اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

                    

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-970-3200 / 0333-832-3200       Fax:1-240-736-4309
 
Email:-

tariq@albahar.ae

 
 
 
 
 
 
 
تاریخ اشاعت:۔24-07-2010

امید کی کرن

کالم۔۔۔ طا رق حسین بٹ

 
طا رق حسین بٹ (چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)
پاکستا ن اور بھا رت کے درمیان مذاکرات کی داستا ن بڑی طویل ہے جو عدمِ ا عتما دی سے شر وع ؑ ہو تی ہے اور اسی پر اس کا خا تمہ بھی ہو جا تا ہے جب اعتماد کا فقدان ہو جا ئے تو دنیا کے کو ئی مذا کرات بھی کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قا صر ہو تے ہیں۔ پاکستان اور بھا رت کے درمیان گذشتہ چھ عشروں کے درمیان بڑے نا زک مذا کرا تی موڑ آئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ابھی کل کی با ت ہے جنرل پرو یز مشرف او ربھارتی حکو مت کے درمیان مذا کرات کا بڑا چرچا تھا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے حوا لے سے ایک تا ثر یہ دیا گیا تھاکہ بس حل ہو ا چا ہتا ہے۔ ان مذا کرات میں پاکستان کے مسلمہ مو قف سے ہٹ کر نئی پیش کشیں بھی کی گئی تھیں لیکن بیل پھر بھی منڈھے نہ چڑھ سکی مذا کرات کو نا کام ہو نا تھا سو وہ نا کام ہو گئے اور آج نہ تو کو ئی ان مذا کرات کا نام لیوا ہے اور نہ ہی حا می مذا کرات جنرل صا حب کے ساتھ ہی دم توڑ چکے ہیں ۔
میاں محمد نواز شریف کے دورِ حکو مت میں بس ڈپلو میسی کا آغاز ہوا بھا رتی وزیرِ اعظم اٹل بہا ری وا جپا ئی ۹۹۹۱ میں بس کے ذریعے لا ہور ( پا کستان) تشریف لا ئے تا کہ ایک نئے دور کا آغاز کیا جا سکے ۔میاں صا حب چو نکہ کا رو باری وزیرِ ا عظم تھے لہذا انکی نظر میں اپنے کا رو بار کو وسعت دینے کا یہ ایک انتہا ئی نادر مو قع تھا جسے وہ کھو نا نہیں چا ہتے تھے۔کشمیر کے مسئلے پر انکا مو قف بھی زیا دہ سخت نہیں تھا وہ مسئلہ کشمیر کو تجا رت کی راہ میں رکا وٹ بننے کے تصور کے خلاف تھے لہذا انھو ں نے مسئلہ کشمیر کی مو جو دگی میں بھا رت سے تجا رتی روا بط بڑھا نے پر زور دیا اور ا نہی کے زما نے میں بھا رت کے ساتھ تجا رت کے نتیجے میں چینی سکینڈ ل بھی سا منے آیا تھا ۔بھا رتی وزیرِ اعظم اٹل بہا ری وا جپا ئی کے دورہ پاکستان کی جما عت اسلامی نے بڑی شدید مخا لفت کی تھی اور بھا رتی وزیرِ اعظم کے دور ے کے خلاف ایک بہت بڑی ر یلی کا اہتمام بھی کیا تھا جما عت اسلامی کی اس ریلی کے سا تھ میاں صاحب کی حکو مت نے جس طرح کا بر تا ﺅ کیا تھا وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔بے رحما نہ تشدد ، لاٹھی چا رج اور آنسو گیس کے گو لوں سے جس طرح جما عت کی خا طر تو اضع کی گئی تھی وہ بھی ایک با لکل انو کھا وا قعہ تھا۔بھا رتی وزیرِ اعظم کے دورے کے بعد مینارِ پاکستان کو دھو یا گیا تھا۔ جما عت اسلا می کا مو قف تھا کہ بھا رتی وزیرِ اعظم کے نا پاک قدم پاک دھرتی پر رکھنے سے پا ک وطن کی پاک مٹی پلید ہو گئی ہے لہذا اسے دھو کرپاک صاف کر نے کی ضرو رت ہے اور اپنے مو قف کی صداقت کےلئے جما عت نے مینارِ پاکستان کو دھو کر بھی دکھا یا تھاحا لا نکہ یہی جما عت اسلا می تھی جس نے قیامِ پا کستان کی مخا لفت کی تھی۔ سو چئے اگر متحدہ ہندو ستان میں مسلما ن غیر مسلمو ں کے ساتھ با ہم مل کر ایک قوم کی صورت میں رہ رہے ہو تے تو پھر کیا ہو تاجما عت اسلامی کا وا حد مقصد دھرتی کا دھو نا ہی رہ جاتا
ذ و لفقار علی بھٹو کے زما نے میں بھی بھا رت سے مذا کرات ہو ئے اور یہ مذا کرات تاریخ کے ایسے موڑ پر ہو ئے جب مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو چکا تھا ۔ ۰۹ ہزار پاکستانی فو جی بھا رت کی قید میں تھے اور بھار ت نے پاکستان کے پا نچ ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ بھی کر رکھا تھا۔ ان مذا کرات میں بھا رت کی حیثیت ایک فا تح کی تھی اور پاکستان ایک مفتو ح کی حیثیت میں ان مذا کرات میں شریک ہوا تھا۔مشکل اور نا مسا عد حا لات میں ہی لیڈر شپ اپنی صلا حیتو ں کے جو ہر دکھا یا کرتی ہے اور قوم کے لئے کو ئی بڑا معرکہ سر کر تی ہے جسے قوم ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ذالفقار علی بھٹو اس وقت پاکستان کے سیا ہ و سفید کے مالک تھے اور اپنی سیاسی بصیرت کی وجہ سے دنیا بھر میں انھیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا تھا۔بھا رتی وزیرِ اعظم مسز اندا گا ندھی بھی اپنی ذات میں ایک درسگا ہ کا درجہ رکھتی تھیں لہذا اپنے وقت کے ان دو نو ں بڑے را ہنما ﺅ ں کے مذا کرات پر پو ری دنیا کی نظریں لگی ہو ئی تھیںمسا ئل بڑے سنگیں تھے اور دنیا ان دو نو ں بڑے را ہنما ﺅ ں سے انکے حل کی تو قع رکھتی تھی۔ ایک طرف مسئلہ کشمیر تھا جو پا کستان کےلئے شہ ر گ کی حیثیت رکھتا تھا اور جسکے لئے ذولفقار علی بھٹو نے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کر رکھا تھادو سری طرف ۰۹ ہزار قیدی بھا رت کی جیلو ں میں انتہائی نا گفتہ بہ حا لت میں زندگی گزار رہے تھے اور ان کی رہا ئی کےلئے بھٹو صاحب پر شدید دبا ﺅ تھا تیسر ی طرف پانچ ہزار مربع میل کا علا قہ بھا رت کے قبضے میں تھا اور اسے دشمن سے خا لی کروانا کو ئی آسان کام نہیں تھا۔ مذا کرات کے ابتدائی دور نا کا می پر منتج ہو ئے لیکن بھٹو صاحب نے ہمت نہیں ہا ری بلکہ ایک آخری کو شش کرنے کےلئے مسز اندرا گا ندھی سے ملا قات کا فیصلہ کر لیا اور یہی آخری ملا قات مذا کرات کی کا میا بی کی نوید بن گئی جسکے نتیجے میں شملہ معا ہدہ طے پا گیا اور یوں دو اہم مسا ئل کا حل مذا کرات کی میز پر نکل آیا اور کشمیر کے مسئلے کو با ہمی مذا کرات سے حل کرنے پر اتفاق کر لیا گیا۔پاکستان اور بھا رت کے مو جو دہ مذا کرات شملہ معا ہدے کی اسی سپرٹ کے مطا بق ہو رہے ہیں ۔بمبئی حملو ں کے بعد پاکستان اور بھارت کے ما بیں کشیدگی اپنی انتہا ﺅ ں کو چھو رہی ہے ۔افغا نستان میں بھارتی مدا خلت،بلو چستان میں علیحد گی پسندو ں کی پشت پنا ہی اور پاکستان میں دھشت گردی کو فروغ دینے میں بھا رتی ہا تھو ں کی کا ر ستا نی سب پر روزِ روشن کی طرح عیا ں ہے۔ مذا کرات کا سلسلہ بھی کا فی عرصے سے ٹو ٹا ہوا تھا۔ الزا مات در الزا مات کی فضا بھی مذا کرات کی را ہ میں سنگین ر کا وٹ بن کر کھڑی تھی لہذا اس تمام پسِ منظر میں مذ ا کرات کا انعقاد ایک انتہا ئی خوش آ ئند قدم ہے ۔ بھا رتی وزیرِ خارجہ ایس ایم کرشنا کا دورہ پاکستان امید کی ایک نئی کرن ہے جو شائدآنے وا لے دنو ں میں دونو ں ملکو ں کے درمیان تنا ﺅ کو کم کر نے میں ممد و معا و ن ثا بت ہو سکے۔ بھا رتی وزیرِ خار جہ کا پاکستان تک چلے آنا خود ایک بہت بڑا وا قعہ ہے اور ہمیں اس کا میا بی پر حکو مت کے ہاتھ مضبو ط کر نے ہو ں گے تا کہ وہ زیادہ اعتماد سے مذاکرا ت کو جاری رکھ سکے۔
کشمیر میں کشمیریو ں کی موجو دہ آزادی کی لہر نے بھارتی حکو مت کے ظلم و ستم اور درندگی کو بے نقاب کر دیا ہے ۔بھارت پر امریکہ کا شدید دبا ﺅ تھا کہ وہ پاکستان سے مذا کرات کر کے اس مسئلے میںکچھ پیش رفت کرے ۔بھا رت کی طرف سے مو جو دہ مذا کرات امریکی حکو مت کے دبا ﺅ کا نتیجہ ہیں لہذامذ اکرا ت میں بھا رت کا رویہ غیر سنجیدہ رہا۔ بھا رت بڑے مسائل سے پہلو تہی بھی کر تا رہا اور ایسے مطا لبے بھی پیش کر تا رہا جن پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ لشکرِ طیبہ کے خلاف اپریشن کرنے کی بھارتی تجویز پاکستانی معاملات میں کھلی مدا خلت کے مترادف ہے جس پر حکو مت کو کان نہیں دھر نا۔ حا لیہ مذ اکرات سے ہما را مقصد مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنا اور دریاﺅں پر بند باندھ کر پاکستان کو پا نی سے محروم کر نے کی بھا رتی سازش کا پردہ چا ک کرنا تھا لیکن بھار ت نے انتہا ئی ہو شیاری سے مسئلے کو دھشت گردی کی جا نب موڑ کر ایک نیا رخ عطا کر دیا
اس میں کسی شک و شبہ کی مطلق کو ئی گنجا ئش نہیں ہے کہ مذا کرات ہی تمام مسا ئل کا حل ہیں ۔ قوموں کی زندگی میں امن ہی وہ قوت ہے جو ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنے میں ممد و معاون بنتی ہے ۔جنگیں نہ کل مسائل کا حل تھیں اور نہ ہی آج مسا ئل کو حل کر نے کی صلا حیت رکھتی ہیں۔ با ہمی گفت و شنید اور مذا کرات ہی مسائل کے حل کی ضما نت ہیں اور پاکستان کو اسی راہ کا انتخاب کرنا ہے۔ دشمن بہت مکار ، بہت طا قتور اور بڑی عا لمی قوت ہے لیکن با ہمی مذا کرات سے ہی اسے زیر بھی کیا جا سکتا ہے اور اس دیرینہ مسئلے کے حل پر مجبور بھی کیا جا سکتا ہے جس پر کئی جنگیں ہو چکی ہیں ۔یہ سچ ہے کہ مسائل کا حل ایک دن میں تلاش نہیں کیا جا سکتا یہ ایک عمل ہے جسے جاری و ساری رہنا چا ئیے اسی عمل کے بطن سے وہ حل ضر ور نکلے گا جوبرِ صغیر پا ک و ہند میں امن کی ضما نت بنے گا۔ وقتی طور پر ہمیں بھا رت کی ھٹ د ھر می پر رنج بھی آتا ہے غصہ بھی آتا ہے اسکی دروغ گو ئی پر ما تم کر نے کو جی بھی چا ہتا ہے لیکن یہی تو ڈپلو میسی ہے کہ دنیا کہ سامنے جھو ٹ کو سچ کے غلاف میں اسطر ح لپیٹ کر پیش کیا جا ئے کہ اس پر سچ کا گمان ہو نے لگے ۔ بھا رت اس طرح کی ڈپلو میسی میں اپنا ثا نی نہیں رکھتالیکن ایک با ت طے ہے کہ ایک دن جھو ٹ کو شکست ضرور ہو تی ہے۔ہمیں صبر و استقا مت سے مذا کرات کو جاری رکھنا ہے تا کہ بھا رت کے مکر، فریب اور جھوٹ کا پردہ فاش ہوسکے۔
 

 
 
 
 
 
 
 
 
 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team