اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

تاریخ اشاعت19-01-2009

بیوروکریٹ یا محمد شاہ رنگیلا

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار


پاکستان میں بیوروکریسی کے کردار و اعمال کا جائزہ لیا جائے تو کئی روح فرسا واقعات سامنے اتے ہیں جنہیں دیکھر عقل کی شریانیں کام چھوڑدیتی ہیں۔ویسے بھی پاکستان میں ایسٹیبلشمنٹ تمام سیاسی و شاہی امور پر گہرا تسلط رکھتی ہے اور بیوروکریسی ایسٹیبلشمنٹ کا اہم ستون ہے۔یوں بیوروکریسی کے لٹیرے ہوں یا فرعون، شعبدہ باز ہوں یا شباب و کباب کے رسیا قانون کی گرفت سے ہمیشہ ہی ازاد رہتے ہیں۔محمد شاہ رنگیلے کی نسل سے تعلق رکھنے والے بابووں کی بڑی تعداد اپر بیوروکریسی کی فہرست میں فرنٹ لائنر ہے۔ان میں ایک نام سابق سیکریٹری اطلاعات انور محمود کا ہے جنکے فن و کمالات کی ورطہ حیرت چارج شیٹ انٹرنیٹ پر ریلیز ہوئی ہے۔موصوف نے ابھی تک تردید نہیں کی جو ایسی دیدہ زیب داستانوں کی سچائی کی غماز ہے۔انور محمود نے اپنے اعزازات کا اعتراف بھی اپنے خطوط میں کیا ہے جن میں انہوں نے اپنے جنسی تعلقات کا تزکرہ پوری شرح و بسط کے ساتھ کیا ہے۔1980 میں موصوف پی ائی اے میں کام کرتے تھے ۔وہ ایک ایر ہوسٹس نبیلہ چوہدری پر فریضہ ہوگئے اور پھر ایک روز دونوں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔وہ پاکستان ہائی کمیشن کینیڈا میں پریس اتاشی اور سیکریٹری کے عہدہ پر تعینات تھے ۔وہ سفیر محترم کی زوجہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے رہے۔انور محمود اپنی بیوی نیر محمود جو پاکستان براڈکاسٹنگ میں کام کرتی تھیں کی کارگزاری یوں بیان کرتے ہیں کہ انکی شریک حیات انہیں خوبرو لڑکیوں کے تحائف دیا کرتی تھیں۔گلوکارہ مسرت نزیر بھی بادہ ساغر و جام کو دلنشین بنانے کے لئے معاونت کرتی تھیں۔پی ٹی وی کی کئی نیوزکاسٹرز انکے لئے وقف تھیں تاہم وہ ثمینہ وقار کی زلفوں کے زرہ زیادہ ہی گرہ گیر تھے۔انور بادشاہ کھنہ پل پنڈی کے علاقے میں قائم افغان بستی کے خصوصی دورے پر جایا کرتے تھے جہاں انکی میزبانی بیس سالہ افغان لڑکیوں کے سپرد تھی۔وہ اپنی جان من گرل فرینڈز کے نام لکھ کر انکی رنگین خدمات پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں جن میں کوثر لودھی عابدہ شاہ مس ریاض شامل ہیں۔دو صحافیوں نے انکی بلیو فلم بنالی اور پھر وہ دونوں انور کو بلیک میل کرکے اپنے مطالبات منواتے رہے۔ شیخ رشید اور انور محمود کے مابین رقابت چل پڑی جسکی بنیاد افغان لڑکی تھی۔شیخ رشید احمد ان پر دباو ڈالتے تھے کہ وہ اس حسینہ کو بخش دیں۔انور محمود سیکریٹری صحت کی حثیت سے اسلام اباد کے ہسپتالوں کا دورہ کیا کرتے تھے۔پولی کلینک اور پمز کی وزٹ پر دو نرسیں لاٹ صاحب کو ایسی پسند ائیں کہ انتظامیہ نے دونوں کی ڈیوٹی سیکریٹری کے گھر لگادی۔وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دوران سروس کوئی سیاہ بخت ملازم اگر حکم عدولی کا مرتکب ہوتا تو انکا تبادلہ فوری طور پر یا تو دور دراز علاقوں میں کردیا جاتا یا ایسی سزائیں دی جاتیں کہ انہیں چھٹی کا دودھ یاد اتا۔دو مرحوم ملازمین نصیر خان اور اکرام اللہ جان لاٹ صاحب کی امرانہ سزاوں کی بدولت عدم راہی بنے۔وہ لکھتے ہیں کہ وہ محکموں میں اپنے خفیہ ایجنٹ ساتھ رکھتے تھے جو انہیں اندر کے احوال سے اگاہ کیا کرتے تاکہ مخالفین کو نشان عبرت بنادیا جائے۔انکے گروپ کا ایک ارٹسٹ کینگ ریپ میں پکڑا گیا جسے انہوں نے اسانی کے ساتھ بچالیا۔ارٹسٹ نے چھ لڑکیوں کا گفٹ دیکر کرم فرمائی کا شکریہ ادا کیا۔انور محمود بہاری تھے۔انفارمیشن گروپ کے پنجابی افیسر چوہدری رشید سے وہ خائف تھے کہ کہیں انکا عہدہ اسے نہ دیا دیا جائے۔موصوف نے ڈر و خوف کا توڑ یوں کیا کہ چوہدری رشید پر محکمانہ مراعات کی یورش کردی۔وہ کنسلٹینٹی فرم سیم اینڈ ہل کے مالک تھے۔وہ وزارتوں کے ٹھیکے اپنی فرم کے فرنٹ مینوں کو دیا کرتے۔انکے بیٹے نے سیکرٹ فنڈز کی برکات سے کینیڈا کی مہنگی ترین یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی۔وہ مشرفی دور روشن خیالی میں وزارت اطلاعات کے مغل بادشاہ مقرر ہوئے تو وہ ہر دوسرے چوتھے اپنے گھر پر موسیقی کی محفلیں منعقد کیا کرتے جہاں طعام و قیام کا سارا بندوبست ہوتا اور سارے اخراجات سرکاری خزانے کے سر منڈھ دئیے جاتے۔وہ بڑی دیدہ دلیری سے اعتراف کرتے ہیں کہ میڈیا پرنٹ ہو یا الیکٹرانک حکومتی اشتہارات ایسے اداروں کو دئیے جاتے جو انکا کمیشن زندہ دلی سے انکے بینک اکاوئنٹس میں جمع کرواتے تھے۔انہوں نے لیپاپوتی ٹامک ٹوئیوں اور خود تراشیدہ پالیسیوں اور فرضی کاروائیوں سے اربوں کمائے۔سید انور محمود پاکستانی تاریخ کے طاقتور بیوروکریٹ تھے۔وہ پہلے اطلاعات اور بعد ازاں صحت کے وفاقی سیکریٹری مقرر ہوئے۔انکا شمار مشرف کے قریبی نورتنوں میں ہوتا تھا۔مشرف بارہ اکتوبر1999 میں جمہوریت کا دھڑن تختہ کرکے سربرائے ریاست بنے تو انور محمود نے اردوسپیکنگ کارڈ استعمال کیا اور شعبہ زرائع ابلاغ میں پہلے ایڈیشنل سیکریٹری اور بعد ازاں ق لیگ کے باغ بہار منسٹر طارق عظیم کی چٹ پر اطلاعات کے وفاقی سیکریٹری بن گئے۔وہ مشرف کی والدہ کی قدم بوسی فرمایا کرتے تاکہ مشرف کے دل میں نرم گوشہ پیدا کیا جائے ۔پاکستان میں میڈیا یونیورسٹی کا شوشہ کا شوشہ بھی موصوف نے چھوڑا تاکہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ یونیورسٹی کے چانسلر بن جائیں۔وہ2006 میں ریٹائرمنٹ کی حد کراس کرگئے تھے مگر اپنی خصوصی خدمات کے عوض ارباب اختیار عوضیانے کے طور پر سروس میں توسیع دیتے رہے۔انور محمود نے دوران سروس ایک طرف قومی خزانے کو کئی ٹیکے لگائے تو دوسری طرف انہوں نے بڑے شہروں میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے بنڈل اکٹھے کئے۔انکے انکشافات واقعی تہلکہ انگیز ہیں۔اقرباپروری جنسی بے راہ روی کرپشن لوٹ مار اختیارات کے غلط استعمال اور شاہانہ انداز و اطوار کی جو داستانیں انور محمود نے قائم کیں وہ کوٹلہ چانکیہ کی عیاری و شاطری کو اور محمد شاہ رنگیلے کی عیاشیوں کو بھی مات دے گئیں۔بلاشبہ انہیں پاکستانی بیوروکریٹک ہسٹری کا جدید محمد شاہ رنگیلا کہنا غلط نہ ہوگا مگر ہم انکی بہادری و خود اعتمادی اور حق گوئی کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے طلسماتی کارناموں کو بخود عیاں کیا۔انور محمود ایسے سدا بہار بیوروکریٹ کو ہٹانے والی پی پی پی حکومت ان سے معافی مانگے اور انہیں عظیم کاوشوں پر صدارتی ایوارڈ سے نوازا جائے کیونکہ قحط الرجال کے اس دور میں ایسے حاتم طائی افسران کہاں دریافت ہونگے۔موصوف کے کارنامےforumpakistan.com اورwww.fact.com پر دیکھے اور پڑھے جاسکتے ہیں۔انور محمود صاحب اپنے خطوط کی صحت کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہیں تو خاکسار کا قلم حاظر ہے۔بحرل بیوروکریسی کو اپنے اس محمد شاہ رنگیلے بھائی پر فخر کرنا چاہیے
 

 
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team