آ ج میں جس شخصیت کے با رے میں اظہا رِ خیال کرنے جا رہا ہو ں اس کے
امتِ مسلمہ پر عمو می ¿ اور پاکستان پر خصو صی ا حسا نا ت ہیں۔ اس کے
عظیم کا ر نا موں سے پوری دنیا آ گا ہ ہے لیکن جمہو ریت کی بقا کی جنگ
اس نے جس جر ا ت و بہا دری سے لڑی وہ حریتِ فکر کی جنگ لڑنے وا لے حریت
پسند و ں کو ہمیشہ نیاحو صلہ عطا کرتی رہے گی ۔ ا گر ہم ذو لفقا ر علی
بھٹو جیسے انتہا ئی نفیس انسان کے اندر فو جی آ مریت سے ٹکرا جا نے کے
جذبہ ¾ محر کہ کا غیر جا نبداری سے تجزیہ کریں تو سوا ئے حیرت کے کچھ
بھی ہا تھ نہیں آتا ۔ اس حقیقت سے سیا ست کا ہر طا لب علم بخو بی آگا
ہے کہ ذو لفقار علی بھٹو سو نے کا چمچہ لے کر پیدا ہو ئے تھے اور انتہا
ئی نا زو نعم میں پلے بڑے تھے دنیا کی سا ری نعمتیں ان کے گھر کی لو
نڈی تھیں ۔ دنیا کی بہترین درس گا ہوں سے انھو ں نے تعلیم حا صل کی تھی
۔ نفا ست، اعلی ذوقی، خو ش لبا سی۔ علم دوستی اور اوصا فِ حمیدہ سے
اپنی شخصیت کو جلا بخشی تھی لیکن بوقتِ آزما ئیش جرات و ہمت کے جس بے
مثل کردار کا اس نے مظا ہرہ کیا، زند ا نو ں کی سختیو ں ۔ ایذا رسا نیو
ں۔اذیتو ں ۔ صعو بتو ں اور تکا لیف کو جس جوا ں مردی سے بر دا شت کیا
تا ریخِ ا نسا نی اس پرہمیشہ نا ز کرتی رہے گی ۔ مجھے ذو لفقار علی
بھٹوشہید کو قریب سے دیکھنے، ملنے اور سننے کاا عزا ز حا صل ہے ۔ ذو
لفقار علی بھٹو کے ہاتھ بڑے نرم تھے اس کی طبعیت میں بڑی شگفتگی تھی،
وہ آ ہن گدا ز نہ تھا، بیلچہ بردار نہ تھا، محنت کش نہ تھا، کو ہ کن نہ
تھا۔ کسا ن نہ تھا اور مز دور بھی نہ تھا جوزما نے کے مصا ئب اور مجبو
ریو ں سے روز مرہ کے شب و روز میں بنفسِ نفیس گزرا ہوبلکہ وہ ایک ایسا
خو شحال انسان تھا جس نے ہمہ وقت پھو لو ں سے لدی پھد ی خو بصو رت بہا
ر یں د یکھی تھیںاور ایسی ہی بہا رو ں میں زند گی گزا رنا اسے پسند بھی
تھا لیکن نا زک طبع ہو نے کے با و جود اس نے قوتِ بردا شت اور اصو لو ں
کی خا طر ڈٹ جا نے کی جس نئی رو ا ئیت کا عظیم مظا ہرہ کیا تھا تا ریخِ
پا کستان اس سے با لکل نا آشنا تھی ۔ جنرل ضیا ا لحق ایک دفعہ ذو لفقا
ر علی بھٹو سے ملا قات کے لئے جیل میں آیا اور بھٹو صا حب سے کہنے لگا
کہ اگر آپ ملک چھو ڑ دیں تو میں آپ کی جان بخش سکتا ہوں۔ ذو لفقا ر علی
بھٹو نے کہا میں اس ملک کو چھو ڑ کر کہیں نہیں جا ﺅ ں گا بلکہ تیری مو
نچھو ں سے اپنے بو ٹو ں کے تسمے بنا کر پہنو ں گا کیو نکہ میں اس ملک
کامنتخب وزیرِ اعظم ہوں اور تو نے منتخب وزیرِ اعظم کی آئینی حکو مت کا
تحتہ الٹ کر اقتدار پر نا جا ئز قبضہ کیا ہے، مجھے موت سے عا ر نہیں
لیکن میں تا ریخ کے ہا تھو ں مرنے کی بجا ئے ایک آمر کے ہا تھو ں مرنا
پسند کرو ں گا۔ اپنے الفا ظ کی صدا قت پر لبیک کہتے ہو ئے اس نے ایک
آمر کے ہا تھو ں جس طر ح مر دا نہ وار مو ت کو گلے لگا یا اس نے بھٹو
صا حب کو تا ریخ کے سینے میں دھڑکتے دل کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زند
ہ و جا وید بنا دیا ہے۔ اتفا قِ زما نہ دیکھئے کہ اسی جنرل ضیا ا لحق
کے منہ بو لے بیٹے پر جب ایسا ہی کڑا وقت آیا تو وہ ایک آمر سے جان کی
بھیک ما نگ کر رات کی تا ریکی میں بمعہ اہل و عیا ل ۰۴ سو ٹ کیسو ں کے
ساتھ سعو دی عرب راہِ فرار اختیا ر کر گیا کیو نکہ اسے اپنی زندگی جمہو
ر یت ،عوا م اور وطن سے زیا د ہ عزیز تھی۔ لیکن جسے عوام اور وطن سے
سچی محبت تھی اس نے سرِ دار ان ا لحق کا نعر ہ بلند کر کے مو ت کو مات
دے ڈالی (بقو لِ اقبال)
ہو صدا قت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ۔۔پہلے اپنے پیکرِ خا کی میں
جان پیدا کرے
پھو نک ڈا لے یہ زمین و آسمانِ مستعا ر۔۔۔۔اور خا کستر سے آپ اپنا جہا
ں پیدا کرے
زند گی کی قو تِ پنہا ں کو کر دے آشکار۔۔۔۔۔ تا یہ چنگا ری فرو غِ جا
ودا ں پیدا کرے
۷۷۹۱میں جب ذو لفقا ر علی بھٹو نے فو جی آمریت کا سا منے ڈٹ جا نے
کاعہد کیا تو اس وقت بھٹو صا حب کے بچے بہت چھو ٹے تھے اور ان کی زندگی
کے بارے میں انھیں کوئی خو ش فہمی نہیں تھی انھیں علم تھا کہ وہ بے رحم
شخص جو ان کی زندگی کے چرا غ کو گل کرنا چا ہتا ہے وہ اس کے بچو ں کو
کبھی چین سے جینے نہیں دے گا بلکہ انہیں بھی کسی بہا نے کی آڑ میں ختم
کرنے کی کو شش کرے گا۔ ہر انسا ن کی جبلت میں ا پنے بچو ں کے بہتر
مستقبل کی خوا ہش ہمہ وقت جا ری رہتی ہے اور اس کی خا طر وہ کسی بھی حد
تک جا سکتا ہے لیکن یہ ذو لفقا ر علی بھٹو بھی عجیب و غریب شحص تھا کہ
آمریت کی جنگ میں آپنی زندگی کو دا ﺅ پر لگا نے کے بعد اپنی اولاد کو
بھی اسی راہ کا مسا فر بنا گیا اور اس کی او لاد نے اپنے با پ کی وصیت
کو جس طرح خو ن کی سرخی سے رقم کیا وہ سیا سی تا ریخ میں بے مثل اور بے
نظیر ہے ۔بھٹو صا حب کی اولاد جمہو ریت کے اس سفر میں جس طرح قربان ہو
تی ر ہی جان لٹاتی رہی اور جمہو ریت کو توا نا ئی عطا کرتی رہی اس نے
بھٹو خا ندان کی عظمت ،محبت اور چا ہت کو معرا جِ کبری سے ہمکنا ر کر
دیا ہے بھٹو اور ضیا دو نام جنہو ں نے کئی عشرو ں تک پا کستا نی سیا ست
کو اپنی گرفت میں دبو چے رکھا لیکن آخری جیت ذو لفقا ر علی بھٹو کا
مقدر بنی کیو نکہ سچ کو شکست دینا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
جنرل ضیا ا لحق سفا کیت ۔بے رحمی ۔ قا نو ن شکنی ۔عہد شکنی ۔ ظلم و ستم،
جبر و استبداد ۔شب خو ن اورعدا لتی قتل کا نما ئیند ہ ۔ذو لفقا ر علی
بھٹو ۔جرات ۔حریت۔ آئین۔وقا نو ن اور جمہو ریت سے محبت کا نما ئیندہ ۔
عو امی اعتماد کی علا مت جمہو ری اصو لو ں سے وفا داری کا علمبردا۔
جیل کی کا ل کو ٹھری میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے ذ و لفقا ر علی بھٹو
کی آ خری ملا قات جیا لے کبھی نہیں بھو ل سکتے ۔وہ ملا قا ت جس میں ایک
منتخب وزیرِ اعظم پا زنجیر جیل کی کا ل کو ٹھری میں اپنی زندگی کی آخری
گھڑیا ں گن رہا تھا لیکن اس کے حو صلے بہت بلند تھے وہ اس وقت بھی جمہو
ریت کی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا۔ اس وقت بھی ذو لفقا ر علی بھٹو جمہو ریت
کے مستقبل کے با رے میں بڑا پر امید تھا۔ وہ جنگ جس کے لئے اس نے اپنی
زند گی کا خرا ج دیا تھا اسے فتح سے ہمکنار دیکھنا جا ہتا تھا اور کا ر
وا نِ جمہو ریت کو فتح کی اس منزل سے ہمکنار کرنے کی ذمہ داری اس نے نا
زو نعم سے پلی بڑی اپنی انتہا ئی لا ڈ لی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے
کندھو ں پر رکھ دی تھی اور اس عظیم بیٹی نے اپنے وا لد کے اعتماد کو جس
شا نِ بے نیا زی سے جمہو ریت کی عظیم فتح سے ہمکنار کیا اس نے بی بی کو
ایک افسا نو ی اور طلسما تی شخصیت کا روپ عطا کر دیا ہے۔
جمہو ریت سے محترمہ کی محبت ایک ضر ب المثل بن چکی ہے لیکن ضر ب المثل
بننے تک کا یہ سفر بڑا درد ناک تھا اذیت نا ک تھا ۔ محترمہ نے ا پنے ہا
تھو ں سے اپنے والد اور بھا ئیوں کے لا شے اٹھا ئے لیکن جمہو ریت کے
سفر سے ہٹنے سے انکا ر کر کے جمہو ریت اور وفا قِ پا کستان کو نئی ز ند
گی عطا کر دی۔ انسا ن کے دل کی آواز جب اس کے عمل کا روپ احتیا ر کر لے
تو ہر آزما ئیش ہر امتحا ں اس کے سامنے سر نگو ں ہو جا تا ہے عشق کی
یہی وہ قوت ہے جو نا ممکنات کو ممکنات میں بدل کر کا ئنات کو جنبشِ ِ
آبرو کا محتا ج بنا دیتی ہے ۔ اہلِ جہا ں کو علم ہے کہ بی بی پر
پاکستان نہ آنے کا بڑا د با ﺅ تھا لیکن بی بی نے کسی کی ایک نہ سنی بس
اپنی دھن میں پکا رتی ر ہی کہ مجھے جا نا ہے کیو نکہ دھر تی مجھے پکار
رہی ہے وطن مجھے پکار رہا ہے اور اس دھرتی کے سامنے میری جا ن کی کو ئی
اہمیت نہیں ہے ۔ پا ک دھر تی پر اپنی جان کو قربا ن کر کے محترمہ ہمیشہ
کے لئے امر ہو گئیں اور بھٹو ازم کی وہ شمع جسے ذو لفقار علی بھٹو بی
بی کے ہا تھو ں میں تھما گے تھے بی بی نے وہ شمع اپنے جوا ن سال بیٹے
بلا ول بھٹو زرداری کے ہا تھو ں میں تھما دی یہ جا نتے بو جھتے کہ یہ
شمع صرف لہو سے جلا کرتی ہے۔ اپنی اولاد کو قر با نی کی راہ پر ڈا لنے
کے لئے ممتا جتنی تڑپی ہو گی ہمیں بخو بی اندا زہ ہے لیکن جب دھرتی کی
محبت ممتا کی محبت پر غا لب آ جا تی ہے تو محبو بیت کی وہ مسند مقدر
بنا کرتی ہے جو انسان کو غیر فانی بنا دیتی ہے ذولفقا رعلی بھٹو سے بے
نظیر بھٹو تک کا جمہو ری سفرلہو سے تر بتر ہے لیکن اس کے با وجو د بلا
ول بھٹو زردا ری اس سفر میں اپنے لہو سے رنگ بھرنے کے لیے میدا نِ عمل
میںکو د چکا ہے ۔آگے آگے دیکھئے ہو تا ہے کیا |