اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

Telephone:-0300-6491308//0333-6491308

Email:-peerowaisi@yahoo.com

کالم نگارعلامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  کےمرکزی صفحہ پر جانے کے لیے کلک کریں

تاریخ اشاعت:۔12-06-2011

ذکر اللّٰہ سکون قلب کا ذریعہ
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال

بِس ±مِ اللّٰہِ الرَّح ±مٰنِ الرَّحِی ±مِ،اَلَا بِذِک ±رِ اللّٰہِ تَط ±مَئِنُّ ال ±قُلُو ±ب ±۔(پ :13الرعد آیت 28)
”سن لو! اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔“ (کنز الایمان)
اس آیہ ¿ مبارکہ میں حصر کا کلمہ لا کر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ دلوں کا چین صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہی ہے۔
اگر کائنات بھر کی وسعتوں میں دولت کی ریل پیل، انواع و اقسام کے کھانے،حسین ترین وادیاں، پرفزا مقامات، طرح طرح کی نعمتیں، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی زمین کی بادشاہی سے بھی تمہارا جی نہ بہلے تو خوب اچھی طرح سے سمجھ لو !کہ دلوں کو سکون و اطمینان کی دولت صرف اللہ کے ذکر ہی سے مل سکتی ہے۔
قانون فطرت کے مطابق دماغ انسانی جسم کے تمام اعضاءکا بادشاہ ہے ۔جسم کا ایک ایک عضو دماغ کے احکام کے مطابق اپنی ڈیوٹی انجام دیتا ہے ،لیکن انسانی جسم میں ایک عضو ایسا ہے ،جو جسمانی بادشاہ کے بھی زیر فرمان نہیں اور وہ دل ہے ۔اس بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انسان جب سوتا ہے ، تو بادشاہ سلامت کا(دماغ) بھی سورہا ہوتا ہے ،جسم کا ایک ایک عضو محو آرام ہوتا ہے ، لیکن دل ہے کہ مسلسل دھڑکے جارہا ہے ،اسے ایک پل آرام نہیں ۔ دن ہو یا رات ،آدمی کھڑا ہو یا بیٹھا ہو ، چل رہا ہو یا سورہا ہو ،غرضیکہ کسی بھی حالت میں ہو ،دل کا ایک ہی کام ہے حرکت،حرکت اور صرف حرکت۔دماغ جب تمام جسمانی اعضاءکو آرام کا حکم دیکر سوجائے اور دل کو لاکھ کہتا رہے کہ اے چوبیس گھنٹے محو حرکت رہنے والے ! تو بھی دو گھڑی آرام کرلے ،مگر دل ہر گز نہیں رکے گا۔معلوم ہوا کہ دل اس جسمانی بادشاہ(دماغ) کی بجائے ،کسی اور ذات کے تابع اور زیرفرمان ہے اور وہ ذات احکم الحاکمین کی ذات ہے ۔انسان کی پیدائش سے لے کر جب تک وہ ذات چاہے گی تب تک یہ مسلسل حرکت میں مصروف رہے گا۔اس نے تب رکنا ہے ،جب کُلُّ نَف ±سٍ ذَائِقَةُ ال ±مَو ±ت،کا وعدہ پورا ہونا ہے ۔جب پوری زندگی دل کے نصیب میں آرام ہے ہی نہیں تو اس کو چین کیسے آئے ؟ کس طرح اسکو سکون و اطمینان میسر ہو؟ فرمادیا:
اَلَا بِذِک ±رِ اللّٰہِ تَط ±مَئِنُّ ال ±قُلُو ±ب ±۔سن لو!اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے ۔زندگی بھر میں فقط ایک لمحہ بھی آرام نہ پانے والے یہ عضو، اسکی فرحت و شادمانی کا سامان صرف اللہ تعالیٰ کی یاد ہے۔
امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ موجودات کی تین اقسام ہیں:(1)جو خود تو اثر کرے ،لیکن کسی کا اثر قبول نہ کرے۔ (2)جو خود بھی اثر کرے اور کسی کا اثر بھی قبول کرے۔
(3) جو خود تو اثر نہ کرے لیکن کسی کے اثر کو قبول کرے۔پہلی چیز سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ کائنات بھر پر اسی کا اثر ہے ،لیکن وہ خود کسی اثر کو قبول نہیں کرتا ۔بے نیاز ہے، دوسری سے مراد دل ہے ،جو اثر قبول بھی کرتا ہے اور مو ¿ثر بھی ہے ،یعنی اثر بھی کرتا ہے ،تیسری چیز جسمانیات ہیں ،جو صرف اثر قبول کرنے پر اکتفاءقبول کرتے ہیں ۔ (بحوالہ روح المعانی)
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جسمانیات کو جب ٹھوکر لگتی ہے ، پریشانی لاحق ہوتی ہے ،اضطراب پہنچتا ہے تو دل کو بھی اس کا اثر پہنچتا ہے اور دل پریشان ہو جاتا ہے ،اب دل اگر اپنے مالک حقیقی کی طرف متوجہ ہو ،اس کی یاد اسکے اندر جلوہ فگن ہو جائے اور یہ مطمئن ہو تو جسمانیات کو بھی آرام و سکون کا اثر منتقل کرنا شروع کر دیتا ہے ،یوں اجسام آرام پالیتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ جن پاکباز لوگوں کے قلوب ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:لَا خَو ±ف µ عَلَی ±ھِم ± وَلَا ھُم ± یَح ±زَنُو ±ن ±۔”کہ انہیں نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ ہی غمگین ہوں گے۔
مفسرین کرام نے اس آیہ ¿ مبارکہ کی تفسیر میں بہت کچھ لکھا ہے،صرف دو اقوال اور انکی مختصر تشریح پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
1):۔ سن لو!اللہ تعالیٰ کی یاد ہی میں دلوں کو چین ملتا ہے یعنی اللہ کی یاد سے مو ¿منین کے دلوں سے وسوسے زائل ہو جاتے ہےں ۔پتہ چلا کہ کثرت وساوس کے وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا چاہیئے ،بفضلہ تعالیٰ نجات ملے گی۔اس کی وضاحت کےلئے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذیشان پیش خدمت ہے کہ ہر شخص کے دل میں دو گھر ہوتے ہیں ،ایک میں فرشتہ اور دوسرے میں شیطان رہتا ہے ۔جب تک بندہ اللہ کی یاد میں رہے ،شیطان پسپارہتا ہے ۔جو نہی انسان ذکر الہیٰ سے غافل ہو شیطان اسکے دل میں وسوسے ڈالنا شروع کر دیتا ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
مزید ارشاد فرمایا کہ ہر چیز کا زنگ دور کرنے کے لیے صیقل ہوتا ہے ،یاد رکھو! دلوں کا زنگ دور کرنے کا صیقل اللہ کا ذکر ہے ۔ (الدعوات الکبیر للبیہقی)نیز یہ بات بھی احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتی ہے کہ ہر گناہ ہمارے دل پر ایک سیاہ نکتہ ڈال دیتا ہے،جب تک ہم توبہ نہ کریں اور گناہوں پہ گناہ کرتے چلے جائیں تو پورے دل کو سیاہ غلاف لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔اس کا علاج حدیث بالا میں تجویز فرمادیا ہے کہ جب گناہوں کی میل سے تمہارے دل زنگ آلود ہوجائیں ،غفلت و کوتاہی کے دبیزپردے تمہارے دل کو ڈھانپ لیں،تو اسم ”اللہ “ کی ضربیں لگا لگا کر یہ زنگ اور غفلت کے پردے ہٹا ڈالو! کیونکہ دلوں کو پاک و صاف کرنے کا ذریعہ صرف ذکر الہٰی ہے۔
2):۔ اللہ کا ذکر مو ¿منین کے دلوں کی خوراک ہے۔جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی یاد میں رہے گا۔ اسکا دل پر سکون رہے گا۔جیسے کہ مچھلی پانی میں پر سکون رہتی ہے ،پرندہ ہوا میں اور جانور جنگل میں شادمان رہتا ہے ،لیکن جیسے ہی انسان کے دل میں یاد الہٰی سے غفلت کا پردہ حائل ہویا آدمی اہل غفلت کی صحبت کا شکار ہو جائے ،دل میں فوراً قلق و اضطراب پیدا ہو نا شروع ہو جائے گا ۔جیسے کہ مچھلی کو پانی سے باہر رکھا جائے ،پرندے کو پانی میں ڈبو دیا جائے اور جانور کو پنجرے میں قید کر دیا جائے۔
جناب رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور وہ جو اللہ کا ذکر نہیں کرتا ،دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے ،اللہ کا ذکر کرنے والا زندہ ہے اور نہ کرنے والا مردہ ہے ۔ (بخاری و مسلم)
اس موقع پر ذہن میں ایک سوال پیدا ہورہا ہے کہ قرآن مجید میں ہی فرمان باری تعالیٰ ہے :اِنَّمَا ال ±مُو ¿ ±مِنِی ±نَ الَّذِی ±نَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہ وَجِلَت ± قُلُو ±بُھُم ±،(پ9،انفال آیہ 2) یعنی مو ¿من وہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے ،انکے دل ڈر جائیں۔ تو قرآن مجید میں ایک موقع پر ذکر اللہ کو دلوں کا چین قرار دیا گیا اور دوسری جگہ پر اللہ کے ذکر ہی کو دلوں کے لئے باعث خوف بتادیا گیا ۔حالانکہ خوف اور سکون کا اجتماع ایک جگہ ناممکن سی چیز ہے ۔اسکا جواب یہ ہے کہ مو ¿من کا دل خوف اور سکون کا جامع ہے ۔جب اللہ تعالیٰ کے عدل ،شدت حساب اور عذاب و عتاب کا ذکر ہوتو قلب مو ¿من خوف سے لرزہ بر اندام ہوجاتا ہے ۔لیکن جب اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور رحم و کرم کا ذکر ہو تو وہی مو ¿من شاداں و فرحاں ہو جاتا ہے ۔عارف کھڑی علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا۔
عدل کریں تے تھر تھر کنبن اچیاں شاناں والے رحم کریں تے بخشے جاون میں ورگے منہ کالے
ویسے بھی امت محمدیہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جب مسلمان کے دل میں خوف و سکون جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ خوف رفع فرمادیتا ہے ۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقاﷺ ایک بوڑھے صحابی (جو قریب الموت تھے) کے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا :کیا حال ہے ؟انہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے امید بھی ہے اور اپنے گناہوں کا خوف بھی تو جان کائنات ﷺ نے فرمایا:موت کے وقت کسی بندے کے دل میں امید و خوف دونوں جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اسے وہ عطا فرما دیتا ہے ،جسکی اسے امید ہو اور جس چیز سے وہ ڈرتا ہو ،اس سے اللہ تعالیٰ اسے نجات عطا فرمادیتا ہے ۔(ترمذی ،ابن ماجہ)
دل کو سکون ملنے کی کیفیت:اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون کیسے ملتا ہے ؟حضرت ابو ھریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان اقدس ہے :جو لوگ اللہ کے ذکر کی محفل سجاتے ہےں ملائکہ انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں ،رحمتِ الہٰی انہیں ڈھانپ لیتی ہے ،ان پر سکینہ (سکون و راحت) نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس والوں میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے (مسلم)
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :میرا بندہ جب میرا ذکر کرتا ہے اور اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ (بخاری)یعنی جب بندہ یاد الہٰی کی محفل سجاتا ہے تو وہاں پر اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات اور رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ،ملائکہ موجود ہوتے ہےں اور بندے کا اعلیٰ ترین اعزاز کہ خالق و مالک اس کے ذکر کی محفل منعقد کرتا ہے اور انتہا یہ کہ بوقت ذکر وہ اپنے بندے کے قریب ترین ہوتا ہے ،تو وہاں پر خوف کا کیا کام؟ وہاں تو سکون ہی سکون ،فرحت و شادمانی کا دور دورہ ہوتا ہے ۔اَلَا بِذِک ±رِ اللّٰہِ تَط ±مَئِنُّ ال ±قُلُو ±ب ±۔سن لو! اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے ۔
حضرت سلطان باہو رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذکر الہٰی سے قلب میں دس صفات پیدا ہوتی ہیں۔(1)ذکر الہٰی کی تاثیر سے قلب آفتاب کی طرح روشن ہوجاتا ہے اور وجود میں کسی قسم کی تاریکی نہیں رہتی۔(2)قلب گہرے دریا کی مانند ہو جاتا ہے ،اس میں جو کچھ گرے ناپاک نہیں رہتا،(3)قلب آتش عشق الہٰی سے بھر جاتا ہے ،جو ماسوا اللہ کو جلا دیتی ہے ۔(4)قلب چشمہ ¿ آب حیات سے بھر جاتا ہے ،جو بھی یہ آب حیات پی لے ،حیات ابدی پاجاتا ہے ،اسکا دل زندہ اور نفس مردہ ہو جاتا ہے ۔(5)قلب سخاوت کا کان بن جاتا ہے ،جس سے ظاہر وباطن معبود حقیقی کی عبادت میں مستغرق رہتا ہے۔(6)قلب طلسمات کی مانند ہو تا ہے ،ذکر اللہ کی برکت سے ان طلسمات کو بھسم کر کے خزانہ ¿ معرفت الہٰی پا لیتا ہے ۔(7)قلب ہر راہ حقیقت کو آئینے کی طرح دیکھ لیتا ہے۔(8)قلب چراغ کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔(9)قلب ذکر الہٰی کی باران رحمت سے ہرا بھرا ہو جاتا ہے ۔(10)قلب قربِ الہٰی کا واصل بن جاتا ہے اور پھر اسکے مدنظر ہمیشہ اللہ کی ذات رہتی ہے۔
آج اس مادہ پرستی کے دور میں جبکہ ہر سو ظلمتوں کا دور دورہ ہے ، ظلم و ناانصافی عروج پر ہے ،غیرت وحمیت کا فقدان ہے ،اخلاقیات تباہ حال ہیں ،طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ،نفسا نفسی کا عالم ہے ،اسکا سبب محض قلت ذکر و فکر ہے ۔آئےے اپنے قلوب میں اللہ کے ذکر کی شمع روشن کریں کہ اللہ کی یاد ہی دلوں کا چین ہے۔
 
 
 

Email to:-

 
 
 
 
 
 

© Copyright 2009-20010 www.urdupower.com All Rights Reserved

Copyright © 2010 urdupower.o.com, All rights reserved