بڑی مشہور کہا وت ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچا نا جا تا ہے۔ کسی
انسان کی شخصیت کو جا ننا مقصو د ہو تو اس شخص کے دو ستو ں کی فہر ست
مر تب کر لیجئے ہر چیز با لکل نکھر کر سا منے آجا ئے گی اور اس شخصیت
کا مکمل پیکر عا دا ت و خصا ئل کے ساتھ آپ کی نگا ہو ں کے سا منے ہو گا۔
غا صب کا دوست غا صب شرا بی کا دوست ،شرا بی اور ولی کا دوست ولی ہوا
کرتا ہے۔ صحبتِ یا را ںکے دا ئرے میں کچھ عا دات اتنی پختہ ہو جاتی ہیں
کہ وہ انسا ن کی زندگی کا جزوِ لا ینفک بن جا تی ہیں جو ساری عمر اس کا
پیچھا کرتی ہیں اور جن سے وہ اپنی انتہا ئی کو شش کے با و جو د بھی دا
من نہیں چھڑا سکتامعا شرے کے رسم و رواج کے تسلسل سے عادا ت کے فلسفے
کو بخو بی سمجھا سکتا ہے جس طرح ر سم ورواج وقت کے بے رحم دھا رے کے با
وجود بھی اپنا وجود قا ئم رکھتے ہیں با لکل اسی طرح انسا نی عا دات بھی
نا مسا عد حا لات میں انسا ن کا دا من نہیں چھو ڑتیں بلکہ انسا ن سا ری
عمر اپنی عا دا ت کے ساتھ چمٹا رہتا ہے اور اس کے مظا ہر اس کے اعمال
سے اکثر و بیشتر جھلکتے رہتے ہیں۔ ہم جنس با ہم جنس کنند پروازاسی با
ہمی تعلق کی گہرا ئی کی اہمیت کو ثابت کر نے کا لئے کا فی ہے۔
اگر ہم اس فلسفے کا اطلاق پاکستانی سیا ست پر کرنے کی کو شش کریں تو
ہمیں جنرل ضیا ا لحق اور میا ں محمد نواز شریف تشدد اور سفا کیت کی راہ
پر یک جان دو قا لب نظر آتے ہیں۔ پا کستا ن کے سارے حکمر ا نو ں میں
جنرل ضیا ا لحق ہی اس ملک کا سب سے سفا ک اور بے رحم حکمران تھا اپنے
اقتدار کے دوام کی خا طر اس نے منتخب وزیرِ اعظم کو سزا ئے موت دینے کے
ساتھ ساتھ پی پی پی کے اسی ہزار سے ز ائد جیا لو ں پر کو ڑ ے بر سا ئے
تا کہ وہ جئے بھٹو کی صدا ئیں بلند کرنے سے با ز آجا ئیں لیکن اس کی یہ
آر زوتشنہِ تکمیل ہی رہی کیو نکہ جیا لوں نے اپنے قا ئد کی خا طر محبتو
ں کی نئی تا ریخ رقم کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھاجنرل کو ڑے بر سا تا رہا
جیا لے جئے بھٹو کا ورد کرتے رہے وہ ظلم کرتا رہا وہ محبتو ں کے دیپ
جلا تے رہے اور اپنے سینو ں کو وفا ﺅ ں کے تمغو ں سے سجا تے رہے سفا
کیت اور محبت کی اس عجیب و غریب جنگ میں جنرل صاحب کو ایک دن ہار جا نا
پڑا اور آخری جیت دل وا لو ں کا مقدر بنی کہ کہ ازل سے یہی ہو تا آیا
ہے اور ابد تک یہی ہو تا رہے گا وفا ئیں کبھی ہا ر نہیں سکتیں ظلم کبھی
جیت نہیں سکتااور سفا کیت کبھی بھی بر گ و بار پید ا نہیں کر سکتی۔
میا ں محمد نوا ز شریف نے اپنی سیا سی زندگی کا آغا زجنرل ضیا ا لحق کے
ما رشل لا سے کیا لہذا سفا کیت اور بے رحمی کے سارے ڈھنگ اور گر اپنے
پیر و مرشد سے سیکھ لئے مخا لفین کو زندہ در گور کر نا اور ان کا نا م
و نشا ن مٹا دینا ایک ایسا سیا سی نظریہ تھا جس پر جنرل ضیا ا لحق کے
اقتدار کی پر شکو ہ عما رت کھڑی تھی ۔اپنے مخا لفین کو ملیا میٹ کرنے
کا یہ زریں اصول میا ں صا حب نے اپنے پیرو مر شد سے لے کر تعو یذ کی
شکل میں اپنے گلے میں پہن لیا ااور مو قعہ بہ مو قعہ ا پنے اس سیا سی
فلسفے کا بھر پو ر اظہا ر بھی کیا۔آصف علی زردا ری کی گر فتا ری، جیا
لو ں پر تشد د ، جھو ٹے مقدمات کی بھر مار، کا نگر و کو رٹس کا قیام،
پی پی پی کے جلسے جلو سو ں پر آٓنسو گیس اور فا ئر نگ میاں صا حب کی
سیا سی حکو مت کے وہ تحا ئف ہیں جنھیں قوم ابھی تک بھو ل نہیں پا ئی
جنرل ضیا ا لحق فو ج کے جو انو ں سے اپنے مخا لفیں پر ظلم و ستم کے پہا
ڑ تو ڑتا تھا ، سرِ عام ٹکٹکی لگا کر بے گنا ہو ں ں کو سزا ئیں دیتا
تھا انھیں معا شرے میں ذلیل و رسوا کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کرتا تھا
میا ں برا دران نے وہی کام پو لیس سے لے رکھا ہے۔ ۷۷۹۱ سے پنجاب کی حکو
مت کبھی بھی پی پی پی کے حوا لے نہیں کی گئی لہذا پنجاب کی پو لیس میں
یا تو مسلم لیگ کے کارکن بھرتی ہیں یا بھر وہ مجرم بھرتی ہیںجو پی پی
پی کو دبا نے شرفا کی پگڑی اچھا لنے اور انھیں رسوا کر نے میں مہا رت
رکھتے ہیںمیا ں صاحب نے اپنے آقا و مو لا جنرل ضیا الحق کے ساتھ مل
کرجیا لو ں پر عرصہِ حیات تنگ کر دیا تھا اور انتہایہ تھی کہ کو ڑو ں
کی سزا ﺅ ں کے نفاذ کے وقت جیا لوں کے منہ کے سا منے لا ﺅ ڈ سپیکر رکھ
دیا کرتے تھے تاکہ ا ن کی چیخو ں سے دوسر سے لو گ خو فز د ہ ہو کر جئے
بھٹو کہنے سے با ز آ جا ئیںلیکن یہ سا رے ہتھکنڈے آزما نے کے با وجو د
بھی باپ بیٹا مل کر بھی اس محبت کو ختم نہ کر سکے جو پاکستان کے عوام
نے ذو لفقار علی بھٹو سے کی تھی۔ بقولِ غا لب
۔۔۔۔یہ نشا نِ عشق ہیں یو ں جا تے نہیں ۔۔۔داغ سینے کے عبث دھو تا ہے
کیا ۔۔۔۔
مسلم لیگ (ن) کی حا لت بڑی عجیب و غریب ہے کبھی اس کے ممبرا نِ اسمبلی
کے کریڈٹ کارڈ کا ا سکینڈل سا منے آتاہے کبھی جعلی ڈگری کا کیس سا منے
آتا ہے کبھی آبرو ریزی کا کیس سا منے آتا ہے کبھی را نا ثنا ا للہ کے
پلا زے کا سکینڈل سا منے آتا ہے اگر میں یہ کہو ں کہ مسلم لیگ (ن)
سکینڈل پار ٹی کا روپ اختیار کر چکی ہے تو بے جا نہ ہو گا این اے ۵۵ را
و لپنڈی کے الیکشن میں مخا لفین کے خلاف جس طرح ریا ستی طا قت کا مظا
ہرہ کیا گیا وہ ایک الگ کہا نی ہے۔ مخا لفیں کا قتل عام ، وفا دار یا ں
تبدیل کروا نے کی سا زش ،فنڈز کا بے دریغ استعمال،حکومتی مشینری کا بھر
پور استعما ل اور جھر لو کے فنکا رانہ انداز نے فری اینڈ فیر الیکشن پر
سوا لیہ نشان ڈا ل رکھا ہے اس روش کو رو کنے کی کو شش نہ کی گئی تو یہ
روش جمہو ریت کے لئے سوا لیہ نشا ن بن سکتی ہے جمہو ری کلچر میں دہشت
گردی کے عنصر کو شا مل کر سکتی ہے اور الیکشن کے تقدس کو پا ما ل کر
سکتی ہے لہذا حکو متی طاقت سے الیکشن جیتنے کی روا بئیت کا تدا رک اور
خا تمہ بہت ضرو ری ہے سیا سی افرا تفری کا یہ ما حو ل ابھی تھما نہیں
تھا کہ چنیو ٹ کے پو لیس تشدد کے واقعے نے پو رے پاکستان کو ہلا کر رکھ
دیا ہے سرِ عام مخا لفین کی چھتر و ل کرنا اور انھیں بے رحمی سے زدو کو
ب کرنا میا ں برا دران کی حکو مت کا ہی کار نامہ ہو سکتا ہے ایسے واقعا
ت صرف ایک شہر یا علا قے تک ہی محدود نہیں بلکہ پو را پنجاب ایسے وا
قعا ت کی شر م نا ک تصویر بنا ہو ا ہے پا کستان کا نام پو ری دنیا میں
رسوا ہو رہا ہے ۔ اہلِ وطن شر مندگی سے مہذ ب اقوام کے شہر یو ں کا سا
منا کر نے سے قا صر ہیں لیکن خا دمِ اعلی کسی کو بھی صو بے میں عزت اور
چین سے زندہ رہنے کا حق دینے کو تیا ر نہیں ہیں ا سٹیبلشمنٹ اور بیو و
کریسی پو ری طرح میاں برا دران کے ساتھ ہے اور ان کے مظا لم میں برا بر
کی شریک ہے۔ پو را پاکستان دم بخو د ہے کہ یہ کیسی پو لیس ہے جو میا ں
برا دران نے پنجا ب کے عوام پربے رحم حکمرا نی کے لئے تشکیل دے رکھی ہے۔
رہی سہی کسر جہلم سے ۵ سا لہ طا ہر نقا ش کے اغوا نے پو ری کر دی
ہے۔معصوم بچے کے اغوا سے اس کے وا لدین پر جو کچھ گزر رہی ہے اس کے
تصور سے روح کا نپ جا تی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چو ہد ری
نے بجا فرما یا ہے کہ پنجاب میں جنگل کا قا تو ن نا فذ ہے جب یہی با ت
پنجاب کے گو رنر سلمان تا ثیر کہہ رہے تھے تو کا ن پر جو ں نہیں رینگ
رہی تھی بلکہ الٹا انھیں مو ردِ الزام ٹھہرا یا جا رہا تھا کہ وہ پنجا
ب کی حکو مت کو غیر مستحکم کر رہا ہے لیکن الزام لگا نے سے سچ کو چھپا
یا نہیں جا سکتا اور پھر سچ اس شدت سے ابھرا ہے کہ سارا پاکستا ن لرز ا
ٹھا ہے ۔
در ھم ودینار کے انجکشن شدہ صحا فی میا ںشہبا ز شریف کے طر زِ حکمرا نی
کے گن گا تے نہیں تھکتے تھے جبکہ آج ان کی حکمرا نی کا سا را پول کھل
چکا ہے جو ان کی نا کا میو ں کا منہ بو لتا ثبو ت ہے اگریہی معیا
رِِحکمرا نی ہے تو پھر پنجاب کا اللہ ہی حافظ ہے۔پنجاب پانچ دریا وو ں
کی دھر تی ہے۔ یہ صو فیا کا مسکن ہے یہ آزا دی کی جنگ لڑنے وا لو ں کا
وطن ہے ،یہ محبت کے گیت گا نے وا لو ں کا گہوا رہ ہے،یہ بہا درو ں کی
سر زمین ہے ، یہ بابا بھلے شاہ،داتا گنج بخش،بابا فرید شکر گنج، میا ں
محمد، شا ہ حسین اور سلطان با ھو کے صوفیا نہ افکار سے سجی ہو ئی دھر
تی ہے، یہ د لا بھٹی ا حمد خا ن کھرل اور نظا م لو ہار جیسے سو ر ما ﺅں
کی للکار ہے ، یہ عا شقِ رسول غا زی علم دین شہید کے عشق کا نو ر ہے ،
یہ خو دی کا گیت گا نے وا لے اقبا ل کی نوا ہے یہ محبت وفا ا اور انا
کی خا طر جان کی با زی لگا نے والے حریت پسند و ں کی غیرت ہے یہ را
نجھے اور مہینوال کی سدا بہا ر محبتو ں کا حسن ہے لیکن آج ظلم کے سو دا
گر اس دھرتی کے ما تھے پر سفا کیت اور بے رحمی کا ٹھپہ لگا کر اسے پو
ری دنیا میں رسوا اور بدنا م کر رہے ہیں ۔ میاں صا حب حکمرا نی آپ کے
بس کی با ت نہیں ہے آپ مستعفی ہو کر کسی ا یسے
مردِ دا نا کو اس مسند پر بیٹھنے کا مو قع فرا ہم کیجئے جو وزا ر تِ
اعلی کے منصب سے انصاف کر سکے محبتو ں کی شمع روشن کر سکے اور پنجا ب
کی پیشا نی پر لگے ہو ئے سفا کیت کے بد نماداغ دھو سکے۔۔۔۔
|