اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-raufamir.kotaddu@gmail.com 

Telephone:-       

 

 

تاریخ اشاعت01-02-2010

تخفیف اسلحہ کانفرنس نتیجہ صفر

کالم۔۔۔ روف عامر پپا بریار

 ۔
ٹیگور نے کہا تھا کہ ٹھوکروں کے عادی مت بنو کیونکہ یہ زمین دھول تو اڑا سکتی ہے مگر فصل پیدا نہیں کرسکتی ۔پاکستان کے جوہری پروگرام کو 70 کی دہائی سے ہی مغرب کی طرف سے سخت مخاصمت پائی جاتی ہے۔مسلم امہ کے علاوہ دنیا کا کوئی ملک پاکستان کے جوہری پروگرام کو ہضم نہ کرسکا۔امریکہ سمیت مغرب کا دوہرا معیار تو یہ ہے کہ صرف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر زہریلی تنقید کی جاتی ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ مغرب نے کبھی بھارتی یا اسرائیلی سٹوروں میں رکھے ہوئے جوہری وار ہیڈز پر طنز و تشنع کے نشتر چلائے ہوں۔ خیر ہمارا ایٹمی اثاثہ خطرات کے باوجود ابلیسی نگاہوں کی پہنچ سے دور ہے مشرفی دور ملوکیت میں جوہری پلانٹس کی حفاظت اور جنگی حالات میں انکے استعمال کے عمل کو شفاف بنانے اور دیگر ملکوں کو جوہری مواد کی سپلائی کو روکنے کے لئے نیشنل کمانڈ نامی ادارہ تشکیل دیا گیا۔صدر مملکت اسکے سربراہ تھے۔مشرف کے بعد زرداری کمانڈ کے سپہ سالار ٹھہرے۔زرداری نے ایک سال بعد کمانڈ کی طنابیں وزیراعظم کو تھما دیا۔ اسی ماہ کے اوائل میں یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کا اجلاس ہوا جس میں جنوبی ایشیا کے فوجی عدم توازن اور عدم تناسب پر گفت و شنید ہوئی اور معاملے کے حل کا موضوع زیر بحث ایا جس کے غیر معمولی اثرات پاکستان کے موقف پر پڑیں گے جو مذاکرات کے دوران اپنایا جائے گا جسکا اغاز 65 ملکی کانفرنس میں ہوچکا ہے جہاں مندوبین عالمی برادری کے درمیان ایک سمجھوتے کی کوشش کر یں گے۔پاکستان کی سابق سفیر ملحیہ لودھی نے اپنے مضمونFMCT اور فوجی استحکام میں جنیوا میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں سمجھوتے کے اغراض و مقاصد بیان کئے ہیں کہ فیزائل مواد پر پابندی عائد کردی جائے جو جوہری ہتھیار بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ ایٹمی معاملات کو درپیش بیرونی خطرات اور بھارت و مغربی ممالک کے درمیان جوہری ایندھن کی خریداری کی ڈیلوں پر سیر بحث کی گئی۔نیشنل کمانڈ اتھارٹی میں کئے جانیوالے فیصلے پاکستانی نقطہ نظر کو مضبوط اور مستحکم کرنے میں مدد گار ثابت ہونگے یوں پاکستان جنیوا کانفرنس میں اعتماد اور پرعزمی اور اوللعزمی کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کرسکے گا۔ کانفرنس کے دوسرے مرحلے میں ایسا ہوم ورک اخذ کیا جائے گا جو اس بات کا تعین کرے گا کیا اجلاس میں تخفیف اسلحہ اورfmct کے موضوعات پر کئے جانیوالے مذاکرات و مکالمے کسی مثبت پیش رفت کا کام دیں گے؟UNO میں پاکستان کے مندوب ضمیر اکرم کو نیشنل کمانڈ نے پاکستانی مقدمے کی پیروی کے لئے ہر قسم کے اختیارات تفویض کئے ہیں۔ ضمیر اکرم نے ابتدائی اجلاس میں سمجھوتے کے حوالے سے شرکا کو اسلام اباد کے تحفظات سے اگاہ کیا۔یہ سمجھوتہ صرف فیزائل مواد پر پابندی تک محدود ہے۔ ملحیہ لودھی لکھتی ہیں کہ اگر فیزائل مواد پر پابندی عائد ہوگی تو پاک بھارت فوجی عدم توازن بھک سے منجمد ہوجائے گا۔جوہری مواد پر پابندی عائد کرنے کی کوششیں کافی سالوں سے ہورہی ہیں۔UNOے1991 نے ہدایت کی تھی کہ اس ضمن میں کثیر ملکی معاہدہ کیا جائے جو ہر لحاظ سے مثبت اور پائیدار ہو۔ جنیوا میں معاہدے کے لئے کئی سالوں سے کوششیں جاری ہیں جن میںfmct کے علاوہ تخفیف اسلحہ کے معاملات بھی شامل تھے مگر امریکہ کے سرد روئیے نے سمجھوتے کی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔وائٹ ہاوس نے1993 میں انٹرنیشنل میکنزم کو قبول اور تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا جو اس معاہدے کی توثیق اور تصدیق سے متعلق تھے۔امریکہ کا اصرار تھا کہnational technicle sources ایسے معاہدات کی تصدیق کے لئے کافی ہیں اسی لئے اسکی توثیق کےلئے کسی دوسرے فریق کی ضرورت نہیں۔پاکستان نے اس معاہدے کے احیا کے لئے ابتدا سے ہی فعال کردار ادا کیا۔پاکستان کی ساری توجہ تخفیف اسلحہ پر مرکوز ر ہی مگر اس نے زیادہ تر علاقائی سلامتی اور تبدیلیوں پر نظر مرکوز رکھی۔ 90 تا1995 کے درمیانی عرصہ میں امریکہ پاکستان پر دباو ڈالتا رہا کہ وہ ایسی کوششوں سے دور رہے تاہم جب دباو کارگر ثابت نہ ہوا تو امریکہ نے پاکستان کو اسکے حال پر چھوڑ دیا۔ بحر حال کانفرنس میں پاکستان کی تشویش کا انحصار اس بات ہوگا کہ معاہدے کی صورت میں پاک بھارت فوجی عدم توازن ختم ہوجائے گا تاہم سمجھوتے کی شکل میں پاکستان کی ڈیٹر نائیٹ صلاحیت سکڑ جائے گی جبکہ بھارت کے پاس لا تعداد زرائع موجود ہیں جنکی مدد سے بھارت اپنی خواہش کے مطابق جوہری پھیلاو کا دھندہ کرتا رہے گا اور اسکے ارمڈ زخائر کبھی کم نہ ہونگے۔ماضی میں دو واقعات ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے پاکستان کو درپیش خطرات کی نوعیت کو بدل کر رکھ دیا۔اول۔بھارت امریکہ جوہری معاہدہ یہ معاہدہ بھارت پر عائد کی جانیوالی پابندیوں کو ختم کر چکا ہے۔بھارت اب فرانس برطانیہ اور روس سے ایٹمی فیول حاصل کرسکتا ہے۔بھارت کو امریکی شفقت نے فیزائل مواد کی لامحدود مقدار خریدنے کے قابل بنادیا ہے ۔علاوہ ازیں بھارت سویلین مقاصد کے لئے امریکہ سے خریدا ہوا جوہری فیول جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر لگا سکتا ہے۔ بھارت واویلہ کررہا ہے کہ اسے 400جوہری وار ہیڈز درکار ہیں۔بھارت مسئلہ کشمیر کی طرح عالمی سمجھوتوں سے مکر کر فیول کو سویلین مقاصد کی بجائے عسکری ضروریات پر خرچ کرسکتا ہے ۔دوم۔ ایک اور مسئلے نے بھی پاکستان کی تشویش کو بڑھادیا ہے۔بھارت امریکہ سے بیلسٹک میزائل اور اینٹی میزائل شیلڈ سسٹم حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کررہا ہے اگر ایسا ہوگیا تو خطے میں فوجی طاقت کے توازن میں بڑا فرق اجائیگا۔پاکستانی سفارت کاروں نے ابتدائی کانفرنس میں دو ٹوک مطالبہ کیا ہے کہ تخفیف اسلحہ کے ساتھ ساتھ فیزائل مواد پر پابندی ہونی چاہیے ورنہ ساوتھ ایشیا میں فوجی توازن کبھی ہموار نہیں ہوسکتا۔بھارت اور امریکہ1993 سے ہی سمجھوتے کی راہ میں تعطل پیدا کررہے ہیں۔دونوں شد مد سے امن و امان کے داعی تو بنتے ہیں مگر وہ اپنے جنگی زخائر میں تخفیف کا سوچیں یہ ناممکن ہے۔ ہماری نیشنل کمانڈ چاہے جیسی پلاننگ کرتی رہے یا ہمارے سفارت کار فوجی عدم توازن میں یکسانیت کے حق میں چاہے جتنے دلائل دیتے رہیں کانفرنس چاہے لندن میں ہو یا جنیوا میں مذاکرات کا نام چاہے چوہے سے موسوم کردیا جائے یا پھر بلی سے جنیوا کانفرنس کا کوئی نتیجہ برامد نہ ہوگا اور نہ ہی پاکستانی مطالبے کو زیادہ پزیرائی مل پائے گی کیونکہ امریکہ اور اسکے حواری خطے میں نہ تو امن کے خواہاں ہیں اور نہ ہی وہ اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کریں گے۔ کیا اسلحے کی سمگلنگ سے کھربوں ڈالر سالانہ کمانے والا امریکہ کیوں اور کیسے تخفیفٍ اسلحہ کے سمجھوتے پر راضی ہوگا۔پچھلے سال امریکہ کے اقتصادی دیوالیے کے تزکرے ہوتے رہے مگر امریکیوں کی ارمز انڈسٹری نے ریکارڈ ساز بزنس کیا۔محولہ بالہ سمجھوتے کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والوں کے لئے نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ باعث عبرت بن سکتی ہے۔امریکہ نے پچھلے سال کساد بازاری کے باوجود37 ارب اور85 کروڑ ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا اور موجودہ سال یہ فروخت بڑھ جائیگی۔ پاک بھارت دونوں کو امریکی تلوے چاٹنے کی بجائے ٹیگور کے اس جملے کی روشنی میں خطے میں امن و امان کے لئے اپنے تمام مسائل و تنازعات گفت و شنید سے حل کرنے چاہیں۔ٹیگور نے کہا تھا کہ ٹھوکروں کے عادی مت بنو کیونکہ یہ زمین کی دھول اڑا سکتی ہے فصل پیدا نہیں کرسکتی۔ صاحبو امریکہ اسلحے کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے یہاں اگ و خون کے کھیل کی بازی تو لگاسکتا ہے مگر وہ کبھی یہاں کی مٹی کو اس قابل نہیں بننے دیگا کہ وہ سکون امن اور شانتی اور رواداری کے پھول پیدا کرسکے۔

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team