ہر سو ایک شور
تھا ایک ہنگا مہ تھاکہ کا ن پڑی آواز سنا ئی
نہیں دیتی تھی۔ ۵۲ مئی کو ایک ایسے دن کے روپ
میں پیش کیا جا رہا تھا جس دن پی پی پی کی حکو
مت اور سپریم کو رٹ میں تصا د م نا گز یر ہو
جائےگا اور عدا لتِ عا لیہ اپنی آئینی اتھا
رٹی سے پی پی پی کی حکو مت کو ہوا میں تحلیل
کر دےگی۔ کیسی کیسی منتو ں اور د عا ¾و ں سے
۵۲ مئی کا دن آیا ہو گا اور اس دن سے کیسی
کیسی امیدیں اور آرز ﺅ یں وا بستہ کر لی گئی
ہونگی ۔۵۲ مئی خوش فہمیو ں کا نقطہ انتہا
تھابہت سی خفیہ قو تو ں نے بھی یقین دہا نی کر
و ا رکھی تھی کہ ۵۲ مئی کو کچھ لو گو ں کے
مقدر کا ستارا ڈوب جا ئےگا اور کچھ کا مقدر
مہر و ما ہ کی طرح روشن ہو جائیگا لیکن ۵۲ مئی
کو ایسا کچھ بھی نہ ہوا البتہ اس دن چند لو گو
ں کے سپنے جس بری طرح سے حقیقت کی چٹا نو ں سے
ٹکرا کر پا ش پا ش ہو ئے ہیں اسکی مثا ل ڈھو
نڈے سے بھی نہیں ملتی۔میڈیا کے کچھ ا ینکر ز
نے ایسی ہیجان انگیز فضا تخلیق کر رکھی تھی
جسمیں ۵۲ مئی کو بے انتہا اہمیت دے دی گئی تھی
اور اس دن مو جو دہ حکومت کی تحلیل اور خا تمے
کی ایسی مضحکہ خیز ،بے بنیاد اور بے سرو پا دا
ستا نیں پھیلا ئی گئی تھیں جیسے آ ّخری فیصلہ
میرے ان اینکر ز دو ستو ں نے ہی تحریر کرنا ہے
لیکن الٹی ہو گئی سب تد بیریں دل نے کچھ نہ کا
م کیا کے مصداق ایسی منہ کی کھا نی پڑی کہ
ابھی تک نیم بے ہو شی کی حالت میں ہیں اور ایک
ہی جملہ بڑ بڑاہ رہے ہیں کہ ڈا کٹر با بر ا
عوان کی جا دو گری نے انکی امیدو ںکا خون کر
دیا ہے ۔ در اصل میڈیا کی سوچ یہ ہے کہ پی پی
پی دل والے جیا لو ں کی ایک ایسی جما عت ہے جو
جذ با تیت پر یقین رکھتی ہے لہذا ایسی جما عت
کو جذبا تیت پر ابھا ر کر اپنے مقا صد حاصل کر
نا بہت آسان ہے لیکن آج جو زخم میرے ان اینکرز
دو ستوں کو با بر اعوان کی فہم و فرا ست کے ہا
تھوں لگا ہے وہ انکے تصور سے با ہر تھا۔ تنا ﺅ
کے ما حول میں انتہا ئی تحمل ،صبر اور بر د
باری سے عدا لتِ عا لیہ کو قا ئل کرنا اور دا
من بچا کر نکل آنا با بر اعوان جیسے ذہین و
فطین شخص کا ہی کمال ہو سکتا تھا ۔ڈا کٹر با
بر ا عوا ن نے جسطرح ایک منجھے ہو ئے قا نو ن
دان، مد بر اور سیا ست دان ہو نے کا ثبوت دیا
ہے اس نے بہت سے لو گو ں کو رسوا کر کے رکھ
دیا ہے کھسیا نی بلی کھمبا نو چے کے مصداق اب
نئی حکمتِ عملی وضع ہو رہی ہے اور اس نئی حکمتِ
عملی کا انجام بھی پہلی حکمتِ عملی سے مختلف
نہیں ہو گا کیو نکہ بد نیتی اور جھو ٹ کا
انجام یہی ہوا کرتا ہے۔کیسا ہو گا وہ منظر جب
ڈا کٹر با بر ا عوا ن کا لا چشمہ لگا ئے فتح و
کا مرانی کے شادیا نے بجا تے کمرہِ عدا لت سے
با ہر نکلے ہو نگے اور میرے یہ اینکرز حسد اور
بغض کی آگ میں جل رہے ہونگے اور بے بسی سے
اپنی انگلیاں کا ٹ رہے ہو نگے۔ ذا تی انتقام
اور اداروں کے تصادم کی آگ کے جن شعلو ں کو
دیکھنے وہ سپر یم کو رٹ گئے تھے انھیں ڈا کٹر
با بر ا عوا ن نے اپنی دا نشمندی اور فہم و
فراست سے سرد کر کے پو ر ی با زی کو پلٹ کر
رکھ دیاہے۔ انکی ایسی بو لتی بند کی ہے کہ
چھپتے پھر رہے ہیں راہِ فرار اختیار کر رہے
ہیں کیو نکہ ان میںسچا ئی کاسامنا کرنے کیہمت
نہیں ہے اپنے آقا ﺅں کی خو شنو دی کی خا طر وہ
جس ا نا رکی کو دیکھنے کے متمنی تھے وہ ہوا
میں تحلیل ہو چکی ہے۔
قطرہ میں دجلہ دکھا ئی نہ د ے اور جزو میں
کل۔۔کھیل لڑکوں کا ہوا دید ہ و بینا نہ ہوا
تھی خبرگرم کہ آج غا لب کے اڑیںگے پر زے ۔۔ د
یکھنے ہم بھی گئے تھے پر تما شہ نہ ہوا ( مرزا
اسد ا للہ غا لب)
اس سارے ڈرا مے میں جس شخصیت کو سب سے زیا دہ
ما یو سی ہو ئی وہ میاں محمد نواز شریف کی ذات
ہے ۔ما یو سی انکے چہر ے سے عیا ں تھی انکے
ایک ایک لفظ کے اندر بو ل رہی تھی۔ اصل میں
میا ں محمد نواز شریف کا تعلق کشمیری خاندان
سے ہے لہذا اپنے چہر ے کے تاثرا ت کو چھپا نا
ان کےلئے ممکن نہیں ہو تا۔ انکی پریس کا نفرنس
سے ایسے لگتا تھا جیسے انھوں نے اتنے سالو ں
سے جو انو سٹمنٹ کر رکھی تھی اس کاڈراپ سین
ہوگیا ہے جس پر وہ بہت اپ سیٹ نظر آ رہے
تھے۔میا ں صا حب نے ڈبل سٹینڈرڈ قا ئم کر رکھے
ہیں۔ میا ں صا حب پنجاب میں پی پی پی کے کو
لیشن پا ر ٹنر ز بھی ہیں لیکن اسکے با وجو د
وہ پی پی پی پر تندو تیز تنقید کے نشتر بھی
چلا تے رہتے ہیں وہ نظا م کو بچا نے کی بات
بھی کرتے ہیں لیکن آصف علی زردا ری کو جمہو
ریت کے لئے خطرہ بھی سمجھتے ہیں اور انکے
قریبی ساتھیو ں پر الزامات کی بارش بھی کرتے
ہیں ۔یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ میا ں صا حب اور
دوسرے اہم سیا سی قا ئدیں نے آصف علی زرداری
کے ہا تھو ں میں ہاتھ ڈال کر جمہو ریت کی تر
ویج اور اس کی بقا کا عہد کیا تھا پو ری قوم
اس پر شا ہد ہے کہ ۸۰۰۲ میں مسلم لیگ (ن) اور
پی پی پی میں بڑی گہری دو ستی تھی اس وقت تو آ
صف علی زرداری جمہو ریت کی بقا کی علامت تھے
اور آجکل جن وزرا کے خلاف میا ں صا حب آگ بگو
لہ ہو رہے ہیں انہی وزرا کے ساتھ مسلم لیگ (ن)
کے وزرا نے میا ں صا حب کے نامزد کردہ آرمی
چیف جنرل پر ویز مشرف سے حلف بھی ا ٹھا یا تھا
اس وقت تو جنرل پر ویز مشرف سے حلف اٹھا نے
میں بھی کو ئی قبا حت نہیں تھی کیو نکہ اس وقت
اقتدار کے حصول کا جنون بری طرح سوار تھا اور
اس جنو ن کی تسکین کی خا طر حلف اٹھانا جا ئز
تھا ۔ وہی وزرا ہیں وہی آصف علی زرداری ہیں
وہی پی پی پی ہے کو ئی انہو نی بات نہیں ہو ئی
کو ئی نیا کیس تیار نہیں ہو ا کو ئی نیا
ریفرنس دا ئر نہیں ہوا جسکی بنیاد پر وزرا پر
تنقیدی تو پو ں کا رخ پھیر دیا جائے ۔یہ حب
علی کی نہیںبلکہ بغض معا ویہ کی بڑی کھلی اور
وا ضح مثا ل ہے کہ میا ں صا حب کو قصرِ صدا رت
میں آصف علی زرداری کی مو جود گی ایک آنکھ
نہیں بھا رہی جسکے لئے وہ عدلیہ کے فیصلوں سے
رو گردا نی کا سہا را لے رہے ہیں اور اپنے مو
قف کے حق میں تو جیحات اور دلا ئل پیش کر رہے
ہیں لیکن با ت بنتی ہو ئی نظر نہیں آ رہی کیو
نکہ عدلیہ سے انکی محبت کا سبکو علم ہے۔
تیسری دفعہ کی وزارتِ عظمی کی پا بندی ہٹوا نا
میاں محمد نواز شریف کی سب سے بڑی خوا ہش تھی
اور اس خوا ہش کی تکمیل آصف علی زرداری کی رضا
مندی کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔جنرل پر وہز مشرف
نے تو آئین میں اس پا بندی سے میا ں برادران
کی ا قتدار میں وا پسی کو نا ممکن بنادیا تھا
لیکن یہ کریڈت تو بہر حا ل آصف علی زرداری کی
ذات کو ہی جا ئےگا کہ اسنے اپنے سب سے بڑے سیا
سی حریف کےلئے تین دفعہ کی پا بندی ہٹا کر
انھیں سیاسی میدان میں نئی زندگی عطا کی ہے۔
اگر ہم تھو ڑا سا گہرا ئی میں جا ئیں تو ہمیں
یہ دیکھ کر حیرا نگی ہو تی ہے کہ وہ آصف علی
زرداری جسنے میاں برادرا ن کی نا اہلی کو سپر
یم کو رٹ سے کلیر کروا یا اور انھیں سیا ست
میں دوبارہ فعال ہو نے کےلئے پنجاب کی حکو مت
دی میا ں صا حب اسی پر تلوارسو نت کر کھڑے ہیں۔
میا ں صاحبب اقتدار کی خا طر صبر کا دا من ہا
تھ سے چھو ڑ رہے ہیں اور آصف علی زرداری کی
ذات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں حا لا نکہ
انھیں بخو بی علم ہے کہ آصف علی زرداری کے ان
پر احسا نات ہیں اور احسان کا بد لہ تو بہر حا
ل احسان ہی ہو تا ہے جسکا مظا ہرہ میاں صا حب
کی ذات میں د یکھنے کو نہیں آرہا بلکہ میا ں
صاحب اپنے محسن آصف علی زرداری کی ا ہلیت کو
نا اہلی میں بد ل کر قتدار پر قبضہ کر نے
کےلئے ہلکان ہو رہے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ میا
ں صا حب کے ہی دورِ حکو مت میں پی پی پی پر
مقدمات قا ئم ہو ئے تھے اور اب میا ں صا حب
اپنے ہی قا ئم کردہ جھو ٹے مقدمات کی بنا پر
سزا کا شور مچا رہے ہیں۔ پی پی پی کی قیادت کو
نا اہل قرار د لو انے پر میا ں صا حب کی خو شی
کا کو ئی ٹھکا نہ نہیں ہو گا کیو نکہ یہ تو
انکی دیرینہ خوا ہش ہے کہ پی پی پی کی قیادت
نا اہل ہو جا ئے تا کہ انکے امیر المو منیں
بننے کی راہ کی ہر رکاوٹ خود بخو د دور ہو جا
ئے لیکن اسکا کیا کیا جا ئے کہ لوگ ہر دفعہ پی
پی پی کو ووٹ دے کر میا ں صا حب کی آرزﺅ ں پر
پانی پھیر دیتے ہیں۔
دیکھے ہیں یہ بھی مہر و محبت کے معجزے ۔۔سورج
چمک رہا تھا مگر رو شنی نہ تھی
یہ اور بات اس پہ کو ئی پھل نہ لگ سکا۔۔۔کہتا
ہے کو ن شا خِ تمنا ہری نہ تھی (ڈا کٹر مقصود
جعفری)
|