|
 |
|
|
|
|
|
|
Email:- |
tariq@albahar.ae |
|
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
تاریخ اشاعت:۔08-08-2010
|
دا نشمندی |
کالم۔۔۔ طا رق حسین بٹ |
پاکستا نی سیا ست میں خاکی وردی وا لو ں
کو ایک خاص قوت اور مقام حا صل ہے انکی وردی چو نکہ انکی طا قت کی علا
مت ہو تی ہے لہذا فوجی جرنیل مار شل لالگا نے کے بعد وردی کو اتا رنے
سے گریز کی را ہیں تلا ش کرتے ہیں ۔سیا ستدان عوامی ردِ عمل کی زور پر
جر نیلو ں کو وردی اتا رنے پر مجبو ر کر تے ہیں لیکن اکثر و بیشتر جر
نیل ایسا کر نے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ فیلڈ ما رشل جنرل محمد ایو ب
خان اور جنرل ضیا لحق نے اپنے طویل اقتدارکو وردی کی قوت سے ہی قا ئم
رکھا اور اپنے مخا لفین کو نوکِ شمشیر پر رکھ کرشہید کر دیا اور جس کسی
نے سر اٹھا نے کی جرات کی اسکا سر تن سے جدا کر دیا۔جنرل مشرف کا دور
بھی اپنے پیشر ﺅ ں کی طر ح با و ر د ی صد کا دور تھا لیکن یہ کریڈت تو
بہر حال محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو جا ئےگا کہ اسنے بہترین حکمتِ
عملی سے جنرل مشرف کو وردی اتا رنے پر مجبو ر کیا اور جس دن جنر ل مشرف
نے وردی اتار نے کا فیصلہ کیا اسی دن ا سکے اقتدار کا سورج زوال کے دا
ئرے میں دا خل ہو گیا جسکے اند روہ گرتا پڑتا اقتدار سے محروم ہو کر
گمنا می کے اندھیر وں میں گم ہو گیا۔جمہو ریت کی بحا لی ایک جلا وطن
اور نہتی لڑکی کی دانشمندی کا انمٹ ثبوت ہے۔
آرمی چیف کی مدتِ ملا زمت میں حا لیہ تین سال کی آئینی تو سیع نے کچھ
لو گوں کی نیند یں حرام کر دی ہیں انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کو نسی
حکمتِ عملی اختیار کریں کہ سانپ بھی مر جا ئے اور لا ٹھی بھی نہ ٹو ٹے۔
میاں محمد نواز شریف کی حا لت تو دیدنی ہے جرا تِ اظہار کے فقدان کی
وجہ سے وہ کھل کر آرمی چیف کی مدتِ ملا زمت میں تین سالہ تو سیع کے حا
لیہ فیصلے کی مخا لفت بھی نہیں کر سکتے لیکن اس فیصلے نے میاں صاحب کے
دل پر جو گہرا وار کیا ہے اور انکے ارما نوں کا جس بری طرح سے خون کیا
ہے وہ سب کو نظر آر ہا ہے ۔ انکی کیفیت اس شخص کی سی ہے جسکے با رے میں
شا عر نے کہا تھا کہ صاف چھپتے بھی نہیں سا منے آتے بھی نہیں ۔ سچ تو
یہ ہے کہ وہ لوگ جو رات کے اندھیرے میں آرمی چیف سے چھپ چھپ کر وصل کی
لذتو ں سے لطف اندوز ہو تے ہو ں وہ بھلا اس فیصلے کی مخا لفت کی جرات
کیسے کر سکتے ہیں۔ کتنے راز ہو نگے جو شب کی تاریک سا عتو ں کے دامن
میں پو شیدہ ہو نگے اور اگر چیف صاحب نے جنبشِ لب کے ہلکے سے اشارے سے
کو ئی ایک آدھ راز طشت از بام کر دیا تو جمہو ری جدو جہد کی پار سا ئی
کے سارے دعو و ں کا ڈرامہ رچا نے وا لو ں کی پا رسائی بیچ چو را ہے کے
رسوا ئی کا عبرت ناک منظر پیش کرےگی لہذا بڑی معصو میت سے کہہ دیا کہ
اور بھی غم ہیں زما نے میں محبت کے سوا تا کہ شاعری کی لطا فتوں میں دل
کی بات چھپ جا ئے۔
تجربات کی بھٹی سے گز ر نے کے بعد پی پی پی کی قیا دت نے مفا ہمتی سیا
ست کے ایک ایسے نئے فلسفے کو متعارف کروا نے کا جرا ت مندا نہ فیصلہ
کیا ہے جس میں عوام اور اسٹیبلشمنٹ کے با ہمی اشتراک سے حکمرانی کے ایک
نئے انداز کو آزما یا جا رہا ہے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب ۵۰۰۲
میں آصف علی زرداری اپنی آٹھ سالہ قید کاٹ کر جیل سے رہا ہو ئے تھے تو
انھو ں نے دبئی میں منعقد ہ ایک تقریب کے دوران سیا سی قیا دت اور فوج
کے درمیان پل بننے کی پیشکش کی تھی۔انکا خیال تھا کہ پاک فوج اس دھرتی
کے سپو تو ں کی جرا تو ں کا نام ہے لہذا پی پی پی فوج کا احترام بھی
کرتی ہے اور اسکی جرا تو ں کو سلام بھی پیش کرتی ہے۔ محترمہ بے نظیر
بھٹو شہید کے پہلے دورِ حکو مت میں فوج کو تمغہِ جمہو ریت سے نو ا زنا
اسی سوچ کا عکاس تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور پی پی پی
کے درمیان غلط فہمیو ں کو دور کیا جا ئے تا کہ یہ دو نوں باہمی اعتماد
سے آگے بڑھ کر مفا ہمت کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکیں۔ پی پی پی کے
چند عقا بو بو ں کے سامنے آصف علی زرداری کی اس سوچ کو زیادہ پذ یرا ئی
نہ مل سکی اور انھیں دفا عی پو زیشن اختیار کرنی پڑی لیکن یہ سچ ہے کہ
فوج سے اشتراکِ عمل کے ایک مخصوس اندازسے حکو مت چلا نے کا ایک نقشہ
آصف علی زرداری کے ذہن میں مو جود تھا جسے انھوں نے مو خر تو کر دیا
تھا لیکن ترک نہیں کیا تھا۔
جیل کے ساڑھے آٹھ سالو ں کے دوران آصف علی زرداری کو اسٹیبلشمنٹ اور
فوج کے فیصلہ کن کردار کو بہت قریب سے دیکھنے کا مو قع ملا ۔ ا ن کے
مراسم اس وقت کی فوجی جنتا اور دوسری خفیہ قوتو ں سے تھے اور ان سے ان
کی اکثر و بیشتر ملا قا تیں بھی ہو تی تھیں تا کہ جمہو ری نظا م کی بحا
لی کا کو ئی نہ کو ئی را ستہ اور فار مو لہ تلاش کیا جا سکے لیکن اس
میں بو جو ہ مثبت پیش رفت نہ ہو سکی لیکن آصف علی زرداری کو اسٹیبلشمنٹ
کی نفسیات ، اسکی قوت، اسکی طا قت اسکی فکر، اسکی سوچ اور اسکی اہمیت
کو بہت قریب سے دیکھنے کا مو قع مل گیا۔ محترمہ بے نظیر کے مفا ہمتی
فلسفے نے آصف علی زرداری کی سوچ کو نیا حو صلہ یا جو انکی فکر میں نئے
رنگ بھر نے کےلئے کا فی تھا اور یہ ان تمام عنا صر و عوا مل کی یکجا ئی
کا کمال ہے کہ آصف علی زرداری نے جنرل پر ویز کیا نی کی مدتِ ملا زمت
میں تین سا لہ تو سیع کا فیصلہ کر کے سب کو حیران کر دیا ہے۔
جنرل پر ویز کیا نی کی آرمی چیف کی حیثیت سے مدتِ ملا زمت میںتو سیع
پاکستان میں جمہو ری نظا م کے استحکام کی ضما نت بن کر سا منے آئےگی۔
میڈیا اور خفیہ ایجنسیو ں کے سیا سی ادا کار ہر روز حکو مت کی رخصتی کی
افوا ہ سازیو ں میں مصروف تھے لہذا مو جو دہ فیصلے سے انکی دو کانداری
ٹھپ ہو جا ئے گی، طو طا فال کا دھندا ٹھنڈا پڑ جا ئے گا اور افواہ سازی
کی فیکٹر یا ں بند ہو جا ئیں گی لہذا اس فیصلے سے انھیں جو دھچکا لگا
ہے اس سے انکا چیں بچیں ہو نا فطری ہے اس فیصلے سے خو شا مدیو ں اور مو
قع پر ستو ں کے سارے خواب آبگینو ں کی طرح ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے ہیں
اور خوا بو ں کے یو ں ٹوت جانے سے انھیں بہت تکلیف ہو رہی ہے شکست کے
ردِ عمل میں وہ نئی سا زشوں کے تا نے با نے ضرور بھنیں گے لیکن وقتی
طور پر انھیں پسپا ئی اختیار کرنی پڑ رہی ہے کیو نکہ مفا ہمتی سیا ست
کے محا سن نے انکی ابن الو قتی کی بساط کے سارے مہر وں کو چت کر دیا ہے۔
دھشت گردی کی حا لیہ جنگ میں فوج نے جسطرح حکو مت کا ساتھ دیا ہے اور
اپریشن راہِ نجات اور اپریش راہِ راست کو اپنے لہو اور شہا دتوں سے
جسطرح کامیا بی سے ہمکنار کر کے دھشت گروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے
اسکے لئے ضروری تھا کہ آرمی چیف کو قوت عطا کی جاتی، اسکا صلہ دیا جاتا،
ا پنے اھداف مکمل کر نے کا مو قع دیا جاتا، دھشت گردی کی جنگ کو اس کے
منطقی انجام تک پہنچا نے کا وقت دیا جاتا ، پالیسیو ں میں تسلسل کو بر
قرار رکھا جا تا اور اسکی صلا حیتوں کا اعترف کیا جاتا ۔ حکو مت کا
آرمی چیف کی مد تِ ملازمت میں تو سیع کا حا لیہ پروانہ آرمی چیف اور
فوج کی بیش بہا خدمات کا کھلا اور بر ملا اظہار ہے
میں بعض ناقدین کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتا کہ حکو مت کے حا لیہ
فیصلے سے کچھ جر نیلو ں کی حق تلفی ہو ئی ہے، فوج کا مورال ڈاﺅن ہوا ہے،
یا فوج کی اعلی قیادت میں بد دلی پھیلی ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔
آرمی چیف کی پو زیشن انتہا ئی مضبو ط ہو تی ہے اور اس پر فا ئز شحص پو
ری فوج کا نما ئندہ ہو تا ہے اسکا فخر ہو تا ہے لہذا ساری فوج آرمی چیف
کا احترام بھی کرتی ہے اور دل وجان سے اسکے احکامات پر عمل پیرا بھی
ہوتی ہے۔فوج میں اپنی باری کا کو ئی تصور نہیں ہو تا۔ فیلڈ ما رشل جنرل
محمد ایو ب خان ، جنرل یحی خان ، جنرل ضیا لحق ا ور جنرل پر و یز مشر ف
اس کی کھلی مثا لیں ہیں ۔فوج پاکستان میں طا قت کا اہم مر کز ہے اور یہ
ایسا سچ ہے جسے جھٹلا نا ممکن نہیں۔ پاکستان میں اہم فیصلے فوج کی مر
ضی، رائے، منشا اور خوا ہش کے بغیر کرناممکن نہیںپاکستان میں جس کسی نے
بھی ایسا کرنے کی کو شش کی اسے نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ پاکستان کی
تاریخ ایسے واقعا ت سے بھری پڑی ہے جو اس بات کی گوا ہی دینے کےلئے
کافی ہے کہ فوج ہی طاقت کا اصلی گڑھ ہے ۔ پاکستان میں ما رشل لاﺅ ں کی
تاریخ بڑی طویل اور خو نچکاں ہے جسکے ڈ انڈے جر نیلوں کے شب خون پر جا
کر منتج ہو تے ہیں۔ فوج کی قوت اسکی بے رحمی اور اسکے ڈسپلن کا سب کو
اندا زہ ہے لہذا کسی نئے شب خون کو جو رات کی تا ریکی میں جنم لے کر
پورے جمہو ری نظام کو تہہ و با لا کر دے اور جمہو ریت کے اس نو زائدہ
بچے کو بو ٹوں تلے ر و ند ڈا لے ا یسی مہم جو ئی کو تین سالہ مدتِ ملا
زمت کی توسیع سے روک دینا انتہائی دا نشمند ا نہ فیصلہ ہے اگر حکو مت
کے اس حا لیہ فیصلے سے چند مو قع پر ستوں کے مفا دات کو کاری ضرب لگی
ہے اور انکے ایک اور شب خون کو دیکھنے کی آر زﺅ ں کا خون ہو گیا ہے تو
انکی اس سوچ پر ما تم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا کیو نکہ مو جو
دہ حا لات میں پاکستان کسی نئے شب خون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
|
 |
 |
 |
 |
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
 |
E-mail:
Jawwab@gmail.com |
|
|
|