اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت15-01-2009

 کوٹ ادو کی سیاست میں نئے ہیرو کا اضافہ

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

تحریر ؛؛؛روف عامر پپا بریار عنوان۔کھپے کشمیر اور پاک و بھارت کی زمہ داری
بینظیر بھٹو آصف علی زرداری اور پی پی پی کو یار لوگوں نے ہمیشہ ازادی کشمیر کے ضمن میں کوسنے دئیے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بھارتی زبان کی تائید کرتے ہیں اور پی پی پی تنازعہ کشمیر حل کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی مگر ایسی دروغ گوئی کرنے والے یا تو تاریخ پرعبور نہیں رکھتے اور نہ ہی وہ بھٹو کے اس بیان کی سچائی سے اگاہ ہیں کہ ہم بھوکے رہیں گے گھاس پھوس پر گزارہ کریں گے مگر کشمیر کو ازاد کروائیں گے۔بھٹو نے ایوب خان کے خلاف بغاوت کا علم صرف اس لئے تھاما تھا کہ ایوب خان نے معاہدہ تاشقند میں بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری کی خوشنودی کے لئے کشمیر کے المیے کو ردی کی ٹوکری کا رزق بنادیا تھا۔ یاد رہے کہ ازادی کشمیر کے لئے پاک فوج کی طرف سے لانچ کیا جانے والا اپریشن جبرالٹر گو کہ ناکامی سے ہمکنار ہوا تھا مگر زیڈ اے بھٹو ہی اپریشن کا خالق تھا جو بھٹوز کی کشمیری کاز سے عقیدت و یگانگت کا روز روشن ثبوت ہے۔ صدر پاکستان نے کھپے کشمیر کا نعرہ ایک ایسے وقت میں بلند کیا ہے جب امریکہ اور مغرب ازادی کشمیر کو دہشت گردی سے محمول کرتی ہے۔یوں کشمیر کھپے کا نعرہ لگانے والے کی زہنیت اور نیک نیتی کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کے متعلق کن جزبات کا مالک ہے اور وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ کشمیریوں کی ازادی انکا بنیادی حق ہے۔بھارت نے کشمیر پر ناجائز تسلط جما رکھا ہے کشمیریوں کو انکے حق خود ارادیت سے ہم اہنگ کرنا انسان کے بنیادی حق کا درجہ رکھتا ہے۔بانی قوم نے کشمیر کو پاکستان کی اقتصادی شہہ رگ کا درجہ دیا تھا جبکہ کشمیری قوم کی غالب اکثریت ہمیشہ یہ نعرہ بلند کرتی رہی کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ازادی کشمیر کے لئے کشمیریوں نے جان و مال عصمت و حرمت کی قربانیاں دیں۔قائد ملت نے مکا لہرایا اور مشتاق شیر کی گھن و گرج کے ساتھ کہا کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت فوجی جارحیت کے زریعے کشمیر پر قبضہ نہیں کرسکتا۔بھٹو نے ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ قائد عوام بھٹو نے شملہ معاہدہ کیا تو اندرا گاندھی کے ساتھ طئے کیا کہ دونوں ملک ایل او سی کا احترام کریں گے۔ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو کشمیریوں نے جی گویرا کے جملے انصاف حاصل کرنے کے لئے مسلح جدوجہد لازمی ہے کو خضر راہ بنا کر بھارتی جنتا کے خلاف بندوق اٹھالی۔بے نظیر بھٹو نے اپنا دوپٹہ ہوا میں لہرا کر کہا تھا ازادی ازادی۔ نواز شریف نے بھی ہمیشہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا احترام کیا۔بدقسمتی سے ضیائی دور امریت میں مسئلہ کشمیر سرد خانے کی نذر رہا۔ مشرفی دورٍ روشن خیالی میں تو فرعون سے لیکر پیادوں تک نے امریکی خوشنودی کے لئے مجاہدین کی عسکری جہد مسلسل پر پانی پھیر دیا حالانکہ یہ وہی فرعون ہے جس نے اپنے وزیراعظم نوازشریف کو بتائے بغیر کارگل کا ایڈونچر شروع کیا تھا۔ اب چونکہ پاکستان میں دس سالہ امرانہ شب دیجور کا سینہ جمہوریت کی صبح صادق نے چیر کررکھ دیا ہے۔یوں یہ کرنیں اہستہ اہستہ پورے ملک میں اپنے جلوے دکھارہی ہیں۔زرداری نے مظفر اباد جاکر کشمیر کونسل کے اجلاس میں دیوانہ وار کھپے کشمیر کا نعرہ لگایا اور اپنے اس عزم کا بیباکانہ اظہار کیا کہ کشمیریوں کی ازادی کے لئے دنیا کے ہر پلیٹ فارم سے جدوجہد کی جائیگی۔ کشمیری کشا کش پر دونوں ملکوں کے مابین کئی جنگیں ہوئیں۔پہلی لڑائی1948 میں ہوئی جب قبائلی پٹھانوں نے کشمیری دیوانوں کے ساتھ ملکر موجودہ ازاد کشمیر بھارتی چنگل سے چھڑوایا۔ بھارت کو ناکامی کا احساس ہوا تو وہ بھاگم بھاگ یو این او کی دہلیز پر پہنچا اور جنگ بندی کی قرارداد پاس کروالی۔ یواین او نے کشمیریوں کو استصواب رائے دینے کی قرارداد پاس کی۔بھارت کو پابند بنایا گیا کہ وہ حالات کے بہتر ہوتے ہی استصواب رائے منعقد کروانے کا پابند بنایا کہ کشمیری اپنی مرضی سے پاکستان و بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ساٹھ سال بیت چکے م،گر بھارت نے اج تک یواین او کی قرار داد کی پاسداری نہیں کی۔الٹا بھارت ایسی قرار دادوں سے منحرف ہوچکا ہے۔بھارت نے اپنے ائین میں جوہری تبدیلی کرتے ہوئے کشمیر کو اپنی جغرافیائی حدود میں شامل کیا۔بھارت کو جب بھی استصواب رائے کا وعدہ یاد کرایا جاتا ہے تو وہ ایک ہی رٹ لگاتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بار بار الیکشن منعقد ہوچکے ہیں جو استصواب کا درجہ رکھتے ہیں۔تنازعہ کشمیر پاکستان و بھارت کے درمیان کئی المیوں و صدموں کو جنم دے چکا ہے۔بھارت و پاکستان کے مابین پچھلی چھ دہائیوں سے جتنے گھمبیر و سلگتے مسائل تاحال تشنہ لب ہیں انکی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر ہے۔جب تک یہ مسئلہ سلگتا رہے گا دونوں ہمسائے کبھی بھی اچھے ہمسائے نہیں بن سکتے۔المیہ تو یہ ہے کہ بھارت و پاکستان دونوں جوہری ہتھیاروں سے مالامال ہیں۔برصغیر پر جوہری تباہیوں و بربادیوں کے سیاہ بادل اس وقت تک چھائے رہیں گے جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے سرفراز نہیں کیا جاتا۔گو کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندی یا دہشت گردی>بھارتی لغت میں< کا طوفان بلاخیز تھم چکا ہے مگر یہ بھارتی حکومت کی نادانی ہوگی اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیری اب دوبارہ مسلح راہ نہیں اپنا سکتے۔نیلسن منڈیلا کا کہنا ہے کہ ازادی کی چنگاری کو بجھانا ناممکن ہے۔خطے میں خود کش حملوں کا جن ہر طرف محو خرام ہے۔بھارتی ایسٹیبلشمنٹ کو افغان امریکہ جنگ پر غور و خوض کرنا چاہیے کہ کشمیری جوانوں نے خود کش بمباری کا راستہ اپنا لیا تو پھر یہ ناسور پاکستان کی طرح پورے بھارت کا امن و سکون تہہ بالا کرسکتا ہے۔پاکستان و بھارت دونوں جوہری جنگ و جدال کے متحمل نہیں ہوسکتے۔پاکستان و بھارت کی عسکری قیادت اور دونوں منتخب جمہوری حکومتوں کو مغربی صحافی گورڈن جی چانگ کی کتاب> کمنگ کلاپس اف چائنہ< پر طاہرانہ نگاہ ڈال کر ایشیا سمیت برصغیر پاک و ہند کو جنگوں کی اماجگاہ بنانے کی بجائے امن و سکون و شانتی کے گلستان میں تبدیل کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی۔گورڈن جی چانگ لکھتے ہیں کہ پاکستان بھارت اور چائنہ کے درمیان ایٹمی لڑائیاں ہوسکتی ہیں۔بھارت کے ارمی چیف جنرل دیپک کپور نے حال ہی میں شیخی بگھاری ہے کہ بھارت بیک وقت چائنا و پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کے قابل ہے۔ بھارتی ارمی چیف کو گورڈن کی کتاب کا جائزہ لینا چاہیے کیونکہ کتاب میں جنگ کی صورت میں ہونے والی تباہی کی جو تصویر کھینچی گئی ہے اسکے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔بھارت اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی مستقل نشت کا طلبگار ہے مگر سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ جس ریاست نے اقوام متحدہ کی ساٹھ سالہ پرانی قراداد پر ابھی تک عملدرامد نہیں کیا بھلا وہ کیوں اور کسطرح سیکیورٹی کونسل کی نشت کا مطالبہ کرسکتی ہے۔بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ایوارڈ پر ناز ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو پھر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو اقوام متحدہ کی پاس کردہ قرارداد کی روشنی میں کشمیر میں رائے شماری کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ مجہول و بس کشمیریوں کو اپنی مرضی کے مطابق ازادی کی نعمت سے سرفراز ہونے کا حق مل سکے۔خیر تنازعہ کشمیر کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے پتہ نہیں مگر صدر مملکت نے کھپے کشمیر کا ولولہ انگیز نعرہ بلند کرکے سترہ کروڑ پاکستانیوں کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے جس پر پوری قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔
 

 
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team