنا پاﺅں اس کے پہلو پر رکھ کر تیز چھری سے جلد ذبح کر دیا جائے اور ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے ۔اِنِّی ± وَجَھ ±تُ وَج ±ھِیَ لِلَّذِی ± فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَال ±اَر ±ضَ حَنِی ±فًا وَّ مَا اَنَا مِنَ ال ±مُش ±رِکِی ±نَ اِنَّ صَلَاتِی ± وَ نُسُکِی ± وَ مَح ±یَایَ وَمَمَاتِی ± لِلّٰہِ رَبِّ ال ±عَالَمِی ±ن ± ،لَا شَرِی ±کَ لَہ ¾ وَبِذٰلِکَ اُمِر ±تُ وَ اَنَا مِنَ ال ±مُس ±لِمِی ±ن ± ۔اَللّٰہُمَّ لَکَ وَ مِن ±کَ بِس ±مِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَک ±بَر ±۔قربانی کو ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے ۔اَللّٰھُمَّ تَقَبَّل ± مِنِّی ± کَمَا تَقَبَّل ±تُ مِن ± خَلِی ±لِکَ اِب ±رَاہِی ±مَ عَلَی ±ہِ السَّلَام ± وَ حَبِی ±بِکَ مُحَمَّد ± ﷺ ۔
جس شخص پر قربانی واجب ہے اس پر قربانی کے جانور کا ذبح کرنا واجب ہے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ادا نہ ہو گا ۔قربانی کا گوشت بہتر ہے کہ تین حصوں میں تقسیم کرتے ،ایک حصہ گھر والوں کے لئے دوسرا عزیز و اقارب کے لئے اور تیسرا عام مسلمانوں کے لئے ۔قربانی کے کھال صدقہ کرنے مستحب ہے اور اس کے لئے دینی مدارس کے مسافر طلباءبہترین مستحق ہیں ۔
آخر میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عید سعید کی خوشیاں نصیب فرمائے۔آمین!
شائع فرما کر شکریہ کا موقعہ دیں
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved