اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

تاریخ اشاعت:۔15-03-2010

اصل جرائم

اصل جرائم صرف دو ہیں‘ ایک جہالت اور دوسرا سستی۔ جاہل وہ ہے جو زندگی کے مقصد کو پانے کے طریقہ سے جاہل ہے اور سست وہ ہے جو مقصد حیات اور اسکے حصول کے طریقہ کو جان لینے کے بعد اس کیلئے پوری کوشش نہ کرے۔ قرآن پاک اسی کو ایمان اور اچھے اعمال سے تعبیر کرتا ہے‘ جگہ جگہ ارشاد ہے ’’وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے‘‘۔
جو شخص زندگی کے مقصد سے جاہل ہے‘ جس کا رخ ہی منزل مقصود کی جانب نہیں‘ اس کا ہر عمل غلط ہو گا‘ وہ جتنا زور لگائے گا‘ منزل سے دور ہوتا جائے گا۔ اسکی ساری زندگی مسلسل جرائم کا مرقع ہو گی۔
یہ دنیا عمل کا گھر ہے‘ عمل بدن سے سرانجام پاتا ہے لیکن اس کے پیچھے انسان کا ارادہ ہوتا ہے۔ ارادہ قلب یا ذہن کا کام ہے۔ ارادہ کے پیچھے انسان کی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ سوچ اسی وقت صحیح ہوتی ہے‘ جب انسان کا قلب روح کے نور سے منور ہو۔ روح کی مثال بجلی کے بلب کی سی ہے۔ اگر بلب کا تعلق اللہ تعالیٰ کیساتھ ہے‘ تو بلب میں روشنی ہے‘ اگر نہیں ہے تو بلب فیوز ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق ایمان کے ذریعہ قائم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق جتنا مضبوط ہو گا‘ اسی نسبت سے روح کے بلب کی پاور اور روشنی بڑھتی جائیگی اور روح کا بلب جتنا زیادہ روشن ہو گا‘ا تنا ہی زیادہ وہ قلب کو منور کریگا۔ اس صورت میں قلب نفس یا انسان کی حیوانی جبلتوں لالچ‘ شہوت‘ غصہ‘ انتقام‘ دکھاوا وغیرہ کے تحت آ جائیگا اور یہ اثر قلب کو زنگ آلود اور سخت کر دیگا۔ پھر آہستہ آہستہ قلب صحیح بات سننے اور سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا‘ گویا اس پر تالہ لگ جائیگا۔ اس پر مہر ثبت ہو جائیگی۔ اس میں کچھ داخل نہ ہو سکے گا۔
دوسری طرف بدن اگرچہ خاکی ہے‘ مگر اس کا عمل بھی قلب پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جناب رسول پاک کا ارشاد گرامی ہے کہ ہر نیک عمل سے قلب پر ایک سفید نقطہ پڑ جاتا ہے اور باقاعدگی سے نیک اعمال کرنے والے شخص کا سارا قلب منور ہو جاتا ہے۔ حضورؐ اکرم نے یہ بھی فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے‘ اسکے برعکس برا عمل کرنے سے قلب پر سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے اور مسلسل بداعمالیوں سے سارا قلب سیاہ ہو جاتا ہے۔ قلب سیاہ ہو جائے تو انسان کی سوچ بھی اندھی ہو جاتی ہے‘ پھر وہ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے۔
شیطان کا انسان پر کچھ زور نہیں چلتا‘ وہ اسے اس کی نفسانی خواہشات ہی کے ذریعہ گمراہ کرتا ہے اگر انسان اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پا لے تو وہ شیطان کے اثر سے نکل جاتا ہے مگر اس کیلئے محنت کرنا پڑتی ہے۔
ابلیس اور اسکے چیلے چانٹوں کا طریق واردات یہ ہے کہ وہ انسان کو سبز باغ دکھا کر مایوسی میں مبتلا کر کے گمراہ کرتے ہیں اور اتنی خوبصورتی سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں کہ اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔