اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

تاریخ اشاعت:۔30-03-2010

خوارج

خوارج وہ لوگ تھے، جو سیدنا علیؓ کے تحکیم (ثالثی) پر متفق ہونے کے بعد آپ سے الگ ہو گئے۔ ان کا نعرہ تھا ’’لا حکم الالللہ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حکم نہیں) سیدنا علیؓ نے انکے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے ایک سچے کلمہ کو غلط معانی پہنا دئیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ فرمانروائی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی راعی یا امیر نہیں ہو سکتا۔
خوارج اپنے عقائد میں سنگدلی کی حد تک متشدد تھے۔ بے سوچے سمجھے الفاظ کی پیروی کرتے۔ دین کی روح کو پامال کر دیتے جو مسلمان سیدنا علیؓ یا سیدنا عثمانؓ یا سیدنا طلحہؓ یا سیدنا زبیرؓ کو برا نہ کہتا، اسے بے دریغ قتل کر دیتے مگر عیسائی کو ذمی سمجھ کر اس کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگا دیتے۔
ان کا سب سے بڑا عقیدہ یہ تھا کہ ہر گنہگار کافر ہے۔ اس عقیدہ نے امت مسلمہ کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں آج تک موجود ہیں۔ آج بھی مسلمان ایک دوسرے کو بدعتی اور مشرک کہہ کر انہیں کافر اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔
سیدنا علیؓ نے خارجیوں کے اس عقیدہ کا یوں ابطال فرمایا: ’’تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ جناب رسولؐ پاک نے شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا، پھر اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ قاتل سے قصاص لیا، مگر اس کے اہل کو میراث سے محروم نہ کیا۔ آپؐ نے چور کا ہاتھ کاٹا مگر اسے مال غنیمت سے محروم نہیں کیا (گویا) آپؐ نے گنہگاروں کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا‘‘
’’امام ابو حنیفہؒ لکھتے ہیں۔
’’میرا یہ قول ہے کہ اہل قبلہ سب مومن ہیں، اور وہ فرائض کے ترک سے کافر نہیں ہو جاتے۔ جو شخص ایمان کے تمام فرائض بجا لاتا ہے، وہ مومن اور جنتی ہے‘ جو ایمان اور اعمال دونوں کا تارک ہے، وہ کافر اور دوزخی ہے۔
جو شخص ایمان رکھتا ہے، مگر فرائض اس سے ترک ہو جاتے ہیں وہ مسلمان ضرور ہے لیکن گنہگار مسلمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ اس پر عذاب کرے یا اسے معاف کر دے۔
آخر گنہ گار ہوں، کافر نہیں ہوں میں (غالب)
حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ امیر المومنین کے لقب سے پکارے جاتے تھے، تو کیا اس کے یہ معنی تھے کہ وہ صرف ان لوگوں کے امیر تھے جو فرائض اور اعمال کے پابند تھے۔
حضرت علیؓ نے شام والوں کو جو ان سے لڑتے تھے، مومن کہا۔ کیا قتل سے بڑھ کر کوئی اور گناہ ہے؟ پھر جو لوگ قتل کے مرتکب ہوئے، کیا آپ قاتلین اور مقتولین دونوں کو برسر حق قرار دے سکتے ہیں۔