اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

تاریخ اشاعت:۔05-01-2010

اس دور کا فتنہ

اس دور کا فتنہ عظیم مال و زر کی محبت ہے اسی کی وجہ سے سارا معاشرہ جرائم زدہ ہو چکا ہے۔ رشوت‘ ڈاکہ زنی ‘ اغوا برائے تاوان‘ ناانصافی‘ ظلم‘ فرائض سے لاپروائی‘ سب کے پیچھے ایک ہی سبب کار فرما ہے۔ مال سے بطور مال محبت اور اسے جمع کرنے کا شوق اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز سے شدید محبت رکھنا ایمان کے منافی ہے۔
قرآن پاک میں مال سے بطور مال محبت کی سخت مذمت ہے۔ سورہ الھمزہ میں فرمایا ترجمہ‘
۱۔ تباہی ہے ہر طعنہ باز چغل خور کیلئے
۲۔ جس نے مال جوڑا اور اسے گن گن کے رکھا
سورہ التکاثر میں فرمایا
۱۔ غفلت میں ڈالے رکھا تمہیں بہتات کی چاہ نے
(مثلاً یہ خواہش کہ روپیہ زیادہ ہو مکانات زیادہ ہوں‘ اراضیات زیادہ ہوں)
۲۔ یہاں تک کہ تم قبروں تک جاپہنچے۔
۳۔ زندگی‘ یہ نہیں تم جلدی جان لو گے۔
۴۔ (ہم پھر کہتے ہیں‘ زندگی) یہ نہیں تم جلدی جان لو گے۔ (کہ ان چیزوں کی حقیقت کیا ہے)
سورۃ التوبہ میں فرمایا ’’جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ کر کے رکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں عذاب درد ناک کی خوش خبری دیں ایک روز اس سونے چاندی کو جہنم کی آگ میں تپایا جائیگا اور اس سے انکی پیشانیاں پہلو اور کمریں داغی جائیں گی (پھر ان سے کہا جائیگا) یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لئے جمع کر کے رکھا تھا۔ اب اس جمع کئے ہوئے کا مزہ چکھو‘‘ ۔
سورہ آل عمران میں فرمایا ’’بخیل کا مال اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائیگا‘‘ ۔
سورۃ المعارج میں فرمایا : ’’یقیناً وہ شعلہ زن آگ ہے جو چہرے کی کھال ادھیڑ دیتی ہے وہ اس شخص کو بلاتی ہے جس نے ہدایت سے پیٹھ پھیری اور منہ موڑ لیا اور مال جمع کیا اور پھر اسے بند کر کے رکھا‘‘ ۔
حدیث پاک کیمطابق شیطان ہمیشہ ایسے نیک آدمی سے جو لالچی ہو پرامید رہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی دن ضرور اس کے چنگل میں پھنس جائیگا۔
معاشرہ کو جرائم سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے مال کی محبت کم کی جائے اور یہ کام صوفیا کے کرنے کا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد گرامی ہے۔ ’’اور وہ جو ایمان رکھتے ہیں‘ انکی محبت اللہ تعالیٰ سے بہت شدید ہے‘‘ (سورۃ البقرہ)
قلوب میں اللہ تعالیٰ کی شدید محبت ڈال کے دولت کی محبت کو کم کیا جائے۔ علاوہ ازیں مال جمع کرنے کے لالچ کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمت جمع کرنے کا لالچ پیدا کیا جائے۔ ساتھ ہی لوگوں کو ذہن نشین کرایا جائے کہ مال جمع کر کے رکھنے سے ’’سوائے تفکرات اور اندیشوں کے اور کچھ نہیں ملتا‘ تفکرات سے قسم قسم کی بیماریاں جنم لیتی ہے۔
 

تاریخ اشاعت:۔03-01-2010

سورہ الفاتحہ میں تین گروہوں کا بیان ہے۔

سورہ الفاتحہ میں تین گروہوں کا بیان ہے۔ (۱) وہ جو صراط مستقیم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوئے (۲) وہ جو صراط مستقیم سے دور رہ کر غضب الٰہی کا شکار ہوئے۔ (۳) وہ جنہوں نے صراط مستقیم پا کر چھوڑ دیا۔ سورہ البقرہ کے آغاز میں بھی تین گروہوں۔ متقین، کافرین اور منافقین کا بیان ہے۔ متقین وہ ہیں جو ایمان و عمل کی دولت سے بہرہ یاب ہیں یہ لوگ مقصد حیات میں کامیاب ہیں۔ کافرین وہ ہیں جن کے قلوب اور سماعت پر مہر لگ چکی ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے‘ یہ لوگ صراط مستقیم پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان کیلئے عذاب عظیم ہے۔ تیسرا گروہ منافقین کا ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، مگر وہ دل سے ایمان نہیں لائے۔
فرمایا انکے دلوں میں (منافقت) کا مرض ہے اور یہ مرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ کافروں اور منافقوں کا بیان ختم کرنے سے پہلے دو مثالیں دی گئی ہیں۔ آیات ۷۱،۸۱ میں کافروں کے بارے میں مثال ہے۔ ایک شخص نے آگ روشن کی جس سے سارا ماحول چمک اٹھا مگر اللہ تعالیٰ نے کفار کا نور (بصیرت و بصارت) سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا۔ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا گویا وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ ہدایت کی راہ کی طرف واپس نہیں مڑتے۔ (چونکہ بہرے ہیں اسلئے آواز نہیں سنتے) گو نگے ہیں، اسلئے کسی سے پوچھ نہیں سکتے۔ اندھے ہیں خود دیکھ نہیں سکتے۔ اس سے قبل آیہ ۷ میں کافروں کے بارہ میں فرما چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ قلوب سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں۔ کان سنتے نہیں آنکھیں دیکھتی نہیں۔ آیہ ۷ اور آیہ ۸۱ کے مضامین کی مماثلت واضح ہے۔ آیات ۹۱، ۰۲ میں منافقین کے بارے میں مثال ہے۔ آسمان سے موسلا دھار بارش ہو رہی ہے اس میں تاریکیاں بھی ہیں اور (ساتھ) بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک بھی۔ منافقین موت کے ڈر کے مارے پر ہول آوازوں سے بچنے کیلئے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں اور (نہیں سمجھتے کہ) اللہ تعالیٰ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ قریب ہے کہ برق ان کی بینائی اچک لے۔ جب بجلی چمکتی ہے تو اسکی روشنی میں (تھوڑا سا) چلتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے، تو کھڑے ہو جاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انکی شنوائی اور بینائی (بالکل ) سلب کر لے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔ قرآن میں وحی کو کئی جگہ بارش سے تشبیہ دی ہے۔ اس سے قلوب کی کھیتیاں ہری ہوتی ہیں۔ ان میں اعلٰی افکار اور بلند جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ روحانیت کے پھول کھلتے ہیں۔ اخلاق کے پھل پکتے ہیں۔ مگر بارش کیساتھ بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج بھی ہے۔ یعنی اس راہ میں سخت مشکلات بھی ہیں۔ منافقین کو ہر وقت موت کا خوف دامن گیر رہتا ہے۔