|
تاریخ اشاعت:۔07-02-2011 |
کشمیر معاہدوں کی نذر |
کالم۔۔۔
شاہد اقبال شامی |
کچھ لوگ کہتے
ہیں کہ جنت اور اس میں موجود انعامات کو
سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں
کچھ ایسی بھی نعمتیںپیدا کی ہیں جنہیں دیکھ
کر،سن کر،سونگھ کراورچکھ کرجنت اور اس میں
موجود نعمتوں کا تھوڑا بہت ادراک اور کچھ نہ
کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے۔کشمیر بھی اللہ تعالیٰ
کی ان ہی نعمتوں میں سے ایک ہے جسے دیکھ کربعض
لوگ کہتے ہیں کہ کشمیر تو جنت کا ایک ٹکڑا ہے
جوزمیں پر آ گرا ہے۔کشمیر پاکستان کے شمال
مشرق میں اورافغانستان و تاجکستان کے مشرق،چین
کے جنوب میںاور ہندوستان کے مغرب میںکوہ
ہمالیہ میں پڑی ہوئی خوبصورت اورسرسبزوادی کا
نام ہے،کشمیر کا کل رقبہ217935کلومیٹر ہے
اوراس کی آبادی 1کروڑ سے کچھ اوپر ہے جس میں
92فیصد مسلمان آباد ہیں اور باقی آبادی ہندو،
سکھ اوربدھ مت پر مشتمل ہیں،کشمیر کا کچھ حصہّ
چین کے پاس،کچھ حصّہ آزاد ہے جسے آزاد کشمیر
کہا جاتا ہے اور اس کا کچھ حصّہ بھارت کے پا س
بھی ہے جس پر بھارت نے ناجائز طور پرقبضہ کیا
ہوا ہے اور اس کی وجہ سے پوری دنیا گھمبیر
مسائل کا شکار ہے اور اس ہی خطّہ کے لئے
پاکستان اور بھارت کے درمیان3جنگیںبھی ہو چکی
ہیںاوراب بھی ہر وقت جنگ کا خطرہ موجود رہتا
ہے آزاد کشمیر کا دارالخلافہ مظفر آباداور
مقبوضہ علاقے کا دارالحکومت گرمیوں میں سری
نگر اور سردیوں میںجموّں ہوتا ہے۔
2 جون1947ءکے فارمولے کا اعلان ہوتے ہی مہاتما
گاندھی اور کانگریس کے صدر مسٹر جے بی کرپلانی
فوراً کشمیر پہنچے اور مہاراجہ ہرن سنگھ کے
ساتھ ساز باز کرکے اپنی سازشوں میں شامل کر
لیا۔16اگست1947ءکو تقسیم ہند کے بارے میںجب
ریڈ کلف ایوارڈ کااعلان ہوا تو ضلع گورداس پور
کی آبادی میں واضح مسلمان اکژیت کے باوجود
شرانگیزی و مسلم دشمنی کی وجہ سے بھارت کے
حوالے کر دیا گیا ،کیونکہ گورداس پور پر قبضہ
کے بغیر کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ممکن ہی نہیں
تھا۔
بھارتی افواج کشمیر میں27اکتوبر1947ءکی صبح کو
داخل ہوئیں پاکستان کے جی ایچ کیو کو ایک رات
پہلے ہی ان کے ارادوں کا پتّہ چل چکا تھا اور
جب قائد اعظم نے بری فوج کے قائم مقام کمانڈر
انچیف جنرل سرڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ
پاکستانی افواج کو بلا تاخیرکشمیر میں بھیج دو
تو جنرل گریسی نے اس حکم کی تعمیل کے بجائے
نئی دہلی میں موجود فیلڈمارشل سر کلا ڈوگنیگ
کومطلع کیا جو اس پیغام کے ملتے ہی اگلے روز
لاہور آ کر دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے
کہا، کہ اگر ایسا کیا گیا توپاکستان کی فوج
میں موجود تمام برطانوی افسروں کوواپس بھیج
دیا جائے گا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ
پاکستان کی ساری افواج غیر منظم ہوجائے
گی۔1965ءتک سلامتی کونسل میں کشمیر کا
مسئلہ133بار آچکا تھا،کبھی بھارت کہنے پراور
کبھی پاکستان کی درخواست پر،سلامتی کونسل کے
ڈاکٹر فرینک پی گراہم نے1951ءاور1958ءکے
درمیان سلامتی کونسل کو6مختلف فارمولوں والی
رپورٹیں پیش کیں، جن میں موجود ہر فارمولے کو
پاکستان نے مانااور اس کے برعکس بھارت نے ہر
دفعہ نامنظور کیا۔
پچھلے22سال سے کشمیری اپنے حق خودارادیت کے
لئے مزاحمت او رمسلحّ تحریک کے لئے کوششیں کر
رہے ہیں،حق خودارادیت کی اس تحریک کو کچلنے کے
لئے بھارت ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا
ہے اور بے انتہا سفاکی وسربریت کا مظاہرہ کر
رہا ہے۔جنوری 1989ءسے 10دسمبر2008ءتک
6469کشمیریوں کو دوران حراست شہید کیا
گیا،9874خواتین کی بے حرمتی کی گئی
جبکہ105670مکانات اوردوکانوں کو تباہ وبرباد
کردیا گیا،22685خواتین بیوہ جبکہ 10728بچے
یتیم ہو چکے ہیں ہزاروں کشمیری لاپتہ اور
سینکڑوں تا حال گرفتار ہیں۔بھارت جب بھی بین
الاقوامی یا اندرونی دباﺅ کا شکار ہوتا ہے
تووہ پاکستان کو مذاکرات کے جال میں الجھا
لیتا ہے اور جونہی اس پر دباﺅ ختم ہوتا ہے تو
بھارت ان مذاکرات اور اس کے تمام نتائج سے منہ
پھیر لیتاہے۔مسئلہ کشمیر اب تک صرف معاہدوں کی
نذرہی رہا ہے1966ءمیں معاہدہ تاشقند ہوااور
پھر6برس بعد معاہدہ شملہ ہوا یکم جنوری1949ءسے
اب تک مسئلہ کشمیر یو این او کی قدیم
دستاویزوں کے محافظ خانوں میںسال ہا سال سے
جمع ہو کر مقفل ہو جاتا ہے۔ہر سال پوری دنیا
میں کشمیری 5فروی کو یوم کشمیرکے طور پر مناتے
ہیں،پوری دنیا میں کہیں بھی کسی بھی فورم پر
مسئلہ کشمیر کا ذکر ہو تاتو بھارت اس کو اپنی
انا کا مسئلہ بنا لیتا ہے اوراس کو پاکستان کی
سرحدوں پرجنگ کے بادل منڈلاتے ہوئے نظر آنا
شروع ہو جاتے ہیںاب تو کشمیر کا نام بھی
اگرلیا جائے تو بھارت اس کو اپنی توہین سمجھتا
ہے اور اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سے
تشبیہ دیتا ہے۔
|
 |
 |
 |
 |
 |
 |
|