اسٹیبلشمنٹ کے پر وردہ سیا ستدا نوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ
خفیہ ہا تھو ں کے اشا رو ں پر سیا ست کا کھیل کھیلتے ہیںاور اس میں
انھیں رسوا ئی، بد نا می یا اخلاقی بھا نج پن کا کو ئی ا حساس نہیں ہو
تاچو نکہ ان کی سیاست بیسا کھیو ں کی محتاج ہو تی ہے لہذا وہ ان سہا رو
ں کو کسی بھی صورت چھو ڑ نہیں سکتے اور نہ ہی ان سے صرفِ نظر کر سکتے
ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے اشا روں کو سمجھنا اور ان پر لبیک کہنا ان کی مجبو
ری ہو تی ہے لہذا اس مجبو ری کو نبھا نا اور اس کے دامن سے چمٹے رہنا
ان پر فرض ہو جا تا ہے اور یہ کام وہ بڑی مہا رت اور دیا نت دا ری سے
سر انجا م دیتے ہیں۔ ایسے قا ئدین کی نہ تو کو ئی اپنی سوچ ہو تی ہے
اور نہ ہی کو ئی فلسفہ ہو تا ہے لہذا وہ منزل کے تعین کے بغیر سیاسی
اکھا ڑے میں زور آزما ئی کرتے رہتے ہیں۔ہا تھی کے پا ﺅ ں میں سب کا پا
ﺅں ان کا سیا سی مسلک اورمطمعِ نظر ہو تا ہے لہذا نتیجہ وہی ڈھا ک کے
تین پات۔
کہتے ہیں سونا کٹھا لی میںتپ کر کندن بنتا ہے۔کھو ٹے اور کھرے کی پہچان
آگ سے گز رنے کے بعد ہو تی ہے یہ الگ با ت کہ کھی کبھی آگ پیغمبری ملنے
کا ذریعہ بھی بن جا تی۔آزما ئشیں اور صعو بتیں قا ئد ین کا امتحان ہو
تی ہیں با لکل ویسے ہی جیسے آگ سو نے کی اصلیت کو جا نچنے کا پیما نہ
ہوتی ہے پاکستانی سیا ست کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ یہا ں پر
آمریت نے جمہو ری رویو ں کو پنپنے نہیں دیااورفو ج نے کبھی بھی حقیقی
اقتد ار عو ام کے نما ئیند و ں کو منتقل نہیں کیا۔ فوج سے کچھ سیا سی
قا ئدین کے خفیہ را بطو ں سے ہر شخص بخو بی آگاہ ہے لہذا فوج کی منشا
اور را ئے ایسے قا ئدین کے تما م فیصلو ں میں واضع جھلکتی نظر آتی ہے۔
حالیہ دنو ں میں پاکستانی سیا ست میں آزاد عدلیہ کے ایک نئے عنصر کا ا
ضا فہ ہو گیا ہے ۔ آ ج کل عدلیہ نے جس طرح سے انتظا می امور میں مدا
خلت کر کے حکو مت کی درگت بنا ئی ہو ئی ہے وہ سب پر عیا ں ہے اس طرح کا
سلو ک تو علا قے کا چو ہدری بھی اپنے نو کر و ں، غلا موں ،کمی کمینو ں
اور کم ذا تیو ں کے ساتھ روا نہیں رکھتا جیسا سلوک عدلیہ مو جو دہ حکو
مت کے ساتھ روا رکھے ہو ئے ہے۔ چند ہفتے قبل تک عدلیہ اور حکو مت کے
درمیان تصادم کی بھیا نک صور تِ حال پیدا ہو چکی تھی جس سے پو رے جمہو
ری نظا م کی بساط لپیٹے جا نے کا خد شہ پیدا ہو گیا تھا لیکن کچھ لو گو
ں کی مدا خلت سے وہ خطرہ وقتی طو ر پرٹل گیا لیکن حکو مت اور عد لیہ کے
درمیان احتیارا ت کی با ہمی کشمکش اور محا ذ آرا ئی اپنی جگہ پر اسی
طرح قا ئم و دا ئم ہے جو کسی وقت بھی جوا لہ مکھی کا راوپ دھا رن کر کے
پو رے نظا م کو ہڑپ کر سکتی ہے۔ فوج کے ساتھ اب عدلیہ کا ادارہ بھی حکو
متو ں کی تشکیل اور رخصتی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے جو منتخب حکو
متو ں کے لئے لمحہ فکر یہ ہے۔ اب منتخب حکو متو ں کو ایک کی بجا ئے دو
محا ذو ں پربر سرِ پیکار ر ہو نا پڑ رہا ہے جس سے ان کی کا ر کر دگی
بری طرح متا ثر ہو رہی ہے ۔میا ں محمد نوا ز شریف کے عدلیہ سے گہرے روا
بط ہیں لہذ ا و ہ پا ر لیمنٹ کی بجا ئے عدلیہ کے ساتھ کھڑ ے ہو کر حکو
مت کو مشکل صورتِ حا ل سے دو چا ر کر نے ،کمز ور کرنے، گھٹنے ٹیکنے اور
دفا عی پو زیشن ا ختیا ر کرنے پر مجبو ر کر رہے ہیں اور وہ سارے پا پڑ
جو حکو مت کے خلاف اپو ز یشن کو بیلنے تھے وہ سارے کام آزاد عدلیہ نے
اپنے ذمے لے کر میاں صا حب کی ساری مشکلات آسان کر رکھی ہیں ۔
۲۱ اکتو بر ۹۹۹۱و کو جنرل پر ویز مشرف نے میا ں محمد نواز شر یف کی
آئینی حکو مت کا تحتہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور آئین میں
ستر ویں ترمیم کا اضا فہ کر کے بے پنا ہ اختیارات کے مالک بن بیٹھے
تھے۔ساری سیا سی جما عتو ں کا متفقہ فیصلہ تھا کہ آمریتوں کے ادوار میں
کی گئیں ساری ترا میم کو ختم کر کے آئین کو اس کی اصلی اور حقیقی شکل
میں بحا ل کیا جا ےٍ ۔ مو جو دہ حکو مت نے اس کا م کی اہمیت کے پیشِ
نظر پا ر لیمنٹ میں موجود تمام جما عتو ں پر مشتمل آئینی کمیٹی تشکیل
دی اور آئین کا حلیہ درست کرنے کی انھیں ذمہ داری سونپی۔ اس پا لیما نی
کمیٹی نے دس ما ہ کی شب و روز کی عرق ریزی کے بعد ایک متفقہ بل ڈرا فٹ
کیا جسے پا ر لیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس میں پیش ہو نا تھا لیکں عین اس
وقت جب پا ر لیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس کے انعقاد میں صرف ایک دن با قی رہ
گیا تھا میا ںصا حب نے جو ڈیشل کمیشن کے ذریعے ججز کی تعینا تی کے
طریقہ کار کا سہا را لے کر مجو زہ بل کو تا ر پیڈو کر دیا اور یو ں یہ
بل پار لیمنٹ میں جا نے سے قبل ہی ا ختلا فات کا شکار ہو گیا۔کہتے ہیں
کہ فو ج کے علا وہ ایک انتہا ئی اہم ادا رے کے سر برا ہ نے میا ں صا حب
کو پیغا م بھیج کر مجبور کیا کہ وہ مجو ذہ بل سے اپنی حما ئیت وا پس
لیں کیو نکہ اس بل سے آزاد عدلیہ کے پر کاٹ کر اسے محبوس عدلیہ میں بدل
دیا جا ئے گا۔میا ں محمد نواز شر یف پچھلے کئی مہینو ں سے 18 آئینی
ترمیم کی وکا لت کر رہے تھے اور پی پی پی کی حکو مت کو ا ٹھا ر ویں
ترمیم نہ لا نے پر سخت تنقید کا نشا نہ بھی بنا رہے تھے لیکن جب پی پی
پی یہ متفقہ تر میم لے آئی تو پھر میاں صا حب نے اس ترمیم کے خلا ف یو
ٹرن لے کر جو سیا سی مو قف اختیا ر کیا اس نے سیا سی پنڈتو ں کو حیرا ن
و پر یشان کر کے رکھ دیا ،میا ںصا حب نے اپنے مو قف اور حکمتِ عملی پر
دلا ئل دینے کی بہت کو شش کی لیکن با ت نہ بن سکی ۔سیا سی پنڈتو ں کا
خیا ل ہے کہ چو نکہ پی پی پی کی حکو مت اس آئینی ترمیم کا سارا کریڈٹ
سمیٹنے وا لی تھی لہذا میا ں صا حب کو یہ کسی طور بھی گوا رہ نہیں تھا
کہ پی پی پی اتنا بڑا کریڈت لے جا ئے لہذا انھو ں نے جو ڈیشل کمیشن کا
بہا نہ بنا کر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کو شش کی لیکن انھیں منہ کی کھا
نی پڑی،بھا ری خفت اٹھا نی پڑی ، پسپا ئی اختیار کرنی پڑی اور بد دلی
کے ساتھ دوبارہ مذا کرا تی ٹیم کے ساتھ معا و نت کرنی پڑی کیو نکہ وہ
غلط وکٹ پر کھیل رہے تھے ۔
ابھی کل کی با ت ہے میا ں شہباز شریف نے طا لبان سے اظہا رِ ِ یکجہتی
کر کے ملک میں طو فا ن برپا کر دیاتھا میا ں صاحب نے بڑی وضا حتیں پیش
کیں لیکن عوام کے تحفظات کسی صو رت بھی کم نہ ہوسکے چھوٹے صو بو ں نے
تو پنجا ب کو مو ردِ الزام ٹھہرا دیا اور یو ں قومی یکجہتی کو نا قا بلِ
تلا فی نقصان پہنچا یا گیا ابھی طا لبا ن کے حوا لے سے جذبا ت سرد نہیں
ہو ئے تھے کہ میا ں صا حب نے ۸۱ ترمیم میں جو ڈیشل کمیشن پر چیف جسٹس
سے مشا و رت کا مطا لبہ کر دیا جسے آئینی ماہر ین نے پا ر لیمنٹ کی تو
ہین کے متر ادف تصور کیااس میں کو ئی شک نہیں کہ میا ںصا حب کی سیا سی
تر بیت جنرل ضیا ا لحق کے ما رشل لا دور میں ہو ئی لہذا ان سے اس طرح
کے مطا لبات کی تو قع بعید از قیا س نہیں لیکن ان کے اس طر ح کے طرزِ
عمل سے آئینی سفر کو جو دھچکہ لگا یا وہ نا قا بلِ بیان ہے یہ تو پی پی
پی کی ہمت ہے کہ اتنی اعصاب شکن صو رتِ حا ل میں بھی اس نے آئین کی
درستگی کا جو وعدہ کیا تھااس پر ڈٹی رہی۔ ڈا ئیلاگ، باہمی مشا ورت اور
افہا م و تفہیم سے خود میں لچک پیدا کر کے ساری سیا سی جما عتو ں کو
اتفاقِ را ئے پر مجبو ر کیا اور یو ں ایک نا ممکن کام کو ممکن کرنے
کاکا ر نا مہ سر انجام دے دیا ۔۳۷۹۱ کے متفقہ آئین کے۷۳ سال بعد ایک
دفعہ پھر پی پی پی فا تح بن کر ابھر ی ہے اور ۸۱ ترمیم کی پارلیمنٹ سے
منظو ری حا صل کر کے سر خرو ہو گئی ہے، آٓصف علی ز رد ار ی نے اپنے کا
ر ڈز بڑی دا نشمند ی سے کھیلے اور بڑے صبر و تحمل کا مظا ہرہ کیا ۔پا
کستا نی سیا ست جس کاخا صہ ارتکا زِ اختیارات رہا ہے اس سیاسی ما حول
میںکسی کا اپنے اختیا را ت کوبا ر ضا و ر غبت پار لیمنٹ کے حوا لے کرنا
اتنا بڑا وا قعہ ہے جس کی پاکستانی سیا ست میں کو ئی نظیر نہیں ملتی۔
آصف علی زرداری کے بارے میں عوام کو جو تا ثر دیا گیا تھا اس کی قلعی
کھل گئی ہے اور وہ ایک انتہا ئی زیر ک سیاستد ان اور مد بر کے رو پ میں
ابھر ے ہیں۔
میا ں صاحب نے آئینی ترمیم پر جو قلا با زیا ں کھا ئیں اس نے پاکستا نی
عوام کو بہت ما یو س کیا سیا ستد ا نو ں پر ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا
ئی لیکن پی پی پی نے جمہو ریت سے محبت کا اپنا سفر جا ری رکھا اور آخر
ی جیت پی پی پی کاہی مقدر بنی۔ ۸۱ آئینی ترمیم قوم کے لئے امید کی کرن
اور ہوا کے تا زہ جھو نکے کی مانند ہے اور شہید بی بی کی مفا ہمتی
سیاست کی آئینہ دار۔ ۰۴۹۱ میں قردادِ پا کستان کی منظو ر ی کے بعد قا
ئدِ ِ اعظم نے کہا تھا کہ اگر آج اقبال زندہ ہو تے تو یہ دیکھ کر کتنے
خوش ہو تے کہ ہم نے وہی کچھ کیاہے جو وہ ہم سے کر وا ناچا ہتے تھے۔ ۸۱
آئینی ترمیم پر اتفا قِ را ئے کے بعد یہی کہا جا ئیگا کہ پا رلیمنٹ نے
وہی کچھ کیا جوبی بی ا ن
سے کر و ا نا چا ہتی تھیں۔مو جو دہ قو می اتفا قِ رائے اور جمہو ری فتح
در حقیقت شہیدبی بی کی فتح ہے کیو نکہ مفا ہمتی سیا ست کی پر شکوہ
عمارت اسی کا خوا ب تھا اور اس خواب کی خا طر اس نے اپنی جا ن کا نذرا
نہ بھی دیا تھا
|