اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

Email:- 

Telephone:-         

 

 طا رق حسین بٹ

چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فو رم ۔۔جنرل سیکر ٹری ہیو من را ئٹس مڈل ایسٹ

تاریخ اشاعت23-03-2009

۔۔۔اوجِ دار۔۔۔

کالمطا رق حسین بٹ

میرے لئے یہ بڑ ے اعزا ز کی با ت ہے کہ مجھے ڈا کٹر مسعو د جعفری کی کتاب اوجِ دار پر اظہارِ خیا ل کی دعوت دی گئی ہے۔ بنیا دی طور پر شعر کا تعلق جما لیا تی حس،حسنِ بیا ن، لطا فت، فنی موشگا فیو ںاور دلکشی سے ہو تا ہے لہذا اس پر تبصرہ کرنا یا اسے الفا ظ کا جامہ پہنا نابڑا مشکل کا م ہو تا ہے لیکن اگر بات کسی ایسی ہمہ جہت شخصیت کی ہوجو بیک وقت ادیب، شاعر اور فلسفی ہو تو اسے ایک کا لم کے اندر سمو نا جو ئے شیرلا نے کے متر ا د ف ہو تا ہے ڈا کٹر صا حب کا تعلق وا د یِ کشمیر کی ریا ست پو نچھ سے ہے جو سدا سے حریت و آزا دی کی علامت رہی ہے لہذا حریت و جا نبا زی کا اظہار ڈ ا کٹر صا حب کی شا عری میں جا بجا جلوہ افروزہے۔ ذو لفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈا کٹر صا حب کی شناسا ئی اور قربت ان کے اشعا رکو جرا ت مندانہ زبان عطا کرتی، حر یتِ فکر کے جذبو ں کوآشکار کرتی اور حق کی حا طر اوجِ دار جھول جانے کا عزم عطا کرتی ہے۔ کتاب کا نام اوجِ دار بھی ڈا کٹر صا حب کی ان دو عظیم شخصیتو ں سے محبت کی عمیقیت کا وا ضح ثبو ت ہے یہی وجہ ہے کہ انکی شا عری کے اندربسا لتو ں کی للکار کا احسا س ایک ایک شعر سے جھلکتا ہے۔
میخا نے سے مقتل کی طرف جا ئیں گے ہم لو گ۔۔احساس کے شعلو ں کو بھی بھڑکا ئیں گے ہم لو گ
جس شخص کو دیکھو وہ ہے فرعو نِ زما نہ ۔۔۔ ۔۔انسان کی عظمت کو بھی منوا ئیں گے ہم لو گ
انسان کی قسم تجھ کو انسا ن کا بھرم رکھنا ۔۔۔۔۔۔ اے اہلِ قلم روشن تم شمع قلم رکھنا
بت ٹوٹ کے گر جا ئیں گے یہ معجزہ بھی ہو گا ۔۔۔ اصنام کے آگے تم بس میری قسم رکھنا
نظا مِ ظلم کا سو رج تو ڈ ھلنے وا لا ہے ۔۔۔ مہِ منیرِ بغا وت نکلنے وا لا ہے
یہ میرے ہا تھو ں کی ز نجیر کہہ رہی ہے ۔۔ تمہا رے جبر کا لو ہا پگھلنے وا لا ہے
اس میں شک و شبہ کی مطلق کو ئی گنجا ئش نہیں کہ اوجِ دار پر نعر ہ زن ہو نے وا لی ہستیو ں کی آواز فضا ﺅ ں میں ہمیشہ سچا ئی کی نقیب بن کر زند ہ رہتی ہے ۔اس آ واز کے سا منے وقت کی کو ئی قید نہیں ہو تی ۔یہ زمان و مکا ن کی ساری سر حدو ں سے بلند اور ماورا ہو کر اپنا سفر جا ری رکھتی ہے اور ہلِ درد کے سینے کو چیرتی ہو ئی دلِ عا شق میں پیو ست ہو جا تی ہے یہ عشق کا علم بلند کر تی ،آفا قیت کی آب یا ری کر تی ، اسے پر وان چڑ ھا تی اورپھر اسی کی خا طر ہر متاع کو قربان کر دیتی ہے۔ منصور حلاج نے سرِدار انا ا لحق کا جو نعرہ بلند کیا تھا وقت کا جبر بھی اس کے نعرے کی عظمت کو ماندنہ کر سکا اس کے عشق کو کم نہ کر سکا اور اسکی محبو بیت کو گہنا نہ سکا صدیا ں گز ر جانے کے با وجود منصور حلاج آ ج بھی لاکھو ں دلو ں کے اندر محبو بیت کی ایسی مسند پر جلو ہ افروز ہے جسے کبھی زوال نہیں اور انتہا تو د یکھئیے کہ علامہ اقبال جیسا آفا قی شا عر بھی نو ا حِ حلاج لکھ کر منصور حلاج سے اپنی محبت کو رقم کرتا ہے جبکہ ڈا کٹر مسعود جعفری جیسا ادیب شا عرواور فلسفی اوجِ دار تخلیق کر کے منصور حلاج کی عظمتو ں کی نغمہ سرا ئی کرتا ہو ا نظر ّتا ہے۔ جعفری صاحب کے اشعار میں جو شعلہَ عشق مو جزن ہے وہ کبھی دھیما نہیں ہو تا، کبھی سر د نہیں ہو تا اور نہ ہی اس کی تپش کبھی کم ہو تی ہے بلکہ یہ موا نعا تِ زما نہ سے جلا پا کر ایک ایسے شعلے کا روپ اختیار کر لیتا ہے جو نفر ت ، عدا و ت حسد اور بغض کو بھسم کر دیتا ہے زمین و آسمانِ مستعار کو پھو نک ڈ التا ہے او ر ا نسا نی خاکستر سے نیا جہان پیدا کرکے جذبہِ ِ ِ خو دی کی نمو د کر تا، انسانی ذات کو غیر فا نی بنا تا اور اسے ابدیت سے ہمکنا ر کرنے کا معجزہ سر انجا م دیتا ہے۔
میرے بغیر کو ن تھا منصو رِ عصرِ نو ۔۔۔۔ رسمِ وفا کا اور طرف دار کو ن تھا
بھٹکا ہو ا تھا قا فلہ صحرا ئے درد میں ۔۔۔ دیکھو ذرا تو قا فلہ سا لار کو ن تھا
منصور بھی ہما رے ہی مسلک کا فرد تھا ۔۔۔ عز ت ہمارے وا سطے ہے دار اور رسن
میں نے کبھی بھی سر نہ جھکا یا ہے پیشِ زر ۔۔۔ ما ل و زرو جہا ں ہے فقط دامِ مکرو فن
اک لفظِ آ مریت ہے جو مٹ جا نے کو ہے ۔۔۔ صحنِ زند ا ں میں ہو ا ئے زند گی آنے کو ہے
عین استغر ا ق میں بھی سرکہیں جھکتا نہیں ۔۔۔۔۔ یہ تعجب ہے کہ اتنا ہو ش دیوا نے کو ہے
اوجِ دار صرف وارداتِ حریت و جا نبا زی کی دا ستان نہیںبلکہ یہ عشق و محبت کی لطا فتو ں کو بھی اپنے دا من میں سمیٹے ہو ئے ہے۔ ڈ ا کٹر صا حب تخیل کی گل کا ر یو ں سے کسبِ شعور کر تے ہو ئے آگے بڑ ھتے ہیں ان کے اشعا ر کلیو ں کی طرح مہکتے ہیں حسن و جمال ان کے اشعار کی روح ہے تو ساتھ ہی خو بصو ر تی پر وہ فدا بھی نظر آتے ہیںان کے اشعا ر میں عشقِ جہا ں سوز کی تاب نا کیا ں بھی نظر آتی ہیں اور ان کے سوز میں جل جا نے کی تڑپ بھی نظر آتی ہے۔ ان کا جما لیا تی مزاج پو ری لطا فتو ں سے جلو ہ افروز ہے انتہا ئی دلنشین انداز میں محبت کی دنیا سجا تے ہیں اور اپنے محبو ب کاایسا پیکر ترا شتے ہیں جس پر مر مٹنے کوجی چاہناہے۔
ان کے بدن کی ضو نے جلا یا تما م رات ۔۔۔۔۔۔ ہر داغ آر زو کا جگا یا تمام رات
گز ری ہے ہر ایک شب میری ما نندِ سنگِ در ۔۔۔۔جس کو پکا را دل نے نہ آیا تمام رات
جب وہ رشکِ قمر بزم میں دا خل ہو گا۔۔۔کو ئی غش کھا کے گر ے گا کو ئی بسمل ہو گا
میرے مر قد پر وہ آیا تو لہو رو ئے گا۔۔۔۔کو ن پھر کرتا یقین وہ میرا قا تل ہو گا
چا ند تا روں کی دلکشی تم ہو۔۔۔میری را تو ں کی چا ندنی تم ہو
میری آنکھو ں میں آ کے بس جا ﺅ ۔۔میری آنکھو ں کی روشنی تم ہو
وطن سے ڈا کٹر صا حب کی محبت بڑی شدید ہے جو جگہ جگہ جذبو ں کی پکا ر بن کر ہر اک دل کی دھڑکن بن جا تی ہے۔ ان کے اشعار سے وطن کی محبت کے چشمے ہر سو پھو ٹتے نظر آتے ہیں ۔ وطن سے دور ی نے ان کے اندر وطن سے محبت کے جذ بو ں میں شدت پیدا کر نے میں اہم کردار ادا کیا ہے، ان کے قلب و نظر میں وطن کی محبت رچی بسی ہے لہذا وہ وطن کی عظمت اس کے استحکام اور اس کی سا لمیت پر سب کچھ نچھا ور

کر نے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔وہ ایسے دیش پریمی ہیں جن کے لئے و طن ہی ان کی پہلی اور آخری محبت ہے اور انکی یہ محبت دو سرو ں کے لئے مثا لی بھی ہے قا بلِ تقلید بھی وطن کی مٹی، اس کی خو شبو،اسکی عظمت اور اپنے پیا رو ں سے دوری کا غم انکے اشعا ر میں تڑپ، درد، سوز اور آرزو کی ایسی دنیا تحلیق کرتا ہے جسے خو نِ جگر کے بغیر تحلیق کرنا نا ممکن ہوتا ہے اور ڈ ا کٹر صا حب اس میں اوجِ کمال پر نظر آتے ہیں۔
ہر اک ذرہِ خا کی کو کہکشا ں کر دے ۔۔۔ خدا یا ارضِ وطن میری آسماں کر دے
میرے وطن کی زمین خا ر و خس کا جنگل۔۔۔ہر اک برگِ خزاں دیدہِ لا لہ ساں کر دے
اک جان وہ بھی خا کِ وطن پر نثا ر ہے ۔۔۔ ہم کو شرا بِ حبِ وطن کا خما ر ہے
اس میں ہما را خون بھی شا مل ہے جعفری۔۔صحنِ چمن میں آج جو فصلِ بہا ر ہے
جو شِ جنو ں میں چاک گریبا ں کریں گے ہم ۔۔۔یو ں اہتمامِ فصلِ بہا راں کریں گے ہم
سرشا ر ہے جو جذبہِ حبِ وطن سے دل ۔۔۔ صحر ا ﺅ ں کو بھی رشکِ خیا باں کریں گے ہم
اوجِ دار میں ڈ ا کٹر صا حب انسان دو ستی کی معرا ج پر نظر آتے ہیں۔انکا عظمتِ انسا ن کا فکری رویہ پو ری آ ب و تاب سے چمک رہا ہے۔ وہ انسا نیت سے ٹو ٹ کر محبت کرتے اور اسکے گن گا تے ہیں۔ ان کے اشعار میں انسانی عزم اور حو صلے کا راگ گا یا گیاہے۔ ایسا حو صلہ اور عزم جو صرف آج کے انسان کا طرہِ امتیاز ہے۔ مسا وات اور برا بری کی ترویج جو روزِ ازل سے انسا نیت کی آ ر زو رہی ہے اور جس کا درس نبیو ں اور صو فیا نے دیا ہے اور جسکا علم ہر صا حبِِ نظرنے بلند کیاہے ڈا کٹر صا حب اسی کا علم تھا مے صدا ئیں بلند کر رہے ہیں ظلم جبر اور نا انصا فی کے خلا ف سینہ سپر ہو کر کر دعرتی کو امن و آشتی کا گہوا رہ بناناچا ہتے ہیں۔
انساں ہوں مجھے انسا نیت سے پیا ر کر نا ہے ۔۔۔ میرے دل سے متا عِ عشقِ انسا ں نہیں جا تی
فقط محسو س کر سکتے ہیں خو شبو ئےِ محبت کو ۔۔۔۔۔ کہ خو شبو ہا تھ سے چھو کر تو پہچا نی نہیں جا تی
وہ سا نحہ اے دو ست سرِ دار ہوا ہے ۔۔۔ دل میرا ہر بزم سے بیزا ر ہوا ہے
تا ریخ کے اوراق پر مہر اس کی لگی ہے ۔۔جو شخص یہا ں صا حبِ کردار ہوا ہے
جب لہو کا سیل گلیو ں میں روا ں ہو جا ئے گا ۔۔۔ ذرہ ذرہ اس زمین کا آسما ں ہو جا ئے گا
کب تلک چھا یا رہے گا ہم پہ فرعو نی مزاج۔۔اک نہ اک دن کو ئی مو سی بھی عیا ں ہو جا ئے گا
دنیا کی ساری بڑی شا عری در حقیقت واردا تِ قلبی کی رو داد ہو تی ہے۔جب تک کو ئی شاعر ذاتی تجر بات سے نہیں گزر تا س کی شا عری میں اثر انگیز ی پیدا نہیں ہو تی، ذاتی تجر بات کی بھٹی سے گز رنے کے بعد شا عر کے اشعار میں درد اور تا ثیر پیدا ہو تی ہے ۔ مو لا نا روم شا ہ شمس تبر یز کے عشق سے گزرے تو مثنوی مو لا نا روم تخلیق ہو ئی۔ اسد اللہ خا ن غا لب ۷۵۸۱ کے غدر سے گزرے تو غا لب بنے۔ علا مہ اقبال عشق کے بحرِ متلا طم سے نبرد آ زما ہو ئے توغیر فا نی شا عری کی علا مت بنے۔با با بھلے شاہ اپنے پیر و مر شد شا ہ عنا ئیت کی جدا ئی میں تڑپے تو درد کی ھو ک بنے۔ فیض احمد فیض جیل کی صعو بتو ں سے گز رے تو دارو رسن میں جرا تو ں کی شا ن بنے۔اور میرے محترم دوست ڈا کٹر مسعود جعفری ہجرت کے کرب اور وطن سے جدا ئی کی آگ میں جلے تو ان کی شا عری میں ایسا شعلہ سمٹ آیاہے جس کی تپش سے ہر درد مند دل گھا ئل ہو رہا ہے یو ں ہی جلتا رہے گا آر زﺅ و ں کا نگر کب تک ۔۔ رہیں گی شہر کی گلیا ں لہو میں تر بتر کب تک
صلیبِ وقت پر لٹکی ہو ئی ہے نعشِ صد ارماں ۔۔ رہے گا نخلِ اہلِ عشق و مستی بے ثمر کب تک
ذرو ں کو ر شکِ لعل و گہر کر رہا ہوں میں۔۔دا من کو اپنے لہو سے تر کر رہا ہوں میں
ہے عشق کا سفر تو بہت پر خطر مگر ۔۔ بے خو ف و بیم طے یہ سفر کر رہا ہو ںمیں
اہلِ وفا کے دل کا تقا ضہ ہی اور ہے ۔۔۔ ان کی طلب ہے اور تمنا ہی اور ہے
دیر و حرم میں سجدو ں کی با تیں ہیں اور ہی ۔۔۔ لیکن نما زِ عشق کا سجدہ ہی اور ہے
شا عر اپنے گر دو پیش سے ما یو س نہیں ہو تا، وہ کو تا ہ قد قا ئد ین سے اپنے دل کو پز مردہ نہیں کرتابلکہ کسی بڑے را ہنما کی آمدسے دنیا کی نئی صو رت گری کا خواب دیکھتا ہے وہ امید کے دا من سے بند ھا رہتا ہے۔رجا ئیت کی لہر اسے تو نا ئی عطا کرتی ہے۔ وہ نا امیدی کو کفر سمجھتا ہے لہذ ا نا امیدی اس کے پا س بھی نہیں پھٹکتی ۔ وہ امید کا چراغ روشن رکھ کر سب میں عزم اور حو صلہ پیدا کئے رکھتا ہے تا کہ استحصا ل سے پا ک معا شرے کے قیام کی آر زو سدا جوان رہے۔ اسے یقینِ کا مل ہے کہ جہدِ مسلسل اور عزمِ را سخ سے یہ منزل حا صل ہو کر رہے گی۔ایک دن سچ کا سورج ضرورطلو ع ہو گاجو منجمد اندھیرےوں کو نگل کر انصاف کا بو ل بالاکر دےگا۔
مہرو وفا تو دہر میں اب خا ل خال ہے ۔۔۔ ہر سمت مکر و زر کا رنگین جا ل ہے
پیتے ہیں خو ن غریبو ں کا زردار اس طرح ۔۔۔ جیسے یہ ما ں کا شیر ہے ان پر حلال ہے
وہ سر کے جن میں جنو ں ہے وہ سر قلم ہو ں گے۔۔ہمیں خبر تھی کہ ہم ہی قتیلِ غم ہو ں گے
ہما ری قبر بھی زندہ ہے ہم بھی زندہ ہیں ۔۔۔۔ ہما رے نام سرِ آسماں رقم ہو ں گے
اک اک لفظ اندھیر و ں کی مو ت بن جا ئے گا ۔۔۔ تو فکر و فن میں جگرکا لہو ملا تو سہی
فلک بھی جھک کے کرے گا تیری وفا کو سلام ۔۔۔ زمینِ عشق پہ اپنا قدم جما تو سہی
اوجِ دار ایک ایسی ما لاہے جس کا ہر ایک شعرانمو ل مو تی کی مانند ہے۔میں کتاب کے پہلے صفحے پر رقم شعر پر اپنی تحر یر کا خا تمہ کرو ں گا کیو نکہ کتاب کاسارامقصد،مدعا اور پیغام اسی ایک شعر میں سمو دیا گیا ہے
کہتے ہیں لوگ جعفری منصو رِ عصر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا مقام مجھ کو دیا اوجِ دار نے

 

مینارہ نور مزاح آپ کے خطوط انٹرویو ساءنس  رپورٹس

تصاویر

اردو ادب

 
 
Email:-jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team