اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

 

تاریخ اشاعت:۔30-11-2010

سیدنا فاروق اعظم ؓ کے افکارو نظریات
 
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال

اعدل الاصحاب ، مزےن منبر و محراب ، ثانی الخلفاء، مرادِ مصطفی ، قدےم الاسلام ،کامران مقام، فارقِ حق و باطل ، امام الھدیٰ ،  امیرالمومنین ، خلیفتہ المسلمین ، پیکر شجاعت ، جبل استقامت، عاشقِ زارِ رسول اکرم ،حضرت سےدنا فاروق اعظم ص وہ شخصےت ہےں، جنہےں حضور پر نور شافع ےوم النشور ﷺ نے بارگاہِ خداوندی سے مانگ کر لیا تھا۔ قدرت نے ازل ہی سے آپ کو بانی اسلام کی تائےد و نصرت اور دےن اسلام کی تبلےغ و اشاعت کے لئے چن رکھا تھا۔ آپ اعلان نبوت کے چھٹے سال 27برس کی عمر میں حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
آپ کے اسلام لانے پر صرف اہل زمےن ہی نہےں ، اہل آسمان نے بھی خوشی کے شادیانے بجائے اور حضرت جبرائےل امےن نے اہل آسمان کی طرف سے بارگاہِ رسالتﷺ میں مبارکباد پےش کی۔ حضرت فاروق اعظم صکا اسلام فتح مبےن ، آپ کی ہجرت نصرت خداوندی کو ےہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انکا شجرئہ نسب 9وےں پشت میں جناب کعب بن لوی پر حضور اکرم ﷺ کے شجرئہ نسب سے مل جاتا ہے۔ آپ کا خاندان سارے عرب میں شرافت و نجابت اور عزت و عظمت کے اعتبار سے اہم اور خاص مقام و مرتبہ کا حامل تھا۔ قبےلہ قرےش کی سفارت آپ ہی کے سپرد تھی۔ نزاعی امور میںآپ کا فےصلہ حرف آخر تسلےم کیا جاتا تھا۔ جسمانی و جاہت اور بلندوبالا قامت کی وجہ سے عرب کی ممتاز اور قدآور شخصےتوں میں نمایاں نظر آتے تھے۔ دنیا آپ کی جسمانی طاقت اور منہ زوری کا لوہا مانتی تھی۔ شہسوار مےدان خطابت ہونے کے علاوہ شناور بحر فصاحت و بلاغت بھی تھے۔ صرف دورِ جاہلےت ہی میں نہےں، اسلامی تارےخ میں بھی آپ کو زرےں بلب کی حےثےت حاصل ہے۔ آپ ان دس صحابہ کرام میں دوسرے نمبر پر ہےں، جنہےں انکی زےست میں ہی ان کے آقا و مولیٰ ﷺ نے جنت کی بشارت دے دی تھی۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے دوسرے خلےفہ ہےں۔ آپ کا دورِ خلافت دےن کی نشرواشاعت، اسلامی حکومت کی وسعت و انصاف کی فراوانی ، عوام کی خوشحالی اور اسلامی حکومت کی وسعت ، عدل انصاف کی فراوانی ، عوام کی خوشحالی اور اسلامی علوم و فنون کی ترقی و تروےج کا دور تھا۔ باطل قوتےں آپ کے نام سے لرزہ براندام تھےں۔ جو دےکھتا وہ آپ کا رعب و دبدبہ اورجلال سے متاثر ہوئے بغےر نہ رہتا، حتیٰ کہ آپ کو دےکھ کر شےطان بھی اپنا راستہ بدل لےتا تھا۔ قرآن مجےد کی متعدد آیات مبارکہ آپ کی رائے کی تائےد میں نازل ہوئےں۔ حضرت صدےق اکبر صنے آپ کو خلےفہ منتخب فرمایا۔ 26ذی الحجہ 23ھ کو مجوسی غلام ابو لولو فےروز نے آپ پر قاتلانہ حملہ کیا اور ےکم محرم 24ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کی مدت خلافت دس سال چھ ماہ اور چار دن ہے۔
فاروقی افکار و نظریات :۔دورِ حاضر افتراق کا دور ہے۔ اس دور میں جہاں مالی، معاشی اور معاشرتی مشکلات و مصائب کی کثرت ہے۔ وہاں ذہنی ، اےمانی اور اسلامی بحران بھی عروج پر ہے۔ مذہب کے نام پہ عوام الناس کے اےمانوں کے ساتھ ناروا کھےل کھےلا جاتا ہے۔ ہر فرقہ اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات اور افکار و تخےلات کو اصل دےن باور کراکے اہلسنت و جماعت کے مبنی برحقائق عقائد و اعمال کو ”حرف غلط“ کی طرح متعارف کرا رہا ہے۔ تاہم اس بات میں کوئی شبہ نہےں کہ صحابہ کرام ث کے افکار و اعمال شرک و بدعت کی آمےزش سے قطعاً پاک ہےں۔ عقائد واعمال صحابہ پر کاربند حضرات ےقےنا جادئہ حق پر گامزن ہےں۔ حضرت فاروق اعظم صصحابہ کرام میں ایک جلےل القدر مقام کے حامل ہےں۔ درج ذےل سطور میں آپ کے چند افکار و نظریات پےش خدمت ہےں، بغور ملاحظہ فرمائےں! اور صراطِ مستقےم کا سراغ لگائےں!
محبت مصطفی ﷺ جان اےمان :۔ایک روز بارگاہِ رسالتﷺ میں صحابہ کرام حاضر خدمت تھے،رحمت عالم ﷺ نے حضرت فاروقِ اعظم صکا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے رکھا تھا۔ گویا حضرت عمر ص پر رحمت اےزدی کی موسلا دھار بارش ہورہی تھی۔ خصوصی شفقت و محبت کا اظہار ہو رہا تھا کہ حضرت عمر گویا ہوئے:
”یارسول اللّٰہ لانت احب الی من کل شےیءالا نفسی۔“ ”یارسول اللہ ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ ہر چےز سے زیادہ محبوب ہےں۔“ (بخاری)
تاجدار مدےنہ ، راحت قلب و سےنہ ، محبوب دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”لا والذ ی نفسی بےدہ حتی اَکون الےک من نفسک۔“ ترجمہ: ”نہےں ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میںمےری جان ہے(تمہارا اےمان کامل نہےں ہو سکتا) جب تک میں تجھے تےری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاو ¿ں۔“ بقول امام ملا علی قاری علےہ الرحمہ آپ ﷺ نے ےہ بات ارشاد فرمانے کےساتھ ساتھ روحانی تصرف فرمایا اور حضرت عمر صکے باطنی تصورات و خیالات کو فی الفور تبدےل فرما کر اپنا عشق انکے سےنے میں جاگزےں کر دیا۔ (مرقات) دنیا و مافےھا کی محبتوں کو دل سے ےوں نکال دیا جےسے مکھن سے بال نکالاجاتا ہے۔ حضرت عمر ص کا باطن نبوی رنگ میں رنگا گیا تو حضرت عمر پکار اٹھے: ”فانہ الان واللّٰہ لانت احب الی من نفسی فقال النبیﷺ الان یا عمرا“ ”قسم بخدا ! حضور ﷺاب تو آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزےز ہےں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: عمر ! اب ٹھےک ہے۔“
غور فرمایا آپ نے؟ اےمان کی تکمےل کے لئے ضروری ہے کہ ساری کائنات ، اولاد اور والدےن حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت ، الفت اور مودت رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکات کے ساتھ کی جائے۔ محبت کے انتہائی مقام شدتِ محبت اور فرطِ مو ¿دت کا دوسرا نام عشق ہے۔ گویا حضوراکرم ﷺ ہم سے مطالبہ فرما رہے ہےں کہ اگر کامل اےما ن چاہتے ہو تو ےہ دولت تمہےں عشق و محبت کرنے کی بدولت ہی نصےب ہو سکتی ہے اور حضرت عمر صنے اسی بات پر لبےک کہی۔ لےکن آج کل عشق رسول کو بےہودہ الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ عشق رسول اپنانے والوں کو طعن و تشنےع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کچھ بھی ہو حضور رسول اکرم ﷺ اور جناب فاروق اعظم ص کے اس واقعہ نے روزِ روشن کی طرح واضح کر دیا کہ
محمد کی محبت دےن حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہوا گر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
گستاخ رسول واجب القتل ہے:۔دورِ نبوی میں ایک منافق اور ےہودی کاکسی امر میں جھگڑا ہو گیا۔ فےصلہ کےلئے ثالث کی ضرورت پڑی۔ تو منافق چاہتا تھا کہ ےہودےوں کے سردار کعب بن اشرف کے پاس جاکر تصفےہ کر ا لیا جائے۔ ےہودی کہنے لگا تو اچھا مسلمان ہے کہ کلمہ اسلام کا پڑھتا ہے اور فےصلہ کعب بن اشرف کا مانتا ہے۔ فےصلہ تےرے نبی (محمد ﷺ) سے کرائےں گے۔ ےہودی سمجھتا تھا کہ کعب تو رشوت وغےرہ کے لالچ میں آکر غلط فےصلہ کر دےگا، لےکن مسلمانوں کے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہ میں کسی اپنے اور پرائے کا فرق روا نہےںرکھا جاتا۔ وہاں تو جو حق بجانب ہو، اس کے حق میں فےصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا چارو نچار منافق کو بارگاہِ نبوی ﷺمیں جانا پڑا۔ امام المنصفےن ، سےد العالمےن ،رحمة اللعالمےن علےہ الصلٰوة والتسلےم نے فرےقےن کے بیان سماعت فرمانے کے بعد ےہودی کے حق میں فےصلہ دے دیا۔ باہر آکر منافق ےہودی سے جھگڑنے لگا کہ مجھے ےہ فےصلہ قطعاً نامنظور ہے۔ میں تو حضرت عمر صکا فےصلہ تسلےم کرونگا۔ ےہودی نے لاکھ سمجھایا کہ بڑی عدالت کے فےصلہ کو ٹھکرا کر چھوٹی عدالت میں مقدمہ دائر نہےںکرواتے ، لےکن منافق نہ مانا۔ حتیٰ کہ دونوں آستانہ فاروقی پر حاضر ہوگئے۔آنے کا مقصد پےش کیااور اپنے اپنے مو ¿قف کو واضح کیا۔ حضرت عمر صبھی اپنا فےصلہ سنانے لگے تھے کہ ےہودی بول پڑا۔ عمر! فےصلہ سناتے وقت ےہ بات ذہن میں رکھ لےں کہ نزاع کا فےصلہ آپ کے نبیﷺ نے مےرے حق میں کر دیا ہے، لےکن ےہ نہےںمانتا۔ حضرت فاروق اعظم ص نے جونہی ےہ الفاظ سنے آپ کی آنکھوں میں سرخی اترآئی، فرمایا مےرا انتظار کرو میں ابھی آیا۔ گھر میں داخل ہوئے جب واپس آئے تو ہاتھ میں چمکتی ہوئی تلوار تھی، اس منافق کی گردن پر تلوار چلاتے ہوئے فرمایا: ”ھکذا اقضی بےنی من لم ےرض بقضاءاللّٰہ و رسولہ۔“ (خازن ۔تارےخ الخلفائ) ”جو اللہ اور اسکے رسول کے فےصلہ پر راضی نہ ہو میں اسکا ےہی فےصلہ کرتا ہوں۔“
چونکہ اس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے فےصلہ کو ٹھکرا کر آپ کی زبردست توہےن کی تھی ، حضرت عمر صجےسی غےرت مند، جانثار اور عاشق زار شخصےت ےہ کب گوارا کر سکتی تھی کہ ان کے جےتے جی کوئی انکے محبوب ﷺ کے حکم اور فےصلہ کو ٹھکراتا پھرے۔ آپ نے اس منافق کی نماز، روزہ ،عبادت و ریاضت اور کلمہ گوئی کاکوئی اعتبار نہ کیا۔ گویا بتلا دیا کہ جو ظالم ہمارے آقا محبوب خدا ،تاجدارِ انبیاءﷺ کی تعظےم و توقےر اور ادب و احترام بجا نہےں لاتا اسکی عبادت و ریاضت ، تقویٰ و طہارت اور زہدونفاست کا کوئی اعتبار نہےں، وہ واجب القتل ہے۔ ترقی پسند لوگوں کو ےہ بات قطعاً اچھی نہےں لگتی کہ کسی کلمہ گو شخص کو گستاخ رسول یا واجب القتل اور مرتد کہا جائے۔ ان کے زعم میں جو آدمی روزے کا پابند ہو، کلمہ اسلام پڑھتا ہو، وہ لاکھ گستاخےوں کا مرتکب ہو، ضروریات دےن کا منکر ہو، نبوت و رسالت کی تنقےص کرتا پھرے، اس سے بصد عزت و اکرام پےش آنا چاہئے۔ اس کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرنا چاہئے جس طرح کہ کسی مسلمان سے کیا جاتا ہے، جبکہ ےہ بات سراسر غےر اسلامی ہے۔ اگر گستاخ رسول کےلئے کوئی نرمی کا پہلو نکلتا ہوتا تو حضرت عمر صضرور نکالتے۔ لےکن آپ نے اس منافق کی گردن اڑا کر قیامت تک آنےوالے غےرت مند مسلمانوں کو بتا دیا کہ گستاخ رسول کوئی بھی ہو، بہرحال وہ واجب القتل ہے اور ےہی بات قرآن و حدےث کی واضح نصوص سے ثابت ہے۔ ذات کا وسےلہ :۔دورِ فاروقی میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا ، بارش کی سخت ضرورت تھی اور لوگ جاں بلب تھے۔ حضرت عمر ص نے صحابہ کرام اور دےگر حضرات کو ساتھ لیا اور بارگاہِ ربوبےت میں دستِ سوال دراز کیا۔ دعا میں حضرت عباس ص (حضور ﷺ کے چچا) کو وسےلہ بنایا اور مالک الملک کی بارگاہ میں عرض کیا۔
”اللھم انا کنا نتوسل الےک نبےنا صلی اللّٰہ تعالی علےہ وآلہ وسلم فتسقےنا وانا نتوسل الےک بعم نبےنا فاسقنا قال فےسقون۔ “ ”اے اللہ !ہم تےری بارگاہ میں اپنے نبی ﷺ کا وسےلہ پےش کیا کرتے تھے تو تو ہمیں سےراب فرماتا تھا اور اب ہم تےری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسےلہ لے کر آئے ہےں، ہمیں سےراب فرما! حضرت انس فرماتے ہےں کہ انہےں سےراب کیا گیا۔“ (بخاری)صرف ےہی نہےں بلکہ حضرت عمر ص نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”رسول اللہ ﷺ حضرت عباس صسے وےسا ہی سلوک کیا کرتے تھے، جےسا ایک بےٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ پس اے لوگو! تم بھی حضور ﷺکے طرےقہ کو اپناتے ہوئے آپ سے وےسا ہی سلوک کرو! ”واتخذوہ وسبےلة الی اللّٰہ۔“ ”اور حضرت عباس ص کا وسےلہ اللہ کی بارگاہ میں پےش کرو!“(فتح الباری)
دےکھ رہے ہےں آپ! کس قدر محبت تھی حضرت عمر ص کو محبوب دو جہاں ، تاجدارِ مرسلاں، رسول انس وجاںﷺسے کہ ان کے چچا کا وسےلہ پےش کر رہے ہےں۔ معلوم ہوا نبےوں کے علاوہ دوسرے بزرگوں کا وسےلہ پےش کرنا بھی درست ہے۔
تبرکات کی اہمےت :۔ایک روز حضرت فاروق اعظمص نے بارگاہِ مصطفوی میں عرض کیا: ”یارسول اللّٰہ لو اتخذنا من مقام ابراھےم مصلی۔“ یارسول اللہ ! ہم مقام ابراہےم (جس پتھر پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہےم ں نے خانہ کعبہ کی تعمےر کی تھی) کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لےں۔“ (بخاری)
ابھی ےہ بات عرض کی ہی تھی کہ اللہ رب العزت کی طرف سے حکم آ گیا: ”واتخذوا من مقامِ ابراھےم مصلی۔ “ ترجمہ: ”مقام ابراہےم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو!“
چونکہ اس پتھر نے حضرت ابراہےمںکے مبارک قدموں کے بوسے لئے تھے جس کی بنا پر وہ متبرک ہو گیا تھا، اس کا مقا م عام پتھر سے بلند و بالا تھا اور اسکا ادب و احترام لازم و ضروری تھا۔ انبیاءکرام اور نےک لوگوں سے نسبت و سنگت رکھنے والی اشیاءبھی افضل و اعلیٰ ہو جاتی ہےں۔ ان سے برکت حاصل کرنا فاروقی نظرےہ ہے، جسکی تائےد اللہ تعالیٰ نے بھی فرما دی ہے۔ محبوب خدا، حضرت رسول مجتبیٰ علےہ التحےة والثناءسے منسوب ہونے والی ہر چےز ممتاز اور منفرد ہو جاتی ہے۔ حضرت فاروق اعظم ص مسجد حرام میں حجر اسود کے قرےب آئے، بوسہ لے کر فرمانے لگے۔”انی لا علم انک حجر لا تضر ولا تنفع ولولا انی راےت النبی ےقبلک ما قبلتک۔ “
”بے شک میں جانتا ہوں تو ایک پتھر ہے۔ تو نہ نقصان دےتا ہے اور نہ نفع اور اگر میںنے نبی اکرم ﷺ کو تجھے بوسہ دےتے ہوئے نہ دےکھا ہو تا تو میںتجھے کبھی نہ چومتا۔“ (بخاری)معلوم ہوا جس چےز کی نسبت محبوب دو عالم حضور ﷺ سے ہو جائے، وہ نفع دےتی ہے اور اس میں برکت آجاتی ہے۔ حضرت فاروق اعظم ص کو سنت محبوب ﷺ سے اتنا پیار تھا کہ دن رات بارگاہِ خداوندی میں شہر محبوب میں موت کی دعائےں مانگا کرتے۔ عرض کرتے۔ ”اللھم ارزقنی شھادة فی سبےلک واجعل موتی فی بلد رسولک۔ “ (بخاری) ”اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں مقام شہادت عطا فرما! اور اپنے رسول کے شہر (مدےنہ) میں مجھے موت عطا فرما!“
شہر مدےنہ تو محبوب کی جائے سکونت ہے خدا تو اس محبوب کے مبارک تلوو ¿ں سے لگنے والی مٹی کی بھی قسمیں ارشاد فرماتا ہے۔ اگر محبوب کے قدم سے مس ہونے والی جگہ کا ےہ مقام ہے تو محبوب کے بدن سے مس ہونے والی جگہ (گنبد خضرائ) کا مقام کیا ہوگا، وہ کس قدر عظمتوں اور برکتوں کا حامل ہوگا؟
نبی غےب داں، مخبر صادق ، حضرت رسول اکرم ﷺ نے اپنی ظاہری زندگی میں ہی حضرت عمر ص کو شہادت کی خبر دے دی تھی، اسی لئے آپ مقام شہادت کی دعائےں بھی مانگتے رہے۔ بالآخر آپ کو خدا نے اس بلند مقام پر سرفراز فرمایا۔ ابولولومجوسی نے خنجر کے ساتھ آپ کو زخمی کیا، زخم بہت گہرا تھا جو کہ جان لےوا ثابت ہوا۔ وفات سے قبل دےگر و صایا کے علاوہ آپ نے اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ ص کو فرمایا کہ جاو ¿! ام المو ¿منےن حضرت عائشہ صدےقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں عرض کرو! ”ےستا ¿ذن عمر ان ےدفن مع صاحبےہ۔ (تارےخ الخلفائ) ”عمر اپنے دونوں ساتھےوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگتے ہےں۔“ حضرت عبداللہ ص نے حضرت ام المو ¿منےن رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں ےہ عرض پےش کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ جگہ میں نے اپنے لئے سنبھال رکھی تھی لےکن میں عمر کو اپنے اوپر ترجےح دےتی ہوں۔ جاو ¿! عمر سے جا کر کہہ دےنا کہ آپ کو وہاں دفن ہونے کی اجازت ہے۔ حضرت عبداللہ نے جب ےہ خوشخبری حضرت عمر کو سنائی تو آپ کی خوشی کی انتہا نہ رہی کےونکہ آخر وقت آپ کو ےہی حسرت تھی کہ کاش! مجھے محبوب کے دامن میں جگہ نصےب ہو جائے۔ جب آپ کی دلی آرزو پوری ہوئی تو آپ نے اس پر خدا کا شکر ادا کیا کہ گوہر مراد حاصل ہوا۔
قارئےن کرام! ان چاروں واقعات سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ محبوبان خدا کی طرف منسوب ہونے والی چےزوں کو مبارک اور متبرک سمجھنا، محبوب کی نسبت کا احترام کرنا، شہر مدےنہ میں موت کی تمنا کرنا اور متبرک مقامات پر فوت شدگان کو دفن کرنا درست اور پسندےدہ ہے اور اسکی مخالفت کرنا سراسر نادانی و جہالت ہے۔ اگر متبرک مقامات سے برکت حاصل کرنا شرک اور غلط ہوتا تو حضرت فاروق اعظم ص مندرجہ بالا انداز ہر گز نہ اپناتے۔
علم غےب :۔مدےنہ منورہ کے مبارک پہاڑوں میں احد پہاڑ ایک امتیازی شان کا حامل ہے۔ اس پہاڑ کے متعلق سرور عالم ﷺ نے فرمایا ہے: ”احد جبل ےحبنا ونحبہ۔ “ (بخاری) ”احد پہاڑ ہے کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہےں۔“
اس محب اور محبوب پہاڑ کی ایک دن قسمت جاگی۔ لامکاں کے مہماں، تاجدار مرسلاں ﷺ نے حضرت صدےق اکبر ، حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی ص کو ساتھ لیا اور اس پہاڑ کو اپنے قدوم مےمنت لزوم سے مشرف فرمایا۔ احد پہاڑ نے جب اپنی پشت پر ان مبارک ہستےوں کو جلوہ فرما دےکھا تو خوشی سے جھومنے لگا۔ اپنے مقدر پہ ناز کرنے لگا کہ جس محبوب کو عرش پر بلایا گیا تھا آج مےری قسمت کا ستارہ بلند کرنے خود ہی تشرےف لے آئے ہےں۔ پہاڑ جھوم رہا تھا کہ حضور اکرم ﷺ نے اسے پاو ¿ں مبارک سے ٹھوکر لگائی اور فرمایا: ”اثبت احد فا نما علےک نبی و صدےق وشھےدان۔“ ”احد ٹھرجا! کےونکہ تجھ پر نبی ، صدےق اور دو شہےد ہےں۔“(بخاری)تجھے ےہ سعادت نصےب ہوئی ہے اور تو اس شرف سے مشرف ہوا ہے کہ تجھ پر اللہ کا نبی ، ابوبکر صدےق اور عمر و عثمان شہےد تشرےف فرما ہےں۔
اس مقام پر نبی غےب دان ﷺ نے حضرت عمر اور حضرت عثمان ثکو شہےد کہہ کر ےہ واضح فرمایا کہ دونوں کو طبعی موت نہےں، شہادت کی موت نصےب ہوگی۔ اندازہ فرمائےں علم نبوی کا! کہ ان دونوں حضرات نے اپنے اپنے دورِ خلافت میں شہےد ہونا تھا لےکن آپ نے قبل از وقت ہی وہ خبر سنا دی ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved