اعوذ             باالله من             الشيطن             الرجيم                بسم الله             الرحمن             الرحيم                الحمد لله              رب             العالمين .             الرحمن             الرحيم . ملك             يوم الدين .             اياك نعبد و             اياك             نستعين .             اهدناالصراط             المستقيم .             صراط الذين             انعمت             عليهم '             غيرالمغضوب             عليهم             ولاالضالين

 

تاریخ اشاعت:۔22-04-2010

غلط استدلال

اسلام نے چونکہ قیامت تک کیلئے رہنا ہے اس لئے یہ بیک وقت قدیم بھی ہے اور جدید بھی اور یہ اس کی یکتا صفت ہے توحید‘ آخرت‘ رسالت اس کے قدیم اور ابدی اصول ہیں ارکان شریعت قدیم بھی ہیں اور ہر دور میں جدید بھی۔ یعنی ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
اسلامی قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جس کام سے منع نہیں کیا گیا۔ اس کی اجازت ہے گویا انسان کیلئے کھلا میدان چھوڑ دیا گیا ہے۔ مثلاً حرام اشیاء گنا دیں‘ باقی حلال ہیں اور حکم دیا ان میں سے طیب کھائو بلکہ قرآن پاک میں یہود کی اس بات پر سرزنش فرمائی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو اپنے اوپر حرام قرار دے لیا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت پیران پیرؒ بار بار ارشاد فرماتے ہیں کہ امور کے بارے میں شریعت خاموش ہے تم بھی انکے بارے میں خاموش رہو اس بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ صرف وہی عمل ممنوع ہے جس سے منع کر دیا گیا ہے۔ آجکل بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ جو سنت نہیں وہ ممنوع ہے۔ یہ سوچ غلط ہی نہیں بلکہ نقصان دہ ہے ایک طرف اس سے اسلام جس میں قرآن پاک کے الفاظ میں تنگی نہیں اور جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کیمطابق آسان ہے اسے وہ خواہ مخواہ تنگ اور مشکل بنایا جارہا ہے دوسرے اس سے باہمی اختلافات میں اضافہ کیا جارہا ہے اور آپس میں تلخی بڑھائی جارہی ہے تیسرے اس سے اہم معاملات سے توجہ ہٹا کر فروعات پر مبذول کرائی جارہی ہے۔ سب سے پہلے فرائض ہیں اسکے بعد سنت اعمال کا درجہ ہے۔ سنت کے بعد مستحب‘ مباح اور مکروہ اعمال کا وسیع میدان ہے۔ پھر کہیں جاکر حرام یا ممنوع ہے۔ حرام صرف وہی ہے جس سے بالصراحت منع کر دیا گیا ہے۔
نماز میں فرائض ہیں پھر سنتیں ہیں۔ فرائض اور سنتیں ضروری ہیں اس کے بعد جو جتنے نفل چاہے پڑھے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم یہ جو اتنے نفل کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پڑھے تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کیا حضور اکرمؐ نے ان سے منع فرمایا ہے؟ اس طرح اگر کوئی کہے کہ تم جو اس وقت اتنے روپے خیرات کر رہے ہو رسول پاکؐ نے اس ماہ کی اس تاریخ اتنے بجے اتنے روپے خیرات کئے تھے؟ اس کا جواب ہو گا ’’کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے؟
سیدنا عمر فاروقؓ اور بعد میں اورنگ زیب عالمگیرؒ بھی پیر اور جمعرات کے نفلی روزے رکھتے تھے ۔ آج کل جملہ مکاتب اسلام جمعہ کے خطبہ میں خلفائے راشدین کے نام پڑھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ایسا نہیں تھا‘ نہ ہو سکتا تھا تو کیا ہم اسے غلط روش قرار دیں؟