آ پ ساری تا ریخِ انسا نی کو کھنگا ل لیجئے آ ¿ پ کو کہیں کو ئی ایک
فرد بھی ایسا نظر نہیں آئیگا جس نے ا کھڑ تی سا نسو ں میں کسی سیا سی
شحصیت کے نام پر اپنی سا نسو ں کی ڈور تو ڑی ہو یہ اعزا ز تو بہر حا ل
ذولفقار علی بھٹو کی ذات کے ساتھ ہی وا بستہ رہے گا کہ اس سے عشق کر نے
وا لو ں نے اس کے نام پر کو ہِ یار سے سوئے دار تک کا سفر حا لتِ رقص
میں طے بھی کیا او پھر سرِ دار جئے بھٹو کے نعرے پر اسکا خا تمہ بھی
کیا ۔تا ریخِ انسا لی میں مذہب ،دھرتی اور وطن کی محبت میںاپنی جا نو ں
کا خراج دینے وا لے سر فروشو ں کی ایمان افروز داستا نیں ستا رو ں کی
مانند جھلمل جھلمل کرتی ہو ئی نظر آتی ہیں جو دل وا لو ں کو نیا حو صلہ
عطا کرتی ہیں۔ قربا نیو ں کا یہ سلسلہ اس وقت تک جا ری و ساری رہنا ہے
جب تک اس دھرتی پر کو ئی ایک انسان بھی با قی رہے گا لیکن ان داستانو ں
کے کسی ایک ورق کی کسی ایک سطر میں بھی یہ ر قم نہیں کہ کسی فرد نے سرِ
دار کسی سیا سی ر ا ہنما کے نام پر اپنی جان کو نچھا ور کیا ہو۔ تا ریخ
میں اس بے مثل اعزاز سے سر فرا ز ہو نے کی سعا دت صرف ذو لفقار علی
بھٹو کا مقدر بن سکی تبھی توسا رے سیا سی قا ئد ین میں وہ بلند، منفرد
اور یکتا نظر آتے ہیں۔۔
اگر ہم ذو لفقار علی بھٹو کی ز ندگی کامطا لعہ کریں تو ہمیں محسوس ہو
تا ہے جیسے اس کی زندگی مو ت سے ہم آغو ش ہو نے کے لئے ہمہ وقت بے چین
رہتی تھی۔اس نے جرا ت و بسا لت کی جن بلند یو ں کو چھوا اس کے جیا لو ں
نے اپنی شہا دتو ں سے قا ئد کی شخصیت کو اس سے بھی بڑی بلند یو ں سے
ہمکنا ر کر دیا ۔ آئین و قا نون کی سر بلندی کے لئے بھٹو صا حب نے جس
ثا بت قدمی کا مظا ہرہ کیا تا ریخِ انسا نی اس کی مثا ل پیش کر نے سے
قا صر ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ بھٹو صا حب کی جرات کی صدا ئے با ز گشت ہے
جس نے جیا لو ں کو اوجِ دار جھو ل جا نے کا جذبہ عطا کیا۔ محبت کا یہی
انمٹ جذبہ تھا جس نے جان دینے اور جان لٹانے کی کیفیت کو جنم دیا اور
پھر جیا لو ں نے وہ کچھ رقم کر دیاجس پر تا ریخِ انسا نی ہمیشہ فخر و
نا ز کرتی رہے گی کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے فقط ایک
نعر ہ ہی نہیں بلکہ یہ ان دلی کیفیا ت کا حقیقی آئینہ دار ہے جو سدا سے
عا شقو ں کا طرہِ امتیاز رہا ہے یہ سچا ئی کی ایسی پکار ہے جس میں ایک
ایک جیا لے کی محبت رچی بسی ہے۔ ایسی محبت جو اپنے لہو سے محبت کی گوا
ہی ثبت کر نے کے لئے بے قرار نظر آ تی ہے عشق کے ایسے ہی بے چین اور
انمٹ لمحو ں کی حقا نیت پر ستارے اپنی چمک نچھا ور کر تے ہیں چا ند
اپنا نور لٹاتا ہے ، پھو ل اپنی خو شبو بکھیر تا ہے۔ ننھی منھی کلیا ں
اپنی معصو میت کا ہدیہ پیش کرتی ہیں اور شبنم اپنے آنسو و ں کا نذ را
نہ دیتی ہے اگر با با بھلے شا ہ کا حالتِ رقص میں گا یا ہوا گیت تیرے
عشق نچا یا کر کے تھیا تھیا عشق کی پیشا نی کا جھو مر بن سکتا ہے اور
مو لا نا روم کا سرِ بازار رقص عش کاناز قرار پا سکتا ہے تو پھر جیا لو
ں کا سرِدار جئے بھٹو کا نعرہ بھی ِ انسا نیت کا فخر قرار پا سکتا ہے۔
عشقِ لا زوال کے ان لا زوال لمحو ں کی لا زوال دا ستان کو جس طرح علا
مہ اقبال نے لا زوال رفعتو ں اور بلندیو ں سے ہمکنار کیا وہ بے مثل بھی
ہے بے نظیربھی ہے۔
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام۔۔۔اس زمین و آسمان کو بے کراں
سمجھا تھا میں
کا رواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا ۔۔۔۔۔۔۔مہر و ما ہ و مشتری
کو ہم عنا ں سمجھا تھا میں
تقریب سے پی پی پی کے مرکزی را ہنما ﺅ ںنے خطاب کیا ۔ تقریب کا آغا ز
تلا وتِ کلا مِ پا ک سے ہوا جس کی سعا دت ار سلان طا رق بٹ کے حصے میں
آئی ۔پی پی پی ہیو من رائٹس ابو ظبی کے صدر میا ں عا بد نے کہا کہ بھٹو
کو ا سلامی سر برا ہی کانفر نس اور ۳۷۹۱ کے آئین جیسے کار نا مو ں کی
وجہ سے ہمیشہ یا د رکھا جا ئے گا ۔ پی پی پی ابو ظبی کے سینئر نا ئب
صدر شیخ عبد ا لوا حد حسن نے کہا پاکستانی عوام ہمیشہ اپنے قا ئد سے
محبت کرتے رہیں گے کیو نکہ انھو ں نے ان کے حقوق کی خا طر اپنی جان کا
نذرا نہ دیا تھا۔پی پی پی ابو ظبی کے نا ئب صدر محمد طا ہر راﺅ نے کہا
کہ مفا ہمتی سیا ست ہمیشہ سے پی پی پی کا طرہِ امتیاز رہی ہے اس پا رٹی
نے کبھی بھی سیا سی مخا لفین سے انتقام نہیںلیا ۔ تقریب کی سب سے اہم
با ت نیو یارک سے مشہور شاعر اور دانشو ر ڈا کٹر مقصود جعفری کا خطاب
تھا۔ انھو ں نے بھٹو صا حب، شہید بی بی اور پار ٹی سے اپنی وا بستگی کا
اظہار کیا اور بھٹو صا حب سے اپنی وفاﺅ ں کا تفصیلی ذکر کیا۔ انھوں نے
اپنی تا زہ ترین نظم فخرِ ِ ایشیا پڑھ کر خو ب داد سمیٹی۔ جنرل ضیا کی
سفاکیت اور آمر یت پر ان کے دو اشعار ۔
جب لہو کا سیل گلیو ں میں رواں ہو جا ئے گا۔۔ذرہ ذرہ اس زمین کا آسمان
ہو جا ئے گا
جعفری جو آج میرے در پہِ آزار ہے۔۔۔دیکھنا اک روز وہ خود بے نشاں ہو جا
ئے گا
ر حمت ا للہ محرم نے ایک انتہا ئی خو بصو رت نظم آئینہ ءپیش کر کے محفل
کو لو ٹ لیا ان کا ایک ایک شعر دل میںحریت کے شعلو ں کوہوا دے رہا تھا
۔ انھیں اپنی اس خو بصورت نظم پربے پنا ہ داد ملی۔۔
۔۔۔۔۔کبھی دن کے اجا لو ں میں تما شہ ۔۔۔۔کہ جیسے بھیڑ ہو را ہو ں سے
بھٹکے کا ر واں کی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جس میں ہر نگا ہ پر ایک چہرہ جستجو میں ہے ۔۔۔۔کسی کھو ئی گمنام
شہ کی آرزو میں ہے۔۔۔۔۔
۔ شیخ طیب نے بھی ایک خو نصورت نظم پیش کی جسے بڑی پذیر ا ئی ملی جبکہ
ارشد ملک کی غزل کو بھی بہت سرا ہا گیا۔شا عرِ بے نظیر طا رق حسین بٹ
نے دو نظمیں پھول اوررازِ زندگی پیش کر کے محفل میں رنگ جما دیا ۔
جن کو ڈھنگ ہو مر نے کا وہ بھلا کب جھکتے ہیں ۔۔۔۔۔تند طو فا نو ں کی
ما نند کب کسی سے رکتے ہیں
عشق جوا ں اور قوی ہو تو آگ کے شعلو ں کے اندر۔۔۔عا شق زندہ رہتے ہیں
اور پھو ل کی مانند کھلتے ہیں
آخرمیںبھٹو صا حب کے ایصا لِ ثوا ب کے لئے دعا ما نگی گئی۔پروگرام میں
شاہد استقلال، ارشد حسن، میا ں مطلوب ، شیخ افضال،عا شق حسین،جاو ید
ملک ،افضال بٹ، محمد امجد، اسد اور محمد بو ٹانے شرکت کی۔
|