اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

WWW.URDUPOWER.COM-POWER OF THE TRUTH..E-mail:JAWWAB@GMAIL.COM     Tel:1-514-250-3200 / 0333-585-2143       Fax:1-240-736-4309

                    

 
 

Email:-                                                            iqbal-janjua@gmail.com    

Telephone:-       

 

 

 

تاریخ اشاعت17-02-2009

زمین کا مرکز ’گرینچ‘ یا ’مکۃ المکرمہ

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
»ِاِنَّ أَوَّلَ بَیتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَہُدًی لِّلعَالَمِین«
بلاشبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے ۔ا س گھر کو برکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔ (آل عمران : 96)

سب سے پہلا گھر جو منجانب اللہ لوگوں کے لیے مقر ر کیا گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے، اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کے لیے بنایا گیا ہو، اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولت خانہ، حضرت آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، ان کی شان سے کچھ بعید نہیں کہ انھوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو، اسی لیے حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، قتادہ، سدی وغیرہ صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے ر ہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں مگر عبادت کے لیے یہ پہلا گھر بنا ہو، حضرت علی سے یہی منقول ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ آدم علیہ السلام کی یہ تعمیر کعبہ نوح علیہ السلام کے زمانے تک باقی تھی، طوفان ِنوح میں منہدم ہوئی اور اس کے نشانات مٹ گئے، اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا ‘‘۔(تفسیر معارف القرآن، سورۃ آل عمران 96)

سائنسی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مکہ جسے قرآن میں بکہ بھی کہا گیا ہے اور جہاں مسلمان عمرہ وحج ادا کرتے ہیں، زمین پر معرض وجود میں آنے والا خشکی کا پہلا ٹکڑا تھا۔ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت یہی ہے کہ زمین کی پیدائش کے ابتدائی ایام میں تمام کرہ زمین پانی میں ڈوباہوا تھا یعنی ایک بہت بڑا سمندر تھا۔ بعدازاں اس کی تہہ سے آتش فشاں پھٹے اورانہوں نے زمینی پرت کے نیچے پگھلے ہوئے چٹانی مواد اور لاوے کو بڑی مقدار میں اوپر دھکیل دیا جس سے ایک پہاڑی معرض وجود میں آئی اوریہی وہ پہاڑی تھی کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنا گھر (قبلہ) بنانے کا حکم دیا۔ مکہ کی سیاہ بسالٹ چٹانوں پر کی گئی سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکاہے کہ یہ ہماری زمین کے قدیم ترین پتھر ہیں۔ اگر یہ بات ایسے ہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسی مکہ سے ہی پھر بقیہ زمین کو پھیلایا گیا اور دنیا کے دوسرے خطے معرض وجود میں آئے۔ سوال پیدا ہوتاہے کہ ہمارے اس دعوٰ ی کی تائید میں کوئی حدیث مصطفٰے بھی موجود ہے۔ اس کا جواب ہاں میں ہے۔


ڈاکٹر ذغلول النجار نے درج ذیل 2 احادیث کو پیش کیا ہے۔ جن کو میں انہی کے حوالے سے نقل کررہا ہوں کہ نبی کریم نے فرمایا کہ کعبہ پانی کے اوپر زمین کا ایک ٹکڑا تھا اسی سے ہی بقیہ زمین کو پھیلایا گیا ۔(الفائق فی غریب الحدیث للز مخشری: 1/371)۔ اسی طرح الطبرانی اور البیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ جب زمین وآسمان بنائے جارہے تھے تو پانی کی سطح میں سے سب سے پہلا نکلنے والا خشکی کا ٹکڑا یہی تھاکہ جس پر یہ (متبرک گھر) واقع ہے، پھر اسی کے نیچے سے ہی بقیہ زمین کو پھیلا یا گیا۔علاوہ ازیں درج ذیل احادیث سے بھی مندرجہ بالا احادیث کوتقویت ملتی ہے ۔ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک حدیث روایت کی ہے، اس لمبی حدیث میں سے ایک ٹکڑا میں یہاں نقل کرتاہوں۔ نبی فرماتے ہیں کہ ’’(مکہ) وہ شہر ہے کہ جس دن سے اللہ نے آسمانوں اورزمین کو پید اکیا ۔اسی دن سے اس کو حرمت دی اور اللہ کی یہ حرمت قیامت تک قائم رہے گی ‘‘۔(بخاری ابواب العمرہ، باب لایحل القتال بمکۃ)۔

اس کے علاوہ امام ابن کثیر نے بھی ایک حدیث مسنداحمد، ترمذی اور نسائی سے نقل کی ہے، اس کو امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے کہ نبی نے مکہ کے بازار حرورہ میں کھڑے ہوکر فرمایا کہ’’اے مکہ تو اللہ تعالی کو ساری زمین سے بہتراور پیا را ہے۔ اگر میں زبردستی تجھ سے نہ نکالا جاتا توہرگز تجھے نہ چھوڑتا‘‘۔(تفسیر ابن کثیر، آل عمران ، آیت 96)۔ چناچہ رسول اللہ کا فرما ن جہاں مندرجہ بالا تحقیق کی حمایت کرتاہے وہاں آپ کی صداقت کو بھی عیاں کرتاہے۔ حضور کو کس نے بتایا کہ زمانہ قدیم میں پوری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اور پھر اسی خشکی کے ٹکڑے پر اللہ کا گھر بنایا گیا تھا، جیسا کہ مکہ کی بسالٹ چٹانو ں پر کی گئی تحقیق سے یہ امر ثابت ہوچکاہے کہ یہ قدیم ترین چٹانیں ہیں۔

پروفیسرحسین کمال الدین ریاض یونیورسیٹی میں شعبہ انجنیئرنگ میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے اپنی بے مثال تحقیق کے بعد اس امر کا انکشاف کیاتھا کہ مکہ زمین کا مرکز ہے ۔انہیں اس حقیقت کا علم اس وقت ہوا جب وہ دنیا کے بڑے شہروں سے قبلہ (مکہ) کی سمت معلوم کرنے کے کام پر مامور تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک چارٹ بنایا۔ اس چارٹ میں ساتوں براعظموں کو مکہ المکرمہ سے فاصلے اورمحل وقوع کی بنیاد پر ترتیب دیا۔ پھراپنے کام کو مزید آسان بنانے کے لیے انہوں نے اس چارٹ کو طول بلد اور عرض بلد کے حساب سے تقسیم کرنے کے لیے یکساں خطوط کھینچے۔ پھر ان فاصلوں، مقداروں اور دوسری کئی ضروری چیزوں کو معلوم کرنے کے لیے انہوں نے انتہائی جدید اور پیچیدہ کمپیوٹر سافٹ وئیرز کو استعمال کیا اور آخرکار دوسالہ انتھک محنت کے بعد اپنی نئی دریافت کا انتہائی خوشی سے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’مکہ‘‘ ہی زمین کامرکز ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک ایسا دائرہ بنایا جائے کہ اگر اس کا مرکز مکہ ہوتواس دائرے کے بارڈرز تما م براعظموں سے باہر واقع ہوں گے اور اسی طرح اس دائرے کا محیط تمام براعظموں کے محیطوں کا احاطہ کررہا ہوگا۔ (المجلہ العربی ۔نمبر 237،اگست 1978ء)۔

بعدازاں 20 صدی کی آخری دہائی میں زمین اور زمین کی تہوں کی جغرافیائی خصوصیات کو جاننے اور نقشہ نویسی کی غرض سے حاصل کی گئیں سیٹلائٹ تصاویر سے بھی اس تحقیق کوتقویت ملتی ہے کہ مکہ زمین کے مرکز میں واقع ہے۔ سائنسی طور پریہ امر ثابت شدہ ہے کہ زمین کی پلیٹیں (Tectonics Plates) اپنی لمبی جغرافیائی عمر کے وقت سے باقاعدگی کے ساتھ عربین پلیٹ کے گرد گھوم رہی ہیں۔ یہ پلیٹیں باقاعدگی کے ساتھ عربین پلیٹ کی طرف اس طر ح مرتکز ہورہی ہیں کہ گویا یہ ان کا مرکز ہدف ہے۔ اس سائنسی تحقیق کا مقصد ہرگز یہ معلوم کرنا نہیں تھاکہ زمین کا مرکز مکہ ہے یا نہیں بلکہ کچھ اور مقاصد تھے۔ تاہم اس کے باوجود یہ تحقیق مغرب کے کئی سائنسی میگزینوں میں شائع ہوئی مگر اس طورپر کہ اس سے کوئی نتیجہ اخذنہ کیا جاسکے۔ سید ڈاکٹر عبدالباسط مصر کے نیشنل ریسرچ سنٹر کے ممتاز رکن ہیں۔ انہوں نے 16 جنوری 2005ء میں سعودی عرب میں المجد ٹی وی کو انٹرویو دیا تھا ۔ اس میں مکۃ المکرمہ کے متعلق کئی حیرت انگیز سائنسی انکشافات کیے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ سائنسی بنیادوں پر مکہ دنیا کا مرکز اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ جب نیل آرم سٹرانگ زمین سے اوپر خلا کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے زمین کی تصویریں کھینچیں۔ انہوں نے دیکھا کہ زمین خلا میں معلق ایک کالا کُرّہ ہے۔ نیل آرم سٹرانگ نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اسے کس نے لٹکا یاہے؟ پھر خود ہی جواب دیاکہ ! اسے خدانے ہی معلق کرکے تھاما ہوا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے مشاہدہ کیا کہ زمین کے کسی خاص مقام سے کچھ خاص قسم کی شعاعیں نکل رہی ہیں جو کم طول موج کی تھیں۔ انہوں نے اس چیزکو معلوم کرنے کے لیے اپنے کیمروں کو اس مقام پر فوکس کرنا شروع کیا کہ جہاں سے یہ شعاعیں نکل رہی تھیں۔ آخرکار وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ معلوم کرلیا کہ وہ مقام کہ جہاں سے شعاعیں خارج ہورہی ہیں وہ مکہ ہے۔ بلکہ بالکل اگر صحیح طور پر کہا جائے تو وہ کعبہ ہے۔ جب نیل آرم سٹرانگ نے یہ منظر دیکھا تو اس کے منہ سے نکلا۔ اوہ !میرے خدا! جب وہ مریخ کے قریب پہنچے تو دوبارہ انہوں نے زمین کی تصویریں کھینچیں تو انہیں معلوم ہواکہ مکہ سے نکلنے والی یہ شعاعیں مسلسل آگے جارہی تھیں۔ ناسا نے یہ تمام معلومات اپنی ویب سائٹ پر پیش کردی تھیں مگر صرف 21 دن کے بعد ان کو ویب سائٹ سے ہٹا دیاگیا تھا۔ شاید اس لیے کہ یہ معلومات بڑی اہم اور حساس تھیں۔



ڈاکٹرعبدالباسط نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ یہ شعاعیں جو کعبہ سے خارج ہورہی ہیں لا محدود ہیں۔ زیادہ طول موج یا کم طول موج والی شعاعوں کی خصوصیات سے بالکل برعکس، میرے خیال میں اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ان کامنبع اور مأخد زمین کا کعبہ ہے جو آسمانی کعبہ سے وابستہ ہے اورمجھے یقین ہے کہ یہ شعائیں زمینی کعبۃ اللہ سے بیت المعمور (آسمانی کعبۃ اللہ) تک جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کعبہ زمین کے اس مقام پر ہے کہ جہاں زمینی مقناطیسی قوتوں کا اثرصفر ہے۔ یہ زمینی مقناطیس کے شمالی اورجنوبی قطبوں کے بالکل درمیان میں ہے ، اگریہاں قطب نمارکھ دیا جائے تو اس کی سوئی حرکت نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ اس مقام پر شمالی قطب اور جنوبی قطب کی کششیں ایک دوسرے کے اثر کو زائل کردیتی ہیں۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ مکۃ المکرمہ اس زمینی مقناطیسی قوت کے اثر سے باہر ہے اور مکہ کے رہنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، نتیجتاً جو کوئی مکہ کی طرف سفر کرتاہے یا اس میں رہتاہے وہ صحت مند اورلمبی عمر پاتاہے۔

اسی طرح جب آپ کعبہ کا طواف کرتے ہیں تو آپ اپنے اندر ایک توانائی داخل ہوتے ہوئے محسوس کرتے ہیں ایسا اس لیے ہوتاہے کہ آپ زمین کے مقناطیسی میدان کی قوت کے اثرسے باہر ہوتے ہیں اورسائنسی بنیادوں پر یہ بات ثابت شدہ ہے۔علاوہ ازیں مکہ کی کالی بسالٹ چٹانوں کے ٹکڑو ں کو لیبارٹری میں لے جاکر چیک کیاگیا ہے اور یہ بات معلوم کر لی گئی ہے کہ یہ زمین کی سب سے قدیم ترین چٹانیں ہیں۔ مصر کے ڈاکٹر عبدالباسط کی گفتگو سے ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ ناصرف زمین کا مرکز ہے بلکہ یہ پوری کائنات کا مرکز بھی ہے کیونکہ اس کی سیدھ میں بالکل اوپر آسمانی کعبہ یعنی بیت المعمور ہے۔ مختلف روایات و احادیث سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المعمور، زمینی کعبہ کی سیدھ میں بالکل اوپر ہے۔ اگر وہ اوندھے منہ گرے تو سیدھا اس کے اوپر گرے۔ ہرروز 70 ہزار فرشتے اس میں آتے ہیں جب وہ وہاں سے جاتے ہیں تو پھر ان کی باری نہیں آتی۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں بھی مکہ کو ’’ام القری‘‘ کہا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مکہ ان شہروں کی ماں ہے جو سب اس کے اردگرد ہیں۔ اس آیت سے بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ مکہ تمام شہروں کے درمیان میں ہے۔اسلامی معاشرے میں ماں کے لفظ کی ایک خا ص اہمیت ہے۔ آل و اولاد کا سلسلہ ماں سے ہی چلتاہے۔ چناچہ مکہ کو شہروں کی ماں کانام دینے سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زمین کے بقیہ حصے بھی اسی سے پھیلے یا اس کے بعد وجود میں آئے اوریہی بات سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے۔ مکہ ایک محفوظ اور پر امن شہر ہے۔

قرآن میں اس کو ’’بلد الامین‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ یہاں کسی چرند پرند کوبھی نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ یہ تمام اطراف سے اونچے پہاڑوں میں گھراہوا ہے ،یہی وجہ ہے کہ یہاں کبھی کبھار کم درجے کے زلزلے ہی آتے ہیں۔ مزید برآں چونکہ اس شہر کا درجہ حرارت عموماً زیادہ رہتاہے اسی وجہ سے یہاں زمینی پرت (Crust)کے نیچے چٹانیں چپکنے والی اور لیس دار ہیں، اس وجہ سے بھی مستقبل میں اگر کبھی یہاں زلزلہ آیا تو اس کی شدت کم ہی رہے گی ۔ کعبہ کی ایک اور اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمان اس کے گرد طواف کرتے ہیں۔ طواف کا آغاز حجر اسود والی جگہ سے کیا جاتاہے۔ حاجی یہ طواف اینٹی کلاک وائز (مخالف گھڑی وار) کرتاہے اوریہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کائنات میں ایٹم سے لے کر کہکشاؤں تک ہر چیز اینٹی کلاک وائز حرکت کررہی ہے۔ ایٹم کے اندر الیکٹرونز، نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتے ہیں۔ زمین کی تمام پلیٹیں عربین پلیٹ کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتی ہیں۔ انسانی جسم کے اندر سائیٹوپلازم، سیل کے نیوکلئس کے گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتاہے۔ پروٹین مالیکیولز بھی بائیں سے دائیں طرف اینٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتے ہوئے ترتیب پاتے ہیں۔ ماں کے رحم کے اندر بیضیٰ انثیٰ بھی اپنے ہی گرد حرکت اینٹی کلاک وائز ہی کرتاہے۔ مرد کی منی کے اندرجرثومہ بھی اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتے ہوئے بیضیٰ انثی تک پہنچتاہے۔ انسانی خون کی گردش بھی اینٹی کلاک وائز ہی شروع ہوتی ہے۔ زمین اپنے گرد اور سورج کے گرد بھی انیٹی کلاک وائز ہی حرکت کرتی ہے۔ سورج اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز حرکت کرتاہے۔ سورج اپنے تما م نظام شمسی سمیت ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتاہے۔ کہکشاں خود اپنے ہی گرد اینٹی کلاک وائز گردش کرتی ہے۔ چناچہ ان تفصیلات سے معلوم ہوتاہے کہ ایک مسلمان جب کعبہ کا طواف کرتا ہے تووہ اسی طرح اپنے رب کی طرف سے عائد کی گئی ڈیوٹی کو نبھاتا ہے کہ جس طرح ایٹم سے لے کر کہکشاؤں تک، سب اپنے رب کے حکم کے آگے سراطاعت خم کیے ہوئے ایک ہی سمت میں محو گردش ہیں۔ اس سے اسلام کا امیتاز اوربرتری دوسرے مذاہب کی نسبت نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔

گزشتہ سال قطر میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی ،جس کا عنوان ’’مکہ مرکز عالم ،علم وعمل ‘‘ تھا۔ اس میں کچھ مسلمان علمائے دین اور سائنسدانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ گرینچ کے معیاری وقت کے بجائے مکہ مکرمہ کے وقت کومعیار کے طورپر اپنانا چاہیے کیونکہ بقول ان کے مکہ مکرمہ ہی دنیا کا مرکز ہے ۔ اس کانفرنس میں شریک ایک ماہر ارضیات کا کہنا تھا کہ جغرافیائی لحاظ سے مکہ مکرمہ قطب شمالی سے دیگر طول بلد کے مقابلے میں بہترین مطابقت رکھتا ہے۔ شرکاء کانفرنس کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے برطانوی راج کے دور میں دیگر ممالک پر قبضہ کرکے، باقی دنیا پر زبردستی گرنیچ کا وقت مسلط کردیاتھا۔ اب اس صورت حال کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔

معروف عالم دین شیخ یوسف القرضاوی نے اس کانفرنس میں کہا کہ جدید سائنسی طریقوں سے اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مکہ مکرمہ کرہ ارض کا اصل مرکز ہے۔ جس سے قبلے کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ اس کانفرنس میں مکہ واچ، نامی منصوبے کا بھی جائزہ لیا گیا۔ یہ ایک فرانسیسی سائنسدان کی ایجاد کردہ گھڑی ہے جو الٹی طرف چلتی ہے اور اس سے دنیا میں کہیں بھی موجود مسلمانوں کو قبلے کے رخ کا پتہ چل سکتا ہے۔ اب جب کہ سائنسی تحقیقات اور سیٹلائٹ تصاویر نے بھی اس تحقیق کی حمایت کردی ہے کہ مکہ ہی زمین کا مرکز ہے تو کئی دہائیوں سے جاری اس تنازعہ اور بحث و مباحثہ کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی طور پر وقت کے معیار کے لیے گرینچ کی بجائے ’’مکہ ‘‘ ہی کو مرکزقراردیاجائے۔ اب اگر مکہ کے وقت کو بین الاقوامی طورپر نافذ کردیاجائے تو ہر ایک کے لیے نمازوں کے اوقات کا معلوم کرنا بالکل آسان ہوجائے گا۔ لہذا مکۃ المکرمہ جو کہ ایک مبارک شہر ہے، کو دنیا کے دیگر شہر وں پر فضیلت کا حق ملنا چاہیے
 

 

E-mail: Jawwab@gmail.com

Advertise

Privacy Policy

Guest book

Contact us Feedback Disclaimer Terms of Usage Our Team