اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:- 

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت20-01-2009

محا سبہ

کالم:۔ طا رق حسین بٹ



ہر شخص کو عدل و انصا ف سے محبت ہے اور اس دھرتی پر کو ئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہو گا جو عدل و انصا ف کا حا می نہ ہو انصا ف ہی تو اصل نیکی ہے لیکن انصاف کے نام پرتعصب انگیز طرزِ عمل اختیار کرنا قتلِ عدل و ا نصا ف کے مترا دف ہو تا ہے ۔ عدلیہ کا آئینی حدود سے تجا وز، انتظا می امور میں مد ا خلت اور پا لیمنٹ کو اپنی خوا ہشا ت کے تا بع ر کھنے کی کو شش غیر آئینی فعل ہے جسے کسی بھی صو رت تسلیم نہیں کیا جا سکتا پار لیمنٹ خو د مختار ادارہ ہے جسے آزا دانہ فیصلے کرنے کا مکمل حق حا صل ہو تا ہے ۔ عدا لتیں منتخب ادار ے نہیں ہو تے بلک منتخب پا ر لیما ن قا نو ن سا زی کے ذریعے عدا لتو ں کے اختیا رات اور حدود کا تعین کرتی ہے تا کہ سار ے ادارے اپنی اپنی حدو د میں رہ کر اپنے فرا ئض سر انجا م دے سکیںاگر عدا لتیں حکو متیں گرا نے اور بنا نے کے عمل کا حصہ بن جا ئیں گی تو پھر ملکی نظا م مفلو ج ہو کر رہ جا ئے گا اور ہر طرف غیر یقینی صو رتِ ھا ل پھیل جا ئے گی جو ملکی سا لمیت کے لئے زہرِ قا تل ہو گی۔ وکلا ءتحریک نے آئین سے محبت کے جس شعو ر کو بیدار کیا ہے وہ شعور کو ئی ادارہ ، جما عت اور گرو ہ چھین نہیں سکتا ۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ایک نئے نظا م کی بنیا د یں رکھیںایک نیا طریقہ کار و ضع کریں آئینی اور قا نو نی را ستو ں کا مضبو ط سہا را لیں تا کہ مسندِ عدل پر ایسے لوگ قا بض نہ ہو جا ئیں جنھیں عد ل و صدا قت کا علم بلند کر نے کی بجا ئے ذا تی تشہیر، نمو دو نما ئیش اور با لا دستی کا جنو ن ہو اور دو سر ے ادا روں کی آئینی ذمہ داریو ں میں بے جا مدا خلت کا روگ ۔ پی پی پی قر با نیو ں اور جدو جہد کے ایک طویل سفر کے بعد اقتدار کے ایوا نوں تک پہنچی ہے لہذا اسے اپنی آئینی مدت پو ری کر نے کا حق حا صل ہونا چا ئیے اسے بلا وجہ نشا نہ بنا نے کی روش کا خا تمہ ہوجا نا چا ئیے ۔ پی پی پی کو مارنے والے خود نشا نِ عبرت بن گے لیکن پی پی پی پہلے دن کی طرح آج بھی قا یم اور دا یم ہے۔ جسٹس انوا را لحق ۔جسٹس مو لوی متاق۔ جنرل ایو ب خان۔ جنرل یحی خان۔ جنرل ضیا ا لحق ۔ جنرل پر ویز مشرف۔ سردار فاروق لغا ری گمنا می کے اندھیر و ں میں دفن ہو چکے ہیں لیکن اگر پھر بھی کو ئی ان جیسا بننے کی کو شش کرے گا تو اس کا انجام بھی ان جیسا ہی ہو گا۔ اگر ہم تا ریخِ پاکستان کا عمیق نظر سے جا ئز ہ لیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ججز کی اکثر یت کا ما ضی کسی بھی ایسی گوا ہی کوپیش کرنے سے قا صر ہے جس سے آئین و قا نو ن سے ان کی محبت کا ثبو ت ملتا ہو۔ مجھے یہ کہتے ہو ئے انتہا ئی دکھ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کا کردار قا بلِ ستا ئیش نہیں رہا اس نے ہمیشہ آمریت کا سا تھ دیا اور ما ر شل لا و ¾ ں کو آئینی جواز مہیا کیا جس سے جمہو ری قوتو ں کو ما یو سی کا سا منا کرنا پڑا ۔ آئیے پاکستان میں عدلیہ کے کردار اور اس کے فیصلو ں کو تا ریخ کی کسو ٹی پر پرکھیں تا کہ حقا ئیق تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔
۱۔ جنرل ایوب خا ن کا مارشل لائ۔۲۔جنرل یحیی خان کا مار شل لائ۔۔۳۔۔جنرل ضیا ا لحق کا مار شل لائ۔۴۔ ججز کا پی سی او کے تحت حلف۔۔۵۔۔ ذو لفقا ر علی بھٹو کی پھا نسی۔۔۶۔۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی آئینی حکو مت کا اگست۰۹۹۱ میں خا تمہ۔۷۔۔آصف علی زرداری کی گرفتا ری اور تین سا لہ نظر بندی۔۔۸۔۔میا ں محمد نوا ز شریف کی حکو مت کا مارچ ۳۹۹۱ میں خا تمہ او ر بحا لی۔۔۹۔۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی آئینی حکو مت کا نو مبر ۶۹۹۱ میں خا تمہ۔۔۰۱۔۔آصف علی زرداری کی گرفتا ری اور سا ڑھے آٹھ سا لہ نظر بندی۔۔۱۱ ۔جنرل پرویز مشرف کا مارشل لائ۔۔۲۱۔ ججز کا پی سی او کے تحت حلف۔
وہ کو ن تھا جس نے ۲۱ اکتو بر ۹۹۹۱ کے جنرل پر ویز مشرف کے غیر آئینی، غیر قا نو نی ،بے رحم اور سفاک ما رشل لا کو جا ئیز قرار د ے کر آئینی چا در عطا کی تھی ۔۳ نو مبر ۷۰۰۲ میں جنرل پر ویز مشرف نے ایمر جنسی کا نفاذکر کے سپریم کو رٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چو ہد ری کو بر طرف کیا تھا تو یہ ما ضی کی رو ایت کا تسلسل تھا اور سچ تو یہ ہے کہ یہ برطر فیو ں کا کما ل ہی توتھا جس کے نتیجے میں افتخار محمد چو ہدری چیف جسٹس کے عہد ے پر فا یز ہو سکے وگرنہ اگر بر طر فیو ں کی رو ا ئیت قا یم نہ ہو تی تو شا ید چیف جسٹس کی یہ مسند چو ہدری صا حب کے لئے خواب و خیا ل ہی رہتی ۔یہ بات پا کستان کا بچہ بچہ جا نتا ہے کہ افتخار محمد چو ہدری سپریم کو رٹ کے اس بنچ کا حصہ تھے جس نے جنرل پر و یز مشر رف کے ما رشل لا کو جا یز قرار دیا تھا اور اسے آئین میں ترمیم کر نے کا اختیار دیا تھا لہذ جنرل صا حب نے اسی اختیار کا نا جا یز فایدہ اٹھا تے ہو ئے افتخار محمد چو ہدری کو ان کے عہدے سے بر طرف کر کے ان کی جگہ عبد ا لحمید ڈو گر کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا تھا تو یہ قا بلِ فہم تھا کیو نکہ افتخار محمد چو ہدری بھی تو جنرل پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت ایسے ہی حلف اٹھا کر چیف ج جسٹس بنے تھے۔ سعید ا لز ما ں صدیقی کو پی سی او کے تحت حلف اٹھا نے سے روک دیا گیا تھا تب کہیں جا کر افتخار محمد چوہدری کا مقدر چمکا تھا ان کی مو جو دہ عہدے پر بحا لی پی پی پی کی قربا نیو ں کی مر ہو نِ منت ہے لیکن ستم ظریفی کی انتہا تو دیکھئے کہ چو ہدری صا حب پی پی پی کے خلا ف عدا لتی تلوار لے کر ایک ایسی راہ پر چل نکلے ہیں جس کا لا زمی نتیجہ تصادم ہے ۔ چو ہدری صا حب کو یا د ہو نا چا ئیے کہ پی پی پی نے جمہو ریت کی بحا لی کے لئے بے شمار قر با نیا ں دی ہیں لہذا پی پی پی جمہو ریت کو بچا نے کے لئے کچھ بھی کر گزرے گی ۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدا لتیں ایک ایسی بسا ط بچھا نے کی تگ و دو میں لگی ہو ئی ہیں جس میں پی پی پی کو ٹریپ کر کے اقتدار سے بے دخل کر دیا جا ئے لیکن اسٹیبلشمنٹ بھو ل رہی ہے کہ ا س وقت پی پی پی کی قیا دت محتر مہ بے نظیر بھٹوجیسی رحم دل، در ویش صفت، عفو در گزر کی کا مظا ہرہ کرنی والی شخصیت کے ہا تھو ں میں نہیں بلکہ پی پی پی کی قیا دت مردِ حر آصف علی زرداری کے ہا تھو ں میں ہے جو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلا حیت رکھتے ہیں۔پی پی پی اس وقت بڑے جا ر حا نہ مو ڈ میں ہے اس نے فیصلہ کر رکھا ہے کہ جمہو ری نظا م حکو مت اور پا رٹی قیا دت کو بچا نے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا ئے گی ا ور شب خون مار نے وا لو ں کو کیفرِ کردار تک پہنچا کر دم لے گی۔قا یدِ عوام نے جان کا نذرانہ دے کر جیا لو ں کو جمہو ریت اور سچا ئی کی جس راہ پر مر مٹنے کا درس دے رکھا ہے اسے وہ کبھی فرا مو ش نہیں کر سکتے و ہ قا ید کے نقشِ قدم پر چلتے ہو ئے جا ن لٹا تے رہیں گے لیکن پا لیمنٹ کو کسی فردِ وا حد کے ہا تھو ں یر غمال نہیں ببنے دیں گے۔
ذو لفقا ر علی بھٹو کی پھا نسی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکو مت کے دو دفعہ خاتمے میں عدا لتِ عظمی کے سارے ججز نے صدارتی حکم پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے میں بڑی فرا خ دلی کا ثبو ت دیا تھا لیکن جب صدارتی حکم کی تلوار میا ں محمد نواز شریف کی حکو مت پر پڑی تھی تو عدا لتِ عظمی نے میا ٰ ں محمد نواز شریف کی حکو مت کو بحا ل کر کے سب کو حیران کر دیا تھا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے سپریم کو رٹ کے د ہر ے معیار پر لفظ چمک کا جملہ کسا تھا جو بہت مشہو ر ہو ا تھا اور عوا م النا س کے حقیقی جذ با ت کا ترجما ن بنا تھا۔آصف علی زردا ری کی ساڑھے گیا رہ سالہ اسیری پر عدلیہ کے پاس اپنی صفا ئی میں کہنے کو کچھ نہیں ہے آصف علی زرداری کی بے گنا ہی عدلیہ کی بے حسی کی داستان بیا ن کر رہی ہے اور چیخ چیخ کر عدلیہ سے سوال کر رہی ہے کہ مجھے گیا رہ سالو ں تک جیل کی سلا خو ں کے پیچھے بلا جواز کیو ں رکھا گیا تھا کیا تھا میرا جرم کیا تھا میرا گناہ۔ کو ئی ہے جو میرے ساڑ ھے گیا رہ سال مجھے وا پس لو ٹا سکے لیکن خا مو شی کے سوا کچھ بھی ہا تھ نہیں آ تامحوِ حیرت ہو ں کہ ایک جما عت کے سا تھ اتنا کچھ ہو جانے کے با وجو د عدا لتِ عظمی کے کسی ایک جج نے بھی استعفی نہیں دیا تھا آئین و قا نو ن کی پا ما لی پر کسی ایک جج نے بھی علمِ بغا وت بلند نہیں کیاتھا ۔پی پی پی کی قیا د ت مصلو ب ہو تی رہی ۔ پا بندِ سلا سل ہو تی رہی ۔ جلا وطن ہو تی رہی ۔ قربان ہو تی رہی اور اپنا لہو لٹا تی رہی لیکن عدا لتِ عظمی کے معزز ججز کی روش میں قطعاٰ کو ئی فرق نہ آیا ۔ جیلیں کو ڑے پھا نسیا ں جیا لو ں کا مقدر بنتی رہیں لیکن عدا لتو ں کے جج پھر بھی معتبر ٹھہرے ۔ کو ئی ہے جو انصا ف کی دیوی کا دا من پکڑ کر مسندِ عدل پر بیٹھے ہوئے معزز ججز کے محا سبے کا مطا لبہ کر سکے جنھو ں نے آمریت کو مضبو ط کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔آئینِ پا کستان سے بے وفا ئی کی تھی ۔ منتخب قیا دت سے بے وفا ئی کی تھی اور اپنی دھر تی سے بے وفا ئی کی تھی۔ وقت آگیا ہے کہ دودھ کا دادھ اور پا نی کا پا نی ہو جا ئے اور قوم عدا لتِ عظمی کے ان سارے فیصلو ں سے اگا ہ ہو سکے جن پر ابھی تک مفا دات اور تقدس کے دبیز نپردے پڑے ہو ئے ہیں۔۔








 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team