اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:-                        tariq@albahar.ae 

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت01-02-2010

روا ئیت

کالم:۔ طا رق حسین بٹ


حضرت عیسی کا یہ فرمانا تھا کہ مجھے پہلا پتھر وہ مارے جس نے خو د کو ئی گنا ہ نہ کیا ہو سنگ با رو ں کے اٹھے ہو ئے ہا تھو ںسے سا رے پتھر زمین پر گر گئے کیو نکہ سنگ با ری کے لئے اس طرح کے نیکو کار لو گو ں کا ملنا نا ممکنا ت میں سے ہو تا ہے ۔سنگ با ری تو بڑی دور کی بات ہے ایسے لو گ تو کسی پر زیا دتی کے تصور سے ہی کا نپ جا تے ہیں وہ تو دنیا کے جھمیلو ں سے بہت دور رہ کر ما لکِ ار ض و سماءسے ہمہ وقت اپنے گنا ہو ں کی معا فی کے لئے محوِ منا جات رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ منصور حلا ج کو جب انا ا لحق کے نعرہِ مستانہ پر پھا نسی کی سزا سنا ئی گئی تھی تو سزا کے اس عدیم ا لنظیرمنظر کو دیکھنے کے لئے لا کھو ں لوگ اس میدان میں جمع ہو گئے تھے جہا ں پر تعمیلِ ِ ِ حکم ہو نی تھی مجمع متضاد کیفیات کا حامل تھا کچھ لوگ غصے کی کیفیت میں تھے کچھ رو رہے تھے کچھ خو ش تھے اور کچھ خو فز دہ تھے لیکن وہ لوگ جو جذبا تی کیفیت کے عا مل تھے انھو ں نے غصے میں منصو ر پر سنگ باری شرع کر دی تھی لیکن منصور بڑی ہمت اور جوا نمردی سے ان کی سنگ باری کو بردا شت کر رہا تھا۔ وہ لہو میں نہا رہا تھا لیکن انا ا لحق کے نعرہ مستانہ کی مستی سے خو د میں نئی قوت اور توا نائی محسوس کر رہا تھا لہذا وہ سنگ باری کی آ زما ئیش میںبھی قد آور بن کر کھڑا تھا اور انا ا لحق کے نعرے پر اپنی جا ن کو قربا ن کر دینا سعا د تِ دین و دنیا سمجھ رہا تھا۔ اپنے نظر یا ت پر سمجھو تہ کرنے سے انکار کر کے وہ ا بدیت سے ہمکنار ہو گیا اور حریت پسندو ں کے لئے ایک ایسی علا مت بن گیا جسے مٹا نا کسی کے بس میں نہیں۔ کہتے ہیں سنگ و خشت کی با رش میں منصو ر کے دو ست شبلی نے ہجو م کی روش کا ساتھ دینے کے لئے ایک چھو ٹی سی کنکری اٹھا کر منصور کو ما ر ی تو منصور درد سے بلبلا اٹھا لو گو ں نے کہا منصور پتھرو ں پر ہستے رہے لیکن کنکری پر چیخ ا ٹھے آ خر اس کی وجہ کیا ہے ۔ فرما یا سنگ باروں کو سچا ئی کا علم نہیں لیکن شبلی کو توسچا ئی کا علم ہے پھریہ کیو ں کر ان لو گو ں میں شا مل ہو گیا جوعدمِ حقیقت کی بنا پر سنگ باری کر ر ہے ہیں۔ یا د رکھو دوست کا پھو ل دشمن کے پتھر سے سخت تر ہو تا ہے۔ سن لو جوا نمر دو ں کی معرا ج سو لی پر ہے سسرخ ہو کر جا رہا ہوں کہ مردو ں کا حقیقی وضو خون سے ہی ہو تا ہے۔ لو گو تمھیں کیا خبر کہ ایک نما ز ایسی بھی ہے جس کی دو رکعتو ں کا وضو صرف خون سے ہی کیا جا تا ہے اور جو اس وضو سے فیضیا ب ہو جا تاہے اس کی کیفیا ت کو بیان کرنا کسی دوسر ے انسان کے لئے ممکن نہیں ہو تااور میںاس وقت اسی کیفیت کا اسیر ہوںجسے صر ف ا ہلِ عشق ہی سمجھ سکتے ہیں۔ایک جہا ن وہ ہے جو دار سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور میں اسی کے مشا ہدے میں مست ہو ں۔
ہر ا نسا ن کی زند گی میں چند لمحے ایسے آتے ہیں جب ا سے اصول اور زندگی میں سے کسی ایک چیز کا انتخا ب کرنا ہو تا ہے یہ لمحے ذو لفقار علی بھٹو پر بھی آئے تھے لیکن اس نے زندگی کی بجائے اصو لو ں کی خا طر مو ت کو گلے لگا کر ایک اچھو تی مثا ل قائم کر دی تھی عوام کے مینڈیت اور آئین کے تقدس کی ذمہ داری کو اس نے جس جو ا نمر دی سے نبھا یا تھا اس نے سب کو حیران کر دیا تھا اور س کی یہی ادا ئے ناز تھی جس نے اسے زند ہ و جا وید بنا رکھا ہے ۔ ذو لفقار علی بھٹواب نا م نہیں بلکہ علا مت ہے استعا رہ ہے جر ات کا، ہمت کا،حریت کا، غیرت کا ، صدا قت اورشجا عت کا۔ خو ش قسمت ہیں وہ لوگ جن پر آزما ئیش کی ایسی جان لیوا گھڑیا ں آتی ہیں اور وہ ان گھڑ یو ں میں سے کا میا ب و کا مران گزر کر ضمیرِ کا ئنا ت کو زندہ کر جا تے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان لمحو ں میں فکری سوچ کی سچا ئی ہی انہیںامربنا دیتی ہے وگرنہ وہ بھی ہم جیسے انسان ہو تے ہیں۔ مٹی کے پتلے۔ مرجانے وا لے۔ فنا ہو جانے والے خاک ہو جانے والے۔ یہ تو سچا ئی کی خا طر مرجا نے کی ادا ہے جو انھیں اعلی و ارفع مقام عطا کر کے غیر فا نی بنا دیتی ہے ۔
ا بھی تو کل کی با ت ہے ایک عدا لتی دربار لگا تھا اور ایک منتخب وزیرِ اعظم نے سرِ دار خو ن سے وضو کی رو ا ئیت کوبڑی جو ا نمردی سے نبھایاتھا اور آج ایک د فعہ پھر دربار سجا یا جا رہا ہے اور اسی جما عت کے قائد کو نشا نہ بنانے کی کو شش ہو رہی ہے لیکن دربار سجا نے وا لے بھو ل گئے ہیں کہ آج ہم ۰۱ ۰ ۲ میں ہیں لہذا دربا ری سازشیں کامیاب نہیں ہو سکتیںبا عثِ حیرت ہے کہ وہ لو گ جو مارشل لاﺅں کے دست و بازو تھے آ ج ان لو گو ں کو آئین و جمہو ریت کا سبق پڑھا نے کی کو شش کر رہے ہیں جن کے قا ئیدین نے آئین کے تقدس کی خا طر اپنی جا نو ں کا نذرا نہ پیش کیا تھا۔بات اصول کی ہے کہ اس ملک پر اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ عوام کی منتخب پارلیمنٹ حکو مت کرے گی اور جو کو ئی بھی اس اصول کی خا طر ڈٹ جا ئے گا محبو بِ خلا ئق بن جا ئے گا ۔ ایک وقت تھا کہ شب خو ن طا لع آزما جرنیل مارا کرتے تھے لیکن اب بدلتے ہو ئے حا لات کے مطا بق یہ ذمہ داری کسی اور ادارے کو سو نپ دی گئی ہے کہ وہ فوج کی مد ا خلت کا جواز پیدا کرے اور جمہو ری بساط کو لپیٹ دینے کا اہتمام کرے لیکن سا زشیں کرنے والوں کوذلت و رسوا ئی کاسامنا کرنا پڑے گا۔
۲۱ اکتو بر ۹۹۹۱ کو جنرل پر ویز مشرف نے میا ں محمد نواز شریف کی آئینی حکو مت کو ختم کر کے ملک پر مارشل لاءنافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ سپریم کو رٹ کے ججز نے اس شب خو ن کو جا ئز قرار دیا تھا اور مارشل لا ءکے دست و با زو بنے تھے جو آئین سے بغا وت کے زمرے میں آتاہے۔ اگر ۳ نو مبر کی ایمرجنسی کا نفاز آئین سے ما ورا اقدام تھا اور عدا لتِ عظمی اس ما ورائے آئینی اقدام کو جائز قرار دینے والے ججزکے فیصلے کو کا لعدم قرار دے کر انھیں تو ہینِ عدا لت کا نو ٹس بجھو ا سکتی ہے تو پھر حکو متِ وقت بھی ان تما م ججز کو جنھو ں نے (۷۷۹۱۔۹۹۹۱) کے ما رشل لا ﺅ ں کو جائیز قرار دیا تھا سبکد وش کر کے ان پر آئین سے غداری کا مقد مہ قا ئم کر سکتی ہے مو جو دہ پی سی او ججز کی حما ئیت میں جو دلیل دی جا تی ہے وہ یہ ہے کہ وہ تمام ججز جنھو ں نے ۳ نو مبر کو پی سی او کے تحت حلف اٹھا نے سے انکار کر دیا تھا ان کے اس سے قبل پی سی او کے تحت اٹھا ئے گے سارے حلف جائیز ہو گئے تھے کہ انھو ں نے ایک آمر کو للکار کر اپنے پرانے داغ دھو ڈ الے تھے اگر ہم اس خا ص نقطئہ نظر کو قبو ل کر لیں تو پھر میری ان دو ستوں کی خدمت میں گزا رش ہے کہ پی سی او ججزنے تو صر ف حلف اٹھا نے سے انکار کیا تھا لیکن آصف علی زرداری نے تو ساڑھے گیا رہ سال آمریت کی جیلو ں کی صعو بتو ں کو بردا شت کیا ہے کیا داغ دھو نے کے فلسفے کا اطلاق ان کی ذا ت پر نہیں ہو تااور اگر ہو تا ہے تو پھر یہ ہنگا مہ آرا ئی کیو ں۔ آصف علی زردا ری نے جھو ٹے الزا مات کے داغ دھو نے اور اپنی بے گنا ہی ثا بت کر نے کے لئے اپنی جوا نی کا خراج دیا ہے لہذا پی سی او ججزپر بھی لا زم ہے کہ وہ مار شل لا ﺅ ںکو جا ئیز قرار دینے ،آئینی حکو متو ں کو گرانے اور مننتحب وزیرِ اعظم کو پھا نسی دینے جیسے غیر آئینی فیصلوں کے نتا ئج کا سامنا کر نے کے لیے تیا ر ہو جا ئیں کہ دا غ دھو نے کا یہی قا نو نی، آئینی اور اخلا قی ر ا ستہ ہے۔
مجھے اٹل یقین ہے کہ سپریم کو رٹ کے حا لیہ فیصلے اور میثا قِ جمہو ریت کی رو شنی میں پی سی او ججز کو عدا لتو ں سے فا رغ کر نے او ر ان کے ٹرا ئیل کے علا وہ صدرِ مملکت کے پا س کو ئی دوسرا را ستہ نہیں ہے۔ صدرِ مملکت کو آئین کے تحفظ،جمہو ریت کے استحکا م ،اور پا لیمنےٹ کی بالا دستی کے لئے یہ فیصلہ ہر حا ل میں کر نا ہو گا ا اور پھر اگر کوئی جر نیل ججز کی مدد کو آتا ہے تو اسے آنے د یجئے فو جی جنتا پر آئینی حکو مت کے معا ملات میں مدا خلت کا الزام لگنے دیجئے شب خو ن ما رنے کا جواز پیدا کرنے دیجئے عدا لتو ں کو انھیں جا ئز قرار دینے کا اعلان کر نے دیجئے اور یو ں سب کے اصلی چہر و ں کو بے نقا ب ہو نے دیجئے۔یقین کیجئے جو کو ئی بھی حکو مت اور پا لیمنٹ کے درمیان آئے گا خود ہی ملیا میٹ ہو جا ئے گا۔ ۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ طبلِ جنگ بج چکا ہے غیر جمہو ری قوتیں الزا مات کا راگ الاپ کر ،سا زشو ں کا جال بچھا کر جمہو ریت کی بساط الٹنے اور شب خو ن کے لئے پو را جتن کر رہی ہیں۔ آزما ئیش کی اس گھڑی میں پو ری قوم پی پی پی کی جا نب دیکھ رہی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر طا لع آزما ﺅ ں اور مہم جو ﺅ ں کے خلاف تا ریخی اقدا مات سے جمہو ر یت کی خفا ظت کا فریضہ سر انجام دے اور اگر اس کارِ خیر میں سرِ دار لہو سے وضو کی رو ائیت نبھا نے کا مر حلہ بھی آجا ئے تو وہ منصور ، بھٹو اور بی بی شہید کی طرح اسے نبھا ئے کہ جا ودا نی ایسے ہی تو ہا تھ نہیں آ جا یا کرتی بقولِ اقبال
گما ں مبر کہ بے پا یا ں رسید کا رِ مغا ں ۔۔۔۔۔ہزار با دہء نا خو ردہ در رگِ تا ک است

 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team