اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:- 

Telephone:-         

 

 

تاریخ اشاعت26-01-2009

تو ا نا آواز

کالم:۔ طا رق حسین بٹ

 
شیخ رشید احمد پاکستان کے نا می گرا می اور ہر دلعز یز سیا ست دان ہی نہیں بلکہ را و لپنڈ ی کی پہچان اور اس کی شا ن بھی ہیں۔فر وری۸۰۰۲ کے ا نتخا بات میں شکستِ فا ش سے دو چا ر ہو نے کے بعد میاں برادران کے سا منے خم ٹھو نک کر نکل آنا شیخ رشید احمد جیسے با جرا ت سیا ست دان کا کما ل ہی ہو سکتا ہے۔ شیخ رشید احمد کے عوا می انداز نے این اے ۵۵ کے انتخا بات کی شہرت کو پو ری دنیا میں پھیلا دیا تھا اورپوری قوم کوا لیکشن فو بیا میں مبتلا کر دیا تھا۔ این اے ۵۵ میں مسلم لیگ( ن) کی سیاست بری طرح سے دا ﺅ پر لگ گئی تھی جس کا سب سے بڑا ثبو ت یہ ہے کہ میاں محمد نواز شر یف کو خود ریلی کے لئے این اے ۵۵ میں جا نا پڑا تا کہ شکست کے دا غ سے بچا جا سکے شیخ رشید احمد پر قا تلا نہ حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھاجس نے کچھ لو گو ں کی بھو کھلاہٹ کا بھا نڈا بیچ چو را ہے میں پھو ڑ دیا ۔ قا تلا نہ حملے نے جہان الیکشن میں گرما گرمی کا ما حول پیدا کیا تھا وہا ں پر شیخ رشید احمدکے لئے ہمدردی کی ایک لہر بھی پیدا کر دی تھی جومسلم لیگ( ن) کے لئے متوا تر دردِ سر بنی رہی۔ مسلم لیگ( ن) اس حملے کی مختلف تا ویلیں پیش کرتی رہی لیکن ا س کی کسی بھی دلیل میں کو ئی منطق اور سچا ئی نہیں تھی جس کا بھر پور فاید ہ شیخ رشید احمد نے اٹھا یا اوراپنے لہو سے جمہو ریت کے پو دے کو پر وان چڑ ھا نے کا اعلان کر دیا۔ وہ ہر جلسے میں اعلان کرتا تھا کہ میں سر پر کفن با ندھ کر نکلا ہوں اور اگر مجھے جمہو ر یت کی اس جنگ میں موت بھی آجائے تو میر ی قبر پر آکر قلم دوات پر مہر لگا نا۔ بی بی جمہو ریت کی خا طر شہید ہو گئی ہے میں بھی اگر اسی را ہ پر شہید ہو گیا تو یہ کو ئی بڑی با ت نہیں ہو گی لیکن میں میاں براد ران کی آمرا نہ سیاست کا تسلط ضرور تو ڑ وں گا اور فرعو نو ں کی فرعو نیت کو بے نقا ب کر کے چھو ڑ و ں گا۔پنجاب کے موجو دہ حکمرا نو ں کے خلاف اسکی جر ات مندا نہ للکا ر نے اس کی مقبو لیت میں اہم رول ادا کیا ہے کیو نکہ پنجاب کے لوگ با جرات لو گو ں کو پسند کرتے ہیں۔
اس انتخا ب کا اہم نکتہ یہ ہے کہ جب میاں محمد نواز شریف نے آخری ر یلی سے خطا ب کیا تو شیخ رشید احمد پر آمریت کا سا تھ دینے کا الزام لگا یا۔ جمہو ریت کو نقصان پہنچا نے اور انھیں پھا نسی لگا نے کے لئے راہ ہموار کرنے کی سا زش کا الزام لگا یا اور ایسا الزام لگا تے وقت انھیں شا ید اتنا بھی یاد نہیں رہا تھا کہ یہ سب کچھ تو انھوں نے خود بھی کیا ہو ا تھا جنرل ضیا ا لحق کے منہ بو لے بیٹے بن کر ذو لفقار علی بھٹو کو پھا نسی گھا ٹ تک لے جانے میں میاں صاحب بھی برا بر کے شریک ہیں اور پھر گیا رہ سال تک جیا لو ں پر ظلم و ستم کے پہا ڑ تو ڑ نے میں وہ بڑی شہر ت رکھ تے ہیں ۔جیا لو ں کو چن چن کر تشد د کا نشانہ بنا نے میں ان کا بڑا اہم رول تھا تا کہ ان کے آقا و مو لا جنرل صا حب کی با دشا ہت میں کو ئی خلل وا قع نہ ہو نے پا ئے ۔
میا ں برا دران کی سیاست ہمیشہ سے انتظا میہ کی بیسا کھیو ں پر چلتی رہی ہے حا لیہ انتخاب میں جس طرح انتظا میہ نے مسلم لیگ( ن)کے امید وار کی جیت کے لئے کام کیا وہ سب پر عیا ں ہے۔پو لیس کی پشت پنا ہی اور حکو متی فنڈز کے بے دریغ استعمال نے مسلم لیگ( ن) کو سہار ا دیا وگرنہ شیخ رشید احمدنے تو ان کا کام تما م کر دیا تھا۔انتظا می مشینری کو ذا تی مقا صد کے لئے استعمال کرنا الیکشن کمیشن کے قوا نین کی صریح خلاف ورزی ہے لیکن میا ں صا حب کے خلاف قا نو ن حرکت میں نہیں آ سکتا کیو نکہ عدلیہ ان کے من پسند ججو ں سے بھری پڑی ہے جن کا وا حد مقصد میا ں براد را ن کو تخفظ فرا ہم کرنا ہے اقتد ار کے نشے میں میا ں صا حب کو کچھ بھی یا د نہیں رہا انھیں یا د رکھنا چا ئیے کہ کبھی ایسا وقت بھی آ سکتا ہے جب ان کے پاس اقتدار نہیں ہو گااور اسٹیبلشمنٹ کی پشت پنا ہی بھی ھا صل نہیں ہو گی اس وقت ان کا حشر وہی ہو گا جو ۲۰۰۲ کے انتحا بات میں ہوا تھا لہذا انھیں اوچھے ہتھکنڈو ں سے ا حتر از کی اچھی روا ئیت قا ئم کرنی چا ئیے تا کہ کل کو اگر انھیں بھی اپو ز یشن میں بیٹھ کر انتخاب لڑنا پڑے تو انھیں کو ئی شکا ئیت پیدا نہ ہو سکے ۔
این اے ۵۵ میں جما عت اسلامی اور تحریکِ انصا ف کا کردار بھی بڑا معنی خیز ہے۔اس حلقے میں جما ت کا اچھا خا صہ ووٹ بینک ہے لیکن خفیہ ہا تھو ں کی جا دو گری سے جما عت کا ووٹ بھی مسلم لیگ( ن) کے امید وار کے ہاتھ لگا۔ این اے ۵۵ میں مسلم لیگ( ن) شیخ رشید احمد سے اتنی خو ف زدہ تھی کہ اس نے اپنی جیت کے لئے ہر جا ئز و نا جا ئز حربہ استعمال کیا اور یہ اسی خو ف کا اثر ہے کہ مسلم لیگ( ن) نے آخری وقت میں جما عت اسلا می سے سو دے با زی کر کے ان کا ووٹ بھی ہتھیا لیا۔تحریکِ انصا ف کے راہنما عمران خان جو رگیں پھلا پھلا کر گفتگو کرنے میں اپنا ثا نی نہیں رکھتے اس بری طرح سے بے نقاب ہو ئے ہیں کہ ان کے لئے اپنا دفا ع کرنا انتہا ئی مشکل ہے۔ وہ میاں صاحب کی بی ٹیم ہے لیکن این اے ۵۵ میں عوام نے انھیں جس بری طرح سے ٹھکر ا یا ہے وہ ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ پی پی پی کی مخا لفت ا ن کی گھٹی میں پڑی ہو ئی ہے ور وہ پی پی پی کی مخا لفت میں ہمیشہ یہ تا ثر دینے کی کو شش کر تے ہیں کہ وہ سترہ کروڑ پا کستا نیو ں کے وا حد نما ئیند ہ ہیں ان کے اس مبہو ت ا لحوا س طرزِ عمل کو عوام نے جس بری طرح سے مستر د کیا ہے اس کے پیشِ نظر ا نھیں اپنے اندا زِ سیا ست میں شا ئستگی پیدا کرنے کی ضرو رت ہے بلا وجہ تنقید فا ئدے کی بجا ئے نقصان کا مو جب بنتی ہے اور حا لیہ الیکشن نے یہی ثا بت کیا ہے۔ ان کے استدلال کو اگر عوام نے مسترد کر دیا ہے تو انھیں اپنی حکمتِ عملی کو از سرِ نو تر تیب دینا ہو گا جو عوامی امنگو ں کی ترجمان ہو۔ سیاست گلہ پھا ڑنے سے نہیں بلکہ نظریات سے چلتی ہے اور عمران خان کے پاس نظریات کی بجا ئے بے سرو پا تنقید ہے جس سے نہ تو عوام کے مسا ئل حل کئے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔
ٹی وی اینکرز کے لئے بھی یہ الیکشن ایک چیلنج بن کر سا منے آیا ہے۔ من پسند افراد کا دفا ع کرنا اور مخا لفین کو ایکسپو ز کر نے کی جانبد ارانہ روش کا خا تمہ ضروری ہے اگر شیخ رشید احمد نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے بارے میں نا زیبا الفاظ ا ستعما ل کئے تھے تو میا ں برادران نے بھی تو شہید بی بی کے خلاف انتقام کی ساری حدیں عبور کی ہو ئی تھیں ۔ انصاف کا تقا ضہ تو یہی تھا کہ پی پی پی کی ہمدردی حا صل کر نے کےلئے دو نو ں جما عتو ں کا ما ضی وو ٹر ز کے سا منے رکھ دیا جا تا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک اینکر نے عوا می جما عت کے شیخ رشید احمد کے پی پی پی مخا لفا نہ بیا نات کو ٹی وی پر دکھا کر پی پی پی کے وو ٹر ز کو شیخ رشید احمد سے دور کرنے کی کو شش کی جو صحا فتی ادا ب کے خلاف ہے اسے نمک حلالی تو کہا جا سکتا ہے صحا فت ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔
این اے ۵۵ کے بعد این اے ۳۲۱ میں بھی انتخا بات ہو نےوا لے ہیں لہذا ان انتخا بات کی تیا ری بھی این اے ۵۵ کے ساتھ ہی شر و ع ہو گئی ہے ۔ مسلم لیگ( ن) کی مقبو لیت کو شیخ رشید احمد نے جس زبر دست طریقے سے چیلنج کیا ہے اس نے شیخ رشید احمدکو بے پناہ مقبو لیت عطا کر دی ہے شیخ رشید احمد میا ں بردرا ن کی بلیک میلنگ اور منفی سیا ست کے خلاف ایک توا نا آواز بن کر ابھرے ہیں انھیں اپنی اس آواز کو پو ر ے ملک میں لے کر جا نا ہو گا ۔ عوام اس آواز کا ساتھ دینا چا ہتے ہیں اور میاں برادران کی انتقا می سیا ست سے چھٹکا را چا ہتے ہیں۔ ترقی پسند سیاسی جما عتو ں کا فرض ہے کہ وہ شیخ رشید احمد کا ساتھ دیں تا کہ پنجاب سے آمرا نہ طرزِ حکو مت کا خا تمہ کیا جا سکے۔ شیخ صا ب یقین کیجئے یہ آپ کی شکست نہیں بلک آ پ کی اس فتح کا پہلا باب ہے جو میا ں برادرا ن کی آمرا نہ سیا ست کو پا مال کرنے کی مکمل صلا حیت رکھتا ہے۔

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team