اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

تاریخ اشاعت:۔09-04-2010

علم و عرفان

حضرت پیر پیراں سید عبدالقادر جیلانیؓ نے فرمایا: ’’جاہلو! عالموں کے پاس بیٹھو۔ علم اللہ والوں کی زبان سے حاصل ہوتا ہے۔ عالموں کے پاس جائو تو حسن ادب سے بیٹھو۔ اہل معرفت کے پاس جائو‘ تو خاموش بیٹھو۔
فیض نظر کیلئے ضبط سخن چاہئے
حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور
زاہدوں کے پاس بیٹھو‘ تو ان کیلئے رغبت لے کر بیٹھو کہ ہم بھی ان جیسے ہو جائیں۔
’’عارف کی کیفیت ہر آن ترقی پذیر ہے وہ ہر لمحہ پہلے لمحہ سے زیادہ حق تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔ اپنے رب کیلئے اس کا خشوع ہر لحظہ بڑھتا ہے وہ حاضر کے سامنے جھکتا ہے‘ غائب کے سامنے نہیں‘ (عارف کے مشاہدہ حق تعالیٰ کی طرف اشارہ ہے)۔ جتنا اس کا قرب بڑھتا ہے‘ اتنا ہی اس کا خشوع بڑھتا ہے۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
جس نے اللہ تعالی کو پہچان لیا‘ اسکے نفس‘ اسکی طبعیت اسکی عادت اور اسکے وجود کی زبان گونگی ہو گئی البتہ اسکے احوال و مقام اور اسے حاصل شدہ عطا و بخشش کی زبان ان نعمتوں کے اظہار اور سپاس شکر کیلئے گویا ہو جاتی ہے۔ پس اسکی محبت میں خاموش بیٹھ تاکہ پاس کے قلب سے چھلکنے والے آب زلال سے اپنی پیاس بجھا سکے‘ جو شخص عارفوں کے پاس بیٹھتا ہے‘ وہ اپنے نفس کی گھاتوں سے باخبر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان نفس ہی حجاب ہے۔ جس شخص نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘ وہ اللہ تعالیٰ کیلئے باادب اور اسکی مخلوق کیلئے متواضع ہوا۔ عارف اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑا ادنیٰ خدمتگار ہے۔ عارف صاحب مقام ہے اور مقام قائم ر ہنے والی شے ہے۔ ’’ قلبدرست ہو جائے‘ تو بندہ مخلوق سے لاتعلق ہو جاتا ہے (یعنی مخلوق کی پسند و ناپسند سے بے نیاز ہو جاتا ہے) وہ مخلوق میں رہتا ہوا بھی خلوت میں ہوتا ہے۔
شمع محفل کی طرح سب سے جدا‘ سب کا رفیق
’’غافل! اپنے عمل میں اخلاص پیدا کر (یعنی عمل کا مقصد صرف حق تعالیٰ کی خوشنودی رکھ) ورنہ تیرا عمل فضول مشقت ہوگا۔ خلوت و جلوت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دھیان رکھ حق تعالیٰ تجھے ہر حالت میں دیکھ رہے ہیں‘ نہ تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے چھپ سکتا ہے نہ انکے احاطہ علم سے باہر ہو سکتا ہے۔
’’جب تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن جائیگا‘ تو مخلوق کے قلوب میں تیری احسان مندی کا احساس اور انکی زبانوں پر اس کا بیان ہوگا اور لوگ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے۔ ’’دنیا کے بندو! میر ے پاس آئو اور مجھ سے وہ چیز سیکھو جس سے تم بے خبر ہو۔