اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
Email:-

tariq@albahar.ae

 
 
 
 
 
 
 
 
تاریخ اشاعت:۔07-07-2010

وفا کی لاج

کالم۔۔۔ طا رق حسین بٹ

 لیس للا نسان ا لا ما سعی ایک ایسی قر آنی آئیت ہے جو نو عِ انسا نی کو عمل پر ابھا رتی ،حصولِ مقصد کےلئے ٹھو س بنیا دیں فرا ہم کرتی، تسخیرِ کا ئنات کے دروا زے کھو لتی اور انسان کے اندر یہ یقین پیدا کرتی ہے کہ جدو جہد سے نا ممکنات کو ممکنا ت میں بد لا جا سکتا ہے اور وہ جو وہم وگما ن و خیا ل کی سر حدو ں سے ما روا ہو تا ہے مشہو د شکل میں انسان کے سا منے جلو ہ بار ہو سکتا ہے۔ چاند پر انسان کا پہلا قدم، کمپیو ٹر، میڈیکل اور سا ئنس میں حیرت انگیز ترقی اسکی فہم و فراست کے شاہکار ہیں تو پھر انقلابِ فرانس، انقلابَ روس اسکے عزم و ہمت اور جدو جہد کی دل آویز دا ستان کے چند قا بلِ فخر اور روشن ابوا ب ۔لیکن کسی بھی عزم کے مشہود شکل اختیار کرنے تک کے مرا حل بڑے جا نگسل ،دلخرا ش اور جان لیوا ہو تے ہیں مگر وہ لو گ جو آزما ئیش کی ایسی ا عصاب شکن گھڑیو ں میں آہنی عزم کے ساتھ ڈٹ جاتے ہیں کا میا بی و کامرا نی ا نہی کا مقدر بنتی ہے۔
اگر ہم پا کستان میں جمہو ری جدو جہد کا ذکر کریں تو ہما ری نگا ہ دفعتا قائدِ اعظم کی تا ریخ ساز شخصیت پر مرکو ز ہو کر رہ جا تی ہے جسنے اپنی بے مثل جمہو ری جدو جہد سے قیامِ پا کستان کا محیر ا لعقو ل معجزہ سر انجا م دیا تھا۔ ایک ایسی جدو جہد جسنے محکو م قو مو ں کو نیا عزم اور حو صلہ عطا کیا تھا ۔خو نی انقلاب اور مسلح جدو جہد کی سیا ست کے با لکل بر عکس ایک جمہو ری جدو جہد کی راہ کا انتخاب قا ئدِ ا عظم کی اعلی بصیرت کا نادر شا ہکا ر ہے۔مذہبی قیا دت کی جا نب سے مسلح جدو جہد کےلئے قا ئدِ ا عظم پر شدید دبا ﺅ تھا لیکن قا ئدِ ا عظم نے علما ءکے نقطہ نظر کے سا منے گھٹنے ٹیکنے کی بجا ئے جمہو ری را ہ کا انتخا ب کر کے انکے غیض و غضب کو للکا را تھا تبھی تو مذہبی قیا دت نے انکو کا فرِ اعظم کے لقب سے نوا زا تھا ۔مخا لفین کے سا ر ے اوچھے ہتھکنڈے بھی قائدِ ا عظم کو پر امن جد و جہد سے با ز نہ رکھ سکے۔ وہ آزادی، امن اور جمہو ریت کے جھنڈے کو اٹھا ئے آگے بڑ ھتا رہا اور اسکی آواز پر لبیک کہنے وا لے سر فرو ش اسکے گرد جمع ہو تے گے ۔۴۱ اگست کوعوا می طا قت سے جو ریا ست وجو پذیر ہو ئی دنیا اسے پاکستان کے نام سے جا نتی ہے۔ د نیا کی سب سے بڑی اسلامی ریا ست ووٹ کی قوت سے قائم ہو گئی ۔ کو ئی ہے جو جمہو ری جدو جہد میں اس جیسی دو سر ی مثا ل پیش کر سکے۔یقینا تاریخ کے دا من میں ایسی کو ئی مثا ل نہیں ہے جو قا ئدِ ا عظم کے اس عظیم ا لشا ن کا رنا مے کے سا منے ٹھہر سکے ۔ پر امن جدو جہد سے دنیا کی عظیم مملکت کی تخلیق کے ا عزا ز میں قائدِ اعظم سب میں منفرد اور یکتا ہیں اور پاکستانی قوم قا ئدِ ا عظم کے اس اعزا زپر بجا طور پر فخر کر سکتی ہے ۔
تحریکِ پا کستان کے بعد پھر ایک لمحہ آ یاجب جمہو ریت پر شب خون مارا گیا ، پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذو لفقار علی بھٹو کی آئینی حکو مت کو بر طرف کر کے جنرل ضیا ا لحق نے اقندار پر قبضہ کر لیا توپی پی پی نے آئین و قا نو ن کی با لا دستی کے لئے پر امن جمہو ری جدو جہد کا نیاباب رقم کیا۔ قسمت کے کھیل بھی بڑے نرا لے ہیں کو ئی وقتِ آزما ئیش زندگی کی بھیک ما نگ کر سا زو سامان اور اہل و عیا ل کے ساتھ وطن سے را ہِ فرار اختیار کر کے شا ہی محل میں چھپ جا تا ہے اور کو ئی جیل کی تنگ و تا ریک کو ٹھری میں جمہو ریت کی خا طر ملک کی خا طرعوام کی خا طر زہر پیا لہ پی جا تا ہے اور جیت اسی کا مقدر بنتی ہے جو عشقِ عوا م میں زہر پیا لہ پی کر سچ ا ور وفا کی لاج رکھتا ہے ۔ دو ستو جب زہر سقراط کو ما ر نہیں سکا منصور حلاج کو ختم نہیں کر سکا سرمدشہید کو زیرنہیں کر سکا تو پھر سچ کی خا طر زہر کا یہ پیا لہ بھٹو کو حیا تِ جا وداں سے کیسے روک سکتا تھا۔
کبھی کبھی سو چتا ہو ں تو دم بخو د رہ جا تا ہو ں کہ فیو ڈل گھرا نے کا ایک چشم و چراغ جمہو ر ی جدو جہد میں اتنا دور نکل جا ئے گا کہ مید ا نِ جنگ سے اس کا لا شہ ہی اٹھا یا جا ئے گا۔ اسے قید و بند میں رکھ کر ، عوا م سے دور رکھ کراور بے یا رو مدد گار سمجھ کر آمریت نے یہ سمجھ لیاتھا کہ بھٹو جو ایک نام ہے عا لم میں انتخا ب، اس کا خا تمہ کر کے اس کی محبو بیت اور مقبو لیت کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ قائدِ عوام پر جلا وطنی اور جان بخشی کے بڑے لمحے آئے تھے لیکن وہ توکو ہِ گراں بن کر کھڑا ہو گیا تھا اور ایک ہی صدا بلند کئے جا رہا تھا کہ لے آﺅ ا پنے جا ہ و جلال کو، طا قت و حشمت کو ، لا ﺅ لشکر اور ریا ستی قوت کو میں تن تنہا ان سب کا مقا بلہ کر و نگا ،تمھیں تمہا ری سپاہ کے درمیان شکستِ فا ش سے دوچا ر کرونگا۔ یا د رکھو تم ہار جا ﺅ گے۔ تم مٹ جا ﺅ گے۔ رسوا ہو جا ﺅ گے۔ خا ک ہو جا ﺅ گے ۔بے نام اور گمنام ہو جا ﺅ گے ۔ تمھیں شکست ہو جا ئےگی اور تا ریخ میں کو ئی ایک شخص بھی تمھارا نام لیوا نہیں رہےگا۔ لوگ میری یاد میں، میری محبت میں، اور میرے پیار میں نغمے گا یا کر ینگے جمہو ریت سے میرے رو مانس اور جدو جہد کی دا ستا نیں سنا یا کر ینگے میری جرا ت پر مجھے ہدیہ تبریک پیش کیا کرینگے اورتم انصا ف کے کٹہرے میں مجمر مو ں کی ما نند سر جھکا ئے رسوا ئی کی ابد ی علا مت بن جاﺅ گے۔ اس وقت ہم دونو ں حا لتِ نشہ میں ہیں تم پر اقتدار کا نشہ ہے اور مجھ پر عوام کی محبت کا نشہ ہے لیکن اتنا یا د رکھنا کہ محبت کے نشے کی جیت اٹل اور یقینی ہے کہ صدیو ں سے یہی ہو تا آیا ہے اور صدیو ں تک یہی ہو تا رہےگا۔عشق کو کوئی شکست نہیں دے سکتادل وا لوں کی جیت کو کو ئی روک نہیں سکتا اور سفا کیت کو کو ئی محبو بِ خلا ئق بنا نہیں سکتا۔ آمریت یہ سمجھ رہی تھی کہ بھٹو ازم کو بھٹو کی لا ش کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا ہے کتنے بد بخت تھے وہ لوگ ، کتنے کم عقل تھے وہ لو گ جو سچا ئی کا ادراک کرنے سے قا صر تھے جسے وہ مردہ سمجھ کر دفن کر رہے تھے اسے تو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنا تھا لو گو ں کے دلو ں کے اندر انکی دھڑ کنو ں کے اندر ایک ایسی لوک دا ستان کے روپ میں جس پر انسا نیت ہمیشہ فخر و نا ز کرتی رہے گی۔
۸۱ اکتو بر کو ایک دفعہ بھر یہی کہا نی دہرا ئی گئی ایک نہتی لڑکی کو سرِ عام قتل کرنے کی منصو بہ بندی کر لی گئی ظا لمو ں کا پہلا وار خا لی گیا لیکن انھو ں نے ہا ر نہیں ما نی بلکہ اپنے منصو بے کو رو بہ عمل لا نے کے لئے ۷۲ دسمبر کو لیا قت با غ کا انتحاب کیا۔سو چتا ہو ں تو سر شرم سے جھک جا تا ہے کہ ایک نہتی لڑکی کو اپنے را ستے سے ہٹا نے کےلئے کتنی مکرو ہ سا ز ش تیار ہو ئی لیکن وہ نہتی لڑکی ہر چیز سے بے نیا ز مو ت کا دو شا لہ او ڑھے وصیت بھی لکھتی ہے اپنی قبر کی نشا ن دہی بھی کرتی ہے اورجمہو ری جد و جہد کا علم بھی سنبھا لتی ہے۔ سفید ڈو پٹے کے اندر وہ کتنی شا ندار لگ رہی تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے آسمانی حور بی بی کے روپ میں ہما رے سا منے جلو ہ گر ہے۔ ہوا میں لہرا تا ہو ا سکا ہا تھ اور اسکے چہرے پر کھلتی ہو ئی دل آویز مسکا ن اسکا آخری تحفہ تھا جو وہ قوم کو دےکر رخصت ہوگئی ۔ اسنے موت سے ہم آغوش ہو نے کاجو جرا ت مندا نہ اندازاپنا یا تھا ا سنے مو ت و حیا ت کے فلسفے کو نئے معنی عطا کر دئے۔ بی بی ہم سے رخصت تو ہو گئی مگر ہمیں استحکامِ پاکستان ،جمہو ریت، پر امن جدو جہد اور مفا ہمت کا ایسا زریں اصول دے گئی جسکی لاج رکھنا ہم سب پر فرض ہے۔
آج ملک میں عدلیہ، پار لیمنٹ، انتظا میہ اور میڈیا آ پس میں دست و گریبا ن ہیں۔دھشت گردی اپنے جبڑے کھو لے ہمیں ہڑپ کر جا نے کو بےتا ب ہے ہر طرف ہا ئے ہائے کار مچی ہو ئی ہے۔ ہر ادارہ دو سر ے ادا رے کو بچھا ڑنے کے چکر میں ہے ۔عدل و انصاف کے نام پر نفرتو ں کے بیج بو کر وطن کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ مفا دِ عا جلہ کے اس کھیل میں ہمیں یہ بھی یا د نہیں رہا کہ اس ملک کی تخلیق میں اس دھرتی کی بیٹیو ں نے اپنے لہو سے آزادی کا درخشا ں باب رقم کیا تھا، لہو رنگ آ نچلو ں سے پا کستان کا پر چم تیار کیا تھا اور اپنے لہو کی خو شبو سے صحنِِ چمن کو مہکا یا تھا لیکن ہم نے پے در پے ما ر شل لا لگا کر انکی قربا نیو ں کا مذا ق ا ڑا یا اور ملک کو دو لخت کر دیا۔ وہ حسرت و یاس سے ہما ری جانب تکتی رہیں کہ شا ید ہم میں غیر تِ ایما نی جا گ جا ئے اور ہم وطن کو اسلام ،جمہو ریت، امن اور خو شحا لی کا گہوا رہ بنا سکیں لیکن ہم نے اپنی مفاداتی روش بدلنے سے انکار کر دیا۔ یہ تو بی بی کی قربا نی ہے جس نے طلسمِ ظلمتِ شب کو توڑ کر انکی و فا ﺅں کی لاج رکھ لی ہے اور ثا بت کیا ہے کہ غیر ت نام ہے جسکازندہ ہے تیمو ر کے گھرمیں۔
ا ہلِ وفا کے دل کا تقا ضہ ہی اور ہے۔ ان کی طلب ہے اور تمنا ہی اور ہے
دیر و حرم میں سجدو ں کی با تیں ہیں اور ہی۔ لیکن نمازِ عشق کا سجدہ ہی اور ہے (ڈ ا کٹر مقصود جعفری)



 

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team