ظہورِ اسلام کے وقت انسانیت سر مایہ
داری جا گیر دار ی مذ ہبی پیشوا ئیت شرک و بت پرستی اورذات پات کی خو ن
آشام ز نجیر وں میں جکڑی ہو ئی تھی اور اس سے رہا ئی کی کو ئی صو رت
نظر نہیں آرہی تھی ۔ایسا د کھا ئی دیتا تھا کہ تہذ یب کا وہ قصرِ مشید
جو چار ہزار سال میں جا کر تعمیر ہو ا تھا منہدم ہو نے کے قریب پہنچ
چکاتھا ۔تہذیب و تمد ن کا وہ بلند و با لا درخت جسکی سر سبز و شا داب
شا خیں کبھی ساری دنیا پر سا یہ فگن تھیں لڑ کھڑا رہا تھا عقید ت و
احترا م کی زند گی بخش نمی اسکے تنے سے خشک ہو چکی تھی وہ اندر سے با
لکل بو سیدہ اور کھو کھلا ہو کر زمین بو س ہو نے کو تھا کہ ایسے میں۲۱
ر بیع لا ول کو فاران کی چو ٹیو ں سے رشدو ہدا ئیت کا آ فتاب اس رعنا
ئی و زیبا ئی سے نمو دار ہوا کہ آسمان میں تہنیت کے غلغلے بلند ہو ئے
فر شتوںنے ز مزمہ ¾ِ تبر یک گا یا، سدرةا لمنتہی کی حدو د فرا موش شا
خو ں نے جھو لا جھلا یا، انسا نیت کے پز مر دہ چہرے پر شباب و قوت کی
سر مستیا ں ظہور پذ یر ہو نے لگیں ،خو دا ری اور عزتِ نفس کے ا فسردہ
درختو ں کی عریا ن شا خو ں کو از سرِ نو خلعتِ بر گ و بار عطا ہو گئی ۔
ہما ئے بشر یت کو تو حید ِ مقدس اور مطہر رفعتو ں سے پھر دعوتِ پر واز
آنے لگی اکر منا بنی آدم کی آئیت مقدسہ نے ا نسا نیت کو بر ا بری اور
مسا وات کا ز ر یں درس دے کر اونچ نیچ کی ساری انسا نیت کش دیوا رو ں
کو مسمار کر کے صبحِ نور کی بشا رت دے ڈا لی جس پر انسا نیت آج بھی فخر
و نا ز کر رہی ہے۔
عروجِ آدمِ خا کی سے انجم سہمے جا تے ہیں۔کہ یہ ٹو ٹا ہوا تا را ماہِ
کا مل نہ بن جا ئے (علامہ ڈا کٹر محمد اقبال)
اسلام کے ابتدا ئی دور میں ہمیں اس نظام کی مکمل جھلک نظر آتی ہے جو
مشیتِ خدا وندی تھا اور اس کرہِ ارض کا سب سے اعلی ، منفرد اور مثا لی
نظا م تھا۔ جسمیں ہر کسی کے ساتھ انصا ف ہو تا تھا جسمیں بند ہ وآ ٓقا
کی تمیز با قی نہیں تھی جسمیں کسی کے ساتھ نا ا نصا فی کا تصور نہیں
تھا جسمیںخلیفہ ¾ِ ِ وقت کو عدا لت میں طلب کرلیا جا تا تھا جسمیں کسی
کےلئے کو ئی خصو صی قوا نیں نہیں تھے جسمیں کسی کے ساتھ ظلم اور زیا
دتی کا کو ئی تصور نہیں تھا ذا تی اقتدار کی خا طر کسی کو ٹا رگٹ نہیں
کیا جا تا تھا اور نہ ہی کسی سے زاتی انا کی تسکین کی خا ظر بد لہ لیا
جا تا تھا قا نو ن کی نظر میں سب شہری برا بر تھے اور انسان ہو نے کی
جہت سے کسی کو کسی پر کو ئی فو قیت نہیںتھی۔ کسی عربی کو عجمی پر اور
کسی عجمی کو عربی پر کو ئی امتیاز نہیں تھا۔ گو رے اور کا لے میں رنگ
کی بنیاد پر کو ئی تفر یق نہیںتھی ۔ دو لت و حشمت کی بجا ئے علم اور
کردار معا شرے میں مدارج کے تعین کے معیار قرار پا ئے تھے کسی کے حسب
نسب اور خا ندا نی وجا ہت میں اتنی قوت نہیں تھی کہ وہ کسی شخص کے عز ت
و وقار اور احترام کی بنیاد بن سکے۔ قا نون کے اطلاق کےلئے جو معیار قا
ئم کر دیا گیا تھااسمیں کسی کو کو ئی تخصیص حا صل نہیں تھی ۔ قانون کی
حاکمیت کا اس سے بڑا مظا ہرہ اور کیا ہو گا کہ سر کارِ دو عا لم سید
الا نبیاءﷺنے یہ اعلا ن فرما دیا تھا کہ مجھے قسم ہے اس خدا کی جسکے
ہاتھ میں میری جان ہے اگر فا طمہ بنت محمدﷺ بھی چو ری کرےگی تو اسکے
ہاتھ بھی کا ٹ دئے جا ئینگےے۔ کو ئی ہے جو قانون سے محبت اور اس کی
حاکمیت کی اس سے بہتر مثا ل پیش کر سکے۔ قانون کی حکمرا نی کے زریں
اصول سر کارِ دو عا لم سید الا نبیاءﷺ کے عطا کردہ ہیں اور انہی قوانین
کی عملداری اور اتباع میں انسا نیت کی بقا اور نجات ہے۔ظلم ہر رنگ میں
ننگِ انسانیت ہے لہذا اس کو کہیں بھی پناہ نہیں ملتی اور کو ئی اس کا
علمبراد نہیں ۔ شکست اس کا ابدی اور ازلی مقدر ہے اور یہی ہو کر رہنا
ہے۔
چشمِ فلک اس بے مثل نظا م کو جسکی میں با ت کر رہا ہو ں صرف مختصر مدت
کے لئے دیکھ سکی جس میں دریا کے کنار ے ایک کتے کی بھو ک کی بھی ذمہ
داری قبو ل کی جا تی تھی اسکے بعد مفا دات کی وہی دوڑ شرو ع ہو گئی جس
میں انسا نیت پہلے ہی کرا ہ رہی تھی۔ ملو کیت نے اسلام کی حریت انگیز
فکر پر قبضہ کر لیا اور ملو کیت کا وہی پرا نا نظام لو ٹ آیا جو ہر دور
میں اپنی اشکال تو بدلتا ہے لیکن ایک مخصو ص طبقے کے فرما نر وا ئی کے
تصور کو مضبو طی عطا کرتا ہے ۔ بنو امیہ اور بنو عبا س سے شرو ع ہو کر
برصغیر پا ک و ہند میں مغلیہ دور تک آجا ئیے آپکو ایک ہی فکر کی کا ر
فر ما ئی نظر آئےگی کہ اہلِ اقتدار کا عوام سے کو ئی تعلق نہیں ہو تا
ان کےلئے کو ئی قا نون اور ضا ا بطہ نہیں ہو تا اور وہ کسی کو بھی جوا
ب دہ نہیں ہو تے۔ ایک ملکہ کی خوا ہش پر ار بو ں روپے سے تاج محل تعمیر
کر دیا جا تا ہے۔ انسا نو ں کو زند ہ در گور کرنا، ہا تھیوں کے پا ﺅں
تلے روند ڈالنا اور محبت کا علم بلند کرنے وا لوں کو دیوا رو ں میں
چنوا دینے کی انسا نیت سوز سزا ئیں اسی دور کی یاد گار ہیں۔ ا ہلِ بیعت
کے خلاف فوج کشی کس نے کی تھی حضرت امام حسین اور ان کے ۲۷ سا تھیو ںکے
خلاف کر بلا میں ظلم و بر بر یت کی داستان رقم کرنے والے کون تھے مذا
ہبِ اربعہ کے سارے امامو ں کو پا بندِ سلاسل کس نے کیا تھا اور انھیں
اذیت ناک صورتِ حال سے کس نے دوچار کیا تھا ۔ کون تھے وہ لوگ جو شاہوں
کے قصیدہ خوان تھے ، انکی عظمتوں کے گن گا تے تھے ظلم و جبر کو ہوا
دیتے تھے اور بے کسوں کی رسوائی اور پا ما لی کا تما شہ دیکھ کر مسرور
ہوتے تھے ایسا کرنا با د شاہ کو خوش کرنے کےلئے ضروری ہوتا تھا اور یہ
خوشنودی انھیں بہر حال مقدم ہو تی تھی۔
قانون باد شا ہوں کے الفا ظ سے جنم لیتا تھا اور انکی ایک جنبشِ آبرو
سے منسوخ ہو جا تا تھا کیا تا ر یخِ اسلام میں کسی قا ضی میں ا تنی
جرات تھی کہ وہ حا کمِ وقت کو انصا ف کے کٹہرے میں کھڑا کر کے ا سکی
حکو مت کو غیر آئینی قرار دےکر بر خا ست کر د ے قطعا ¾ نہیں کیو نکہ قا
ضی تو خود باد شا ہوں کے رحم و کرم پر ہو تے تھے اور انہی کی منشا کے
مطا بق فیصلے کرتے تھے۔ ماضی کی یہی وہ غیر عادلانہ اور ظا لما نہ روا
ئیتیں ہیں جو اسلا می نظامِ حکو مت کا عظیم ور ثہ قر ار پا رہی ہیں اور
جنھیں ہم پو رے تقد س کے ساتھ سینو ں سے چمٹا ئے ہو ئے ہیں۔اس حد تک تو
با ت درست ہے کہ اسلا م برابری اور انصاف کا مذہب ہے اور یہ بات شک و
شبہ سے با لا تر بھی ہے لیکن انصاف اور برابری کی یہ چا ندنی ایک
انتہائی مختصر مدت کے علاوہ ہمیں کہیں نظر نہیں آتی ہما ری تا ریخ تو
با د شا ہو ں اور جر نیلو ں کی تاریخ ہے اور آج بھی اسلامی دنیا کے
اکثر و بیشتر ممالک میں حکو مت کا یہی انداز کار فرما ہے لیکن کچھ لو گ
اسلام کا نام استعمال کر کے دو سرو ں کو نیچا دکھا کر ذا تی مفا دات حا
صل کر نا چا ہتے ہیں لیکن ا یسی روش کا موجودہ جدید معاشرے اور جمہو ری
دور میں چلنا ممکن نہیں ہے کیو نکہ اب عوام کو کھرے اور کھو ٹے کی تمیز
ہے، وہ شعبدہ با زوں کی شعبدہ بازیوں کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں
لہذا ان کے مکر وفریب کے جال کا شکار نہیں بنتے اور نہ ہی ان کے ہا
تھوں بیو قوف بنتے ہیں۔۔
برِ صغیر پا ک و ہند میں جب مغلیہ سلتنت زوال پذیر ہو ئی تو بر طا نیہ
نے ہند و ستاں پر تسلط قا ئم کر لیا ، آزا دی کی ایک عظیم جنگ لڑی گئی
جس میں لا کھو ں لو گو ں نے اپنی جا نو ں کا نذرا نہ پیش کیا تب جا کر
آزا دی کی صبح ہما را مقدر بن سکی۔ علا مہ محمد اقبا ل نے برصغیر پا ک
و ہند میں مسلما نو ں کےلئے ایک علیحدہ اسلا می ریا ست کے قیام کا تصور
پیش کیا ۔ علا مہ صا حب کی آرزو تھی کہ عربی ملو کیت اور شہنشا ئیت نے
جس بر ی طرح سے اسلام کے چہرے کو مسخ کر دیا ہے پاکستانی مملکت ملو کیت
کے اس داغ کو دھو کر اسلام کا اصلی عادلا نہ اور جمہو ری نظا م قا ئم
کرےگی۔قا ئدِ اعظم محمد علی جناح نے علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان پر
ایک فقید المثا ل جدو جہد سے ۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو دنیا کی سب سے بڑی اسلا
می مملکت پاکستان کی تخلیق کا معجزہ سر انجام دے دیا۔پاکستانی قوم اپنے
ان محسنو ں کے احسا نات کا قرض ادا نہیں کرسکتی کہ انھو ں نے ملو کیت
کی بجا ئے ایک جمہو ری ملک ہما رے حوا لے کیا تا کہ ہم ملو کیت سے پاک
عاد لانہ معا شرہ قا ئم کر کے قرونِ اولی کے قا ئم کردہ اس بے نظیر نظا
م کی روح کو پھر قا ئم کر سکیں جو انسا نیت کی سدا سے آرزو اور خوا ہش
رہی ہے لیکن ہم ایسا نہ کر سکے کیو نکہ اس مملکتِ خدا داد پر جا گیر
داروں، سرما یہ داروں جرنیلوں اور ان کے حواریوں نے قبضہ کر کے ایک
دفعہ پھر عدل و انصا ف کی حکمرا نی کے خواب کو چکنا چور کر دیا ہے۔
ہر ملک کا اپنا آئین اور قا نو ں ہو تا ہے اور حکو متیں آئین و قا نو ن
کی طا قت سے ہی چلتی ہیں آپ ایک ملک کے قا نو ں کا موا زنہ دوسرے ملک
کے قا نو ں سے نہیں کر سکتے سعودی عرب، یو اے ای، ترکی اور پاکستان کے
آئین اپنی ہئیت میں با لکل مختلف ہیں۔ آئین لو گو ں کے ایمان، ثقا فت،
رسموں رواجوں اور رو یو ں کو پیشِ نظر رکھ کر تشکیل دئیے جا تے ہیں
لہذا اگر آئین ایک دوسرے سے مختلف ہو تے ہیں تو اسمیں حیرا نگی کی کو
ئی با ت نہیں ہے کیو نکہ مختلف اقوام کے کلچر مختلف ہو تے ہیں۔اب اگر
کسی ملک کا آئین اپنے سر براہِ ِ مملکت کو استثناءدیتا ہے تو آپ اسلام
کا نام استعمال کر کے اسے ختم نہیں کر سکتے جنرل محمد ایو ب ،جنرل یحیی
جنرل ضیا ا لحق اور جنرل پرویز مشرف سے انکے غیر آئینی اقدامات پر کو
ئی باس پرس نہیں کی جا تی بلکہ پاکستان کے مفاد پرست طبقے ان سے مراعات
حا صل کر کے انھیں امیر المومنین کے خطاب سے نوازنے سے بھی گریز نہیں
کرتے تھے پاکستانی عدا لتوں نے ان سے تو کو ئی تعرض نہیں کیا اور نہ ہی
ان سے کو ئی با ز پر س کی بلکہ ہر مقام پر انھیں تحفظ دیا تا کہ انکے
اپنے مفادات پر بھی کو ئی زد نہ پڑے لیکن ایک منتحب صدرجو مخصوص حلقوں
کو پسند نہیں ہو تا اسکے خلاف اسلام کا سہارا لیا جاتا ہے اور اسلام کے
عد ل و انصاف کے اصولوں کی ما لا جپی جا تی ہے تا کہ انتقام کی آگ
بجھائی جا سکے جو کہ بد نیتی کی علا مت ہے۔
آئیے پہلے اس بات کا تعین کر لیں کہ موجو د ہ کرہِ ارض پر اسلام نا فذ
کہا ں ہے اور پچھلی چو دہ صدیو ں میں یہ نظا م قا ئم کہا ں ہوا تھا اگر
ہم کھلے دل ودماغ سے حقا ئق کا جا ئزہ لینے کی کو شش کریں تو انصا ف،
قا نو ن اور برابری کی عظیم اور سنہری روائت مو جو دہ مسلم حکو متوں
میں ہمیں کہیں بھی کا ر فرما نظر نہیں آتی۔ دعو ی کرنے کی حد تک تو یہ
بات درست قرار پا سکتی ہے لیکں ھقا ئق سے اسکا دور کا بھی وا سطہ نہیں
ہے کیو نکہ ہم نے اسلام کی اس روح پر کبھی بھی عمل نہیں کیا جسکا اسلام
دا عی تھا اور جس نے اس کی ترویج ، غلبے ، شان و شوکت، عزت و احترام ،
عظمت ، حقا نیت ،پھیلا ﺅ اور عروج میں بنیا دی کردار ادا کیا تھا۔
کبھی اے نو جوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے۔۔وہ کیا گردوں تھا تو جس کا
ہے اک ٹو ٹا ہوا تا را
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پا ئی تھی ۔۔ ثریا سے زمین پر آسماں
نے ہم کو دے مارا
تجھے آبا سے اپنے کو ئی نسبت ہو نہیں سکتی ۔۔ کہ تو گفتار وہ کردار تو
ثا بت وہ سیارا
مگر وہ علم کے موتی کتا بیں اپنا آبا کی۔۔جو دیکھیں ان کو یو رپ میں تو
دل ہو تا ہے سیپا را
(علامہ ڈا کٹر محمد اقبال)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
|